• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:38)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل (( سخاوت وکرم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد)) (حصہ:5،نبوی جود وسخاوت اور زندگی بھر کی کمائی)

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

جود وسخاوت ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ:5،نبوی جود وسخاوت اور زندگی بھر کی کمائی)

♻رسول اللہ ﷺ نے زندگی بھر جو بھی کمایا خرچ کردیا، کسی نے کوئی چیز ہبہ کی تو بانٹ دی۔ متعدد غزوات و سرایا میں کثیر مال غنیمت حاصل ہوا۔ اس میں سے خمس پانچواں حصہ خاص آپ کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ آپ خمس سمیت سب کچھ خرچ فرما دیا کرتے۔ مرض الوفات میں اشد ضرورت کے باوجود اپنے پاس موجود رقم خرچ کردی۔

♻ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرضِ وفات میں مجھ سے پوچھا: ''اے عائشہ! سونے کا کیا کیا؟'' آپ کے استفسار پر میں نے گھر میں موجود سونے کے پانچ یا سات سکے آپ کی خدمت میں حاضر کر دیے۔ آپ وہ سکے اپنے ہاتھ میں اچھالتے ہوئے فرمانے لگے:(( مَا ظَنُّ مُحَمَّدٍ بِاللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ لَو لَقِیَہ، وَھٰذِہٖ عِنْدَہ،، أَنْفِقِیْھَا ))(أحمد بن حنبل، المسند:٢٤٢٢٢) ''محمد(ﷺ) کا اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیا گمان ہو گا کہ وہ ﷲ سے ملے اور یہ سونا اُس کے پاس ہو! انھیں خرچ کر ڈالو۔''

♻ علامہ سندی اس حدیث کی وضاحت میں لکھتے ہیں: ﷲ تعالیٰ سے حسن ظن اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان اپنے پاس کل کے لیے کچھ بچا کر نہ رکھے،(أحمد بن حنبل، المسند:٢٤٢٢٢ حاشیہ) کیا ہی کمال درجے کا ایمان ویقین ہے ، انسان صاحب حیثیت ہونے کے باوجود کل کے لیے اپنے پاس بچا کر نہ رکھے ، بلکہ سب کچھ رضائے الٰہی کی خاطر خرچ کر دے ،

♻ ام المومنین سیدہ سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بطور وراثت کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ نہ درہم و دینار، نہ اونٹ بکری اور نہ کسی کے بارے میں کچھ وصیت کی تھی ، بلکہ آپ نے یہاں تک سخاوت و کرم کا بے مثل نمونہ پیش کیا کہ عام استعمال کی چیزیں جو چھوڑیں وہ بھی ﷲ کے راستے میں خرچ کر ڈالیں اور فرمایا:(( لَانُورَ ُث، مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ )) (صحیح البخاری:٣٠٩٣و صحیح مسلم:١٦٣٥، ١٧٥٧) ''ہمارا (انبیاء کا) ترکہ وراثت قرار نہیں پاتا بلکہ ہمارا تمام ترکہ صدقہ ہوتا ہے۔''

♻ نبی کریم ﷺ نے مال سے بے رغبتی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: (( مَا یَسُرُّ نِی أَنَّ لِیْ أُحُدًا ذَھَبًا، تَأْتِیْ عَلَیَّ ثَـالِثَۃٌ وَ عِنْدِیْ مِنْہُ دِیْنَارٌ، إِلَّا دِیْنَارٌ أَرْصُدُہُ لِدَیْنٍ عَلَیَّ ))(صحیح البخاری:٦٢٦٨و صحیح مسلم:٩٩١) ''مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ میرے لیے اُحد پہاڑ سونے کا بن جائے اور تین دن کے بعد میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی ہو سوائے ایک دینار کے جو اپنے اوپر قرض کی ادائیگی کے لیے رکھ چھوڑا ہو ۔''

♻ انسان کا جس قدر ذات الٰہی اور روز آخرت پر ایمان مضبوط ہوتا ہے ، وہ اسی قدر بااخلاق ، حسن کردار ، اعلیٰ صفات و عادات کا مالک ہوتا ہے ، رسول مقبول ﷺ ایمان وتقوی میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے ، اسی لیے عبادت وریاضت ، للہیت وخشیت الٰہی ، زہد و قناعت اور جود وسخاوت میں آپ یگانہ مقام پر فائز تھے ، آپ تو دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے دنیا میں مسکین کی حالت میں زندہ رکھنا ، حالت مسکینی میں اپنے پاس بلانا اور روز قیامت مساکین میں شامل فرمانا ،(سنن الترمذی:2352)

♻ پیغمبر جود وسخا کی امت آج اسوہ نبوی کو پس پشت ڈال رہی ہے ، تمام شعبہ ہائے زندگی میں ان کا تعلق نبوی تعلیمات سے کمزور سے کمزور ہوتا جا رہا ہے ، اخلاق و کردار ، عمدہ عادات و اطوار ، عفت و پاکدامنی ، زہد و قناعت اور جود وسخاوت میں امت محمدیہ کی حالت قابلِ رحم ہوتی جارہی ہے ، نفلی صدقات و عطیات تو کیا مسلمان فرضی زکات کو بھی بوجھ سمجھتے ہیں ، بلکہ اکثر مسلمان اس عظیم مالی فریضہ کو ادا ہی نہیں کرتے ، جو ادا کرتے ہیں وہ بھی اس حوالے سے کئی طرح کی کتاہیوں کا شکار ہیں ، جود وسخاوت میں نبوی اسوہ کی اتباع تو بہت دُور کی بات ہے ،

♻ مذہب بیزار جدید تہذیب والحاد نے ترقی وآزادی ، جدت پسندی اور روشن خیالی کے نام پر انسانوں کو خیالی روشنی کی دلدل میں دھکیلا ، جہاں چند ایام کی چکا چوند زندگی کے بعد ہمیشہ کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ہی اندھیرے ہیں ، شتر بے مہاری اور مادر پدر آزادی نے انسانوں سے انسانیت ہی نہیں چھینی، بلکہ انہیں حیوانوں سے بھی بدتر بنا دیا، ہر انسان دوسرے کے بجائے صرف اپنے لیے جیتا ہے، ہر انسان ٫٫میں،، اور صرف ٫٫میں ،، کی فکر وعمل کا حامل ہے ،

♻ مغربی فکر وتہذیب کے حاملین کی حالت دوسروں کی ہمدردی و خیرخواہی ، نصرت و معاونت اور جود وسخاوت جیسی عمدہ صفات و عادات میں اس لیے قابلِ رحم ہے ، کیونکہ اگر کسی دوسرے انسان کی کسی انداز میں تائید و معاونت کی جاتی ہے،تو ذاتی مفاد کی خاطر اور جذبہ انسانی کے تحت، نہ کے رضائے الٰہی کے باعث اور حصولِ اجر و ثواب کی نیت سے، کیونکہ وہ تو اجر و ثواب سے نوازنے والی ذات الٰہی کو ہی نہیں مانتے ، ایمان وعقیدے کے بغیر زندگی بھر کی کمائی روزے آخرت کسی کام نہیں آئے گی،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top