• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آدم علیہ السلام اور نبیﷺ کا جنت دیکھنااورحدیث: ما لا عين رأت۔۔

حمزہ

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2014
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
28
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث قدسی ہے
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْأَشْعَثِيُّ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا و قَالَ سَعِيدٌ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزِّنَّادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ مِصْدَاقُ ذٰلِکَ فِي کِتَابِ اللہِ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوا يَعْمَلُونَ۔
سعید بن عمرو اشعثی، زہیر بن حرب، سفیان، ابی زنّاد، اعرج، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل نے فرمایا میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے(جنت میں) ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر ان کا خیال گزرا، اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود ہے فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوا يَعْمَلُونَ۔ ’’سو کسی نفس کو معلوم نہیں کہ جو نعمتیں ان کے لئے چھپا رکھی ہیں ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے بدلہ ہے اس کا جو وہ کرتے تھے‘‘۔(صحیح مسلم 7113)

دوسری احادیث صحیحہ میں بیان آتا ہے کہ حضور ﷺ نے جنت دیکھی مثلاً صحیح بخاری حدیث نمبر 1052 میں
حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے
قَالَ صلى الله عليه وسلم ‏"‏إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ، فَتَنَاوَلْتُ عُنْقُودًا، وَلَوْ أَصَبْتُهُ لأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا، وَأُرِيتُ النَّارَ،۔۔۔۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی اور اس کا یک خوشہ توڑنا چاہا تھا اگر میں اسے توڑ سکتا تو تم اسے رہتی دنیا تک کھاتے اور مجھے جہنم بھی دکھائی گئی۔۔۔

ا
س کے علاوہ متعدد روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے جنت دیکھی۔ اور قرآن مجید میں بھی اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے کہ
وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
''اور ہم نے کہا آدم سے تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں چاہو اس میں سے کھاو مگر شجر ممنوعہ کےقریب نا جانا ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جاو گے''

میرا سوال یہ ہے کہ آیا کسی نے جنت دیکھی؟ اگر ہاں تو مذکورہ حدیث قدسی کا مطلب کیا ہو گا؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
دونوں قسم کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔
سب سے پہلے یہ ذہن نشین کرلیں کہ جنت نہ دیکھنے کی بات کسی بھی حدیث میں نہیں ہے بلکہ حدیث میں صرف جنت کی خاص نعمتوں کے نہ دیکھنے کی بات ہے۔
لہذا جن نعمتوں کو آدم علیہ السلام اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیکھا ہے وہ ان نعمتوں سے الگ ہیں جن کے نہ دیکھنے کی بات کہی گئی ہے۔

بلکہ نہ دیکھنے والی احادیث میں سے ایک حدیث میں یہ وضاحت بھی ہے کہ اس سے مراد وہ نعمتیں ہیں جن پر کسی کو مطلع نہیں کیا گیا ہے۔ چنانچہ:

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: " أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ، مَا لاَ عَيْنٌ رَأَتْ، وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ذُخْرًا بَلْهَ مَا أُطْلِعْتُمْ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَرَأَ: {فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} (السجدة:١٧ ) قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ قَرَأَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قُرَّاتِ أَعْيُنٍ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیکوکار بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہ دیکھا اور کسی کان نے نہ سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی گمان و خیال پیدا ہوا۔ یہ ان کے علاوہ ہیں جن پر تمہیں مطلع کیا گیا ہے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما كانوا يعملون‏» کہ ”سو کسی نفس مومن کو معلوم نہیں جو جو سامان آنکھوں کی ٹھنڈک کا (جنت میں) ان کے لیے چھپا کر رکھا گیا ہے، یہ بدلہ ہے ان کے نیک عملوں کا جو دنیا میں کرتے رہے۔“[صحيح البخاري 6/ 116 رقم 4780]

اس حدیث میں ”بله“ کا کیا مفہوم ہے اس بارے میں شارحین حدیث کا اختلاف ہے ۔
لیکن حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس کا راجح مفہوم بتلاتے ہوئے لکھتے ہیں:
قلت وأصح التوجيهات لخصوص سياق حديث الباب حيث وقع فيه ولا خطر على قلب بشر دخرا من بله ما أطلعتم أنها بمعنى غير وذلك بين لمن تأمله والله أعلم
میں (حافظ ابن حجر) کہتاہوں کہ: خاص طور سے اسی حدیث کے سیاق ”اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی گمان و خیال پیدا ہوا۔ سوائے ان نعمتوں کے جن پر تمہیں مطلع کردیا گیا ہے“ کے پیش نظر سب سے صحیح توجیہ یہ ہے کہ ”بله“ یہاں ”غير“ کے معنی میں ہے۔ اور غور کرنے والے کے لئے یہ بات بالکل واضح ہے۔[فتح الباري لابن حجر 8/ 517]

حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی راجح قراردی گئی توجیہ کے پیش نظر ”بَلْهَ مَا أُطْلِعْتُمْ عَلَيْهِ،“ کا ترجمہ یہ ہوگا (یہ ان کے علاوہ ہیں جن پر تمہیں مطلع کیاگیا ہے)۔
 
Top