• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیٹو سپلائی کی بحالی اور پرانی تنخواہ۔۔۔

ابوحتف

مبتدی
شمولیت
اپریل 04، 2012
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
318
پوائنٹ
0
امریکہ کیلئے نیٹو سپلائی کی بحالی پر سب متفق ہو گئے ہیں۔ یہ بھی رضا ربانی کی محنت سے تیار ہوئی ہے۔ اس سے پہلے وہ اٹھارویں ترمیم اور بیسویں ترمیم کیلئے امریکہ کی مرضی کی دستاویز تیار کر چکا ہے۔ اس ملک میں دنیا کی سب سے بڑی سیاسی نوراکشتی ہو رہی ہے۔ کچھ دیر کیلئے دھینگا مشتی بھی ہوتی ہے تو وہ بھی نورا کشتی کی ایک قسم ہے۔ عجیب بات ہے کہ نیٹو سپلائی کیلئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا تو نوازشریف نے بائیکاٹ کیا۔ بائیکاٹ تو مولانا فضل الرحمن نے بھی کیا ہے۔ وہ ایسے بیانات دے رہے تھے جیسے وہ بھی دفاع پاکستان کونسل کا حصہ ہوں۔ حصہ تو وہ ہیں مگر ایم ایم اے کی طرح یہاں بھی حضرت مولانا کو حصہ بقدر جُثہ چاہئے۔ مولانا سمیع الحق سید منور حسن‘ شیخ رشید اور جنرل حمید گل کی طرف سے حضرت مولانا کو حوصلہ افزا جواب نہیں ملا ہو گا۔ اس دوران حضرت مولانا صدر زرداری سے ملے۔ یہ ملاقات ایوان صدر میں ہوئی۔ امریکی سفیر کیمبرون منٹر بھی گھر ملنے آئے۔ امریکی سفیر منٹر کیلئے شیخ رشید نے منتر کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس منتر سے وہ پرانا واقف ہے۔ اسے معلوم ہے کہ یہ منتر مولانا فضل الرحمن پر چل گیا ہے۔ یہ منتر کس پر نہیں چلا؟ شیخ صاحب کو صرف ان لوگوں کا پتہ ہے جن پر یہ منتر چلا ہے۔ اب شیخ صاحب کو اس منتر کی ضرورت نہیں۔ یہ منتر زہر کو کنٹرول کے کام آتا ہے اور زہر کو بڑھانے کے کام بھی آتا ہے۔ شیخ رشید دوسرے کام کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ میں نے کیمرون منٹر کو کیمرون ہنٹر کہا تھا۔ یہ ہنٹر تو امریکی سفیر کے پاس ہر وقت ہوتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے فوراً ”قومی سلامتی کمیٹی برائے نیٹو سپلائی بحالی“ کا بائیکاٹ ختم کر دیا مگر نوازشریف کو وزیراعظم گیلانی نے صرف ایک فون کیا تو انہوں نے بھی بائیکاٹ ختم کر دیا۔ ہماری سیاست میں خونی سیاست زوروں پر ہے۔ میں نے نوازشریف سے ایک کالم میں سوال کیا تھا۔ یہ سوال مولانا فضل الرحمن کیلئے بھی ہے۔ بائیکاٹ کیوں کیا۔ پھر بائیکاٹ ختم کیوں کیا۔ نانی نے خصم کیا بُرا کیا کر کے چھوڑا مزید بُرا کیا۔
ہم نے نیٹو سپلائی بحال کرنا تھی۔ اس میں جج اور جرنیل بھی شامل ہیں۔ وہ بھی امریکی چھو منتر کی مستی میں رہتے ہیں۔ مگر اب سیاسی دور سے جسے ”جمہوری“ دور کہنے کی ضد پر فرینڈلی اپوزیشن زیادہ اڑی ہوئی ہے۔ جرنیلوں کیلئے نازک معاملہ ہے۔ جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو فوراً سیاستدان بن جاتے ہیں۔ شبنم شکیل نے یہ شعر اپنے محبوب کیلئے کہا ہو گا۔ مگر سیاستدانوں کا محبوب امریکہ ہے اور اب بھارت بھی ہے۔ محبوب بے وفا اور ستم گر نہ ہو تو وہ محبوب ہی نہیں ہوتا۔ وقت آنے والا ہے کہ پاکستانی حکمران اور سیاستدان اسرائیل کو بھی اپنا محبوب بنا لیں گے۔ ایک جرنیل سیاستدان صدر مشرف نے تو یہ معرکہ بھی کر لیا تھا۔
آدھی مان چکی ہوں اُس کی
آدھی بات پہ اڑی ہوئی ہوں
ہم اگر آدھی بات پہ ہی اڑ جاتے تو بات بن جاتی۔ ہم امریکہ کی پوری بات مان لیتے ہیں مگر اپنے لوگوں کے سامنے آدھی بات پر بھی اڑے ہوئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ نیٹو سپلائی کی مشروط بحالی بھی منظور نہیں ہے۔ تو اب جس مسودے پر دستخط ہوئے ہیں۔ وہ مشروط ہے مگر غیر مشروط بحالی سے بھی شرمناک ہے کہ ہم اپنی نیم مردہ شرطیں بھی منوانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ بے چاری پارلیمنٹ پہلے بھی یہ شرطیں یعنی باتیں کر چکی ہے مگر ان کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اب بھی امریکہ کی طرف سے اسے غیر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
ریٹائرڈ بریگیڈئر حامد سعید کا نام آئی جے آئی کے حوالے سے مختلف سیاستدانوں کو رقوم فراہم کرنے کیلئے آتا رہا ہے۔ وہ ایک فوجی ہیں اور فکر و خیال سے بھی ان کا واسطہ ہے۔ وہ صاحب سیف و قلم ہیں۔ انہوں نے مرزا غالب کا جو ترجمہ کیا ہے وہ خیالوں خوابوں کی ترجمانی ہے۔ یہ ایک منفرد ادبی کتاب ہے۔ وہ نیٹو سپلائی کیلئے پارلیمنٹ کی سفارشات کو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف کہتے ہیں۔ ان سفارشات پر عمل ہی نہیں ہونا تو ان کا فائدہ کیا ہے۔ کنٹینرز کی تلاشی کا حق ہی نہیں تو یہ کس طرح معلوم ہو گا کہ اسلحہ جا رہا ہے یا خوراک اور دوائیں۔ پابندیاں نہیں تھیں تو امریکہ کا خرچہ 82 بلین تھا۔ اب 117 بلین ہے۔ اگلے سال تک 182 بلین ہو جائے گا۔ 106 بلین کا فائدہ ہو گا تو اس میں سے ہمارا حصہ کتنا ہے۔ ہمارا تو نقصان ہی نقصان ہے۔ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کا معاوضہ بھی نہیں دیا گیا۔ خودمختاری اور قومی غیرت بیچی تھی۔ تو قیمت تو ٹھیک لگوائی ہوتی۔
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
زمینی راستوں کے علاوہ فضائی راستے تو امریکہ استعمال کر رہا ہے۔ ان کا ذکر ہی کہیں نہیں ہے۔ ن لیگ اور جے یو آئی نے سب سے پہلے دستخط کر دیئے ہیں۔ امریکہ اب تک معافی مانگنے کیلئے تیار نہیں۔ ڈرون حملوں کو امریکہ ضروری اور مفید سمجھتا ہے۔ تو پھر سفارشوں یا شرطوں کا مطلب کیا ہے۔ بریگیڈئر حامد سعید نے ایک پرانا لطیفہ سنایا۔ جس کے معانی حسب حال ہیں مزیدار اور معنی خیز۔ ہماری صورتحال کیلئے بہت برمحل ہے۔ ایک ملازم اپنے مالک سے کہنے لگا کہ میری تنخواہ بڑھائیں ورنہ .... مالک نے کہا ورنہ کیا .... تو ملازم نے بڑی لحاجت سے کہا۔ ورنہ میں پرانی تنخواہ پر کام کرتا رہوں گا۔ ہم وہ ملازم ہیں جنہیں پوری تنخواہ بھی نہیں ملتی۔ کبھی کبھی بھیک ملتی ہے ”پرانی تنخواہ“ بڑی کم ہے۔ مہنگائی اور غربت نے ہمارا کچومر نکال دیا ہے۔ نوازشریف نے تجویز دی کہ نیٹو سپلائی بحال کرو مگر ڈرون حملے بند ہو جائیں تو اچھا ہے۔ امریکہ کہہ دے گا کہ یہی اچھا ہے تو وہ سمجھیں گے کہ سب اچھا ہے۔
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ـ نوائے وقت
 
Top