• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ظلم کا انجام

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
ظلم کا انجام
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ - رضى الله عنهما - عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ » [متفق علیه]
’’ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ظلم، قیامت کے دن کئی اندھیرے ہو گا۔‘‘
تشریح:
1۔ اکثر اہل لغت اور علماء کے نزدیک ظلم کا معنی ہے کسی چیز کو اس کی اصل جگہ کے علاوہ رکھنا، مثلا کسی کا حق دوسرے کو دے دینا، علاوہ ازیں حق بات جو دائرے کے مرکزی نقطے کی طرح صرف اور صرف ایک ہوتی ہے، اس سے تجاوز کو بھی ظلم کہا جاتا ہے۔ خواہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ، اس لیے بڑا گناہ ہو یا چھوٹا سب پر ظلم کا لفظ بولا جاتا ہے، دیکھیئے آدم علیہ السلام سے خطا ہوئی تو انہیں ظالم کہا گیا او رابلیس کو بھی ظالم کہا گیا، حالانکہ دونوں میں بے حد فرق ہے۔ (مفردات راغب)
2۔ ظلم کی تین قسمیں ہیں:
الف: اللہ تعالی کے متعلق ظلم:
اس کی سب سے بڑی قسمیں کفر، شرک او نفاق ہے کیونکہ مشرک اللہ کا حق مخلوق کو دیتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴾ [لقمان: 31/13]
’’ یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ﴾ [هود:11/ 18]
’’ اور گواہ کہیں گے یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا خبر دار! اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر۔‘‘
ب: لوگوں پر ظلم:
ان آیات میں یہی مراد ہے:
﴿وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا﴾ [الشوری: 42/ 40]
’’برائی کا بدلہ برائی ہے اس جیسی۔‘‘
اور فرمایا:
﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ﴾ [42/ 40]
’’ یقینا وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘
﴿إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ﴾ [الشوری:42/ 42]
’’صرف ان لوگوں پر گرفت ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔‘‘
ج: اپنی جان پر ظلم :
ان آیات میں یہی مراد ہے:
﴿فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ﴾ [الفاطر: 35/ 32]
’’ پھر ان میں بض اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ظَلَمْتُ نَفْسِي﴾ [القصص: 28/ 16]
’’ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ﴾ [البقرة: 2/ 35]
’’ پس تم دونوں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔‘‘
ان تینوں قسموں میں سے درحقیقت انسان اپنے آپ پر ہی ظلم کرتا ہے کیونکہ ان سب کا وبال اس کی جان پر ہی پڑنے والا ہے ، اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ﴾
[الأعراف: 7/ 160]
’’ اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے آپ پر ہی ظلم کیا کرتے تھے۔‘‘
3۔ ظلم قیامت کے دن کئی اندھیرے ہو گا، اندھیروں میں سے مراد یا تو حقیقی اندھیرے ہیں یعنی ظالم کو قیامت کے دن روشنی نصیب نہیں ہو گی، جس سے وہ صحیح راستہ معلوم کر سکے جبکہ اہل ایمان کا حال یہ ہو گا:
﴿نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ﴾ [التحریم: 66/8 ]
’’ ان کا نور ان کےآگے اور ان کے دائیں طرف دور رہا ہو گا۔‘‘
یا قیامت کے دن کی سختیاں مراد ہیں جیسا کہ
﴿قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ [الأنعام: 6/ 63]
’’ کہہ دیجئے! جو تمہیں خشکی اور سمندروں کے اندھیروں سے نجات دیتا ہے۔‘‘
اس آیت میں مذکورہ ظلمات کی تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سے مراد سختیاں ہیں یا قیامت کے دن ظلم کی جو سزائیں ملیں وہ مراد ہیں۔ (سبل)
4۔ ظلم قیامت کے دن کئی اندھیرے ہو گا، کیونکہ وہ کفر و شرک کی صورت یمں ہے تو اس کے مرتکب پر جنت حرام ہے:
﴿إِنَّهُ ُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ﴾ [المائدة: 5/ 72]
’’پکی بات یہ ہے کہ جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے گا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانا آگ ہے۔‘‘
 
Top