جی الحمد للہ نماز کیا تمام عبادات کے ہر ہر مسئلہ کے متعلق قرآن وسنت سے رہنمائی موجود ہے ۔
کیونکہ حضور اس دنیا سے جب تشریف کے گئے ہیں اس وقت دین قرآن وسنت کی صورت میں مکمل ہوچکا تھا ۔
اگر یہ کہا جائے کہ کوئی چیز قرآن وسنت میں موجود نہیں توا سکا مطلب ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا دعوی اتمام دین درست نہیں ـ نعوذ باللہ من ذلک ۔
جو سوال کیا گیا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ذکر و اذکار میں اصل یہ ہے کہ آہستہ آواز میں کیے جائیں ۔ الا کہ کوئی خاص دلیل کسی چیز کو اس قاعدہ و کلیہ سے مستثنی کردے ۔
اس بات کی کیا دلیل ہے کہ اصل یہ ہے کہ ذکر و اذکار آہستہ آواز میں کیے جائیں گے ؟
قرآن مجید کے اندر اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
واذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (الأعراف :205)
اور ڈرتے ہوئے , اپنے دل میں , تضرع کے ساتھ , اونچی آواز نکالے بغیر صبح وشام اپنے رب کا ذکر کر, اور غافلوں میں سے نہ ہو ۔
گویا بحکم قرآن تمام اذکار آہستہ آواز میں ہی کیے جائیں گے ۔ اور مقتدی کا تکبیر آہستہ کہنا بھی اس میں شامل ہے ۔
ہاں وہ جگہیں جہاں قرآن و سنت سے باآواز بلند ذکر کرنا ثابت ہو تو وہ مقامات اس عمومی قاعدہ سے مستثنی سمجھے جائیں گے ۔
امام کا اونچی آواز مین تکبیر کہنا بھی اس میں شامل ہے ۔ جيسا کہ امت کااس بات پر اجماع ہے ۔
اسی سے ملتا جلتا ایک سوال اور اس کا جواب یہاں بھی موجود ہے :
http://www.ahlulhdeeth.com/ur/play-609.html