- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,114
- ری ایکشن اسکور
- 4,478
- پوائنٹ
- 376
اولیاء اللہ کی نذر ماننے کا معروف او رمروج غلط طریقہ
غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب اپنی کتاب شرح صحیح مسلم (ج٤ص٥٣٩،٥٤٠) میں لکھتے ہیں کہ علامہ علاو الدین حصکفی لکھتے ہیں :
غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب اپنی کتاب شرح صحیح مسلم (ج٤ص٥٣٩،٥٤٠) میں لکھتے ہیں کہ علامہ علاو الدین حصکفی لکھتے ہیں :
علامہ ابن عابدین حنفی اس عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں:اکثر عوام فوت شدہ لوگوں کی نذر مانتے ہیں اور اولیاء اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ان کے مزارات پر روپے پیسے ،موم بتیاں اور تیل لے جاتے ہیں یہ نذر بالاجماع باطل اور حرام ہے جب تک ان چیزوں کو فقراء پر خرچ کرنے کا قصد نہ کیا جائے (در مختار علی ہامش رد المختار ج٢ ص ١٧٥)
ملا نظام الدین حنفی (مرتب فتاوی عالمگیری )نے ذکر کیا ہے :جو شخص اولیاء اللہ کی نذر اس طرح مانتا ہے :''اے سیدی اگر میرا گم شدہ شخص لوٹ آیا یا میر ابیمار تندرست ہو گیا یا میری حاجت پوری ہو گئی تو میں آپ کو اتنا سونا،چاندی یا کھانا یا موم بتیاں یا تیل دوں گی ،یہ نذر بالاجماع باطل اور حرام ہے ۔(رد المختار ج٢ص١٧٥)
اکثر عوام اس طرح نذر مانتے ہیں کہ وہ اولیاء اللہ کے مزارات پر جاتے ہیں اور ان کے مزار کی چادر اٹھا کر کہتے ہیں :اے سیدی فلاں بزرگ!اگر میری فلاں حاجت پوری ہو گئی تو مثلا آپ کو اتنا سونا دوں گا ''یہ نذر بالاجماع باطل ہے ۔(فتاوی عالمگیری:ج١ص٢١٦)