• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈگری از جاوید چوہدری

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
نوجوان نے یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی' وہ گولڈ میڈلسٹ تھا' یونیورسٹیوں میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے چہروں پر ایک خاص قسم کا اعتماد ہوتا ہے' ان کی آنکھیں روشن ہوتی ہیں' یہ بھنویں چڑھا کر دائیں بائیں دیکھتے ہیں' ان کی گردن میں تناؤ ہوتا ہے' یہ ناک کو بار بار سکیڑتے ہیں' ان کی آواز بھاری ہوتی ہے اور یہ عموماً سیدھے ہو کر چلتے ہیں' یہ چال' ڈھال اور یہ اعتماد شاید کامیابی کی دین ہوتی ہے' کامیاب لوگ شاید اتنے ہی بااعتماد ہوتے ہیں لیکن یہ کیونکہ یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے عملی زندگی میں آنے والے نوجوانوں کی پہلی کامیابی ہوتی ہے چنانچہ ان کا اعتماد ان کی باڈی پر سوٹ نہیں کر رہا ہوتا' یہ دور سے پہچانے جاتے ہیں بالکل ان لوگوں کی طرح جو زندگی میں پہلی بار سوٹ پہنتے ہیں' جو زندگی میں پہلی بار کافی پیتے ہیں یا جو زندگی میں پہلی بار سگار پیتے ہیں' ان نوجوانوں کا اعتماد مانگے ہوئے کوٹ کی طرح ڈھیلا ڈھالا سا محسوس ہوتا ہے' میں کیونکہ گولڈ میڈلسٹ تھا اور میں نے زندگی میں بے شمار گولڈ میڈلسٹ دیکھے ہیں چنانچہ میں ان لوگوں کی نفسیاتی حالت اور چال ڈھال سے پوری طرح آگاہ ہوں' میں اس معاملے میں اتنا تجربہ کار ہو چکا ہوں کہ میں چند لمحوں میں سو ڈیڑھ سو نوجوانوں میں سے گولڈ میڈلسٹ کو تلاش کر لیتا ہوں اور تلاش کے بعد میں اس کے سوالوں اور جوابوں کا اندازہ بھی کر سکتا ہوں' یہ بے چارے بہت ہی بے چارے ہوتے ہیں' یہ بعض اوقات قابل رحم بھی ہوتے ہیں' یہ قابل رحم اور بے چارے کیوں ہوتے ہیں' یہ میں آپ کو اگلی سطروں میں بتاؤں گا' ہم سرے دست اس نوجوان کی طرف آتے ہیں' یہ نوجوان پورے اعتماد کے ساتھ میرے سامنے بیٹھ گیا۔

میں نے اس سے پوچھا '' آپ کیا کرنا چاہتے ہو'' اس نے جواب دیا '' میں صحافی بننا چاہتا ہوں'' میں نے عرض کیا ''ویری گڈ لیکن صحافت کے 34 شعبے ہیں' آپ کس شعبے میں کام کرنا چاہتے ہو'' اس نے جواب دیا '' میں اگر پرنٹ میڈیا میں رہا تو کالم نگار بنوں گا اور اگر ٹی وی جوائن کیا تو اینکر'' میں نے عرض کیا '' بہت اچھا' آپ کاغذ اور قلم لو اور مجھے دنیا کے پانچ بڑے کالم نگاروں اور پاکستان کے پانچ اردو اور پانچ انگریزی کے کالم نگاروں کے نام لکھ کر دو'' نوجوان کا رنگ فق ہوگیا' اس نے کاغذ لیا اور رک رک کر' سوچ کر نام لکھنے لگا' وہ دس منٹ کی محنت سے صرف چھ نام لکھ سکا' ان ناموں میں لیری کنگ کا نام بھی شامل تھا' میں نے اس کے بعد اس سے عرض کیا ''بیٹا آپ اب ان کالم نگاروں کے سامنے ان کے کالم کا ٹائیٹل اور اخبارات کے نام لکھو'' یہ ایک مشکل کام تھا' نوجوان نے تھوڑی سی کوشش کی لیکن جلد ہی ہمت ہار کر قلم نیچے رکھ دیا' میں نے عرض کیا ''آپ ان کالم نگاروں میں سے کس کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں'' اس نے فوراً جواب دیا '' آپ کو'' میں اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے پوچھا '' آپ نے میرا آخری کالم کب پڑھا تھا'' وہ اس سوال پر پھنس گیا' وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا' میں نے اسے خفت سے نکالنے کے لیے عرض کیا '' آپ کو میرے کسی ایک کالم کا تھیم یاد ہو'' اس نے فوراً ایک کالم کا حوالہ دیا' میں نے اس کا حوالہ سن کر عرض کیا '' یہ کالم میں نے نہیں لکھا تھا' یہ ہارون الرشید صاحب نے تحریر کیا تھا'' وہ شرمندہ ہو گیا' میں نے اس سے عرض کیا '' آپ آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں'' اس نے جواب دیا '' مجھے کتابوں میں زیادہ انٹرسٹ نہیں'' میں نے پوچھا ''آپ نے آخری فلم کب دیکھی تھی'' اس نے جواب دیا '' میں نے کل ہی شادی کے سائیڈ افیکٹس دیکھی ہے'' میں نے پوچھا '' آپ نے ہالی ووڈ کی کوئی فلم دیکھی ہو'' اس نے جواب دیا '' ٹائی ٹینک'' میں نے پوچھا '' اس کے بعد'' اس نے انکار میں سر ہلا دیا' میں نے پوچھا '' آپ کون سا اخبار پڑھتے ہیں'' اس نے برا سا منہ بنایا اور انکار میں گردن ہلا دی' میں نے پوچھا ''صحافت کا کوئی ایک کام جو آپ اسی وقت کر سکتے ہوں'' وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا' میں نے عرض کیا '' مثلاً خبر بنا سکتے ہوں' مضمون لکھ سکتے ہوں' اسٹوری بورڈ بنا سکتے ہوں' ریسرچ کر سکتے ہوں' خبر ایڈٹ کر سکتے ہوں' سرخیاں بنا سکتے ہوں' کاپی جڑوا سکتے ہوں اور اخبار کا لے آؤٹ تیار کر سکتے ہوں'' اس نے انکار میں سر ہلا دیا' میں نے عرض کیا '' آپ صحافت سے باہر نکلیں' آپ اس کے علاوہ کوئی کام جانتے ہو مثلاً آپ کو بجلی کی وائرنگ آتی ہو' آپ ٹونٹی ٹھیک کر سکتے ہوں' آپ دیوار پینٹ کر سکتے ہوں' آپ گاڑی ٹھیک کر سکتے ہوں' آپ کو اردو ٹائپنگ آتی ہو' آپ ریکارڈ مینٹین کر سکتے ہوں یا آپ کمپیوٹر ٹھیک کر سکتے ہوں'' اس نے انکار میں سر ہلا دیا' میں نے اس سے پوچھا '' کیا آپ کو ڈرائیونگ آتی ہے؟'' اس نے انکار میں سر ہلا دیا' میں نے پوچھا '' کیا آپ رائفل چلا سکتے ہیں'' اس نے انکار کر دیا' میں نے پوچھا '' کیا آپ تاش کھیل سکتے ہیں'' اس کا جواب نفی میں تھا' میں نے اس سے پوچھا '' دنیا کا کوئی ایک کام جس کے بارے میں آپ کو پورا یقین ہو' یہ آپ آنکھیں بند کر کے کر سکتے ہیں'' وہ سوچ میں پڑھ گیا' میں اس کے چہرے کو دیکھتا رہا' اس کے چہرے پر پسینے کے سوا کچھ نہیں تھا' میں اپنے سوالوں اور اس کی حالت پر شرمندہ ہو گیا۔

میں نے اس سے عرض کیا ''بیٹا آپ کو اگر کچھ نہیں آتا تو پھر آپ کو نوکری کیوں دی جائے'' نوجوان نے جواب دیا '' سر میں سیکھ جاؤں گا' آپ بس مجھے موقع دیں'' میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے عرض کیا '' یہ جواب ثابت کرتا ہے' آپ کی سولہ سال کی تعلیم اور فرسٹ کلاس فرسٹ ڈگری نے آپ کو کچھ نہیں سکھایا' آپ یونیورسٹی سے کچھ سیکھ کر نہیں آئے اور آپ کی ڈگری محض ایک ٹکڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی'' وہ خاموش رہا لیکن اس کا چہرہ غصے سے تپ رہا تھا' اس کے گالوں پر جیسے آگ لگی ہوئی تھی' وہ چند لمحے خاموش رہا اور اس کے بعد بولا '' کیا آپ گھر سے سیکھ کر آئے تھے'' میں نے انکار میں سر ہلایا اور آہستہ آواز میں جواب دیا ''نہیں! میں نے یونیورسٹی دور میں سیکھنا شروع کیا تھا' میں نے ایم اے میں فیصلہ کر لیا تھا میں نے کالم نگار بننا ہے چنانچہ میں دن کے وقت یونیورسٹی میں پڑھتا تھا' شام کے وقت بہاولپور کے ایک اخبار میں مفت کام کرتا تھا' خبر بنانا سیکھتا تھا' سرخیاں لگاتا تھا اور کالم لکھتا تھا' میں روز آدھی کتاب بھی ختم کرتا تھا چنانچہ میں جب پہلی نوکری کے لیے گیا اور مجھ سے غیر ملکی' اردو اور انگریزی کے پانچ پانچ کالم نگاروں کے نام پوچھے گئے تھے تو میں نے چند منٹوں میں سارے نام لکھ دیے تھے'' اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور پوچھا '' آپ یقینا بجلی کی وائرنگ' دیواروں پر پینٹ اور موٹرمکینک کا کام بھی جانتے ہوں گے'' میں اس کا طنز بھانپ گیا' میں نے ہاں میں سر ہلایا اور عرض کیا' میں ساتویں اور آٹھویں کلاس میں شام کے وقت ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈر ریپیئر کرنے والے ایک شخص کے پاس جاتا تھا' میں نے آٹھویں جماعت میں یہ کام بھی سیکھ لیا اور بجلی کی وائرنگ بھی' میں بچپن میں دیواروں پر پینٹ بھی کر لیتا تھا اور میں نے ایف ایس سی میں رائفل کھولنے' جوڑنے اور نشانہ لینے کی ٹریننگ بھی لے لی' میں سکاؤٹ بھی بن گیا' میں نے کیمپنگ بھی کی اور میں نے بی اے میں ڈرائیونگ اسکول سے گاڑی چلانا بھی سیکھ لیا' میں گرمیوں کی چھٹیوں میں فری کوچنگ کلاسز لیتا تھا' میں چھوٹے بچوں کو پڑھانا سیکھتا تھا' میں نے آگ بجھانے کا ڈپلومہ بھی لیا اور میں نے سلائی مشینیں ٹھیک کرنے کا کورس بھی کیا''۔

اس نے قہقہہ لگایا اور بڑے دلچسپ ریمارکس دیے' اس کا کہنا تھا '' آپ ایک کنفیوژ شخصیت ہیں'' میں نے بھی قہقہہ لگایا اور عرض کیا '' ہاں آپ کہہ سکتے ہیں لیکن میں نے بچپن اور جوانی میں وقت ضایع نہیں کیا' میں سیکھتا رہا' میں آج بھی سیکھ رہا ہوں' یہ سوچ کر سیکھ رہا ہوں' مجھے اگر کسی دن صحافت چھوڑنی پڑ گئی تو میرے پاس کوئی نہ کوئی ایسا ہنر ضرور ہونا چاہیے جو مجھے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچا سکے' میں سلائی مشینیں ٹھیک کرنے کی دکان پر کام کر لوں' میں آگ بجھانے والی کمپنی میں کام کر لوں' میں بجلی کی وائرنگ کر لوں' دیواروں پر پینٹ کر لوں یا پھر کسی کا ڈرائیور بن جاؤں مگر بھکاری نہ بنوں' مجھے کسی انسان کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے'' وہ نوجوان تھوڑا سا شرمندہ ہو گیا' میں نے اس سے عرض کیا '' میری شدید خواہش ہے' میں روز کسی نہ کسی یونیورسٹی جاؤں اور وہاں موجود طالب علموں سے ایک سوال کروں' کیا تم کوئی ایسا ہنر جانتے ہو جو تمہیں فوری طور پر روزی دے سکے' تم جس کی مدد سے اپنا بوجھ اٹھا سکو' جس جس نوجوان کا جواب ہاں ہو اسے ڈگری دے دی جائے اور جو انکار کرے اسے ڈگری کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے کیونکہ جو ڈگری آپ کو ہنر نہیں دیتی' وہ ڈگری کاغذ کے معمولی ٹکڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی' وہ محض وقت کا ضیاع ہوتی ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
آئیے اس کالم کی تھیم کو ہم سب اپنی اپنی ذات پر اپلائی کرکے دیکھتے ہیں۔ اسے ایک کھیل، سمجھیں، تفریح گردانیں یا نئی نسل کے لئے مشعل راہ۔ سب سے پہلے میں اپنی ذات کو پیش کرتا ہوں۔ واضح رہے جس طرح اس کالم میں جاوید چوہدری کا مقصد ”خود نمائی“ نہیں ہے اسی طرح میرے ذاتی تجربات کی شیئرنگ کا مقصد بھی خدا نخواستہ ایسا نہیں ہے۔
  1. میرا بنیادی پیشہ صنعتی تجربہ گاہوں میں مادی اشیاء کا تجزیہ کرنا ہے۔ عرف عام میں مجھے لیبارٹری کیمسٹ کہتے ہیں۔ شوقیہ طور پر صحافی اور لکھاری بھی ہوں۔
  2. گو میں نے میٹرک اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا تھا لیکن میں اردو میڈیم ہونے کے سبب ایف ایس سی فرسٹ ایئر میں فیل ہوگیا۔ (جاوید چوہدری جب فرسٹ ایئر سائنس میں فیل ہوا تھا تو اس نے فوری فیصلہ کرتے ہوئے انٹر آرٹس میں داخلہ لے لیا تھا)۔ تین سال میں بمشکل ایف ایس سی پاس کرکے اردو کالج میں اردو میں بی ایس سی کرنے لگا۔ بددلی سے بمشکل بی ایس سی پاس کیا اور اسی کالج میں ایم ایس سی میں داخل ہوگیا۔ گویا میٹرک کے بعد ایم ایس سی تک ناکام طالب علم رہا۔
  3. ڈبل ہجرت کرنے کے سبب کراچی میں ہمارا گھر معاشی طور پر انتہائی کمزور تھا۔ والدصاحب کی کم آمدن کے سبب ہم ایک ایسے علاقے میں کرایہ کے مکانوں میں رہتے تھے جہاں گھر میں نہ بجلی تھا، نہ پانی، نہ گیس۔ باقی آ خود اندازہ لگالیں کہ گھر میں کیا کچھ ہوگا۔ پڑھنے کے لئے ایک ٹیبل سیکنڈ ہینڈ خریدا تھا، جس کے ساتھ کوئی کرسی نہ تھی۔ جبکہ مجھے تیسری جماعت سے غیر نصابی کتب پڑھنے اور آٹھویں جماعت سے لکھنے لکھانے کو شوق تھا۔ میٹرک انٹر تک میرا نام اخبارات میں چھپنے لگا تھا۔
  4. آٹھویں یا نویں جماعت ہی سے ٹیوشن پڑھانے کا آغاز کردیا تھا تاکہ اپنے تعلیمی اخراجات میں خود کفیل ہو سکوں۔ اسی ”خود کفالت“ کے سبب خراب تعلیمی کارکردگی کے باوجود ایم ایس سی تک پہنچ گیا۔ ٹیوشن کے ذریعہ خوب خوب کمایا۔ گھر کی حالت بھی بہتر ہوئی۔ جب ذاتی گھر کی تعمیر ہونے لگی تو اس میں مزدوری بھی کی مستری کا چھوٹا موٹا کام سیکھا بھی اور کیا بھی۔ گھر میں کنسیلڈ وائرنگ تن تنہا کی۔ اس زمانے میں ”اوپن وائرنگ“ کا رواج عام تھا۔ وائرنگ کا سارا سامان بھی خود اپنے ٹیوشن کے پیسوں سے خریدا۔ پلمبنگ اور گیس فٹنگ بھی خود کی۔ گھر میں پہلا پنکھا خرید کر لایا تو ہمشیرہ کو سینٹر لے کر جانا تھا۔ وہ تیار کھڑی تھیں۔ لیکن میں نے دس منٹ کا وقت مانگا اور جوش ہی جوش میں دس منٹ کے اندر اندر نیا پنکھا کھول کر چھت پر لگا دیا۔ آج الیکٹریشن بھی اس سے زیادہ وقت لیتا ہے۔ پورے گھر میں سالانہ سفیدی اور بعد ازاں کلر بھی خود ہی کیا کرتا تھا۔
  5. خود تو تعلیم کے میدان میں میٹرک کے بعد ”ناکام طالب علم“ ہی رہا، لیکن بطور ٹیوٹر ایک ”کامیاب استاد“ ثابت ہوا۔ میری ایک شاگردہ جسے میں نے چھٹی سے انٹر تک مسلسل ٹیشن پڑھایا، اس نے ایم ایس سی میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو یکساں پڑھاتا رہا۔ میرے شاگرد میری ہدایت پر مجھے سر نہیں بلکہ ”بھائی جان“ کہا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ ایک اسکول سے بھی وابستہ رہا۔ خود میرے چار بچوں میں سے تین کراچی کے ٹاپ میڈیکل، انجینئرنگ، بزنس ایڈمنسٹریشن جامعات کے طالبعلم رہے۔ چوتھا ابھی میٹرک میں ہے۔ اسی طرح تین بھانجے بھانجیوں کو بھی ٹاپ انجینئرنگ جامعہ تک پہنچایا۔ یون اپنی ”ناکام تعلیمی کارکردگی“ کا ”بدلہ“ لیا (ابتسامہ)
  6. دوران طالب علمی اسکول سے ایم ایس سی تک لکھنے لکھانے کا بھی شغل رہا۔ کالج میگزین کی ادارت بھی کی۔ ایک ملک گیر طلبہ تنظیم سے بھی وابستگی رہی۔ خود اپنی ایک علاقائی طلبہ تنظیم بھی قائم کی۔ اس پلیٹ فارم سے اخبارات میں بیان بازیاں اور فلاحی کام بھی کئے۔ ایک قومی اخبار میں فل صفحہ کا اپنے علاقہ کے مسائل پر مبنی فیچر بھی شائع کروایا، جس کا بیشتر مواد خود لکھا۔ بعد ازاں اس روز کا اخبار بھی صبح سے شام تک علاقے میں بیچتا رہا کہ اخبار کے مالکان نے فیچر چھاپنے کے بعد 500 کاپیاں میرے نام دے گئے تھے، جس کی پیمنٹ مجھے کرنی تھی۔
  7. ایم ایس سی نامکمل چھوڑ کر ایک ملٹی نیشنل صنعتی ادارے سے دو سالہ لیب اینی لیٹیکل کورس کیا اور چار سال تک کراچی سے باہر جاب کیا۔ کراچی میں جاب ملتے ہی صحافت میں ایم اے کیا۔ اور کئی سالوں تک مختلف اخبارات و جرائد میں مفت کام کیا اور اخباری ہنر سیکھے۔ جس کے بعد ایک نیوز ایجنسی میں پہلے پارٹ ٹائم پھر فل ٹائم جاب ملی۔ پھر جنگ کو جوائن کیا۔ واضح رہے کہ اخبارات کی جاب شام سے رات تلک ہوتی ہے۔ میں دن کو لیبارٹری میں اور رات گئے تک صحافت مین ڈبل جاب کرتا رہا۔ اس دوران دوران کالم بھی لکھے، فیچر بھی اور ادبی و صحافتی مضامین بھی۔ ادبی تنظیموں سے بھی وابستگی رہی اور ایک ادبی کتاب بھی شائع ہوئی۔
  8. پھر اللہ نے ہدایت دی تو ادب ودب کو عملاً چھوڑکر قرآن و حدیث پر مبنی کتب کمپائل کرنے لگا۔ اب تک کئی کتب کے متعدد ایڈیشنز شائع کرچکا ہوں۔ ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت بھی جاری ہے۔ سب بچوں کے لئے علیحدہ علیحدہ رہائش تقریباً تیار کروادی ہے تاکہ شادی کے بعد وہ آزادانہ زندگی گذارسکیں۔ والدین کے علاوہ بیگم سمیت خود حج کا فریضہ ادا کرچکا ہوں۔ ایک مرتبہ سارے بچوں کو عمرہ پر لے جاچکا ہوں۔ کسی بھی سیاسی یا دینی جماعت سے ”وابستہ“ نہیں کہ اس قسم کی وابستگیاں عموماً پاؤں کی زنجیر بن جایا کرتی ہیں۔ اور آپ بہت سے ”دنیوی فرائض“ اپنی سہولت ک مطابق ادا نہیں کرسکتے۔
  9. اللہ سے دعا ہے کہ ہمیشہ اپنے دین پر قائم رکھے، لغزشوں کو معاف فرمائے اور آخرت مین اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے آمین ثم آمین
اب اگلی لائف اسٹوری کون سنائے گا؟؟؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
محترم کنعان صاحب کی باری ہونی چاہیے ۔
کنعان صاحب میرے دھاگہ کو مفید اور آپ کی ”تجویز“ پر شکریہ ادا کرکے ”پھنس“ تو چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی کہانی کب بیان کرتے ہیں (ابتسامہ)
ویسے ”دنیا داروں“ کی آپ بیتیاں تو اکثر و بیشتر پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دینی حلقوں کے وابستگان بھی اپنی داستان سے ہمیں مستفید فرمائیں۔ پھر آپ کب اپنی کہانی پیش کررہے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,767
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کیا ہی اچھا ہو کہ دینی حلقوں کے وابستگان بھی اپنی داستان سے ہمیں مستفید فرمائیں۔
ایسی بات ہے تو پھر
استاد محترم انس نضر صاحب سے گزارش کرتے ہیں ۔
کہانی تو شیخ کفایت اللہ صاحب کی بھی بہت دلچسپ ہو گی اگر وہ وقت نکال سکیں ۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بہت خوب!
کچھ دنوں سے اس ایسے کالمز،مضامین کا انتظار کر رہی تھی۔ ۔ یہ چیزیں پڑھ کر انسان متحرک ہوتا ہے۔ لیکن شاید لوگ اپنی آپ بیتی سنانے میں اپنی تحقیر محسوس کرتے ہیں۔۔جبھی بارش کا پہلا قطرہ کوئی نہیں بنتا۔ ۔ اسی سے متعلق ایک اور دھاگہ شروع کرنے کی سوچ تھی،یہاں ردِعمل دیکھ کر اس دھاگہ کے مستقبل متعلق اندازہ ہو گا!
مجھے اس بات کی قطعی سمجھ نہیں آتی کہ ہم اپنے بچپن،پرانے گھر کو یاد نہیں رکھتے،پرانے پڑوسیوں سے ملنا نہیں چاہتے شاید اس لیے کہ وہ ہمیں ہمارا ماضی یاد دلا کر ہماری تحقیر نہ کردیں۔ حالانکہ ہم اب خوشحال ہیں۔۔مگر نجانے کیا انجانا خوف ہے جو ماضی کی ہر یاد اور بات کو کچل دیتا ہے!
مجھے کبھی بھی اپنا پرانا گھر،پرانی یادیں نہیں بھولیں۔ ۔گھر دو کمروں کا بھی تھا،دو منزلہ بھی تھا ۔ ۔ایک منزلہ بھی ہے!!کبھی تحقیر محسوس ہوئی نہ فخر!کبھی گوشت کے بغیر کھانا نہیں بنتا تھا کبھی گوشت بنتا ہی نہیں تھا!!یہ سب زندگی کے رنگ ہیں۔ ۔ بر تر وکم تر جانچنے کے پیمانے نہیں!!
شخصیت اچھی ہو تو غربت کچھ بری نہیں!!اور ہم شخصیت برا ہونے پر تحقیر محسوس نہیں کرتے۔۔غربت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں!!
ابھی سینیئر ارکین حصہ ڈالیں،جلد ہم بھی حاضر ہوں گے:)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,767
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ابھی سینیئر ارکین حصہ ڈالیں،جلد ہم بھی حاضر ہوں گے:)
سینیر رکن یوسف ثانی صاحب نے حصہ ڈال دیا اور آپ کی شرط پوری ہوگئ ۔ اب بسم اللہ کریں ۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326

ابھی سینیئر اراکین حصہ ڈالیں،جلد ہم بھی حاضر ہوں گے:)
سینیر رکن یوسف ثانی صاحب نے حصہ ڈال دیا اور آپ کی شرط پوری ہوگئ ۔ اب بسم اللہ کریں ۔
رکن اور اراکین میں خاصا فرق ہوتا ہے:)شرط نا مکمل ٹھہری!
کم از کم اوپر مینشن کردہ اراکین تو بارش کا اگلا قطرہ بنیں۔۔
 
Top