ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 529
- ری ایکشن اسکور
- 167
- پوائنٹ
- 77
کیا تم مجھے یزید کے بارے میں حسن رائے رکھنے پر ملامت کرتے ہو؟ میرے ماں باپ یزید پر قربان
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہیں، یہ سیدنا علی کے بھتیجے و حسین رضی اللہ عنہ کے کزن و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدار تھے۔ صحيح مسلم کی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ، مَوْلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: «أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَاتَ يَوْمٍ خَلْفَهُ، فَأَسَرَّ إِلَيَّ حَدِيثًا لَا أُحَدِّثُ بِهِ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ»
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حسن بن سعد نے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن مجھے سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا، پھر مجھے راز داری سے ایک بات بتائی جو میں لوگوں میں سے کسی بھی شخص کو نہیں سناؤں گا۔
[صحيح مسلم حدیث نمبر: ۶۲۷۰]
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو ان کے استقبال کے لیے حسن حسین و عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ آیا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم محبت کے ساتھ حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ اور حسن یا حسین رضی اللہ عنہما بچپن میں اپنی سواری پر سوار کر لیا کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ - وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى قَالَ أَبُو بَكْرٍ حَدَّثَنَا وقَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا - أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ تُلُقِّيَ بِصِبْيَانِ أَهْلِ بَيْتِهِ، قَالَ: وَإِنَّهُ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ فَسُبِقَ بِي إِلَيْهِ، فَحَمَلَنِي بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ جِيءَ بِأَحَدِ ابْنَيْ فَاطِمَةَ، فَأَرْدَفَهُ خَلْفَهُ، قَالَ: فَأُدْخِلْنَا الْمَدِينَةَ، ثَلَاثَةً عَلَى دَابَّةٍ "
ابو معاویہ نے عاصم احول سے، انھوں نے مورق عجلی سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے آتے تو آپ کے گھر کے بچوں کو (باہر لے جاکر) آپ سے ملایا جاتا، ایک بار آپ سفر سے آئے، مجھے سب سے پہلے آپ کے پاس پہنچا دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سامنے بٹھا دیا، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ایک صاحبزادے کو لایا گیا تو انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے بٹھا لیا۔کہا: تو ہم تینوں کو ایک سواری پر مدینہ کے اندر لایا گیا۔
[صحيح مسلم حدیث نمبر: ۶۲۶۸]
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بہت اچھے دوست تھے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا یزید رحمہ اللہ کو ان کی عزت و اکرام کرنے کی نصیحت فرمائی تھی۔
أَنَّ مُعَاوِيَةَ قَالَ لِيَزِيدَ: إِنَّ لِي خَلِيلًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَأَكْرِمْهُ. قَالَ: وَمَنْ هُوَ؟ قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید رحمہ اللہ سے کہا کہ بلاشبہ اہل مدینہ میں میرا ایک دوست ہے اس کی عزت کرنا، یزید رحمہ اللہ نے پوچھا وہ کون ہے؟ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سیدنا عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ۔
[البداية والنهاية، ج: ١١، ص:٨٤٥]
اب ملاحظہ فرمائیں عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں وہ سیدنا یزید رحمہ اللہ سے کس قدر محبت کرتے ہیں اور سیدنا یزید رحمہ اللہ بھی عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی کتنی عزت و احترام کرتے تھے۔
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ فَلَمَّا وَفَدَ بَعْدَ مَوْتِ مُعَاوِيَةَ عَلَى يَزِيدَ أَضْعَفَ جَائِزَتَهُ الَّتِي كَانَ مُعَاوِيَةُ يُعْطِيهِ إِيَّاهَا، وَكَانَتْ جَائِزَتُهُ عَلَى مُعَاوِيَةَ سِتَّمِائَةِ أَلْفٍ، فَأَعْطَاهُ يَزِيدُ أَلْفَ أَلْفٍ، فَقَالَ لَهُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي. فَأَعْطَاهُ أَلْفَ أَلْفٍ أُخْرَى. فَقَالَ لَهُ ابْنُ جَعْفَرٍ: وَاللَّهِ لَا أَجْمَعُ أَبَوَيَّ لِأَحَدٍ بَعْدَكَ.
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید رحمہ اللہ کے پاس گئے تو سیدنا معاویہ انہیں جو عطیہ دیتے تھے یزید رحمہ اللہ نے اسے دو گنا کر دیا، اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ذمہ ان کا چھ لاکھ عطیہ تھا، یزید رحمہ اللہ نے انہیں ایک کروڑ دیا تو سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے یزید سے فرمایا: میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔ تو یزید نے انہیں ایک کروڑ اور دیا، تو سیدنا عبد اللہ بن جعفر نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تیرے بعد کسی کے لیے اپنے ماں باپ کو اکٹھا نہیں کیا(یعنی تیرے بعد کسی کو نہیں کہا کہ میرے ماں باپ تجھ پر قربان)۔
وَلَمَّا خَرَجَ ابْنُ جَعْفَرٍ مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ - وَقَدْ أَعْطَاهُ أَلْفَيْ أَلْفٍ - رَأْي عَلَى بَابِ يَزِيدَ بَخَاتِيَّ مُبَرِّكَاتٍ، قَدْ قَدِمَ عَلَيْهَا هَدِيَّةٌ مِنْ خُرَاسَانَ، فَرَجَعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ إِلَى يَزِيدَ، فَسَأَلَهُ مِنْهَا ثَلَاثَ بَخَاتِيَّ لِيَرْكَبَ عَلَيْهَا إِلَى الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ
اور جب سیدنا عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ یزید رحمہ اللہ کے ہاں سے نکلے اور انہوں نے آپ کو دو کروڑ درہم دئیے تھے تو آپ نے یزید رحمہ اللہ کے دروازے پر بختی اونٹ بیٹھے ہوئے دیکھے جن پر خراسان سے ہدیہ آیا تھا، سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ پھر یزید رحمہ اللہ کے پاس گئے اور ان سے تین بختی اونٹوں کا مطالبہ کیا، تاکہ آپ ان پر سوار ہو کر حج و عمرہ کر سکیں۔
وَإِذَا وَفَدَ إِلَى الشَّامِ عَلَى يَزِيدَ. فَقَالَ يَزِيدُ لِلْحَاجِبِ: مَا هَذِهِ الْبَخَاتِيُّ الَّتِي عَلَى الْبَابِ؟ - وَلَمْ يَكُنْ شَعَرَ بِهَا - فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، هَذِهِ أَرْبَعُمِائَةِ بُخْتِيَّةٍ جَاءَتْنَا مِنْ خُرَاسَانَ تَحْمِلُ أَنْوَاعَ الْأَلْطَافِ - وَكَانَ عَلَيْهَا أَنْوَاعٌ مِنَ الْأَمْوَالِ كُلِّهَا - فَقَالَ: اصْرِفْهَا إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ بِمَا عَلَيْهَا. فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ يَقُولُ: أَتَلُومُونَنِي عَلَى حُسْنِ الرَّأْيِ فِي هَذَا؟ ! يَعْنِي يَزِيدَ.
اور جب سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ یزید رحمہ اللہ کے پاس شام آئے تو یزید رحمہ اللہ نے حاجب سے کہا، دروازے پر یہ بختی اونٹ کیسے ہیں؟ انہیں ان اونٹوں کا پتہ نہ تھا، اور ان پر کئی قسم کے اموال تھے، یزید رحمہ اللہ نے کہا انہیں اموال سمیت سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دو، اور سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے، کیا تم مجھے اس یعنی یزید رحمہ اللہ کے بارے حسن رائے رکھنے پر ملامت کرتے ہو؟ (تم تو پاگل ہو)
[البداية والنهاية، ج: ١١، ص:٨٤٥،٨٤٦]
یہ تھی سیدنا یزید رحمہ اللہ کی سخاوت اور اہل بیت سے محبت و صلہ رحمی اور اب نام نہاد حسینوں کے مطابق عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بھی یزیدی صحابی ہو گئے جو کہ یزید رحمہ اللہ کے لیے فرماتے ہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں یہ صرف آپ کے لیے ہی کہوں گا،
یقین کریں ایسے یزید کے بارے وہ بھی نہیں کہتے جن کو آج کے نام نہاد حسینی لوگ یزیدی کہتے ہیں۔