*ستارہ جو ٹوٹ گیا: استاد محترم شیخ علی حسین سلفی کا انتقال پر ملال.*
بقلم:مامون رشید ہارون رشید سلفی .
مجھے سیر و سوانح نگاری کا تجربہ تو نہیں ہے مگر دل رنجور کے ہاتھوں مجبور جذبات سے لبریز اپنے قلم کو روک نہ سکا اور یہ چند سطور آپ قارئین کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہوا کیونکہ آج 23 جولائی 2020 کو 2:30 کو جب استاذ الاساتذہ مفتی جامعہ سلفیہ بنارس شیخ علی حسین صاحب سلفی رحمہ اللہ کی وفات کی خبر کانوں سے ٹکرائی تو ایسا لگا جیسے غم و اندوہ کا پہاڑ سر پر ٹوٹ پڑا ہو مصائب و آلام کا بادل آسمان سے چھوٹ پڑا ہو اور دنیا تاریک ہو گئی ہو اللہ شاہد ہے یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کیونکہ اس دنیا میں اچھے اور مخلص اساتذہ کا ملنا بہت نادر امر ہے مگر جب کسی کو ایسے مخلص اساتذہ ملیں اور پھر وہ ان سے جدا ہو جائیں تو اس درد والم کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس طرح کی تکلیف سے دو چار ہوا ہے....
موت ایک اٹل اور کڑوی حقیقت ہے، ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے، جو بھی اس ارض زوال پذیر میں قدم رنجہ ہوا ہے اسے ایک دن یہاں سے کوچ بھی کرنا ہے، چاہے دنیا میں اس کی ضرورت شدید سے شدید اور اس کے چاہنے والے لا محدود ہی کیوں نہ ہوں مگر کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی موت ایک امت کی موت تصور کی جاتی ہے اور جن کی کمی ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد بھی مل کر پوری نہیں کر سکتے...
ان یگانہ روزگار شخصیات میں سے ایک ہمارے استاذ عالی مقام مفتی جامعہ سلفیہ شیخ علی حسین صاحب کی ذات گرامی ہے.آپ رحمہ کی ولادت 23 جنوری 1952 عیسوی کو جھاڑ کھنڈ پاکوڑ کے گاؤں بڑا سرشاہ میں ہوئی ..
آپ رحمہ اللہ نے اپنی ابتدائی تعلیم 9 سال کی عمر میں دار العلوم سلفیہ بیر بھوم میں شروع کی اور وہیں مولوی تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عالمیت و فضیلت کی تعلیم تبلیغی مرکز کے مدرسہ کاشف العلوم میں حاصل کی مزید اکتساب فیض کے لیے سلفیت کے حصن حصین مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ بنارس کی طرف رخت سفر باندھا اور وہاں کے اکابر علمائے اسلام سے کسب ضوء کرتے ہوئے سنہ 1981 میں فضیلت کی سند سے سرفراز ہوئے...
آپ کے مشہور اساتذہ میں مولانا اظہار الحسن کاندھلوی، مولانا عبید اللہ بلیاوی، مفتی جامعہ سلفیہ مولانا شمس الحق سلفی، مولانا ادریس آزاد رحمانی، مولانا عبد الوحید رحمانی، مولانا عابد حسن رحمانی، مولانا، صفی الرحمن مبارک پوری، مولانا عبد السلام مدنی وغیرہم کے اسما قابل ذکر ہیں.
آپ رحمہ اللہ فراغت کے بعد 1981 عیسوی سے ہی جامعہ سلفیہ کی لائبریری میں رہتے تھے منتظیمن جامعہ نے آپ کی صلاحیت وصالحیت کو دیکھتے ہوئے 1985ء میں تدریسی خدمات انجام دینے کی پیشکش کی آپ نے اس پر لبیک کہا اور تب سے آج تک جامعہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے آپ کے زیر تدریس عموما بخاری جلد ثانی فتح القدیر اور فتح المغیث وغیرہا کتابیں رہیں...
اپ انتہائی نیک،ملنسار، متواضع، علم دوست، علم حدیث وفقہ میں مہارت رکھنے والے خوش گفتار وصاف کردار شریف النفس انسان تھے علوم عقلیہ بالخصوص علم نحو میں ید طولیٰ رکھتے تھے بارہا ایسا ہوتا تھا کہ عبارت خوانی میں طلبہ سے کسی قسم کی کوئی غلطی ہو جاتی تھی اور آپ اس کی تصحیح اور اس کے سلسلے میں معلومات فراہم کرنے میں پوری پوری گھنٹی ختم کر دیتے تھے آپ ہمیشہ ہم طلبہ کو "مغنی اللبیب" نامی نحو کی عظیم کتاب کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے اور یہ افسوس ظاہر کرتے تھے کہ بالعموم طلبہ جامعہ اس فن میں کمزور ہیں...
شیخ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک مدنی صاحب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد جامعہ تشریف لائے موصوف کو اپنی عربی دانی اور قواعد نحو میں دسترس رکھنے کا بڑا گمان تھا جب انہوں نے شیخ کو لائبریری میں دیکھا تو آپ پر اپنا دھونس جمانے لگے اور کسی نحوی مسئلے میں آپ سے الجھ بیٹھے شیخ نے انہیں حقیقی علم سے آگاہ کیا تو وہ دعوے پر دعوے کرنے لگے تب آپ نے شرح ملا جامی کھول کر اپنی بات کی دلیل فراہم کیا پھر کیا تھا موصوف پسپا ہو گئے...
شیخ کے تواضع کا ثبوت اس چیز سے بھی ملتا ہے کہ آپ سے جب کسی مسئلے کے بارے میں سوال کیا جاتا تو اس کو سننے کے لیے طلبہ کی طرف جھک کر سائل کے منھ کے پاس اپنا کان لے جاتے اور سوال سننے کے بعد تشفی بخش جواب دے کر سائل کی علمی پیاس بجھاتے ...
شیخ ہمیشہ معمولی قسم کا سادہ لباس زیب تن کرتے تھے ہمارے ایک ساتھی نے ذکر کیا کہ جب وہ پہلی مرتبہ جامعہ پہنچے تو شیخ کو اول وہلہ میں دیکھ کر ایسا محسوس کیا کہ آپ جامعہ کا کوئی ملازم ہیں....
شیخ خیر کے کاموں میں ہمیشہ آگے رہتے تھے جامعہ میں ابھی "الجمعیۃ الخیریۃ" کے نام سے بالخصوص بہار وجھارکھنڈ، بنگال وآسام اور بالعموم کل ہند کے طلبہ کی جو تعاونی تنظیم ہے جس کے تحت جامعہ میں پڑھنے والے غریب قسم کے طلبہ کی مدد رسانی کا کام کیا جاتا ہے یہ تنظیم بھی آپ ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے... اس تنظیم کی زیر سرپرستی منعقد ہونے والے سالانہ پروگراموں میں آپ بالاہتمام شرکت فرماتے اور طلبہ کو مالی وفکری ہر طرح کے تعاون سے نوازتے...
مطلالعہ میں اس قدر انہماک تھا کہ گرد وپیش کے ماحول سے منقطع ہو کر لائبریری میں مکمل یکسوئی کے ساتھ مختلف کتب کی ورق گردانی میں مصروف رہتے اذان ہو جاتی لائبریری بند ہونے کا وقت ہو جاتا سارے طلبہ چلے جاتے لائٹیں آف دی جاتیں پھر بھی آپ کو احساس تک نہیں ہوتا اور آپ بدستور مطالعہ کتب میں مصروف رہتے... بارہا ہم نے دیکھا ہے کہ ناشتے کے وقت جب سارے اساتذہ ناشتہ کرنے جاتے تو آپ اس وقت بھی دار الافتا میں بیٹھ کر مطالعہ میں مصروف رہتے...رات کا بھی یہی معمول ہوتا تھا دار الافتا یا اس سے متصل کمرے میں بیٹھ بیٹھ کر اکیلے ہی رات دو بجے تین بجے تک مطالعہ کرتے رہتے کبھی کبھار ان کے صاحبزادے آکر دار الاقامہ لے جاتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہیں فرش پر لیٹے ہوئے فجر کی اذان ہو جاتی اور پھر نماز ادا کرنے کے بعد ہی دار الاقامۃ تشریف لے جاتے....
آپ کے صاحبزادے عبد الحلیم صاحب نے ایک مرتبہ اپنے والد کے سلسلے میں دیر رات تک گفتگو کرتے ہوئے ہم لوگوں سے کہا تھا کہ آپ دار الاقامۃ میں بھی اسی طرح مطالعہ میں مصروف رہتے تھے لیکن میں لائٹ آف کر کے ان سے کتاب لے لیتا اور سونے کی گزارش کرتا مگر آپ کہتے کہ نہیں تھوڑا رکو یہ مبحث ختم ہو جانے دو یہ مسئلہ ختم ہو جانے دو...مطلب یہ ہے کہ اگر ایسا کہیں کہ آپ کی مکمل زندگی ہی مطالعے میں گزری تو مبالغہ نہ ہوگا....
میں نے شیخ سے آپ کی تصانیف کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے متعدد کتابوں کا ذکر کیا جن میں تحقیق وتعلیق علی فتح المغیث، الربا وحرمتہ ، ترجمۃ النواب صدیق حسن خاں، رسالہ رفع الیدین، رسالہ آمین بالجہر، رسالہ نماز جنازہ کے اسما بروقت میرے ذہن میں موجود ہیں اس وقت ان چیزوں کو میں نے نوٹ کر لیا تھا مگر بد قسمتی سے وہ کاپی جامعہ میں رہ گئی...اس سلسلے میں بات کرتے دوران جب فتح المغیث کی تحقیق کا ذکر آیا تو میں نے کہا شیخ آپ کی اس تحقیق کو علمائے عرب نے بہت سراہا ہے شیخ عبد العزیز بن ابراہیم بن قاسم نے اپنی کتاب "الدلیل الی المتون العلمیۃ"صفحہ 241) کے اندر آپ کی تحقیق کو سب سے بہترین تحقیق قرار دیا ہے، اسی طرح موقع الدرر السنیہ کے رئیس عام شیخ علوی بن عبد القادر السقاف نے بھی آپ کی تحقیق کو سب سے معیاری تحقيق قرار دیا ہے تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ دیکھئے اللہ کو ایک نیک کام کروانا تھا سو میرے ذریعے اس کو انجام دیا اب تو کچھ نہیں کر پا رہا ہوں بخاری ہدایہ اور فتح القدیر جیسی کتابوں کی تدریس میرے سپرد کر دی گئی ہے اس وجہ سے تصنیف و تالیف کی طرف توجہ ہی نہیں دے پاتا ہوں اوپر سے افتا کی ذمہ داری بھی میرے ہی سر ہے....
شیخ رحمہ اللہ کم گو انسان تھے مگر پھر بھی ہر ایک سے آپ کے مراسم خوش گوار تھے .... جامعہ سلفیہ میں مختلف اقسام کی فقہ رائج ہے مبارکپوری فقہ، البانی فقہ، سعودی نجدی جدید حنبلی فقہ اور قدیم اہل حدیث نذیر حسین محدث دہلوی وشمس الحق عظیم آبادی فقہ جس کے علم بردار شیخ رحمہ اللہ تھے اور بسا اوقات اساتذہ کی اپنی اپنی تحقیقات کی بنا پر اختلاف رائے پیدا ہونے کی وجہ سے جو اپسی تنازع پیدا ہو جاتا تھا اس میں آپ کبھی حصہ نہیں لیتے تھے... نہ آپ کلاس میں کسی استاد کے بارے میں کبھی کچھ کہتے تھے بلکہ ہمیشہ کتاب کا حق ادا کرنے اور طلبہ کو مطمئن کرنے میں لگے رہتے تھے...
قارئین علم وہنر کا یہ روشن سورج غروب ہو گیا مگر تلامذہ وکتب کی شکل میں آپ کے آثار اب بھی باقی ہیں اور تا دیر باقی رہیں گے شیخ کے بارے میں باتیں بہت پہلو دار ہیں کیونکہ آپ کی شخصیت ہی تہ دار اور گوں ناگوں اوصاف کا حامل ہے جس کے لیے مستقل تصانیف کی ضرورت ہے جس کی ذمہ داری آپ کے شاگران ضرور پوری کریں گے مگر اس جلد بازی میں میں انہیں باتوں پر اکتفا کرتا ہوں ...
اخیر میں دعا ہے کہ اللہ شیخ محترم کو جنۃ الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین.
.