• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ اپنی عمر میں اضافہ کیسے کرسکتے ہیں؟

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آپ اپنی عمر میں اضافہ کیسے کرسکتے ہیں؟​



ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی​


الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امابعد:

برادران اسلام!

دنیا کا ہرانسان لمبی زندگی گذارنا چاہتا ہےاورہرانسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس دنیا میں لمبی عمر پائےاور یہی وجہ ہے کہ ہر انسان موت سے نفرت کرتاہے حالانکہ موت مومن کے لئے دنیاکی فتنوں سے کئی گنا بہتر ہے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے:’’ اِثْنَتَانِ يَكْرَهُهُمَا ابْنُ آدَمَ اَلْمَوْتُ وَالْمَوْتُ خَيْرٌ لِلْمُؤْمِنِ مِنَ الْفِتْنَةِ وَيَكْرَهُ قِلَّةَ الْمَالِ وَقِلَّةُ الْمَالِ أَقَلُّ لِلْحِسَابِ ‘‘ کہ ہرانسان دوچیزوں سے نفرت کرتا ہے نمبر ایک موت سے حالانکہ موت ایک مومن کے لئے فتنے سے بہتر ہوتی ہے اور دوسری چیز جس سے ہرانسان نفرت کرتا ہے وہ مال کی قلت ہے حالانکہ مال کی قلت کم حساب دینے کا سبب ہے۔ (احمد:23625،الصحیحۃ للألبانیؒ:813)جیسا حبیب کائناتﷺ نے کہا ہے آج ہماری حالت بالکل ویسی ہی ہے ، دنیا کی محبت ہمارے دلوں میں اتنی رچ اور بس گئی ہے کہ ہم موت کے نام سے ہی ڈرجاتے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کبھی مرنا ہی نہیں ہے ،ہم میں سے ہرانسان کی یہ خواہش اور یہ تمنا ہے کہ اسے لمبی حیات ملےاور اس کی عمر 100 سال سے کم نہ ہو مگرآپ یہ بات یاد رکھ لیں کہ اگرکسی کولمبی عمرمل جائے تویہ خوش نصیبی اور خوش بختی کی بات نہیں ہے بلکہ خوش نصیبی اور خوش بختی کی بات تو یہ ہے کہ انسان کو لمبی عمر ملے اور وہ نیکیوں کو خوب خوب انجام دے جیسا کہ ابو بکَرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی آپﷺ کے پاس آیا اور سوال کیا کہ اے اللہ کہ نبیﷺ ’’ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ ‘‘ لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ مَنْ طَالَ عُمْرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ ‘‘ جس کی عمر لمبی ہو اور وہ انسان نیک اعمال بھی بجالاتا ہو ،پھر اس نے سوال کیا کہ اے اللہ کے نبی اکرم ومکرمﷺ آپ یہ بھی بتادیں کہ ’’ فَأَيُّ النَّاسِ شَرٌّ ‘‘ لوگوں میں سب سے برا کون ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ’’ مَنْ طَالَ عُمْرُهُ وَسَاءَ عَمَلُهُ ‘‘ جس کی عمر تولمبی ہومگر وہ برے اعمال کرتا ہو۔(احمد:20443،ترمذی:2330،صححہ الالبانیؒ)

میرے دوستو! اللہ رب العزت نے جو ہم کو اورآپ کو عمرعطا کی ہے اس عمر کے بارے میں امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ ہرانسان کی عمر کی دو قسمیں ہیں ایک عمر مطلق یعنی کہ انسان کی وہ عمر جو کبھی بھی تبدیل نہیں ہوسکتی ہے اور وہ اللہ کے علم میں ہے اور دوسری قسم ہے عمر مقید یعنی کہ انسان کی وہ عمر جو اس کتاب میں لکھی ہوئی ہے جو سماء دنیا پر موجود ہےاور جس کے مطابق فرشتے اللہ کے حکم واجازت سے دنیاوی امور کو انجام دیتے ہیں،اب عمرکے گھٹنے اور بڑھنے کو ایک مثال کے ذریعے سمجھئے کہ اللہ نے کسی کی عمر پچاس سال لکھ دی ہے اب جو کتاب سماء دنیا پر موجود ہے اس کے اندر یہ بات بھی لکھی ہوتی ہے کہ اگر اس نے نیکیوں کو انجام دیا تو اس کی عمر پچاس سال نہیں بلکہ ساٹھ اور ستر سال ہے اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے رب العزت نے فرمایا کہ ’’ يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ‘‘ اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے ثابت رکھے،لوح محفوظ اسی کے پاس ہے۔(الرعد:39) اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے سیدنا علیؓ نے کہا کہ اللہ کے پاس دو کتابیں ہیں ایک ام الکتاب جس کے اندر کوئی رد وبدل نہیں کیا جاتا ہے اور دوسری کتاب وہ ہے جو سماء دنیا پر موجود ہےاور اس کے اندر رب العزت جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے اور جوچاہتا ہے باقی رکھتا ہے،کسی کے عمر میں اضافہ کردیتا ہے تو کسی کے عمر کو گھٹا دیتا ہے،کسی کی سعادت کو بدبختی سے اور کسی کی بدبختی کو سعادت سے تبدیل کردیتا ہے۔(کیف تطیل عمرک:ص4)اور یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابن مسعودؓ اور سیدنا ابووائلؓ اوردیگرصحابۂ کرامؓ یہ دعا کیاکرتے تھے کہ ’’ أَللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنَا أَشْقِيَاءَ فَامْحُ وَاكْتُبْنَا سُعَدَاءَ وَإِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنَا سُعَدَاءَ فَأَثْبِتْنَا فَإِنَّكَ تَمْحُو مَا تَشَاءُ وَتُثْبِتُ وَعِنْدَكَ أُمُّ الْكِتَابِ ‘‘ اے اللہ اگر تونے میرے نصیب میں بدبختی لکھ دی ہے تو تو اسے مٹا کر اس کی جگہ سعادت ونیک بختی لکھ دے اور اگر تو نے میرے نصیب میں سعادت و نیک بختی لکھ رکھی ہےتو تو اسے ہمیشہ قائم ودائم رکھ ،اے اللہ! تیرے پاس ہی تو ام الکتاب ہے تو جوچاہتا ہے مٹادیتا ہے اور جوچاہتاہے باقی رکھتا ہے،اسی طرح سے ابوعثمان النھدی سیدنا عمربن خطابؓ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ وہ دوران طواف روتے ہوئے یہ دعا پڑھا کرتے تھے ’’ أَللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِي فِي أَهْلِ السَّعَادَةِ فَأَثْبِتْنِي فِيهَا وَإِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِي فِي أَهْلِ الشَّقَاوَةِ وَالذَّنْبِ فَامْحُنِي وَأَثْبِتْنِي فِي أَهْلِ السَّعَادَةِ وَالْمَغْفِرَةِ فَإِنَّكَ تَمْحُو مَا تَشَاءُ وَتُثْبِتُ وَعِنْدَكَ أُمُّ الْكِتَابِ ‘‘ اے اللہ اگر تونے میری تقدیر ونصیب میں سعادت مندی ونیک بختی لکھ رکھی ہے تو تو اسے قائم ودائم رکھ اوراگر تو نے میری تقدیر ونصیب میں بدبختی وگناہ کو لکھ دیا ہےتو تو اسے مٹاکر اس کی جگہ پر نیک بختی اور مغفرت کو لکھ دے،بے شک کہ تیرے پاس ہی تو لوح محفوظ ہے تو جوچاہتا ہے مٹادیتا ہے اور جو چاہتا ہے اس کو باقی رکھتا ہے۔(تفسیر قرطبی:9/330،واحسن البیان،ص:692)ان تمام تفصیلات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اس بات میں کوئی شک ہی نہیں ہےکہ ایک انسان کی عمر میں کمی وبیشی کی جاتی ہے چنانچہ اہل علم نے ان تمام نصوص قرآنی اور احادیث نبویﷺجن میں عمروں کے اضافہ کئے جانے کا ذکر ہے ان سب کا معنی ومفہوم تین طرح سے بیان کیا ہے:

(1) عمر میں زیادتی اس سے مراد یہ ہے کہ حقیقی معنوں میں ایک انسان کی عمر میں اضافہ کردیا جاتاہے۔

(2) عمر میں زیادتی اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ ایک انسان کی عمر میں برکت رکھ دیتا ہے اور یہ برکت اس طرح سے ہوتی ہےکہ اسے ان تمام عبادتوں اور نیکیوں کو انجام دینے کی توفیق مل جاتی ہے جس سے آخرت کے دن اسےفائدہ پہنچے اور اللہ ایسے انسان کے وقتوں کو ضائع وبرباد ہونے سے بھی بچالیتاہے۔

(3) عمر میں زیادتی اس سے مراد یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی ایک انسان کا نام باقی رہتا ہے وہ اس طرح سے کہ کئی دہائیوں تک لوگ اس کی اچھائیوں،اخلاق وکردار اور علم وفضل وغیرہ کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو!اب آئیے ہم آپ کے سامنے میں احادیث صحیحہ کی روشنی میں ان باتوں کو بیان کرتے ہیں جن پر عمل کرنے سے ایک انسان کی عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے:

(1)ایمان:

(2)تقوی :

(3)اعمال صالحہ :

اپنے اندرایمان وتقوی کی صفت پیدا کرنااور دل میں ہرآن وہرلمحہ اللہ کا ڈر وخوف رکھنا اور مسلسل نیکیوں کو انجام دینا یہ تین ایسے اعمال ہیں جس کی وجہ سے ایک انسان کے عمروں میں اضافہ ہوجاتا ہےجیسا کہ سورہ نوح کے اندر رب العزت نے حضرت نوح علیہ السلام کی ان نصیحتوں کا ذکر کیا ہےجوانہوں نے اپنی قوم سے کیاتھا کہ ’’ يَاقَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ،أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ، يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ‘‘ اے میری قوم! میں تمہیں صاف صاف ڈرانے والاہوں کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو اور میرا کہنا مانو(اوراگر تم میری اطاعت کروگے )تو وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں ایک وقت مقررہ تک چھوڑدے گا۔(نوح:2-4)قرآن کی اس آیت سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ تقوی وللہیت ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے ایک انسان کی موت کو بھی مؤخر کرکے اس کی عمر میں اضافہ کردیا جاتا ہے اسی بات کو حبیب کائناتﷺ نے کچھ یوں بیان کیا کہ ’’ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَجَلِهِ فَلْيَتَّقِ اللَّهَ وَلْيَصِلْ رَحِمَهُ ‘‘ جس انسان کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں اضافہ کردیا جائے اور اس کے عمر کو بڑھا دیا جائے تو وہ انسان اللہ کا تقوی اختیار کرے اور صلہ رحمی کرے۔(رواہ صحیح ابن حبان عن انس:440،وصححہ الالبانیؒ)اسی طرح سے ایک دوسری روایت کے اندر ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُمَدَّ لَهُ فِي عُمْرِهِ وَيُوَسَّعَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُدْفَعَ عَنْهُ مِيتَةُ السُّوءِ فَلْيَتَّقِ اللهَ وَلْيَصِلْ رَحِمَهُ ‘‘ یعنی کہ جو انسان اس بات کو پسند کرتاہوکہ اس کی عمر لمبی کردی جائےاور اس کے رزق میں اضافہ کردیا جائے اور اسے بری موت سے بچالیاجائے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور صلہ رحمی کرے۔(رواہ احمد عن علی:1212واسنادہ صحیح)

میرے دوستو! تمام عبادتوں کی روح تقوی ہے یہی وجہ ہے کہ حبیب کائناتﷺ نے ہرچیز کی اصل تقوی کو قراردیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّهِ فَإِنَّهُ رَأْسُ كُلِّ شَيْءٍ ‘‘ اے لوگو! میں تمہیں تقوی کو اختیارکرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ تقوی ہی ہرچیز کی اصل ہے۔(احمد:11774،الصحیحہ:555)اور تقوی کہتے ہی ہیں کہ ہرطرح کی برائیوں سے اپنے آپ کو بچاکراللہ کی عبادت وبندگی کرناپس نیکیوں کوانجام دینے کا نام ہی تقوی ہے،ویسے نیکیوں سے عمروں میں اضافہ کیا جاتا ہے اس بات کا صراحتاً ذکر کرتے ہوئے محبوب خداﷺ نے فرمایا ’’ لَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ وَلَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ ‘‘ کہ نیکیوں سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور دعا سے تقدیر بھی پلٹ جاتی ہے۔(رواہ ابن ماجہ عن ثوبانؓ:90،الصحيحة:154)

(4) والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا:

(5) صلہ رحمی کرنا:

جن عملوں کی وجہ سے ایک انسان کے عمروں میں اضافہ کردیا جاتا ہے اس میں سے چوتھی چیز ہے اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا،ان کے حقوق کو ادا کرنا اور ان کی خدمت کرنا ہےاور پانچویں چیزاپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ہےجیسا کہ سیدناانسؓ بیان کرتے ہیں کہ آقائے کریمﷺ نے فرمایا’’مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُمَدَّ لَهُ فِي عُمْرِهِ وَأَنْ يُزَادَ لَهُ فِي رِزْقِهِ فَلْيَبَرَّ وَالِدَيْهِ وَلْيَصِلْ رَحِمَهُ ‘‘ جس انسان کی یہ خواہش ہو کہ اس کی عمرکودراز کردیا جائے اور اس کے رزق میں کشادگی کردی جائے تو وہ انسان اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کر اور اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔(احمد:13401)ایک دوسری روایت کے اندر ہے سیدناانسؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ أَوْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ ‘‘ کہ جوشخص اپنی روزی میں کشادگی چاہتاہو یا لمبی عمر پانا چاہتاہو تو اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ (بخاری:2067،مسلم:2557)

ذرا غور سے فرمان مصطفیﷺ کو پڑھئےاورسنئے اورپھر اپنے سماج ومعاشرے کا جائزہ لیجئے کہ لوگ کتنے بڑے بیوقوف اور نادان ہیں کہ لمبی عمر پانے کے لئے کیسے کیسے حرکات وسکنات کرتے ہیں اور کیسی کیسی چیزیں کھاتے ہیں، کوئی جِم کرتا ہے تو کوئی یوگا کرتا ہے تو کوئی طرح طرح کے پھل وسبزیاں کھاتاہے مگر وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنےتیار نہیں ہیں،کتنے ایسے لوگ ہیں جو مہینوں اور سالوں سال سےاپنے رشتے داروں اور اپنےوالدین سے قطع تعلقی کئے ہوئے ہیں اور کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنے والدین سے زیادہ اپنے ساس اور سسر کی ہی خدمت کرتے ہیں اور کہتے بھی ہیں کہ میرے ساس وسسر میرے ماں باپ ہی نہیں بلکہ میرے ماں باپ سے بڑھ کرہیں۔العیاذ باللہ۔۔ ایسے تمام لوگوں کو اللہ سے ڈرنی چاہئے اور اپنی آخرت کی فکرکرنی چاہئے کہ اللہ ان سے ساس اور سسر کے بارے میں نہیں پوچھے گا مگر والدین کے بارے میں تو ضرور سوال کرے گا ، اسی طرح سے بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو اپنے رشتے داروں سےسالوں سال سے قطع تعلقی اختیار کئے ہوئے ہیں ،سماج ومعاشرے کے اندرکتنے ایسے لوگ ہیں جوغیروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں مگر اپنوں کے ساتھ تلخ لہجہ اور سخت رویہ اختیارکرتے ہیں،اسی طرح سے سماج ومعاشرے کے اندر کتنے ایسے لوگ ہیں جو غیروں کی مدد کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں مگر اپنے رشتے داروں کو ایک پھوٹی کوڑی بھی دینا پسند نہیں کرتے ایسے تمام لوگوں کو اللہ سے ڈرنی چاہئے اور اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہئے کہیں ایسا نہ ہوں کہ ماں باپ کے ساتھ کی گئی بدسلوکی اور رشتے داروں کے ساتھ قطع تعلقی انہیں ہلاک برباد کردے۔

میرے دوستو!!یہ بات بھی یاد رکھ لیں کہ جہاں ایک طرف والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے سے عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے اور رزق میں کشادگی ہوجاتی ہے وہیں پر دوسری طرف والدین کو رلانے اور رشتے داروں سے قطع تعلقی اختیار کرنےسے دنیا میں ہی سزا دی جاتی ہے جیسا کہ فرمان مصطفی ﷺ ہے’’ كُلُّ ذُنُوبٍ يُؤَخِّرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا الْبَغْيَ وَعُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ أَوْ قَطِيعَةَ الرَّحِمِ يُعَجِّلُ لِصَاحِبِهَا فِي الدُّنْيَا قَبْلَ الْمَوْتِ ‘‘ کہ تمام گناہوں میں سے اللہ تعالی جس کی چاہے سزا مؤخر کردے سوائے ظلم وسرکشی اور والدین کی نافرمانی یا قطع رحمی کےچنانچہ ان گناہوں کے مرتکب کو اللہ تعالی مرنے سے پہلےپہلے دنیا میں ہی بہت جلد سزا دیتا ہے۔(صحیح الادب المفرد للألبانیؒ:591) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اِثْنَانِ يُعَجِّلُهُمَا اللَّهُ الْبَغْيُ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ ‘‘ ظلم اور والدین کی نافرمانی یہ دوایسے گناہ ہیں جن کی سزا دنیا ہی میں جلد دی جاتی ہے۔(الصحیحۃ للألبانیؒ:1120)اسی لئے میرے دوستو!اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کر واور رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو اور بس یہ حدیث یاد رکھو کہ’’أَلرَّحِمُ مَنْ وَصَلَهَا وَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعَهُ اللَّهُ ‘‘ رشتے داری ایک ایسی چیز ہے کہ جو اسے ملائے گا اللہ اس کو ملائے گا اور جو رشتے داری کو توڑے گا اللہ اس کو توڑدے گا۔ (ترمذی:1924،مسنداحمد:24336،اسنادہ صحیح)

(6) حسن اخلاق:

(7) پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا:

جن عملوں کی وجہ سے ایک انسان کے عمر میں اضافہ کردیا جاتا ہے ان میں سے چھٹی چیز اخلاق حسنہ یعنی کہ اچھے اخلاق وکردار کو اپنانا ہے اور ساتویں چیز اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ہے ،افسوس صد افسوس مذہب اسلام میں جتنا ان دونوں چیزوں پر زور دیا گیا ہے آج اتنے ہی ہم مسلمان ان دونوں چیزوں سے دورہوچکے ہیں اور آج یہ دونوں چیزیں ہمارے پاس نہیں ہیں نہ ہم اچھے اخلاق وکردار کے مالک ہیں اور نہ ہی ہمارا پڑوسی ہماری شرارتوں سے بچاہوا ہے جب کہ یہ دونوں چیزیں اسلام کی شان اور مسلمانوں کی پہچان ہے،دین ودنیا میں عزت وبلندی عطا کرنے والی چیز ہےجیسا کہ اماں عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حبیب کائنات ومحبوب خداﷺ نے کہا کہ جس شخص کو بھی نرمی عطا کی گئی اسے دنیا وآخرت کی ساری بھلائیاں عطا کی گئی اور’’ وَصِلَةُ الرَّحِمِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ وَحُسْنُ الْجِوَارِ يَعْمُرَانِ الدِّيَارَ وَيَزِيدَانِ فِي الْأَعْمَارِ ‘‘ صلہ رحمی ،اچھا اخلاق اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنایہ ایسی چیزیں ہیں جو علاقوں کو آباد کرتی ہیں اور عمروں میں اضافہ کرتی ہیں۔( احمد:25259،الصحیحۃ للألبانیؒ:519)

میرے دوستو!اس حدیث میں عمر میں اضافہ کرنے والی تین باتوں کا ذکر ہے پہلی بات تو صلہ رحمی ہےجس کے بارے میں آپ نے سن لیا ہے دوسری بات حسن اخلاق ہے:

برادران اسلام! اخلاق حسنہ ہی وہ چیز ہے جس کی تکمیل کے لئے رحمت دوعالم ﷺ کو مبعوث کیا گیا۔(الصحیحۃ :45)اخلاق حسنہ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو اپنا کر ایک انسان مسلسل روزہ رکھنے والے اورمسلسل تہجد کی نماز پڑھنے والے انسان کے درجات ومقام کو حاصل کرسکتاہے،(الصحیحۃ:522)اخلاق حسنہ ہی وہ چیز ہے جس کو اپنا کر ایک انسان اللہ اور اس کے رسولﷺ کا محبوب بن سکتاہے۔(الصحیحۃ:791)اخلاق حسنہ ہی وہ چیز ہے جو ایک انسان کو بروز قیامت نبی کی صحبت ومعیت دلاسکتی ہے۔ (الصحیحۃ:751)اخلاق حسنہ ہی وہ چیز ہے جس کو اپنا کر ہی ایک مسلمان کامل مومن بن سکتاہے(الصحیحۃ:159)اخلاق حسنہ وہ چیز ہے جس کی وجہ سے سب سے زیادہ لوگ جنت کے اندر جائیں گے(ابن ماجه:4246،اسنادہ:صحیح)اخلاق حسنہ ہی وہ چیز ہے جس کو اپنا کر ایک انسان جنت کے اعلی حصے میں ایک محل کا بھی حقدار بن سکتاہے۔(ابوداؤد:4800 اسنادہ:حسن)اخلاق حسنہ ہی وہ چیز ہے جو میزان میں سب سے زیادہ وزنی ہوگا(ابوداؤد:4799 اسنادہ:صحیح) اخلاق حسنہ کیا چیز ہے آئیے اس بارے میں ایک اثر کو سنتے ہیں سیدہ ام درداءؓ بیان کرتی ہیں کہ ان کے شوہر ابوداردءؓ رات میں تہجد کی نماز پڑھتے اور روتے ہوئے باربارصبح ہونے تک یہی دعا کرتے رہتے کہ ’’ أللَّهُمَّ أَحْسَنْتَ خَلْقِي فَأَحْسِنْ خُلُقِي ‘‘اے اللہ تونے مجھے بہت خوبصورت شکل وصورت عطا کی ہے پس تو میرے اخلاق وکردار کو بھی اچھا کردے۔(یہ دعا صحیح سند سے آپﷺ سے بھی ثابت ہے،احمد:3823)تو ام درداءؓ نے پوچھا کہ اے میرے شوہر آپ پوری رات اخلاق حسنہ کی دعا ہی کیوں کرتے ہیں؟تو انہوں نے جواب دیا کہ اے ام درداءؓ بے شک کہ ایک مسلمان جب اچھے اخلاق والا ہوجاتا ہے تو یہ حسن اخلاق اس کو جنت میں داخل کردے گی اور جب ایک انسان برے اخلاق والا ہوجاتاہے تو یہ برے اخلاق وکردار اس کو جہنم میں داخل کردے گی۔(الزھد لاحمد بن حنبل ص:140 بحوالہ کیف تطیل عمرک ص:100)الغرض اچھا وعمدہ اخلاق ایک ایسی چیز ہے جو ایک انسان کو دنیا وآخرت میں کامیابی دلاتی ہےیہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث میں باربار اخلاق حسنہ کو اپنانے کی تلقین کی گئی ہے اور خودآپﷺ بھی جب نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتےتواچھے اخلاق وکردار کی دعا مانگا کرتے تھے اور برے اخلاق وکردار سے اللہ کی پناہ پکڑا کرتے تھے جیسا کہ مسلم شریف حدیث نمبر771 کے اندر یہ بات مذکور ہے کہ جب آپﷺ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو جو دعائیں پڑھا کرتے تھے اس میں سے ایک دعا کے اندریہ بات ہوا کرتی تھی کہ ’’ أللَّهُمَّ اهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ ‘‘ اے اللہ اچھے اخلاق وکردار کی طرف تو ہی رہنمائی کرتا ہے پس تو میری رہنمائی اچھے اخلاق وکردار کی طرف کردے اور اے اللہ تو مجھ سے برے اخلاق وکردار کو دور کردے کیونکہ تیرے سوا مجھ سے برے اخلاق وکردار کو کوئی دور نہیں کرسکتا۔(مسلم:771) دیکھا اور سنا میرے دوستو آپ نے کہ کس طرح سے آپﷺ اخلاق حسنہ کی دعا نماز میں کیا کرتے تھے اور شریعت میں اخلاق حسنہ کو اپنانے پر کتنا زور دیا گیا ہے مگر ہائے افسوس جس امت کے نبی اعلی اخلاق وکردار کے مالک تھے اور جس شریعت نے سب سے زیادہ اپنے ماننے والوں کو اخلاق حسنہ کو اپنانے کی تعلیم دی آج اسی شریعت کے ماننے والے لوگ سب سے زیادہ برے اخلاق والے ہوچکے ہیں،برے اخلاق وکردار آج مسلمانون کی پہچان بن چکی ہےاور ہم مسلمانوں کی یہی بداخلاقی سب سے بڑی وہ ہتھیار ہے جس کا سہارا لے کردشمنان اسلام دین اسلام کو بدنام کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں اور انہیں وقتی طور پرکامیابی بھی مل جاتی ہے کیونکہ اہل کفر وضلال تو اسلام وقرآن کو ڈائریکٹ بلاواسطہ نہیں پڑھتےبلکہ وہ تو صرف مسلمانوں کے اخلاق وکردار،عادات واطوار کو دیکھتے ہیں اور جیسا مسلمانوں کے اخلاق وکردارکو دیکھتے ہیں ویسا ہی اسلام کو بھی سمجھتے ہیں،اسی لئے میرے دوستو میری یہ بات یاد رکھ لیں اگر ہم اپنے ملک میں چین وسکون سے رہنا چاہتے ہیں اور ہمارے ہندوبھائیوں کے دلوں سےبغض وعداوت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اپنے اخلاق کو بدلیں ،پہلے ہم سب اپنےاپنے اخلاق وکردار کو بدلیں اللہ ہماری حالتوں کو بدل دے گا۔

میرے دوستو! جن عملوں کی وجہ سے ایک انسان کے عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے اس میں تیسری بات جو حدیث میں بیان کی گئی ہے وہ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرناہے ،اسلام میں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی باربار تاکید کی گئی ہے بلکہ حبیب کائناتﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ مجھے جبرئیل امین پڑوسیوں کے ساتھ باربار حسن سلوک کی اتنی زیادہ تاکید کرنے لگے کہ میں سمجھا کہیں ایسا نہ ہو کہ پڑوسیوں کو بھی وراثت میں حق دے دیا جائے(بخاری:6015)اسی پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کو ایمان کے ساتھ جوڑتے ہوئےحبیب کائناتﷺنے فرمایا کہ جو انسان اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، اس کی عزت کرےاور کسی پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔(بخاری: 6019،6018) پڑوسی کو تکلیف دینا تو اتنا خطرناک ہے کہ آپﷺ نے اسے ایمان کے لئے خطرہ قراردیتے ہوئے فرمایا ’’ وَاللَّهِ لاَ يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لاَ يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لاَ يُؤْمِنُ ‘‘ کہ اللہ کی قسم وہ انسان مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ انسان مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ انسان مومن نہیں ’’ الَّذِي لاَ يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَهُ ‘‘ جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔(بخاری:6016)پڑوسیوں کو تکلیف دینے والے انسان کا صرف ایمان ہی خطرے میں نہیں ہوتا بلکہ ایسے انسان کا پہلے پہل جنت میں جانا بھی ناممکن ہے جیسا کہ محبوب خداﷺ نے فرمایا ’’ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ ‘‘ کہ ایسا انسان جنت میں نہیں جائے گا جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔(مسلم:46)اللہ کی پناہ۔تو میرے دوستو! اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو لمبی عمر ملے تو پھر آپ اچھے اخلاق وکردار کو اپنائیں اور اپنے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا کریں۔

(8) دعا:

جن عملوں کی وجہ سے ایک انسان کی عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے اس میں آٹھویں چیز دعا ہے اور دعا یہ تو مومن کا ہتھیار ہے اورایک ایسا نادیدہ خزانہ ہے جس کو اپنا کرکبھی کوئی مایوس نہ ہوا ،رب کریم کی شان یہ ہے کہ وہ اٹھے ہوئے ہاتھ کو خالی نہیں لوٹاتا ہے اگر کوئی انسان اپنے رب سے اپنی لمبی عمر کےلئے دعاکرے یا کوئی انسان کسی کو لمبی عمر کی دعادےاور اگردعا قبول ہوگئی تو اسے لمبی عمر مل سکتی ہے کیونکہ دعا ايك ايسي چیز ہے جو تقدیر کو بھی پلٹ دیتی ہے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ لَا يَرُدُّ القَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ ‘‘ کہ دعا ایک ایسی چیز ہے جو تقدیر کو بھی پلٹ دیتی ہے۔(ترمذی:2139 اسنادہ حسن)دعا سے لمبی عمر ملنے کی سب سے بڑی دلیل غلام مصطفیﷺسیدنا انسؓ ہیں جن کو ان والدہ حبیب کائنات ﷺ کے پاس لاتی ہیں اور یہ کہتی ہیں کہ اے اللہ کے رسولﷺ یہ آپ کے لئے ایک چھوٹا سا خادم ہے،اس کے حق میں دعا کردیجئے تو آپﷺ نے دعا کی کہ ’’ أَللّٰهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ وَأَطِلْ عُمَرَهُ وَاغْفِرْ ذَنْبَهُ ‘‘ اے اللہ! اس کے مال اور اولادمیں زیادتی عطا کراور اس کی عمر کولمبی کردے اور اس کو بخش دے۔(الصحیحۃ:2541) بلاشک وشبہ آپ ﷺ کی یہ دعا قبول ہوئی اور سیدنا انسؓ کےمال واولاد میں برکت بھی ہوئی اوران کو لمبی عمر بھی ملی جیسا کہ سیدنا انسؓ خود بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کی دعا سے میرا مال بھی بہت زیادہ ہوگیالوگوں کے باغوں میں سال میں ایک مرتبہ پھل آتا تھا اور میرے باغ میں سال میں دومرتبہ پھل آتا تھا اوراولاد میں بھی خوب برکت ہوئی 100 سے زیادہ بیٹے اور پوتے ملے اور مجھے لمبی عمر بھی ملی چنانچہ انہوں نے کم وبیش 103 سال کی عمر پائی اور 91ھ میں شہر بصرہ کے اندر سب سے آخر میں فوت ہونے والےصحابی یہی تھے،تو میرے دوستو! اگر آپ لمبی عمر چاہتے ہیں تو پھر رب سے دعائیں کیا کریں۔

برادران اسلام!اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو لمبی زندگی ملے تو پھر ان تمام اعمال کو بجالائیں جس کی وجہ سے ایک انسان کی عمروں میں اضافہ کردیا جاتا ہےمگر یہ بات یاد رکھ لیں کہ آپ گرچہ 100 سال کی عمرہی کیوں نہ پالیں مگر ایک نہ ایک دن آپ کو اس دنیا سے رخصت ہونا ہی ہونا ہے،آئیے اس حقیقت کو ایک پیاری سی حدیث سے سمجھتے ہیں سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے ملک الموت کو سیدناموسی علیہ الصلاہ والسلام کے پاس ان کی روح کو قبض کرنے کے لئے بھیجا تو سیدنا موسی علیہ الصلاہ والسلام نے ملک الموت کو ایسا تھپڑ رسید کیا کہ ان کی ایک آنکھ ہی پھوڑ دی،چنانچہ ملک الموت کا فرشتہ رب کے حضور آیا اور کہا کہ اے رب العالمین ’’ أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ ‘‘ تونے مجھے ایک ایسے بندے کے پاس بھیجا ہے جو مرنا ہی نہیں چاہتا ہے،فرشتے کی یہ بات سن کر رب العزت نے فرشتے کی آنکھ واپس لوٹا دی اور پھر ان سے یہ کہا کہ ’’ اِرْجِعْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِمَا غَطَّتْ يَدُهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ سَنَةٌ ‘‘ پھر سے موسی کے پاس جاؤ اور ان سے کہوکہ وہ ایک بیل کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ رکھے،پھر جتنے بال اس کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے ان میں سے ہرہربال کے بدلے ان کو ایک اورسال عطا کی جائے گی ،چنانچہ سیدناموسی علیہ الصلاہ والسلام نے اللہ سے پوچھا کہ ’’ أَيْ رَبِّ ثُمَّ مَاذَا ‘‘ اے میرے رب اس کے بعد کیا ہوگا؟ تو رب العزت نے کہا’’ ثُمَّ المَوْتُ ‘‘ کہ اس کے بعدپھر بھی موت ہےاورمرنا ہی ہے ،یہ سن کر حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام نے کہا کہ جب اتنے سالوں کے بعد بھی مرنا ہے تو پھر ’’ فَالْآنَ ‘‘ مجھے ابھی موت چاہئے۔(بخاری:3407،مسلم:2372) تو دیکھا میرے دوستو آپ نے کہ انسان اگر ہزاربرس بھی اس دنیا میں جی لےپھر بھی اسے ایک نہ ایک دن مرنا ہےاسی لئے اپنی موت وآخرت کو یاد رکھو اور اپنی آخرت کے لئے توشہ جمع کرلو کیونکہ آج نہیں تو کل ہم سب کو اس دارفانی سے دارالبقاءکی طرف کوچ کرجاناہے اسی لئے رب العزت کا یہ فرمان ہمیشہ یاد رکھو کہ ’’ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى ‘‘ اورآخرت ہی بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔(الاعلی:17)

اب آخر میں رب العزت سے دعاگوہوں کہ الہ العالمین ہم سب کو نیک سمجھ عطا فرمائے اور اپنی آخرت کے لئے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین

نوٹ: اس مضمون کے مواد کو ہم نے عربی کی دوکتابوں سے اخذ کیا ہے ،اہل علم اور عربی کا ذوق وشوق رکھنے والے اگر چاہے تو انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں یا پھر ہم سے رابطہ کریں:

1۔ کیف تطیل عمرک:از محمد بن ابراہیم النعیم

2۔ کیف تطیل عمرک:از دکتور عبدالسلام بن محمد الشویعر

مرتب

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

امام وخطیب مرکزی مسجد اہل حدیث۔فتح دروازہ۔آدونی

ناظم جامعہ ام القری للبنین والبنات۔آدونی۔کرنول ضلع ۔آندھراپردیش​
 

اٹیچمنٹس

Top