تین نوجوان
تین نوجوان ملک سے باہر سفر پر جاتے ہیں
اور وہاں ایک ایسی عمارت میں ٹھرتے ہیں جو ۷۵ منزلہ ہے
انکو ۷۵ ویں منزل پر روم ملتا ہے
ان کو عمارت کی انتظامیۃ باخبر کرتے ہویے کہتی ہے
ہمارے یہاں کا نظام آپ کے ملک کے نظام سے تھوڑا مختلف ہے یھاں کے نظام کے مطابق راات کے ۱۰ بجے کے بعد لفٹ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں
لھذا ہر صورت آپ کوشش کیجیے کے دس بجے سے پہلے آپ کی واپسی ممکن ہو
کیونکہ اگر دروازے بند ہوجاییں تو کسی بھی کوشش کے باوجود لفٹ کھلوا نا ممکن نا ہوگا
پہلے دن وہ تینوں سیر و سیاحت کے لیے نکلتے ہیں مگر رات ۱۰ بجے سے پہلے واپس لوٹ آتے ہیں
مگر
دوسرے دن وہ لیٹ ہوجاتے ہیں اور ۱۰:۵ پر عمارت میں داخل ہوتے ہیں اب لفٹ کے دروازے بند ہو چکے تھے
اب ان تینوں کو کویی راہ نظر نا آیی کیسے اپنے کمرے تک پہنچا جایے
جبکہ کمرہ ۷۵ منزل پر ہے
؟؟؟؟؟؟
اب تینون نے فیصلہ کیا کہ سیڑیوں کے علاوہ کویی دوسرا راستہ نہیں ہے
تو
یھاں سے ہی ابتداء کرنی پڑے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان میں سے ایک نے کہا کہ میرے پاس ایک تجویز ہے
انھوں نے پوچھا وہ کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اس نے کہا کے یہ سیڑیاں ایسے چڑتے ہویے ہم سب تھک جاییں گیں
تو ایسا کرتے ہیں کہ
اس طویل راستے میں ہم باری باری ایک دوسرے کو قصے سناتے ہویے چلتے ہیں
۲۵
فلور تک میں کچھ قصے سناوں گا
اس کے بعد باقی ۲۵ فلور دوسرا ساتھی قصے سنایے گا
اور پھر باقی ۲۵ فلور تیسرا ساتھی ۔۔۔۔۔
اس طرح ہمیں تھکاوٹ کا زیادہ احساس نہیں ہوگا اور راستہ بھی کٹ جایے گا
اس پر تینوں متفق ہوگیے
اب
پہلے دوست نے کہا کہ میں تمہیں لطیفہ اور مزاحی قصہ سناتا ہوں جس سے تم سب انجویے کروگے
اب تینوں ہنسی مزاق کرتے ہویے چلتے رہے
جب ۲۵ منزل آگیی تو دوسرے ساتھی نے کہا کہ اب میں تمہیں قصے سناتا ہوں
مگر میرے قصے سنجیدہ اور حقیقت ہونگیں
تینوں اس پر متفق ہو گیے
اب ۲۵ منزل تک وہ سنجیدہ اور حقیقی قصے سنتے ہویے چلتے رہے
اب جب ۵۰ منزل تک پہنجے تو تیسرے ساتھی نے کہا کہ اب میں تم لوگوں کو
کچھ غمگین اور دکھ بھرے قصے سناتا ہوں
جس پر پھر سب متفق ہوگیے
اور
غم بھرے قصے سنتے ہویے باقی منزل بھی طے کرتے رہے
یھاں تک کے تینوں تھک تھک کر جب دروازے تک پہنچے
تو
ایک ساتھی نے کہا
کہ میری زندگی کا سب سے بڑا غم بھرا قصہ یہ ہے کہ ہم
کمرے کی چابی نیچے استقبالیہ پر ہی چھوڑ آیے ہیں
یہ سن کر تینوں پر غشی طاری ہوگیی
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
روکیں
ابھی
میری باات مکمل نہیں ہویی
.
اس قصہ میں آپ کے لیے عبرت ہے
کیسے ؟َ؟؟؟
دیکھیں
ہم لوگ
جو کہ اپنی زندگی کے ۲۵ سال ہنسی مزاق کھیل کود اور لہو لعب میں لگا جاتے ہیں
پھر باقی کے ۲۵ سال
شادی ، بچے رزق کی تلاش ، نوکری جیسی سنجیدہ زندگی میں پھسے رہتے ہیں
اور جب اپنی زندگی کے ۵۰ سال مکمل کر چکے ہوتے ہیں تو
باقی زندگی کے آخری ۲۵ سال
جیسے کے حدیث سے ثابت ہے کہ
(میری امت کی زندگی ۶۰ سے ۷۰ کے درمین رکھی گیی ہے )
بوڑھاپے میں مشاکل ،بیماریوں ہوسپیٹلز کے چکر ِ، بچوں کے غم اور ایسی ہی ہزار مصیبتوں کے ساتھ گزارتے ہیں
یھاں تک کے
جب موت کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو ہمیں یااد آتا ہے
کہ
چابی اصل کنجی تو ہم ساتھ لانا ہی بھول گیے
اس
جنت کی چابی
جس کو ہم اپنی منزل سمجھتے ہویے یہ زندگی گزارتے رہتے ہیں
ختم شد
نوٹ : اس مضمون میں جو حدیث پیش کی گئی ہے اس کا مجھے حوالہ نہیں پتہ اگر کسی کے پاس ہو تو شئیر کریں جزاک اللہ
تین نوجوان ملک سے باہر سفر پر جاتے ہیں
اور وہاں ایک ایسی عمارت میں ٹھرتے ہیں جو ۷۵ منزلہ ہے
انکو ۷۵ ویں منزل پر روم ملتا ہے
ان کو عمارت کی انتظامیۃ باخبر کرتے ہویے کہتی ہے
ہمارے یہاں کا نظام آپ کے ملک کے نظام سے تھوڑا مختلف ہے یھاں کے نظام کے مطابق راات کے ۱۰ بجے کے بعد لفٹ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں
لھذا ہر صورت آپ کوشش کیجیے کے دس بجے سے پہلے آپ کی واپسی ممکن ہو
کیونکہ اگر دروازے بند ہوجاییں تو کسی بھی کوشش کے باوجود لفٹ کھلوا نا ممکن نا ہوگا
پہلے دن وہ تینوں سیر و سیاحت کے لیے نکلتے ہیں مگر رات ۱۰ بجے سے پہلے واپس لوٹ آتے ہیں
مگر
دوسرے دن وہ لیٹ ہوجاتے ہیں اور ۱۰:۵ پر عمارت میں داخل ہوتے ہیں اب لفٹ کے دروازے بند ہو چکے تھے
اب ان تینوں کو کویی راہ نظر نا آیی کیسے اپنے کمرے تک پہنچا جایے
جبکہ کمرہ ۷۵ منزل پر ہے
؟؟؟؟؟؟
اب تینون نے فیصلہ کیا کہ سیڑیوں کے علاوہ کویی دوسرا راستہ نہیں ہے
تو
یھاں سے ہی ابتداء کرنی پڑے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان میں سے ایک نے کہا کہ میرے پاس ایک تجویز ہے
انھوں نے پوچھا وہ کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اس نے کہا کے یہ سیڑیاں ایسے چڑتے ہویے ہم سب تھک جاییں گیں
تو ایسا کرتے ہیں کہ
اس طویل راستے میں ہم باری باری ایک دوسرے کو قصے سناتے ہویے چلتے ہیں
۲۵
فلور تک میں کچھ قصے سناوں گا
اس کے بعد باقی ۲۵ فلور دوسرا ساتھی قصے سنایے گا
اور پھر باقی ۲۵ فلور تیسرا ساتھی ۔۔۔۔۔
اس طرح ہمیں تھکاوٹ کا زیادہ احساس نہیں ہوگا اور راستہ بھی کٹ جایے گا
اس پر تینوں متفق ہوگیے
اب
پہلے دوست نے کہا کہ میں تمہیں لطیفہ اور مزاحی قصہ سناتا ہوں جس سے تم سب انجویے کروگے
اب تینوں ہنسی مزاق کرتے ہویے چلتے رہے
جب ۲۵ منزل آگیی تو دوسرے ساتھی نے کہا کہ اب میں تمہیں قصے سناتا ہوں
مگر میرے قصے سنجیدہ اور حقیقت ہونگیں
تینوں اس پر متفق ہو گیے
اب ۲۵ منزل تک وہ سنجیدہ اور حقیقی قصے سنتے ہویے چلتے رہے
اب جب ۵۰ منزل تک پہنجے تو تیسرے ساتھی نے کہا کہ اب میں تم لوگوں کو
کچھ غمگین اور دکھ بھرے قصے سناتا ہوں
جس پر پھر سب متفق ہوگیے
اور
غم بھرے قصے سنتے ہویے باقی منزل بھی طے کرتے رہے
یھاں تک کے تینوں تھک تھک کر جب دروازے تک پہنچے
تو
ایک ساتھی نے کہا
کہ میری زندگی کا سب سے بڑا غم بھرا قصہ یہ ہے کہ ہم
کمرے کی چابی نیچے استقبالیہ پر ہی چھوڑ آیے ہیں
یہ سن کر تینوں پر غشی طاری ہوگیی
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
روکیں
ابھی
میری باات مکمل نہیں ہویی
.
اس قصہ میں آپ کے لیے عبرت ہے
کیسے ؟َ؟؟؟
دیکھیں
ہم لوگ
جو کہ اپنی زندگی کے ۲۵ سال ہنسی مزاق کھیل کود اور لہو لعب میں لگا جاتے ہیں
پھر باقی کے ۲۵ سال
شادی ، بچے رزق کی تلاش ، نوکری جیسی سنجیدہ زندگی میں پھسے رہتے ہیں
اور جب اپنی زندگی کے ۵۰ سال مکمل کر چکے ہوتے ہیں تو
باقی زندگی کے آخری ۲۵ سال
جیسے کے حدیث سے ثابت ہے کہ
(میری امت کی زندگی ۶۰ سے ۷۰ کے درمین رکھی گیی ہے )
بوڑھاپے میں مشاکل ،بیماریوں ہوسپیٹلز کے چکر ِ، بچوں کے غم اور ایسی ہی ہزار مصیبتوں کے ساتھ گزارتے ہیں
یھاں تک کے
جب موت کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو ہمیں یااد آتا ہے
کہ
چابی اصل کنجی تو ہم ساتھ لانا ہی بھول گیے
اس
جنت کی چابی
جس کو ہم اپنی منزل سمجھتے ہویے یہ زندگی گزارتے رہتے ہیں
ختم شد
نوٹ : اس مضمون میں جو حدیث پیش کی گئی ہے اس کا مجھے حوالہ نہیں پتہ اگر کسی کے پاس ہو تو شئیر کریں جزاک اللہ