- شمولیت
- جون 21، 2019
- پیغامات
- 97
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 41
سوال-کیا میت کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء اس کے ورثاء پر واجب ہے؟ بخاری شریف میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا) بخاری: (1952)
ــــ ــــ ـــــ ــــ ـــــ ــــ ـــــ ــــ ــــ
الجواب بعون الملک الوہاب صورت مسؤلہ میں میت کی طرف سے ورثاء کا روزہ رکھنا فقہ حنفی میں جائز نہیں ہے-
وہ ذکر کردہ حدیث جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے- اور انہیں سے ہی ایک فتوٰی بھی منقول ہے جو اس حدیث کے مخالف ہے گویا وہ فتوٰی (موقوف روایت) ناسخ کے درجہ میں ہوگا - اس فتوی کو مصنف بن عبد الرزاق میں نقل کیا گیا ہے-
لا تصوموا عن موتاكم-
اور صحیح سند کے ساتھ سنن نسائی میں بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
لا يصوم أحد عن أحد-
پس احناف کے یہاں اگر کسی شخص کے روزے بیماری کی وجہ سے قضا ہوئے، اور مرتے دم تک اس کو اتنے دن صحت نہیں ہوئی کہ وہ روزوں کی قضا کرتا، تو شرعاً اس پر قضا واجب نہیں ہے، اور اگر موت سے قبل اتنے دنوں کے بقدر صحت ملی تھی؛ لیکن اس نے روزے نہیں رکھے، تو اس پر ہر روزہ کے بدلہ میں فدیہ لازم ہے، اور فدیہ میں نماز وروزہ کے بدلے صدقۃ الفطر کی مقدار اداکرنا واجب ہوگا۔ (مستفاد از: فتاویٰ محمودیہ جدید ۷؍ ۳۸۸-۴۰۳، فتاویٰ دارالعلوم ۶؍ ۳۰۳- ۳۰۵، کتاب المسائل ۱؍ ۵۳۴، ایضاح المسائل ۱۰۰، جواہر الفقہ ۱؍۴۲۴)
اللہ اعلم بالصواب
محمد عبد الرحمن.
٠۲/۹/۱٤٤١هــ
Sent from my BKL-L09 using Tapatalk
ــــ ــــ ـــــ ــــ ـــــ ــــ ـــــ ــــ ــــ
الجواب بعون الملک الوہاب صورت مسؤلہ میں میت کی طرف سے ورثاء کا روزہ رکھنا فقہ حنفی میں جائز نہیں ہے-
وہ ذکر کردہ حدیث جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے- اور انہیں سے ہی ایک فتوٰی بھی منقول ہے جو اس حدیث کے مخالف ہے گویا وہ فتوٰی (موقوف روایت) ناسخ کے درجہ میں ہوگا - اس فتوی کو مصنف بن عبد الرزاق میں نقل کیا گیا ہے-
لا تصوموا عن موتاكم-
اور صحیح سند کے ساتھ سنن نسائی میں بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
لا يصوم أحد عن أحد-
پس احناف کے یہاں اگر کسی شخص کے روزے بیماری کی وجہ سے قضا ہوئے، اور مرتے دم تک اس کو اتنے دن صحت نہیں ہوئی کہ وہ روزوں کی قضا کرتا، تو شرعاً اس پر قضا واجب نہیں ہے، اور اگر موت سے قبل اتنے دنوں کے بقدر صحت ملی تھی؛ لیکن اس نے روزے نہیں رکھے، تو اس پر ہر روزہ کے بدلہ میں فدیہ لازم ہے، اور فدیہ میں نماز وروزہ کے بدلے صدقۃ الفطر کی مقدار اداکرنا واجب ہوگا۔ (مستفاد از: فتاویٰ محمودیہ جدید ۷؍ ۳۸۸-۴۰۳، فتاویٰ دارالعلوم ۶؍ ۳۰۳- ۳۰۵، کتاب المسائل ۱؍ ۵۳۴، ایضاح المسائل ۱۰۰، جواہر الفقہ ۱؍۴۲۴)
اللہ اعلم بالصواب
محمد عبد الرحمن.
٠۲/۹/۱٤٤١هــ
Sent from my BKL-L09 using Tapatalk