- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,773
- ری ایکشن اسکور
- 8,477
- پوائنٹ
- 964
چندہ ، مشکلات و مسائل
تحریر : شعبان بیدار
آج کل چندہ عرف عام کے تصورمیں ذلیل سا لفظ بن گیا ہے اس کی ذلت کا سبب محض دھاندلی ہےنہ کوئی خراب معاملہ، اصل سبب یہ ہے کہ چندہ کرنے والے اور چندہ جن اغراض کے لئے کیا جاتا ہےتمام کی نسبت دنیا سے کم آخرت سے زیادہ ہے یہاں فلاکت ، غربت اورسادگی کا غلبہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ یہ توقیر کا مستحق نہیں رہ جاتا ورنہ یہی چندہ ڈونیشن کے نام پر خوب خوب وصول کیا جاتا ہے یہ وصولی عصری اداروں میں دینیات کےنام پر ہو ، انگریزی میڈیم اسکولوںمیں داخلہ کے لئے ہو ، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا معاملہ ہو ، سرکاری نوکری کے لئے ادارے کو لاکھوں دینے کی صورت ہو الغرض سیکڑوں مواقع ہیں جہاں چندہ زکوٰۃ سے ہی نہیں اصل مال سے بھی وصول کیا جاتا ہے اور وہ بھی متکبرانہ ادا اور مغرورانہ شان کے ساتھ ! اس کوچے میں چندہ عیب نہیں ہے کیونکہ اسے مسٹری اصطلاح میں ڈونیشن کہا جا رہا ہے۔ایسا بھی نہیں کہ یہاں معاملہ کچھ صاف و شفاف ہو تو بہ توبہ ! ہمارے نزدیک یہاں صاف و شفاف کا تصور بھی گناہ کبیرہ ہے کیونکہ جن عصری تعلیمی اداروں میں دینیات کے نام پر کروڑوں کی زکوٰۃ وصول کر لی جاتی ہے وہاں دینداروں ،دین کے علم برادروں اور خود دین کا براحال ہے،حد یہ ہے کہ ان عصری اداروں میں جو عصر کی دریافت اور شناخت کے دعویدار ہیں وہ دینیات کے معلم کو ایسی قلیل اور ذلیل تنخواہ دیتے ہیں کہ خود دین کی درگت بن جاتی ہے، پھراس دیار میں دین کی حیثیت بھی کیا ہے اور بے حیثیت ہو بھی کیوں نہ جب دینیات یہاں ایک بے روح نظام ہے جو دین پسند افراد کے بچوں کو کھینچنے اور اپنے ایما ن و اسلام کی تسلی کے لئے جاری و ساری ہے ۔ یہاں مال زکوٰۃ کا بے جا استعمال نہیں ہوتا سرکاری امداد کی بند ر بانٹ نہیں ہوتی والدین سے لیا جانے والا ڈونیشن لوگوں کے پیٹ کی آگ کا ایندھن نہیں بنتا اس کا انکار بھلا کون کر سکتا ہے؟( وہ عصری ادارے مستثنیٰ ہیں جو عصری علوم کو دین سے جوڑنے کی تحریک لے کر اٹھے ہیں ۔) لیکن اس کے باوجود یہ محترم ہیں۔
چندہ کے سلسلے میں ایک بات یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ لوگ عام طور پر چندہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہو تے بہت سے افراد تو چندہ نہ کرنے کو اپنی شان کے طور پر پیش فرماتے ہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر چندہ کرنے والے کو اپنے وعظ خام سے نوازتے بھی ہیں حد یہ ہوتی ہے کہ وہ قریبی ملنے جلنے والے بے تکلف افراد سے بھی ادارے کو فائدہ پہنچانے میں گریز کرتے ہیں اگر یہ سب کسی فطری کمزوری کے سبب ہو تو کچھ حرج نہیں ہے لیکن یہ اگر تکبر اور بڑکپن کے طور پر صادر ہو رہا ہو تو بلاشبہ نا معقول ہے ۔
پریشانی کی جو صورت بنی ہے اس میں چندہ بازوں کا بہت کچھ دخل ہے بہتیرے چندے باز آپ کو ملیں گے جو عالم نہیں ہیں کچھ ایسے ہیں جو عالم محض ڈگری کے ہیں ورنہ علم دین کی خاک بھی ان کے ہاتھوں میں نہیں کاغذی مدرسوں کے سہارے محض پیٹ کا جہنم ہی نہیں بھرتے زمین و جائداد بھی خریدتے ہیں، شہر بھیونڈی کا ایک پینترے باز مولوی بھیونڈی کا مؤقر ادارہ جامعۃ التوحید کے نام سے چندے کرتا ہے اور پوری دیدہ دلیری سے کرتا ہے ۔ کسی کو آپ دیکھیں گے غلط سلط کتاب چھاپ کر کتابی چندہ میں مشغول ہے۔یہ عمل بلاشبہ اہل خیر حضرات کو پریشان کر دیتا ہے بطور خاص جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ رمضان کے مقدس مہینے میں بہت سے چندہ باز نماز روزے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلکہ موقع پاکر بیڑی سیگریٹ بھی نوش لب وجان کرنےمیں نہیںہچکچاتے،اور ہاں جب وہ کچھ ایسے ذمہ داروں کو بھی دیکھتے ہیں جو اساتذہ کو درس قناعت دیتے ہیں طلباء کو روکھی سوکھی کھا لینے کی ترغیب دیتے ہیں خواہ چاول میں کاکروچ نظر آئے یا دال میں گوبریلا ! لیکن خود عیش و آرام سے جیون گزارتے اور نفاست کے ساتھ مرغن غذاؤں سے شاد کام ہو رہے ہیں تو بے چارے سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کہیں دین و ین سب بے کارکی بات تو نہیں ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہمارے نظماء کرام نظامت کے عوض اپنی تنخواہ بھی متعین فرمالیں۔علم،مقام و مرتبے اور ذمہ داریوں کے اعتبار سے چالیس ہزار ماہانہ مقرر فرما سکتے ہیں ۔ ورنہ بقول فضاؔ
یہ مصلحت کہ پس کاروبار خدمت خلق
ہر اک طرف سے فضاؔ اپنی ہی مدد میں ہوں
الغرض بَلا اتنی عام ہوگئی ہے اور فساد ایسا پھیل چکا ہے کہ کوئی اچھے برے کی تمیز کرے تو کیسے ؟کھلاڑی لوگ تصدیقات بھی حاصل کر لیتے ہیں چونکہ جماعتوں کے پاس تحقیقات کا کوئی مستحکم نظام نہیں ہے اس لئے کھلاڑیوں کو تصدیق حاصل کرنے میں بڑی آسانیاں فراہم ہو جاتی ہیں ۔ کاش ملک گیر سطح پر ہم تصدیقات فراہم کرنے کے با ب میں کوئی مستحکم نظام قائم کرلیتے اور فائل کارروائی مربوط انداز کی ہوتی تو احتساب میں آسانی ہوتی اگر ہم اس کا خاکہ پیش کریں تو بات طویل ہو جائے گی اس لئے اسے ارباب حل و عقد پر چھوڑدیتے ہیں ۔
پریشانی کی ایک بات یہ بھی ہے کہ ہمارے اداروں میں کوئی وفاق نہیں ہے خودرو پودوں اور بری تشبیہ میں ککر متوں کی طرح ہر گلی نکڑ پر مدرسے اگ آتے ہیں اور پھر ان کی چندہ مہم شروع ہو جاتی ہے ایسے میں فقراء و مساکین کا حق بالکل ختم ہو جاتا ہے ملت کی ترقی کے اور بہت سے اہم منصوبے جو بذات خود مدارس کی بقا کے ضامن ہیں عمل میں آنے سے رہ جاتے ہیں۔ تو بہ کیجئے یہ فی سبیل اللہ اتنا وسیع ہو گیا ہے اورنوازل یا فقہ الواقع کے سہارے اس میں اتنی وسعت آگئی ہے کہ بے فائدہ جلسوں کے لئے بھی بڑے بڑے چندے ہوتے ہیں حالانکہ فی سبیل اللہ کی ایک حقیقت ہے اور اس کا ایک مجاز ہے دیکھا جا رہا ہے مجاز حقیقت بن گیا ہے اور حقیقت کا وجود تو بس مشتبہ سا ہو گیا۔ عجیب تماشہ ہی تو ہے کہ مدارس میں بچوں کی تعداد گھٹ رہی ہے اور مدرسوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اگر موقع ومحل کا اختلاف ہو تو بات معقول بھی ہے لیکن ایک ہی مقام پر یکساں ماحول میں ایک ہی مسلک کے متعدد مدرسے موجود ہیں اور ملت کی ایک بڑی اِنرجی ضائع کی جارہی ہے ،سدھارتھ نگر کے ایک علاقے کی ذرا تصویر دیکھئے: ایک مدرسے میں عالمیت تک ۹۰ بچے،دوسرے میں عالمیت تک ۱۰۰ سے کچھ زائد، تیسرے میں فضیلت تک ۱۳۰ کے قریب ،ذرا کچھ دوری پر ایک اور مدرسہ رابعہ تک ہے وہاں بھی کوئی ۸۵ بچے ، کچھ ہَٹ کر ایک اور مدرسہ فضیلت تک ہے وہاں بھی ۱۵۰ سے زائد طلباء ہو ں گےیقین کیجئے کہ ان تمام مدارس میں معیاری اور قابل اساتذہ دو دو تین تین ہی ہیں اور ہر مدرسے کی یہی حالت ہے اگر ۲۰ مدرسین ہیں تو ان میں پانچ ہی معیاری ہیں ۔آپ اندازہ کیجئے کہ صورت حال کتنی خراب بنتی ہے کیا اس کا کوئی علاج بھی ہے ضرور ہے لیکن علاج ہوتا اس لئے نہیں کہ سارے ڈاکٹر سگریٹ کے عادی ہیں اور سگریٹ کوئی چھوڑنا نہیں چاہتا ۔ مسئلے کی سنگینی یہ ہے کہ اس موضوع پر کوئی سوچنے کے لئے بھی تیار نہیں ،حیطۂ تحریرمیں لانا تو بالیقین خر دماغوں کا کام قرا ر دیا جاتا ہے ۔ ہم نے بعض بزرگوں سے چھیڑا تو انہوں نے فرمایا عزیزم یہ مسئلہ تو میدان محشر میں حل ہوگا کیونکہ بہت سے مسائل اس دنیا میں حل نہیں ہو سکتے۔
شعبان بیدارؔ ایڈیٹر ’’اعتدال‘‘ ممبئی