• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دورِ حاضر کا سب سے بڑا طاغوت "وطن"

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
529
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
دورِ حاضر کا سب سے بڑا طاغوت "وطن"
بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد لله القوي المتين والصلاة والسلام على مَن بُعث بالسيف رحمةً للعالمين. أما بعد

اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے :

فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
جو کوئی طاغوت کا انکار (کفر بالطاغوت) کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقینا اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جسے کسی صورت ٹوٹنا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
[سورۃ البقرة، آیت : ۲۵۶]

شیخ عبد الرحمن بن حسن آل شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فدلت الآية على أنه لا يكون مستمسكا بلا إله إلا الله إلا إذا كفر بالطاغوت وهي العروة الوثقى التي لا انفصام لها ومن لم يعتقد هذا فليس بمسلم لأنه لم يتمسك بلا إله إلا اله فتدبر واعتقد ما ينجيك من عذاب الله وهو تحقيق معنى لا إله إلا الله نفيا وإثباتا

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک
لا الہ الا للہ کو تھامنے والا شمار نہ ہوگا جب تک وہ طاغوت کا انکار نہ کردے یہی وہ مضبوط کڑا ہے جو ٹوٹتا نہیں جس نے یہ عقیدہ نہیں رکھا تو وہ مسلمان نہیں ہے اس لیے کہ اس نے لا الہ الا اللہ کو اپنایا ہی نہیں لہٰذا ہمیں غور کرنا چاہیے اور وہ عقیدہ اپنانا چاہیے جو ہمیں اﷲکے عذاب سے نجات دلائے یعنی لا الہ الا اللہ کا معنی مکمل طور پر تسلیم کرلے۔

[الدرر السنية في الأجوبة النجدية : ۱۱/۲۶۳]

چنانچہ کفر بالطاغوت کئے بغیر ایمان صحیح (ثابت) نہیں ہوتا نہ ہی کوئی عمل طاغوت کے ساتھ کفر کئے بغیر قبول کیا جاسکتاہے اور نہ ہی کسی کی جان کو طاغوت کے ساتھ کفر کئے بغیر محفوظ قرار دیا جاسکتا ہے۔ طاغوت کے ساتھ کفر کرنے کا مسئلہ معمولی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ ایسا بنیادی اصول ہے جو کہ دیگر تمام اصولوں اور فروعات کی اصل اور بنیاد ہے۔ لہٰذا کوئی بھی شخص اس وقت تک موحد نہیں کہلا سکتا جب تک وہ طاغوت کا انکار نہ کرے اور طاغوت کا انکار تبھی ممکن ہے جب انسان طاغوت کو پہچان لے کہ طاغوت ہے کیا چیز ؟

امام مالک رحمہ اللہ نے طاغوت کی تعریف اس طرح کی ہے :

"الطَّاغُوتُ": هُوَ كُلُّ مَا يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے ۔


[تفسير ابن كثير، ت السلامة، ج : ٢، ص : ٣٣٤]

یہ تعریف جو امام مالک رحمہ اللہ نے کی ہےسب سے عمدہ تعریف ہے کہ اس میں ما سوی اللہ جس چیز کی بھی عبادت کی جائے وہ شامل ہے ہر باطل معبود طاغوت ہے جیسے بت، قبر، مزار، پوجے جانے والے پتھر، درخت، اور وہ احکام جو اللہ کے حکم کے مقابلہ پر بنائے جائیں اور ان کے مطابق لوگ اپنے فیصلے کریں اس طرح وہ قاضی بھی طاغوت ہیں جو اللہ کے احکام کے مخالف احکام کے مطابق فیصلے کرتے ہیں شیطان اور جادوگر، کاہن و نجومی جو غیب کا دعوی کرتے ہیں ، اس طرح جو لوگ خود کو شریعت ساز سمجھتے ہیں حرام و حلال قرار دینے کا خود کو مجاز سمجھتے ہیں سب طاغوت ہیں ، اسی طرح وطن بھی طاغوت ہوتا ہے کیونکہ اللہ کے سوا اس کی عبادت کی جاتی ہے وطن کی طرف نسبت اور وطن کی حدود کی خاطر دوستی یا دشمنی کی جاتی ہے۔ اور اسی بنیاد پر حقوق و واجبات کو تقسیم کیا جا رہا ہےمشلا جو وطن کی طرف منسوب ہو اور وطن کی حدود میں رہ رہا ہو اسے تمام حقوق دیئے جائیں اور اس سے تمام تعلقات قائم کئے جائیں اگرچہ وہ بدترین کافر ہی ہو اور جو وطن کی طرف منسوب نہ ہو اس کا باشندہ یا اس میں سکونت پذیر نہ ہو اسے ان تمام حقوق سے محروم رکھاجائے جو کافر ہم وطنوں کو دیئے جاتے ہیں اگرچہ وہ روئے زمین پر اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور سب سے زیادہ فضیلت والا ہی ہو۔لہذا ان طاغوتوں میں سے اس دور کا سب سے بڑا طاغوت یہ وطن ہے جس کی پرستش کثیر تعداد میں کی جا رہی ہے اس طاغوت وطن سے سب سے زیادہ بڑھ کر محبت کی جا رہی ہے۔ وطن کے لئے جان و مال قربان کیا جا رہا ہے ایک معین دین کی تخصیص کر وطن کی عید منائی جا رہی ہے وطن کا شعار (وطنی پرچم) مقرر کر وطن کے لئے حمد و ثناءکے ساتھ قنوط کیا جا رہا ہے وطنی جھنڈے کو سلامی دی جا رہی ہے اور اس وطن کے لئے ولاء اور براء کیا جا رہا ہے۔ آج وطن پرستی کے شرک میں وہ لوگ بھی مبتلا ہیں جو کہ بت پرستی اور قبر پرستی کا رد کیا کرتے تھے لیکن افسوس انہوں نے بھی اس وطن کو اپنا طاغوت بنا لیا ہے۔

رسالہ "الولاء للإسلام لا للوطن" میں بیان ہوا ہے:

الوطنية شركٌ بالله تعالى: الوطنية دينٌ باطلٌ ومنهجٌ جاهليٌّ يدعو لاتخاذ الوطن وثناً وطاغوتاً يُعبد من دون الله فهي تُلزم الناس بالعمل لها وحدها والتضحية والقتال في سبيلها وصرف البغض والبراء لكل خارج عن حدود أرضها وإن كانوا أولياء لله وصرف الحب والولاء لكل داخل في حدودها وإنْ كانوا من أعظم الناس كفراً وأغلظهم شركاً وهي بهذا تكون نداً معبوداً من دون الله قال تعالى: {وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ} {البقرة: ١٦٥}

"وطن پرستی اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے، وطن پرستی ایک باطل دین ہے اور جہالت بهرا منہج ہے، اس لئے کہ وطن کو ایک ایسا بت اور طاغوت بنا لیا جاتا ہے کہ جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے، پس یہی چیز لوگوں کے لئے اس بات کو ضروری کر دیتی ہے کہ محض اس (وطن) کے لئے ہی کائی عمل کیا جائے، اس کے راستے میں جنگ کی جائے اور قربانیاں دی جائیں، اور جو کوئی بهی اس کی سرحد سے باہر ہے اس کے ساتھ دشمنی لگائی جائے چاہے وہ اللہ کے اولیاء میں سے ہی کیوں نہ ہو، اور جو کوئی بھی اس کی سرحدوں کے اندر رہے اس سے محبت کی جائے اور یاری لگائی جائے چاہے وہ بد ترین کافر و غلیظ ترین مشرک ہی کیوں نہ ہو، اور یہی چیز ہے جس سے یہ ایک بت قرار پا جاتی ہے، فرمان باری تعالی ہے (اور لوگوں میں سے کچه ایسے بهی ہیں اللہ کے علاوہ وہ ایسے بت بنا لیتے ہیں جن سے وہ اللہ سے محبت کی طرح محبت کرتے ہیں)-


[الولاء للإسلام لا للوطن، ص : ٣، مكتبة الهمة ، ربيع الثاني ١٤٣٦ھ]

لہٰذا کفر بالطاغوت کا تقاضہ ہے کہ اس وطن پرستی کو باطل سمجھا جائے اور اس طاغوت وباطل معبود وطن سے نفرت کی جائے ، وطن پرستوں کو مشرک سمجھا جائے اور ان سے دشمنی و نفرت کی جائے ۔

امام محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

فأما صفة الكفر بالطاغوت فأن تعتقد بطلان عبادة غير الله وتتركها وتبغضها وتكفر أهلها وتعاديهم وأما معنى الإيمان بالله فأن تعتقد أن الله هو الإله المعبود وحده دون من سواه وتخلص جميع أنواع العبادة كلها لله وتنفيها عن كل معبود سواه وتحب أهل الإخلاص وتواليهم وتبغض أهل الشرك وتعاديهم ; وهذه ملة إبراهيم التي سفه نفسه من رغب عنها وهذه هي الأسوة التي أخبر الله بها في قوله: {قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَداً حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ} [سورة الممتحنة آية: 4]

کفر بالطاغوت کا مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت کو باطل سمجھا جائے اسے چھوڑ دیا جائے۔ اس سے نفرت کی جائے اس کے ماننے والوں کو کافر سمجھا جائے ان سے دشمنی کی جائے اللہ پر ایمان کا معنی ہے کہ اکیلے اللہ کو معبود ماننا عبادت کی تمام اقسام اس کے لیے خاص کرنا ہر اس معبود سے ان صفات کی نفی کرنا جس کی عبادت اللہ کے سوا کی جاتی ہو۔ اللہ کے خاص بندوں سے محبت اور دوستی کی جائے۔ مشرکین سے نفرت اور دشمنی کی جائے یہی وہ ملتِ ابراہیم ہے جس سے اعراض کرنے والے کو اللہ نے بیوقوف قرار دیا ہے : ’’تمہارے لئے بہترین نمونہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں میں جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم بیزار ہیں تم سے اور جن کی تم اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہو۔ ہم تمہارے (اس عمل کا) انکار کرتے ہیں ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اور نفرت ظاہر ہو چکی ہمیشہ کے لئے جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لے آؤ‘‘۔(الممتحنۃ:۴)

[الدرر السنية في الأجوبة النجدية : ۱/۱۶۱]

آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں ہر قسم کے طاغوت سے اجتناب کرنے اور توحید پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے جو کہ دین کی اصل بنیاد اور تمام انبیاء کی بنیادی دعوت رہی ہے جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے :

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ

ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔ پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا ؟
[سورۃ النحل،آیات: ۳٦]

والحمد اللّٰه رب العالمین وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ أجمعین۔
 
Top