• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

افغانستان کی کہانی مفتی اعظم کی زبانی

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
529
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
افغانستان کی کہانی مفتی اعظم کی زبانی

نسوارخان ایک غریب آدمی تھا اور گاوں میں رہتا تھا وہاں محنت مزدوری کر کے اپنا ایک گھر بنایا تھا اور اپنے پڑوسی چوہدری اللہ رکھہ کے کھیتوں میں کام کرکے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔

نسوار خان اسی طرح زندگی گذار رہا تھا کہ ایک دن ایک مسافر آیا جو کسی دور دراز ملک کا رہنے والا تھا اور اس نے نسوار خان سے پناہ مانگی نسوار خان نے اس مسافر کو پناہ دی اور مسافر کو اپنا بھائی قرار دیا۔

کچھ عرصے بعد مسافر کچھ دنوں کےلئے غائب ہوگیا اور جب واپس آیا تو پتہ چلا کہ مسافر نے اپنے دشمن سردار لال خان کے گاوں پر حملہ کر کے ہزاروں لوگوں کو تہ تیغ کر دیا ہے۔

نسوار خان کو جب یہ پتہ چلا تو بہت گبھرایا اور مسافر سے کہا کہ خدا کے بندے یہ آپ نے کیا کر دیا کم از کم مجھے تو مطلع کیا ہوتا۔

کچھ دن بعد مسافر کا دشمن "سردار لال خان " آپہنچا اور نسوار خان سے کہا کہ میں بہت غصے میں ہوں فوری طور پر میری درج ذیل باتیں تسلیم کرو۔

۱ - مسافر کو میرے حوالے کر دو
۲- مجھے لکھ کر دو کہ تمھارا گھر آئندہ میرے یا کسی اور کے خلاف استعمال نہیں ہوگا
۳ - آئندہ میرے کسی دشمن کو پناہ نہیں دو گے۔

نسوار خان نے کہا بات سنو آو آرام سے بات کرتے ہیں جرگہ کرتے ہیں ثبوت پیش کرو ورنہ اس طرح میں مسافر کو حوالے نہیں کرسکتا یہ ہماری روایات کے خلاف ہے۔

یہ سن کر سردار لال خان نے نسوار خان کے گھر پر حملہ کر دیا نسوار خان نے فرار ہوکر چوہدری اللہ رکھہ کے ہاں پناہ لےلی۔

سردار لال خان ۲۰ سال تک نسوار خان کے گھر پر قابض رہا اور نسوار خان چوہدری اللہ رکھہ کے گھر میں رہ رہا تھا۔

۲۰ سال بعد سردار لال خان کا ایک اور دشمن "قریشی" سامنے آیا اور اس نے سردار لال خان کو دن میں تارے دکھا دئے
جہاں جہاں سردار لال خان گیا قریشی نے اس کو چیلنج کیا اور اس کو زمین پر گھسیٹا یہاں تک کے قریشی کے آدمی نسوار خان کے گاوں میں بھی آدھمکے اور سردار لال خان کے خلاف صف آراء ہوگئے۔

اب سردار لال خان قریشی سے بہت گبھرایا اور اس نے نسوار خان سے کہا کہ میں تمھیں تمھارا گھر خالی کر کے واپس دینے پر تیار ہوں لکن مجھے کچھ باتیں لکھ کر دو۔

نسوار خان نے کہا کونسی باتیں تو سردار لال خان نے کہا وہی جو ۲۰ سال پہلے تم نے نہیں مانی تھی وہ بھی ماننی ہوں گی اور مزید کچھ باتیں بھی ماننی پڑیں گی۔

نسوار خان نے کہا بتاو کیا باتیں ماننی ہوں گی؟

لال خان نے کہا لکھ کر دو کہ:

۱- تمھارا گھر آئندہ میرے یا کسی اور کے خلاف استعمال نہیں ہوگا
۲ - آئندہ میرے کسی دشمن کو پناہ نہیں دو گے
۳- میرے دشمن قریشی کے خلاف لڑنا ہوگا اور تمھارے گاوں میں جہاں بھی قریشی کا کوئی بندہ نظر آیا اس کے خلاف اپریشن کرنا ہوگا
۴- ائندہ کسی قسم کی بدمعاشی یا میرے خلاف کسی قسم کی بکواس نہیں کرنی ہوگی اور ادب سے بات کرنی ہوگی۔

نسوار خان اس پر راضی ہوگیا اور یہ تمام باتیں سردار لال خان کو لکھ کر دے دی اور اس پر دستخط کر دئے۔

سردار لال خان نے ۲۰ سال بعد نسوار خان کو اس کا گھر واپس کر دیا اور جاتے ہوئے کہا کہ میں تم پر نظر رکھوں گا

نسوار خان نے جاتے ہوئے سردار لال خان کا دامن پکڑا اور کہا سردار آپ نے ۲۰ سال تک میرے گھر پر قبضہ کیا میں تو دربدر تھا میرا گھر بھی تباہ و برباد ہے کوئی کاروبار بھی نہیں ہے اب میں اور میرے بچے کیا کھائیں گے ؟

سردار لال خان نے کہا میں تمھیں کھانے کے پیکٹ بجھوایا کروں گا اور ہر ہفتے تمھیں ۴۰ سونے کی اشرفیاں بھی دوں گا لکن اس شرط پر کہ قریشی کے آدمیوں کو اپنے گاوں میں سر نہیں اٹھانے دینا اور جی جان سے ان کے خلاف لڑنا ہے ورنہ اشرفیاں نہیں ملیں گی۔

نسوار خان نے کہا جیسے اپ کہو گے ویسا ہوگا میں قریشی کے ادمیوں کے بچوں اور عورتوں کو بھی نہیں بخشوں گا بس اپ میری مدد جاری رکھیں۔

اس کے بعد سردار لال خان واپس چلا گیا اور لال خان کے جانے کے بعد نسوار خان نے گاوں میں شور مچا دیا کہ میں نے لال خان کو شکست دے دی اور اپنا گھر آزاد کروا لیا اور آج کے بعد میں اس دن کو یوم ازادی کے طور پر مناوں گا۔

سردار لال خان نے نسوار خان کو خط لکھا کہ بیغیرت انسان میں نے تمھیں گھر واپس اس لئے کیا کہ تم قریشی کے آدمیوں سے لڑو گے اور تم وہاں کہہ رہے ہو کہ میں نے فتح حاصل کرلی اور سردار لال خان کو شکست دی ؟

نسوار خان نے کہا حضور یہاں لوگوں میں اپنا نام بنانا ضروری ہے اس سے لوگ مجھے ہیرو سمجھیں گے اور قریشی کے بندوں کی بات نہیں سنیں گے مجھے یہ ڈائیلاگ مارنے دیں آپ کا کیا جاتا ہے اپ کو تو میں کام کر کے دے رہا ہوں نا۔

سردار لال خان نے کہا ٹھیک ہے جو کہنا ہے کہتے رہو بس میرا کام ہوتا رہے۔

اس دن کے بعد سے اب نسوار خان سردار لال خان کے جانے کے دن کو یوم آزادی کے طور پر منا رہا ہے اور خود کو فاتح کہتا ہے اور گاوں والوں سے کہتا ہے کہ میں نے سردار لال خان کو شکست دے کر اپنا گھر آزاد کروایا ہے۔

گاوں والے یہ سن کر ایک دوسرے کو دیکھ کر زیر لب مسکرا دیتے ہیں اور اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہتے ہیں " ہاں ہاں نسوار خان تو نے واقعی سردار لال خان کو شکست دے دی اور تو فاتح ہے۔"
 
Top