• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"اتحاد و اتفاق کی فضیلت اور فوائد"

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
14500454_1123368621032695_6316029084124288622_o.png



بسم الله الرحمن الرحيم

"اتحاد و اتفاق کی فضیلت اور فوائد"

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے29-ذو الحجہ-1437 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں "اتحاد و اتفاق کی فضیلت اور فوائد" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے باہمی اتحاد و اتفاق اور کتاب و سنت پر کار بند رہنے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اس کی فضیلت اور نتائج واضح کئے اور یہ بھی بتلایا کہ اس طرح پوری امت فتنوں سے محفوظ ہو جائے گی، نیز انہوں نے اختلافات، فرقہ واریت اور تنازعات سے خبردار بھی کیا؛ کیونکہ ان کی وجہ سے مسلمانوں میں مشکلات اور آزمائشیں آتی ہیں اور مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔

پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو! کما حقہ اللہ سے ڈرو اور تقوی الہی راہِ ہدایت اور اس سے تصادم کا راستہ بدبختی ہے۔

مسلمانو!

اللہ تعالی نے لوگوں کو پیدا کیا، انہیں رزق دیا اور ان کے معاملات کی تدبیر فرمائی، نیز انہیں دین اسلام دے کر ان پر رحم بھی کیا، دین اسلام میں ہی ان کی دنیاوی اور اخروی فلاح و بہبود ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى}

جس نے میری ہدایت کی اتباع کی وہ گمراہ نہیں ہو گا اور نہ ہی بد بخت ہو گا۔[طہ: 123]

اسلام ایک عظیم دین ہے، اس کے اہم ترین اصول، امتیازات اور قواعد میں یہ شامل ہے کہ مسلمانوں کو حق پر جمع کیا جائے اور دلوں میں باہمی الفت ڈالی جائے، یہ اللہ تعالی کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کا احسان اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر جتلایا اور فرمایا:

{هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ(62)وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ}

ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے، زمین میں جو کچھ ہے اگر آپ سارے کا سارا بھی خرچ کر ڈالتے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتے تھے۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے وہ غالب حکمت والا ہے۔ [الأنفال:62- 63]

کلمۂ توحید پر متحد اور کتاب و سنت کے پیرو ہی سچے مومن ہیں، چاہے ان کے مخالفین کتنے ہی زیادہ یا طاقتور ہوں، انبیائے کرام اپنی امتوں کو حق پر متحد کرنے کیلیے متفق تھے، اسی لیے انہوں نے اسلام قائم کر کے اس پر کار بند رہنے کا حکم دیا، چاہے وہ علم کے اعتبار سے ہو یا عمل کے، عقائد کے اعتبار سے ہو یا طرزِ زندگی کے اعتبار سے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ }

اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا نوح کو حکم دیا تھا اور جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے اور جس کا ابراہیم ،موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔ [الشورى: 13]

سب انبیائے کرام نے اللہ تعالی کی عبادت پر متحد ہونے کی دعوت دی، تمام انبیائے کرام نے کہا:

{يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ}

میری قوم! اللہ کی عبادت کرو تمہارا اس کے علاوہ کوئی الہ نہیں ہے۔[الأعراف: 59]

نبی ﷺ کو ایسی قوم میں بھیجا گیا جو دینی اعتبار سے بکھرے ہوئے اور دنیاوی امور میں بھی ایک دوسرے کے خلاف تھے:

{كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ}

ہر گروہ اپنے پاس [نظریات] پر خوش ہے[الروم: 32]

تو نبی ﷺ نے ان کی مشابہت سے منع فرمایا اور متحد رہنے کا حکم دیا، اس طرح دینِ الہی قائم ہو گیا اور جاہلیت جاتی رہی، دین پر متحد ہونے کی وجہ سے لوگوں کے امور سنورتے چلے گئے ۔

لوگوں کا دنیاوی اور اخروی فائدہ صرف دینِ خالص، تعاون، اور باہمی مدد سے ہی ہو گا، اور چونکہ یہ ناقابل تردید دینی ضرورت ہے اس لیے یہ تمام رسالتوں میں متفقہ اصول رہا ہے، بلکہ تمام شریعتوں کا مقصد بھی تھا، یہ دنیاوی ضرورت بھی ہے اس کے بغیر زندگی سنور نہیں سکتی اور اس کے بغیر زندگی میں استحکام نہیں آ سکتا، لوگوں کے باہمی معاملات اور مفادات اسی سے پورے ہوں گے، یہی راستہ ہے امت کیلیے عظمت رفتہ کو واپس لانے کا، اتحاد، احترام اور معاشروں کو تحفظ دینے کا، یہی بہترین طریقہ ہے مسلمانوں کے ارمان پورے کرنے اور مشکلات حل کرنے کا، یہی مسلمانوں کے مابین رابطے اور اسلام کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔

یہ امت پر شرعاً فرض بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا}

تم تمام اللہ کی رسی کو تھام لو گروہوں میں مت بٹو[آل عمران: 103]

ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:

"اللہ کے دین پر مضبوطی سے کار بند رہو جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے، اور اللہ کے قرآن میں لیے ہوئے عہد پر قائم رہو جو کہ کلمۂ حق پر اتحاد اور محبت سمیت احکاماتِ الہیہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے پر مشتمل تھا"

نبی ﷺ نے اس امر کا خصوصی خیال رکھا، چنانچہ آپ ﷺ نے انہیں زبانی کلامی بھی بتلایا اور ان کے ذہنوں میں یہ چیز راسخ کرنے کیلیے زمین پر خط کھینچا، چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "رسول اللہ ﷺ نے ایک خط کھینچا اور فرمایا : (یہ اللہ تعالی کا راستہ ہے)پھر اس کے دائیں اور بائیں مزید خطوط کھینچے اور پھر فرمایا: (دائیں بائیں ان راستوں پر ان کی طرف دعوت دینے والے شیطان ہیں)پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:

{وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ}

اور بلاشبہ یہی میری سیدھی راہ ہے لہذا اسی پر چلتے جاؤ اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا کر جدا جدا کر دیں گی [الأنعام: 153]"
احمد

اللہ تعالی نے اس امت کو عظیم اصول یاد کرواتے ہوئے فرمایا:

{إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ}

بیشک تم ایک ہی امت ہو اور میں تمہارا رب ہوں ، اس لیے صرف میری عبادت کرو۔[الأنبياء: 92]

ہدایت پر اتحاد مہربانی کا باعث ہے، اسی لیے مومنین کی صفات میں ہے کہ وہ آپس میں مہربان ہوتے ہیں، یہ اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں پر جتلائی ہوئی نعمت ہے:

{وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا}

اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے[آل عمران: 103]

جس طرح اللہ تعالی نے مومنوں کو اتحاد و اتفاق کا حکم دیا اسی طرح انہیں اختلافات اور گروہ بندی سے روکا:

{وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (31) مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا}

اور مشرکین میں شامل نہ ہو جانا [31] جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے کر دیے اور خود گروہوں میں بٹ گئے۔[الروم: 31، 32]

انہیں یہ بھی بتلایا ہے کہ تم سے پہلے والی اقوام لڑائی جھگڑے اور اللہ کے دین سے متعلق اختلاف کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ}

اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا کر جدا جدا کر دیں گی [الأنعام: 153]

دین پر استقامت اور دل جمی رسولوں کا راستہ ہے، اس رستے کا راہی کامیاب ہے، اور اس سے ہٹنے والا ناکام ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ}

جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی فرقے بن گئے، ان سے آپ کو کچھ سروکار نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پھر وہ خود ہی انہیں بتلا دے گا کہ وہ کن کاموں میں لگے ہوئے تھے [الأنعام: 159]

ملت اسلامیہ کے التزام میں ہی فتنوں سے تحفظ ہے، فتنے رونما ہونے کے وقت اسی بات کی رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو رہنمائی دی ہے، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے پوچھتے ہیں:

"کیا اس خیر کے بعد شر بھی ہو گا؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (جی ہاں ، جہنم کے دروازے پر صدائے لگانے والے ہیں جو بھی ان کی بات مانتا ہے وہ اسے جہنم میں پھینک دیتے ہیں)اس پر میں [حذیفہ رضی اللہ عنہ ] نے کہا: "اگر مجھے ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ جائے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (تم ملت اسلامیہ اور ان کے حکمران کے ہمراہ رہنا) مسلم

مسلمانوں کی خیر خواہی میں یہ بات شامل ہے کہ ملت اسلامیہ کے ہم رکاب بننے کیلیے صحیح عقائد اور نیک اعمال میں ان کے نقش قدم پر چلیں اور ان کے دلوں کو جوڑنے کیلیے کوششیں کریں۔

سب سے پاکیزہ دل اسی کا ہے جو ملت اسلامیہ کا التزام کرے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(تین چیزوں کے بارے میں کسی بھی مسلمان کا دل کینہ نہیں رکھتا –یعنی قلبِ مسلم میں کینہ اور خیانت پیدا نہیں ہوتی-:اللہ کیلیے خالص عمل، مسلم حکمرانوں کیلیے خیر خواہی، اور ملتِ اسلامیہ کا التزام، بے شک دعا مسلمانوں کی جماعت کو شامل ہوتی ہے )

مطلب یہ ہے کہ: مسلمانوں کی دعائیں سب مسلمانوں کیلیے ہوتی ہیں جو انہیں شیطانی چالوں سے محفوظ بناتی ہیں اور گمراہ نہیں ہونے دیتیں، ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔

یہ ان چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلیے پسند کیا ہے لہذا بندوں کو بھی اپنے لیے وہی چیزیں پسند کرنی چاہییں جو اللہ تعالی نے ان کے بارے میں پسند کی ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(بیشک اللہ تعالی تمہارے لیے تین چیزیں پسند کرتا ہے اور تین چیزوں کو پسند نہیں کرتا: پسند یہ کرتا ہے کہ: تم اسی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ، تم سب اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہ بندی میں مت پڑو) مسلم

شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"لوگوں کے دینی یا دنیاوی امور میں خلل انہی تینوں یا ان میں سے کسی ایک چیز میں خلل سے پیدا ہوتا ہے"

اسلام کی تعلیمات کتاب و سنت کے صاف چشمے سے لینے والے ہی باقی رہیں گے اور غلبہ پائیں گے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا، انہیں رسوا کرنے کی کوشش کرنے والا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، یہاں تک کہ اللہ تعالی کا حکم آ جائے اور وہ اسی طرح حق پر غالب ہوں گے) مسلم

وہی لوگوں میں سب سے خوشحال ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ : ان کے دل جڑے ہوں گے، باہمی شفقت اور الفت ان میں ہو گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ}

مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں جو بھلے کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔[٨٦] یہی لوگ ہیں، جن پر اللہ رحم فرمائے گا بلاشبہ اللہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے [التوبۃ: 71]

اعتدال ان کا منہج ہے اس لیے وہ افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوتے، غلو اور بے رخی اختیار نہیں کرتے، یہی لوگ بدعات، گمراہی اور گروہ بندی سے دنیا میں نجات پائیں گے اور ہلاکت اور عذاب سے آخرت میں بچ جائیں گے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(بیشک یہ امت عنقریب 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، 72 آگ میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا اور وہی ملت اسلامیہ ہے) ترمذی ، جبکہ مستدرک حاکم میں ہے کہ نبی ﷺ سے عرض کیا گیا: "وہ ایک گروہ کونسا ہو گا؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (جو میرے اور میرے صحابہ کے منہج پر ہو گا)

اللہ تعالی کے اہل سنت کو ثابت کرنے کی وجہ سے وہ حق پر ثابت ہیں، اتنا لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود ان کے منہج میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، جو ان کی کتابیں اور اقوال پڑھے ، ان میں سے گزشتہ و پیوستہ لوگوں کی سوانح کا مطالعہ کرے تو وہ ان سب کو ایک ہی راستے کا راہی پائے گا؛ گویا کہ ان کی باتیں ایک ہی من سے نکلی ہیں، اور ان کے افعال ایک ہی تن سے صادر ہوئے ہیں، جبکہ ان کے مخالفین کا منہج علم اور دلیل سے دور، ان کے دلائل انتہائی کمزور اور ان کی باتوں میں تناقض ہے، کیونکہ حق چھوڑنے سے ہی معاملات بگڑتے ہیں اور نظریات میں شکوک و شبہات پیدا ہو جاتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ}

بلکہ جب حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے جھٹلا دیا۔ چنانچہ یہ لوگ ایک الجھی ہوئی بات [٦] میں پڑ گئے [ق: 5]

{يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (106) وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ}

اس دن جب کہ کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ سیاہ ہو رہے ہوں گے تو جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے (انہیں کہا جائے گا) کیا تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا تھا ؟ سو جو تم کفر کرتے رہے اس کے بدلے عذاب کا مزا چکھو [106] رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو یہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔[آل عمران : 106-107]

ابن عباس رضی اللہ عنہما ان آیات کی تفسیر میں کہتے ہیں:

"اس دن اہل سنت و الجماعت کے چہرے روشن ہوں گے جبکہ تفرقہ اور اختلاف کرنے والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے"

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!

ملت کیلیے اتنا ہی شرف کافی ہے کہ ملت کے ساتھ اللہ تعالی کی مدد شامل حال ہوتی ہے اور اللہ تعالی ملت کو پسند بھی فرماتا ہے، تصورِ ملت میں ہی فلاح و بہبود ہے، جبکہ فرقہ واریت میں فساد اور تباہی ہے، عقل مند کتاب و سنت کی پابند اور سلف کی پیروکار جماعت کے ساتھ تعلق میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا چاہے اسے اس ترکِ تعلق کے عوض میں مفادات کی تکمیل ہی کیوں نہ نظر آئے؛ کیونکہ ایسے مفادات ناقابل التفات ہوتے ہیں، بلکہ وہ اللہ تعالی کی اس عنایت پر خوش ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے مضبوط دین اور ملت اسلامیہ کا تعلق عنایت کیا ہے نیز دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتا ہے۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ:{وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا}

مگر جو شخص راہ راست کے واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر کا خود اس نے رخ کرلیا ہے، پھر ہم اسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بہت بری بازگشت ہے [النساء: 115]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر ، ان کی آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانو!

عقائد ملت کے ساتھ منسلک ہیں، اور عقائد پر کار بند ہی اہل ملتِ اسلامیہ ہیں، ان کا منہج ایک ہے اور وہ ہے: صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، اللہ تعالی کے اسما و صفات اسی طرح ثابت کریں جیسے اللہ تعالی نے اپنے آپ کو قرآن مجید میں یا پھر رسول اللہ ﷺ نے بیان کی ہیں، اس میں کسی قسم کی تحریف، تعطیل، تکییف یا تمثیل نہ کریں، رکنِ ایمان تقدیر پر ایمان لائیں، یہ ایمان رکھیں کہ اللہ تعالی کو چیزوں کے ہونے سے پہلے ہی علم ہے اور لوحِ محفوظ میں یہ تحریر شدہ موجود ہے، اور اللہ تعالی ہی ان کا خالق ہے، کائنات میں کوئی بھی چیز اس کی مشیئت کے بغیر نہیں ہوتی، یہ بھی اہل سنت کا منہج ہے کہ وہ نبی ﷺ کی اتباع یقینی بناتے ہیں، اسی طرح آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور امت میں سلف صالحین کے آثار پر اکتفا کرتے ہیں،ساتھ میں سچے دل کے ساتھ کتاب و سنت پر کار بند رہتے ہیں، کتاب و سنت سے علم لیکر کر اس پر عمل کرنے کیلیے منہمک رہتے ہیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ حق بات چھپا کر یا باطل سے ملا کر حق کو رائیگاں کیے بغیر مسلمانوں میں اتحاد قائم ہو ، نیز اہل سنت و الجماعت اپنے مخالفین کے ساتھ عدل اور شفقت سے پیش آتے ہیں کسی قسم کی زیادتی یا ظلم نہیں کرتے۔

جسے علم نافع حاصل ہو جائے اور عمل صالح کی توفیق مل جائے شبہات اور خواہشات سے دور رہے تو وہ اللہ تعالی کے کامیاب ہونے والے بندوں میں سے ہے۔

یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]

اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد، یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین : ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!

یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا اللہ! اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! ان کے علاقوں کو امن و امان والا بنا، یا ذو الجلال و الاکرام، یا اللہ! انہیں کلمۂ حق اور ہدایت پر متحد فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال اپنی رضا کیلیے مختص فرما، یا اللہ! تمام مسلمان حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل کرنے اور نفاذِ شریعت کی توفیق عطا فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہماری فوج کی مدد فرما، یا اللہ! انہیں ثابت قدم فرما، یا اللہ! دشمن کے خلاف ان کی مدد فرما، یا قوی! یا عزیز!

یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! تمام حجاج کا حج قبول فرما، انہیں ان کے گھروں تک صحیح سلامت واپس پہنچا، یا ذو الجلال و الاکرام!

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے [قبول کرو]اور یاد رکھو۔[النحل: 90]

تم عظیم و جلیل اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔


پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ یا پڑھنے کیلیے کلک کریں

عربی آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ سمیت انگلش ترجمہ کیلیے کلک کریں
 
Top