• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بیس پیسے کا اسلام

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
السلام علیکم

مضمون نگار نے اپنے اس مضمون پر امام مسجد کو نشانہ پر رکھا، استغفراللہ! اور ایسے بےلگام موضوع فیس بک پر ہی شیئر کئے جاتے ہیں جن کی اپنی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی، اگر کوئی غلطی پکڑی جائے تو نیا اکاؤنٹ بنا لو۔ جو نہیں جانتا اس کے لئے سبق اموز ہی ھے مگر جو جانتا ھے اس کے لئے امام صاحب کا نام استعمال کر کے ۔۔۔۔۔۔۔۔، ایسی بہت سی باتیں ہیں اگر کوئی جاننا چاہے تو آپکی درخواست پر آپکو آگاہ کی جائیں گی ورنہ اسے ایسے ہی چلنے دیں۔

والسلام
وعلیکم السلام
یہاں تہذیب بِکتی ہے
یہاں فرمان بکتے ہیں
زرا تُم دام تو بدلو
یہاں ایمان بکتے ہیں
والسلام
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں ۔پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو۔ اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے۔
نوٹ:
بالا سطور کی صحت کا تو علم نہیں، لیکن ایک فکر موجود ہے، جس وجہ سے شیئر کی گئی ہیں۔
غزنوی صاحب کی طرح مجھے بھی واقعہ کی صحت و ضعف سے کچھ لینا دینا نہیں، سبق اہم ہے جو اس واقعے سے ملتا ہے۔
شاکر بھائی ٢٠ پینس کے لئے امام مسجد کا امان ڈگمگا جائے آپکی نظر میں کوئی اہمیت نہیں، پھر جس امام مسجد کا امان ڈگمگایا اس نے اسے کسی دوسرے کو بھی بیان کیا جس سے اس نے اپنے لئے گواہ بھی پیدا کیا جو یہ واقعہ فیس بک کی زینت بنا۔ آپ اس واقعہ کو سچ ثابت کریں اگر کر سکتے ہیں پھر میں آپکو اس کے جھوٹ ہونے پر ہر قسم کی تسلی کرواؤں گا۔
بعض واقعات بطور حکایت تسلیم کر لینے میں کچھ حرج نہیں۔ اگر ان سے کچھ سبق ملتا ہو تو تشہیر میں بھی کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
السلام علیکم

شاکر بھائی اگر کوئی کنورسیشن اگر راستہ بدل جائے تو اس پر مزید بحث سے بچنا ہی بہتر سمجتا ہوں۔ آپ نے جو ترتیب مجھے دکھانے کے لئے لگائی ھے اس میں کچھ مسنگ ھے جسے میں تشریح سے کوشش کرتا ہوں۔



بیس پیسے کا اسلام


نوٹ:
بالا سطور کی صحت کا تو علم نہیں، لیکن ایک فکر موجود ہے، جس وجہ سے شیئر کی گئی ہیں۔
مضمون نگار نے اپنے اس مضمون پر امام مسجد کو نشانہ پر رکھا، استغفراللہ! اور ایسے بےلگام موضوع فیس بک پر ہی شیئر کئے جاتے ہیں جن کی اپنی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی، اگر کوئی غلطی پکڑی جائے تو نیا اکاؤنٹ بنا لو۔ جو نہیں جانتا اس کے لئے سبق اموز ہی ھے مگر جو جانتا ھے اس کے لئے امام صاحب کا نام استعمال کر کے ۔۔۔۔۔۔۔۔، ایسی بہت سی باتیں ہیں اگر کوئی جاننا چاہے تو آپکی درخواست پر آپکو آگاہ کی جائیں گی ورنہ اسے ایسے ہی چلنے دیں۔
آپ غور فرمائیں جسے آپ نے ہائی لائٹ کیا تھا وہ میری نظر سے اوجھل نہیں تھی اس لئے میں نے انہیں اپنے اس مراسلہ میں کچھ نہیں کہا۔ مضمون نگار غزنوی بھائی نہیں ہیں بلکہ وہ ھے جس سے اس مضمون کو تیار کیا وہ کون ھے کوئی بھی اس کے بارے میں نہیں جانتا۔

امام صاحب کو اس تحریر کے کن الفاظ میں نشانہ تنقید بنایا گیا ہے، کم از کم مجھے سمجھ نہیں آیا۔
امام مسجد کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ اسلام کو بھی۔

امام مسجد کے لئے ٢٠ پیسہ کا اسلام، صرف آپکو سمجھ نہیں آیا؟ ابھی انتظار کریں دیکھتے ہیں اور بھائیوں کو بھی سمجھ آیا کہ نہیں پھر میں کوشش کروں گا آپکو سمجھانے کی۔
اس پر میں نے لکھ دیا تھا کہ مزید رائے کے بعد لکھ دیا جائے گا

کنعان بھائی،
مجھے بھی شامل کر لیجئے۔ سمجھ مجھے بھی نہیں لگی کہ امام صاحب کیسے نشانہ بن رہے ہیں؟ بیس پنس کے لئے دل میں وقتی لالچ آ جانا تو ایسی قابل اعتراض بات نہیں معلوم ہوتی؟
غزنوی صاحب کی طرح مجھے بھی واقعہ کی صحت و ضعف سے کچھ لینا دینا نہیں، سبق اہم ہے جو اس واقعے سے ملتا ہے۔
شاکر بھائی ٢٠ پینس کے لئے امام مسجد کا امان ڈگمگا جائے آپکی نظر میں کوئی اہمیت نہیں، پھر جس امام مسجد کا امان ڈگمگایا اس نے اسے کسی دوسرے کو بھی بیان کیا جس سے اس نے اپنے لئے گواہ بھی پیدا کیا جو یہ واقعہ فیس بک کی زینت بنا۔ آپ اس واقعہ کو سچ ثابت کریں اگر کر سکتے ہیں پھر میں آپکو اس کے جھوٹ ہونے پر ہر قسم کی تسلی کرواؤں گا۔
امام مسجد ہو اور ٢٠ پینس کے لئے لالچ آ جانا آپکی عبارت ریفرنس بن چکی ھے اس لئے لکھنے سے پہلے میری رائے کا انتظار کر لینا چاہئے تھا، مزید آپکے مراسلہ پر میں نے لکھا کہ آپ اگر اسے ثابت کر سکتے ہیں تو۔ جس پر آپ نے اگلے مراسلہ میں بھی جواب نہیں دیا۔

بعض واقعات بطور حکایت تسلیم کر لینے میں کچھ حرج نہیں۔ اگر ان سے کچھ سبق ملتا ہو تو تشہیر میں بھی کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔
میری پوچھی گئی بات کا جواب اگر نہیں تو پھر میرے مراسلہ کو کوٹ کرنے کی کیا ضرورت تھی کوٹ کئے بغیر ہی اپنا نیا جواب دیتے۔ ایک بھائی نے ایک دھاگہ بنا کر لگایا تھا جس پر کچھ سینئر ممبران نے اسے بہت سراہا جیسے اسے سراہا جا رہا ھے اور جب معلوم ہوا کہ وہ کسی قادیانی کی تحریر ھے تو پھر ماحول ہی بدل گیا جس پر مزید کچھ کہنا مناسب نہیں پھر بھی صبر سے کام لینا چاہئے۔

والسلام
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186
بیس پیسے کا اسلام

سالوں پہلے کی بات ہے جب ایک امام مسجد صاحب روزگار کیلئے برطانیہ کے شہر لندن پُہنچے تو روازانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا اُن کا معمول بن گیا۔ لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ یہ امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لےکر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔ امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں ۔پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو۔ اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا ؟ میں چپ ہی رہتا ہوں۔بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛
یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔
ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛ کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟
میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر آپ کو آزمانے کے لیے زیادہ دیئے تھے تاکہ آپ کا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ اور دیانت داری پرکھ سکوں۔ امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترے، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی،
یا اللہ مُجھے معاف کر دینا، میں ابھی اسلام کو بیس پنس میں بیچنے لگا تھا۔
قابل توجہ :

ہم لوگ کبھی اپنے افعال پر لوگوں کے رد فعل کی پرواہ نہیں کرتے , ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ بعض اوقات لوگ صرف زبانی دعوت اور قرآن پڑھ کر اسلام کے بارے میں جاننے کے بجائے ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہیں۔ ہم لوگ اللہ کے پسندید مذہب اسلام کے نمائندے ہیں, ہمیں دوسروں کیلئے ایک اچھی مثال پیش کرنی ہوگی اور اپنے معاملات صاف اور کھرے رکھنے ہوں گے۔۔یہ ہی ذہن میں رکھ کرکہ کہیں کوئی ہمارے رویوں کے تعاقب میں تو نہیں ؟ کوئی ہمارے شخصی تصرف کو سب مسلمانوں کی مثال نہ سمجھ بیٹھے۔یا اسلام کی تصویر ہمارے تصرفات اور رویئے کے مُطابق ذہن میں نہ بٹھا لے!!! اور ہم اسکی دین حق سے دوری کی وجہ بن کر اپنے ساتھ اسے بھی ہمیشہ کی جہنم کا حق دار بنادیں۔

نوٹ:
بالا سطور کی صحت کا تو علم نہیں، لیکن ایک فکر موجود ہے، جس وجہ سے شیئر کی گئی ہیں۔
’’’’ نہ تحریر سے ممکن نہ تقریر سے ممکن ‘‘‘‘
’’’’ جو کام مسلمان کا کردار کرے ‘‘‘‘​
 
Top