وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
جس وقت ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہوئیں ،اس وقت اسلام میں نمازہ جنازہ شریعت کا حصہ نہ تھی ،
علامہ البلاذریؒ نے "انساب الاشراف " میں لکھا ہے کہ :
" وَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَبْرِهَا. وَلَمْ يَكُنْ سُنَّتِ الصَّلاةُ عَلَى الْجَنَائِزِ يَوْمَئِذٍ "
یعنی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دفن کے وقت خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبر میں اترے، اور اس وقت تک جنازہ کی نماز شریعت اسلامیہ میں مقرر نہ ہوئی تھی "
دیکھئے انساب الاشراف جلد دوم ،صفحہ 34
https://archive.org/stream/FP32796/02_32797#page/n33/mode/2up
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حافظ ابن حجرؒ "الاصابۃ " میں فرماتے ہیں :
توفيت سنة عشر من البعثة بعد خروج بني هاشم من الشعب، ودفنت بالحجون، ونزل النبي اللَّه صلّى اللَّه عليه وسلّم في حفرتها، ولم تكن شرعت الصلاة على الجنائز.
یعنی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نبوت کے دسویں سال ،بنی ہاشم کے شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعد فوت ہوئیں ،
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبر میں اترے ،اور اس وقت تک جنازہ کی نماز مشروع نہ تھی "
اور سیرت انسائیکلوپیڈیا اردو جلد 3 صفحہ 429 میں بھی یہی بتایا گیاہے :
https://archive.org/stream/SeeratEncyclopediaJilad/Seerat-Encyclopedia-Jilad-3#page/n429/mode/2up