میرا پہلا نظری تعارف مسجد الحرام میں ہوا تھا کہ رمضان کا آخری عشرہ تھا اور میں عمومی وہی گزارا کرتا تھا شاید 21 واں روزہ تھا کہ لوگوں کو دیکھا کہ اوپر چھت کی طرف جا رہے ہیں بہت سارے لوگ تو میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا اوپر جا کر دیکھا کہ ایک چھوٹے قد کے بابا جی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ارد گرد بے شمار لوگوں کو ہجوم ۔ میں نے ایک سے سعودی سے پوچھا کہ یہ شیخ کون ہیں تو اس نے حیرانی اور تعجب سے دیکھا اور کہا تم انہیں نہیں جانتے تو کسی شیخ کو نہیں جانتے بس وہ پہلا تعارف تھا اور ان کی محبت میرے دل میں گھر کر رہی تھی اور اب تو دن بدن یہ محبت بڑھتی جا رہی ہے کہا جاتا ہے کہ ایمان کی بنیاد پر محبت لیکن عجیب بات ہے مجھے ان سے ان کے علم و عمل اور تقوی کی بنیاد پر محبت ہوئی ، خضر بھائی آپ شیخ کے جس موضوع پر درس سنیں تو آ پ کو محسوس ہو گا کہ بس شیخ رحمہ اللہ اس فن میں امام ہیں جس زمانے میں میں فارغ ہوا تھا اس زمانے میں موبائل فون کا زمانہ نہ تھا اور کمیپوٹر بھی ابھی اپنے ابتدائی دور میں تھا لہذا جب میں پاکستان مستقل واپس آیا تو میرے سامان میں سوائے کتب ار شیخ رحمہ اللہ اور شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ اور شیخ عمر فلاتہ اور شیخ شنقیطی حفظہ اللہ کے دروس پر مشتمل کیسٹس تھی ۔ میری ماں جی نے جب یہ دیکھی تو سر پکڑ لیا کہ پہلے گھر میں دو بھائیوں نے کیسٹوں کا ڈھیر لگا رکھا ہے اوپر سے تم یہ اور لے آئے ہو اور یہ کتابیں گھر میں کتابیں رکھنے کی جگہ نہیں ہے ۔ میں نے انہیں بتایا ماں جی کہ گانوں کی کیسٹیں نہیں ہیں یہ تو اللہ والوں کی باتیں ہیں تو کہنے لگی پھر تو میں بھی سنوں گی لیکن ایک جملہ جو ماں جی کا آج بھی دل و دماغ میں گردش کر رہا ہے کہ (میری ماں جی خالص ایک دیہاتی خاتون تھی صرف پانچ جماعت پڑھی ہوئی تھی لیکن دین کا علم انہوں نے نانا ابو رحمہ اللہ سے حاصل کیا تھا ) کہنے لگی : پتر جی اے انا سارا علم توں چک لیا اے اس تے عمل وی کر لیں گا حساب دینا ہوئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمہا اللہ