السلام علیکم
بھائی میرے شادی کے حوالہ سے سعودی عرب کی آپ کیا بات کرتے ہیں پاکستان میں کونسی شادی آسانی سے ہوتی ھے حالنکہ وہاں تو سب کی چمڑی ایک جیسی ھے، ہر ملک کے قوانین میں امینڈمنٹ اگر ہوتی ھے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی ٹھوس وجہ ہوتی ھے، برطانیہ میں تقریباً 5 سال پہلے تک شادی پر یہ قانون تھا کہ کوئی بھی اللیگل ایمگرینٹس یہاں کسی بھی نیشنل سے شادی کر سکتا ھے جس پر اسے لیگل سٹیٹس آسانی سے مل جاتا تھا، مگر اب ایسا نہیں، جب شادی رجسٹرڈ کی جاتی ھے تو 3 مہینے کا وقت دیتے ہیں، جس پر ایمگریشن ڈپارٹمنٹس سے اپروول لی جاتی ھے جس پر قانونی سٹیٹس ہونا ضروری ھے۔
=====
غیر ملکی خواتین سے شادی، سعودیوں کے لیے قانون سخت
مکہ مکرمہ ۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ: منگل 5 اگست 2014م
غیر ملکی خواتین سے شادی کے خواہاں سعودی مردوں کے لیے قواعد وضوابط سخت کردیے گئے ہیں اور اب انھیں غیر ملکی خواتین سے شادی کے لیے حکومت سے باضابطہ اجازت لینا ہوگی۔
مکہ پولیس کے ڈائریکٹر میجر جنرل آصف القریشی نے ان نئی قدغنوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اب کسی غیرملکی خاتون سے شادی کے خواہاں سعودی شہری کو سرکاری چینل کے ذریعے حکومت کو درخواست دینا ہوگی۔ایسے درخواست گزاروں کی عمر پچیس سال سے زیادہ ہونی چاہیے۔وہ اپنی درخواست کے ساتھ تمام شناختی دستاویزات منسلک کرنے کے پابند ہوں گے۔یہ دستاویزات مقامی ضلعی مئیر کی دستخط شدہ ہونی چاہئیں۔اس کے علاوہ وہ اپنے خاندان کے کارڈ کی کاپی بھی منسلک کریں گے۔
میاں آصف قریشی نے بتایا ہے کہ ''اگر درخواست گزار پہلے سے شادی شدہ ہوا تو اسے اسپتال سے حاصل کردہ ایک رپورٹ درخواست کے ساتھ لگانا ہوگی کہ اس کی پہلی بیوی معذور ہے یا وہ کسی دائمی مرض میں مبتلا ہے یا بانجھ ہے''۔
انھوں نے وضاحت کی ہے کہ شادی کے خواہاں سعودیوں سے پولیس درخواست وصول کرے گی اور ان کو منظوری کے لیے گورنری کو بھیج دے گی۔ تاہم رنڈوے مرد پہلی بیوی کو طلاق دینے کے چھے ماہ کے بعد نئی شادی کے لیے درخواست دے سکیں گے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ''سعودی مردوں پر پاکستان ،بنگلہ دیش ،چڈ اور میانمر سے تعلق رکھنے والی تارک وطن خواتین سے شادیوں پر پابندی عاید کردی گئی ہے''۔غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت سعودی عرب میں ان چاروں ممالک سے تعلق رکھنے والی قریباً پانچ لاکھ خواتین مقیم ہیں۔
سعودی عرب کے سرکاری ذرائع کے مطابق مراکش نے پہلے ہی مراکشی خواتین سے شادی کے خواہاں سعودی مردوں پر یہ شرط عاید کررکھی ہے کہ وہ بے داغ ہوں اور کسی بھی قسم کے مجرمانہ ریکارڈ کے حامل نہ ہوں۔اگر وہ پہلے سے شادی شدہ ہوں تو اپنی پہلی بیوی سے تحریری رضامندی بھی پیش کرنے پابند ہوں گے۔
سعودی مردوں کی غیرملکی خواتین سے شادی سے متعلق یہ رپورٹ روزنامہ مکہ میں شائع ہوئی ہے لیکن اس میں اس امر کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ مذکورہ چاروں ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین سے سعودی مردوں کی شادیوں پر پابندی کیوں عاید کی گئی ہے اور آیا اس پابندی کا اطلاق صرف سعودی عرب میں تارک وطن کے طور پر مقیم خواتین پر ہی ہوگا یا ان ممالک میں رہنے والی دوسری خواتین بھی اس کی زد میں آئیں گی۔
نیز اسلام کی رو سے مرد کو دوسری شادی کے لیے اپنی پہلی بیوی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس پر ایسی کوئی پابندی عاید کی گئی ہے کہ وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بعد چھے ماہ تک رنڈوا ہی بیٹھا رہے اور دوسری شادی نہ کرے۔
حال ہی میں بعض میڈیا رپورٹس میں بیرون ملک مقیم سعودی خاندانوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے والی سوسائٹی کے چئیرمین توفیق السویلم کے حوالے سے کہا گیا ہے
کہ بیش قیمت جہیز کو کم کر کے شادیوں کو آسان بنایا جانا چاہیے۔
=====
خبر میں جہیز لکھا ھے مگر یہ لڑکے کی طرف سے حق مہر ھے۔ یہاں بھی غیر ملکی سے شادی پر ممانعت کی وجہ حق مہر ھے جو ایک بہت بھاری رقم میں شادی سے پہلے ادا کرنا ہوتا ھے، پھر شادی پر ایک الگ گھر بھی، پاکستان میں کس بھی ملازمت پیشہ کے لئے شادی پر الگ گھر کا تصور کہاں ھے، باپ دادوں کے گھر میں سٹوریاں بنا کر ہی گزارا کیا جاتا ھے۔
والسلام