السلام علیکم ورحمۃ اللہ ؛
محترم بھائی !
فوت ہوجانے والے بچے کا عقیقہ بھی کرنا چاہیئے ؛
درج ذیل فتوی میں اس کے متعلق بتایا گیا ہے :
وذهب الشافعية والحنابلة إلى أنَّه يُعقُّ عنه، وهو الراجح؛ واستدلُّوا بحديث سَمُرة رضي الله عنه عن النبي صلَّى الله عليه وسلَّم أنَّه قال: "كلُّ غلام مُرْتَهِن بعقيقته، تُذبَح عنه يومَ سابعه، ويُحْلَق رأسُه، ويُسمَّى" (رواه أحمد والأربعة، وصحَّحه الترمذي، قال أحمد: إسناده جيد كما في المغني).
یعنی شافعیہ اور حنابلہ کا کہنا ہے کہ فوت ہوجانے والے بچے کی طرف سے عقیقہ کیا جائے۔ اور انہوں اسکی دلیل یہ دی ہے کہ جابر بن سمرہ کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :ہر بچہ عقیقہ کے بدلے رہن ہے ،تو ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے،۔ اور اس کا سر مونڈا جائے ،اور اس کا نام رکھا جائے۔
(اس حدیث میں لفظ گروی ہے کا معنی ہے کہ وہ والدین کیلئے روز محشر شفیع نہیں بن سکتا جب تک اس کا عقیقہ کرکے اس کو رہن سے چھڑایا نہ جائے ۔)
قال النوويُّ في "المجموع": "لو مات المولود بعدَ اليوم السابع بعدَ التمكُّن من الذَّبْح، فوجهان حكاهما الرافعي، أصحُّهما: يُستحبُّ أن يعقَّ عنه، والثاني: يسقط بالموت".
علامہ نووی فرماتے ہیں :کہ بچہ اگر ساتویں دن کے بعد فوت ہو تو دو قول ہیں ایک یہ کہ اس کا عقیقہ مستحب ہے ،اور دوسرا قول یہ کہ اس کی طرف سے عقیقہ ساقط ہے ‘‘
وقال الشيخ العثيمين في "سلسلة لقاءات الباب المفتوح": "إذا تُوفي الطفل ساعة ولادته، فإنه يعق عنه في اليوم السابع؛ وذلك لأن الطفل إذا نفخت فيه الروح، فإنه يبعث يوم القيامة، ومن فوائد العقيقة أن الطفل يشفع لوالديه، وقال بعض العلماء: إذا مات قبل اليوم السابع سقطت العقيقة؛ لأن العقيقة إنما تسن يوم السابع لمن كان حياً، وأما إن مات قبل السابع، فإنها تسقط؛ فمن كان قد أغناه الله وتيسرت له، فالأفضل أن يذبحها، ومن لم يكن كذلك فلا داعي له".
علامہ ابن عثیمین فرماتے ہیں: اگربچہ ولادت کے وقت بھی فوت ہو جائے تو ساتویں روز اس کا عقیقہ کیا جائے ،کیونکہ جب اس میں روح ڈال دی گئی تھی تو وہ حشر کے روز زندہ ہوگا ،اور اس کے عقیقہ کا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح وہ والدین کی شفاعت کرے گا ،
لیکن کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اگر ساتویں دن سے قبل فوت ہو تو اس کا عقیقہ ساقط ہو جاتا ہے ،کیونکہ عقیقہ اس کی طرف سے مسنون ہے جو ساتویں دن تک زندہ ہو،
لیکن اگر کسی کو عقیقہ کی طاقت ہو تو افضل یہی ہے کہ اس بچہ کا عقیقہ کیا جائے ۔
درجذیل فتوی میں بھی اسی طرح کی بات ہے
وسُئلت اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء: حصلت العقيقة بعد وفاة الطفلة، وكان عمرها وقت الوفاة سنة ونصف، هل أدى العقيقة على طبيعتها أم لا؟ وهل هذه الطفلة تنفع والديها في الآخرة؟
فأجابت: "نعم تجزئ، ولكن تأخيرها عن اليوم السابع من الولادة خلاف السنة، وكل طفل أو طفلة مات صغيرًا، ينفع الله به من صبر من والديه المؤمنين".
لنک فتوی