((فتاوى اللجنة الدائمة )) کا ایک فتوی ملاحظہ فرمائیں
سوال :
اشتريت (30) ثلاثين رأسا من الغنم، الرأس برأس ومائة ريال، المائة حاصلة، والغنم بعد مهلة سبع سنوات، وأصابني الشك من ذلك. فأرجو من الله ثم من فضيلتكم إفتائي، والله يحفظكم.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب:
مذهب جمهور العلماء أن ما لا كيل فيه ولا وزن، كالثياب والحيوان ونحوهما يجوز بيعه بجنسه أو بغيره متساويا أو متفاضلا مع نسيئة، أي تأجيل أحد العوضين أو بعضه، وقبض العوض المقدم؛ لئلا يكون بيع دين بدين المنهي عنه شرعا، لكن يشترط أن يبين جنس العوض المؤخر، وبيان عدده وصفته التي ينضبط بها، وتحديد مدة معلومة لتسليمه حتى لا يحصل غرر بسبب عدم ذلك، ويدل لمشروعية ذلك ما رواه عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما قال: «جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم جيشا على إبل من إبل الصدقة حتى نفدت، وبقي ناس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اشتر لنا إبلا من قلائص الصدقة إذا جاءت، حتى نؤديها إليهم" فاشتريت البعير بالاثنين، والثلاث قلائص، حتى فرغت، فأدى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم من إبل الصدقة (1) » رواه الإمام أحمد في مسنده، وهذا لفظه ج2 ص171، ورواه أبو داود، والدارقطني وصححه وقال الحافظ ابن حجر: إسناده ثقات، ويدل لذلك أيضا ما ذكره البخاري في صحيحه ج3 ص41 في باب بيع العبيد والحيوان بالحيوان نسيئة، واشترى ابن عمر رضي الله عنهما راحلة بأربعة أبعرة مضمونة عليه، يوفيها صاحبها بالربذة، وقال
ابن عباس: قد يكون البعير خيرا من البعيرين، واشترى رافع بن خديج رضي الله عنه بعيرا ببعيرين، فأعطاه أحدهما، وقال: آتيك بالآخر غدا رهوا إن شاء الله.
وأما أحاديث النهي عن بيع الحيوان بالحيوان نسيئة كالحديث الذي رواه الترمذي في جامعه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن سمرة رضي الله عنه، «أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الحيوان بالحيوان نسيئة (1) » - فقد علل الإمام أحمد أحاديث المنع، وقال: ليس فيها حديث يعتمد عليه، وقال أبو داود: إذا اختلفت الأحاديث عن النبي صلى الله عليه وسلم نظرنا إلى ما عمل به أصحابه من بعده، وقد تواتر عن الصحابة رضي الله عنهم ومن بعدهم جوازه متفاضلا ونسيئة، وأمر به صلى الله عليه وسلم كما سبق، فدل ذلك على أنه الثابت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلا تقوى أحاديث النهي عن ذلك على المعارضة، وعلى ذلك فإنه يجوز بيع ثلاثين رأسا من الغنم بمثلها، كل رأس برأس، أو أكثر وزيادة مائة ريال أو أقل أو أكثر، عن كل رأس سواء اشترط قبض المائة في مجلس العقد أو اشترط تسليمها مع الثلاثين رأسا من الأغنام المؤجلة، بشرط بيان جنس الأغنام المؤجلة، وأوصافها، وعددها، وتحديد مدة معلومة لتسليمها.
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ :
غیر کیلی اور غیر وزنی چیز کو اس کی جنس یا غیر جنس کے ساتھـ برابر یا زیادتی کے ساتھـ بیچنا
سوال :
میں نے تیس بکریاں خریدیں ان ميں سے ہر بکری ایک بکری اور سو ریال کے بدلے ميں، سو ریال فورى طور پر دينا ہوگا اور بكرياں سات سال بعد اب مجھے اس معاملے کے متعلق شک ہوگیا، پہلے میں اللہ سے اور پھر آپ جناب سے فتوے کے متعلق امید کرتا ہوں اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :
جمھور علماء کا مذھب یہ ہے کہ وہ چیز جو کیلی اور وزنی نہ ہو جیساکہ کپڑے جانور اور ان جیسی دیگر چیزیں ہیں ان کو انکی جنس یا غیر جنس کے ساتھـ مساوی یا زیادتی کے ساتھـ بطور نسیئۃ بیچنا جائز ہے یعنی عوضین میں سے کسی ایک یا اس کے بعض کو موخر کرنا اور عوض مقدم کو قبضے میں لینا تاکہ قرض کو شرعا منع شدہ قرض کے ساتھـ بیچنا لازم نہ آئے لیکن اس میں شرط ہے کہ عوض موخر کی جنس اس کی تعداد اور اس کی صفت بیان کر دی جائے اور مزید اس کی وصولی کے وقت کی تحدید کر دی جائے تاکہ ان چیزوں کی معدومیت کے سبب دھوکہ نہ ہو سکے ،
اور اس کی مشروعیت پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جسے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنهما نے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ:رسول صلى الله عليہ وسلم نے صدقہ کے اونٹوں سے ایک لشکر تیار کیا یہا ں تک کہ اونٹ ختم ہوگئے، لیکن کچھـ لوگ باقی رہ گئے، تو رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا: تم ہمارے لئے صدقہ کے اونٹوں کے بدلے میں کچھـ اونٹ خریدو جب تک صدقہ کے اونٹ نہ آ جائيں، تاکہ ہم وہاں سے اس کو ادا کر سکيں، اس نے كہا پھر میں نے ایک اونٹ يادو یا تین اونٹوں کے بدلے میں خریدا یہاں تک کہ لشکر تیار کرنے کی ذمہ داری کو میں نے پورا کیا، پھر جب صدقہ کے اونٹ آ گئے تب حضور صلى الله عليہ وسلم نے وہاں سے یہ سب ادا کر دیا۔
امام احمد نے اپنی مسند میں ج2 ص 171 پر اس حدیث کو روایت کیا ہے اور اس کے الفاظ یہی ہیں اور اس حدیث کو ابو داود اور دار قطنی نے روایت کیا ہے اور اس كو صحيح قرار دیا ہے ،
اور حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ: اس کی سند میں ثقہ حضرات ہیں نیز اس کی مشروعیت پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں (ج3 ص41
باب بيع العبيد والحيوان بالحيوان نسيئة )میں ذکر کیا ہے اور ابن عمر رضی الله عنهما نے ایک سواری کو چار سواریوں کے بدلے خریدا جس کی ضمانت آپ پر تھی ان کا مالک اپنی فراغت کے سبب اسے پورا کرے گا اور
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کبھی ایک اونٹ دو اونٹوں سے بہتر ہوتا ہے اور رافع بن خديج رضی الله عنہ نے دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ خریدا پھر ان میں سے ایک اسے دیا اور کہا کہ: میں کل دوسرا آرام سے إن شاء الله آپ کے حوالے کر دوں گا۔
اور جہاں تک جانور کے بدلے جانور کو بطور نسیئۃ بیچنے کے متعلق ممانعت والی احادیث کی بات ہے
جیساکہ وہ حدیث ہے جسے امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی میں رسول الله صلى الله عليہ وسلم سے روایت کیا ہے، حضرت سمرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کو جانور کے بدلہ میں آگے پيچهے كر دينا بیچنے سے منع ہے۔تو واضح رہے کہ :
امام احمد نے ممانعت والی احادیث کو معلل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ: ان میں کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہو اور ابو داود نے فرمایا کہ اگر نبی صلى الله عليہ وسلم کی احادیث کا آپس میں تعارض آجائے تو ہم آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام کے طرز عمل کو دیکھتے ہیں اور یقینا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ان کے بعد آنے والوں سے تواتر کے ساتھـ اس کا جواز زیادتی کمی کے ساتھـ ثابت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم بھی ارشاد فرمایا ہے جیساکہ اوپر گزر چکا ہے لہذا ان کا یہ عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے پس ممانعت والی احادیث ان احادیث کے ساتھـ تعارض کی صلاحیت نہیں رکھتی، اس سابقہ کلام کو بنیاد بناتے ہوئے تیس بکریوں کو دوسری ان جیسی بکریوں کے ساتھـ بیچنا یا ان کو ان سے زائد بکریوں کے ساتھـ بیچنا اور سو ریال کا اضافہ کرنا یا ہر بکری کے عوض اس سے کم زیادہ کے ساتھ بیچنا جائز ہے برابر ہے کہ مجلس عقد میں سو ریال پر قبضہ شرط قرار دیا جائے یا اس کی وصولی کو تیس موجل بکریوں کے ساتھـ مشروط قرار دیا جائے لیکن موجلہ بکریوں کی جنس ان کے اوصاف، ان کی تعداد کی وضاحت اور مقررہ مدت پر وصولی کے دن کی تحدید ضروری ہے۔
( جلد کا نمبر 13، صفحہ 280)
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر صدر
بکر ابو زید صالح فوزان عبد العزیزآل شيخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز