اجماع:
تعریف: لغت میں اجماع کا لفظ دو چیزوں پر بولا جاتا ہے:
۱۔ اتفاق: مثلاً: لوگ فلاں چیز پر جمع ہوگئے ، یہ اس وقت کہا جاتا ہےجب وہ اس چیز پر متفق ہوجائیں، یہ معنی ایک جماعت کے تصور سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔
۲۔ پختہ ارادہ: مثلاً: فلاں نے اپنی رائے کو فلاں چیز پر جمع کرلیا ہے ، یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب وہ اس چیز پر اپنا ارادے کو پختہ کرلے، یہ معنی مفرد اور جماعت دونوں کے تصور سے حاصل ہوسکتا ہے۔
اصطلاح میں: ”اتفاق جميع العلماء المجتهدين من أمة محمد صلى الله عليه وسلم بعد وفاته في عصر من العصور على أمر ديني“ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد کسی بھی زمانہ میں آپ کی امت کے تمام مجتہد علماء کا کسی دینی معاملے پر اکھٹے ہوجانا۔
تعریف کی وضاحت: «الاتفاق» کا لفظ ایک جنس ہے جو کئی چیزوں کے لیے عام استعمال ہوتا ہے ، یہاں پر اس سے غیر مراد چیزوں کو بذریعہ چند قیود کے خارج کیا گیا ہے۔ ان قیود کا بیان درج ذیل ہے:
۱۔ تمام مجتہد علماء کی طرف اتفاق کے لفظ کو مضاف کرکے اس سے اس طالب علم کو خارج کیا گیا جو ابھی اجتہاد کے درجے کو نہ پہنچا ہو، چہ جائیکہ وہ عامی یا اس کے حکم میں جو افراد ہیں، وہ ہوں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے کسی مسئلہ پر اکٹھے ہوجانے یا اختلاف کرنے کا اعتبار نہیں ہے۔
۲۔ اسی طرح اس قید سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ اگر بعض مجتہد کسی مسئلہ پر اکٹھے ہوجائیں تو ان کے اکٹھ سے بھی اجماع نہیں کہلا سکتا۔
«من أمة محمد صلى الله عليه وسلم»کی قیدسے دوسری امتوں کا اجماع خارج ہوگیا۔ اور امت سے مراد : امت اجابت ہے ، امت دعوت نہیں ۔
امت اجابت: جو ایمان لاچکے ہیں اور امت دعوت: جن کو ابھی دعوت دی جارہی ہے۔
” بعد وفاته صلى الله عليه وسلم “ کی قید سے مراد اجماع کی ابتداء کے وقت کا بیان ہے ۔ جو اجماع نبی کریمﷺ کے زمانے میں ہوا ہو، اس کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ وہ تو نزول وحی کا زمانہ تھا۔
ہمارے اس قول ” «في عصر من العصور» “ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبوت کے زمانے کے بعد کسی بھی زمانے میں کیا ہوا اجماع قابل قبول ہوگا ، چاہے وہ صحابہ کے زمانے میں ہوا ہو یا اس کے بعدوالے کسی زمانے میں۔
«على أمر ديني»کی قید سے امت کےمجتہدین کا کسی عقلی یا عادی مسئلہ پر اتفاق نکل گیا۔
اجماع کی مثالیں:
خاص وغیرہ کی بحث میں اجماع کی مثالیں گزر چکی ہیں۔ ابن حزم رحمہ اللہ کی کتاب مراتب الاجماع میں سے چند مسائل پیش خدمت ہیں ، جن اجماع ہوچکا ہے۔یہ مثالیں ہم نے اس کتاب کے مختلف ابواب سے لی ہیں:
1۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ طلاق رجعی والی عورت کو عدت کے دوران رہائش اور خرچہ دیا جائےگا۔
2۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ جماع اعتکاف کو فاسد کردیتا ہے۔
3۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ کبائر کا مرتکب ہونا اور صغائر پر علی الاعلان عمل کرنا ایسی جرح ہے جس کی وجہ سے اس بندے کی شہادت مردود ہوجاتی ہے۔
4۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ ماں کی موجودگی میں دادی/نانی وارث نہیں بن سکتی۔
5۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ وارث کےلیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔
6۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ قتل خطا کے مرتکب سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔
7۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ طلاق رجعی والی مطلقہ جب تک وہ عدت میں ہے تب تک وہ اپنے خاوند کی وراثت پانے کی حق دار ہے ، اسی طرح اس کا خاوند بھی اس کی وراثت پانے کا حقدار ہے۔
8۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ عورت کےلیے مباح سفروں میں سے کوئی سفر اپنے خاوند یا محر م کے ساتھ کرنا مباح ہے۔
9۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ حرم میں محرم کےلیے جانوروں کو ذبح کرنا جائز ہے۔
10۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید میں پندرہ سے سجدات تلاوت نہیں ہیں۔
11۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ اپنے حیض کے دوران چھوڑےہوئے روزوں کی قضائی دے گی۔
12۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ کوئی شخص کسی زندہ کی طرف سے روزہ نہیں رکھ سکتا۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر