• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:4)((سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب)) (قبولِ اسلام کے اسباب ،حصہ دوم)

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب

حافظ محمد فیاض الیاس الاثری دارالمعارف لاہور:0306:4436662


(حصہ:4)سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل و مناقب ؛قبولِ اسلام کے اسباب(حصہ دوم)

♻ 2، غیبی آواز: کتب سیرت و تاریخ میں حضرت عمر کے قبول اسلام کا ایک اور واقعہ انھی کی زبانی اس طرح بھی مرقوم ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں ابو جہل اور شیبہ بن ربیعہ کے ساتھ بیٹھا تھا

♻ ابو جہل نے کہا: اے قریش! محمد( صلی اللّٰہ) تو ہمارے معبودوں کی تردید کر رہا ہے، ہمارے سمجھدار لوگوں کوبے وقوف قرار دے رہا ہے اور دعوے سے کہتا ہے کہ ہمارے فوت شدہ آباء و اجداد جہنم کا ایندھن ہیں۔

♻ میری طرف سے اعلان ہے کہ جو بھی اسے قتل کرے گا اسے ایک سو سرخ و سیاہ اونٹنیاں اور ایک ہزار اوقیہ چاندی بطورِ انعام دی جائے گی۔

♻ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی میں نے تلوار تھامی اور ترکش ساتھ لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔

♻ اچانک میرا گزر ایک بچھڑے کے پاس سے ہوا، جسے لوگ ذبح کر رہے تھے۔ میں یہ منظر دیکھنے کے لیے وہاں کھڑا ہوگیا، اسی لمحے بچھڑے کے پیٹ سے ایک زور دار آواز آئی: اے آل ذریح! نجات کا ایک ہی راستہ ہے، ایک فصیح و بلیغ آدمی لوگوں کو پکار رہا ہے کہ صرف اللہ کے الٰہ ہونے کی گواہی دے دو اور محمد( صلی اللہ) کو اللہ کا رسول مان لو۔ اس سے میں سمجھ گیا کہ اس کا مقصود میں ہوں۔(البیہقی، دلائل النبوہ:245/2 و المقریزی،إمتاع الا سماع:399/3)

♻ 3۔دعائے نبوی: سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کے قبولِ اسلام کے اسباب میں سے اہم ترین سبب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دعا ہے۔ مکہ مکرمہ میں اسلام اور اہل اسلام پر ہر طرف سے حملے ہونے لگے اور مسلمانوں کے دفاع کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔

♻ ایسے حالات میں ایک ایسی شخصیت کی اشد ضرورت تھی جس کی جرأت اور بے باکی ہر فرد پر آشکار ہوتی تاکہ وہ مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم سے بچانے میں ممدو معاون ثابت ہو۔

♻ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ الٰہی میں دعا فرمائی: (( اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الْإِسْـلَامَ بِأَحَبِّ ہٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْکَ، بِأَبِی جَہْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الخَطَّابِِ ))(سنن الترمذی: ٣٦٨١ وأحمد بن حنبل،المسند: ٥٦٩٦)''اے اللہ! ابو جہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے اچھا لگے، اسے نعمت ایمان عطا کرکے اسلام کو عزت نصیب فرما۔''

♻ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بعد میں حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے لیے قبولِ اسلام کی یہ خصوصی دعا بھی کی:(( اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الإِْسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّۃً ))( سنن ابن ماجہ :١٠٥ و الالبانی، السلسلۃ الصحیحہ: ٣٢٢٥)''اے اللہ! خاص عمر بن خطاب کے ذریعے سے اسلام کو تقویت نصیب فرما۔''

♻ ان دونوں مختلف روایات میں یوں تطبیق دی گئی ہے کہ پہلے آپ نے دونوں کے متعلق دعا فرمائی، لیکن جب آپ کو وحی کے ذریعے سے ابو جہل بن ہشام کے عدمِ اسلام کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے لیے دعا فرمائی جو شرفِ قبولیت سے ہمکنار ہوئی۔(ابن عساکر،تاریخ دمشق:51/47 و الزرقانی،شرح المواہب :4/2)
 
Top