• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احسان

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پھر یہ اصول کہ جو میرے ساتھ احسان کرے اسی کے ساتھ احسان کرنا چاہیے محمد رسول اللہ ﷺ کی اخلاقی تعلیم کے خلاف ہے ۔ ایک شخص نے جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا یارسول اللہ میں کسی شخص کے پاس سے گزرتا ہوں تو وہ میری مہمانی نہیں کرتا تو جب اس کا گزر مجھ پر ہو تو میں اس کی کج خلقی کا بدلہ یہی دوں؟ فرمایا نہیں تم اس کی مہمانی کرو۔ (ترمذی) … ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا ’’ایسے نہ بنو کہ خود تمہاری گرہ کی عقل نہ ہو، صرف دوسروں کی دیکھا دیکھی کام کرو۔ کہتے ہو کہ اگر لوگ احسان کریں تو ہم بھی احسان کریں گے اور اگر وہ ظلم کریں تو ہم بھی ظلم کریں گے بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر مطمئن کرلو کہ اگر دوسرے احسان کریں تو تم احسان کرو گے اور اگر وہ برائی بھی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔‘‘ (مسلم)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
لوگ احسان کو غلطی سے دولت و تمول یا دوسری بڑی بڑی باتوں کے ساتھ خاص کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ غریب کیا احسان کا کام کرسکتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ احسان اور نیکی کا کام کرنے کے لیے دولت کی نہیں بلکہ دل کی ضرورت ہے اور اس کی وسعت بہت دُور تک پھیلی ہوئی ہے۔ حضرت براء بن عازب صحابیؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بدوی نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست کی کہ یارسول اللہ :
عَلِّمْنِیْ عَمَلًا یُدْخِلْنِی الْجَنَّۃَ قَالَ لَئِنْ کُنْتَ اَقْصَرْتَ الْخُطْبَۃَ لَقَدْ اَعْرَضْتَ الْمَسْئَلَۃَ اَعْتِقِ النَّسْمَۃَ وَفُکَ الرَّقَبَۃَ قَالَ اَو لَیْسَا وَاحِدًا قَالَ لَا عِتْقُ النَّسْمَۃِ اَنْ تَفَرَّدَ بِعِتْقِھَا وَفُکُ الرَّقَبَۃِ اَنْ تُعِیْنَ فِیْ ثَمَنِھَا وَالْمَنْحَۃُ الْوُکُوْفُ وَالْفَیْءُ عَلٰی ذِیْ الرَّحِمِ الظَّالِمِ فَاِنْ لَّمْ تُطِقْ ذٰلِکَ فَاَطْعِمِ الْجَائِعَ وَاسْقِ الظَّمْاٰنُ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ فَاِنْ لَّمْ تُطِقْ ذٰلِکَ فَکُفَّ لِسَانَکَ اِلَّا مِنْ خَیْرٍ۔ (بیھقی)
مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس پر عمل کرنے سے مجھے بہشت نصیب ہو۔ ارشاد ہوا کہ تمہاری تقریر تو مختصر ہے لیکن تمہارا سوال بہت بڑا ہے، تم جانوں کو آزاد کرو، اور گردنوں کو چھڑاؤ۔ اس نے کہا یارسول اللہ! کیا یہ دونوں باتیں ایک ہی نہیں ہیں؟ فرمایا نہیں۔ اکیلے اگر کسی کو آزاد کرتے ہوتو یہ جان کا آزاد کرنا ہے اور دوسرے کے ساتھ شریک ہوکر کسی کی آزادی کی قیمت میں مالی مدد دینا گردن چھڑانا ہے اور دودھیلا جانور کسی کو دودھ پینے کے لیے دے دو اور ظالم رشتہ دار کے ساتھ نیکی کرو اگر تم یہ بھی نہ کرسکو تو بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور پیاسے کو پانی پلاؤاور نیکی کے کام کرنے کو کہو اور برائی سے باز رکھو اور اگر یہ بھی نہ کرسکو تو اپنے آپ کو بھلائی کے سوا اور کاموں سے روکو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک دفعہ حضرت ابوذرؓ نے پوچھا یارسول اللہ! ایمان کے ساتھ کوئی عمل بتائیے۔ فرمایا: کہ جو روزی اللہ نے دی ہے اس میں سے دوسروں کو دے، عرض کیا اگر وہ اس سے معذور ہو، فرمایا مغلوب کی مدد کرے، عرض کی اگر وہ ضعیف ہو، مدد کرنے کی قوت نہ ہو، فرمایا جس کو کوئی کام کرنا نہ آتا ہو اس کا کام کردے۔ عرض کی اگر خود ہی ایسا ناکارہ ہو؟ فرمایا اپنی ایذا رسانی سے لوگوں کو بچائے رکھے۔ (مستدرک حاکم ، جلد ۱، ص ۶۳)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ۝۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۝۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ۝۶۲ۭ [٢٧:٦٢]
بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں خلیفہ بناتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
(۲) اور آپ نے فرمایا:
مَنْ مَشٰی فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہِ حَتّٰی یُثْبِتَھَا لَہٗ اَظَلَّہٗ عَزَّوَجَلَّ بِخَمْسَۃٍ وَّسَبْعِیْنَ اَلْفَ مَلَکٍ یُصَلُّوْنَ لَہٗ وَیَدْعُوْنَ لَہٗ اِنْ کَانَ صَبَاحًا حَتّٰی یُمْسِیَ وَاِنْ کَانَ مَسَائً حَتّٰی یُصْبِحَ وَلَا یَرْفَعُ قَدَمًا اِلَّا حَطَّ اللہُ عَنْہُ بِھَا خَطِیْئَۃً وَّرَفَعَ لَہٗ بِھَا دَرَجَۃً۔ (ابن ماجۃ، ترغیب)
جو مسلمان اپنے بھائی کی حاجت روائی میں جائے یہاں تک کہ اس کی ضرورت پوری کردے، اگر صبح کے وقت جائے تو اللہ تعالیٰ پچھتر ہزار فرشتوں سے اس پر سایہ کراتا ہے اور شام تک فرشتے ان کے حق میں دعائیں کرتے رہتے ہیں، اور اگر شام کے وقت جائے تو صبح تک یہ فرشتے اسی طرح کرتے رہتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ہر قدم پر ایک گناہ معاف کرتا ہے اور ایک درجہ بلند کرتا ہے۔
(۳) مَنْ مَشٰی فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہِ الْمُسْلِمِ کَتَبَ اللہُ لَہٗ بِکُلِّ خَطْوَۃٍ سَبْعِیْنَ حَسَنَۃً وَمَحَاعَنْہُ سَبْعِیْنَ سَیِّئَۃً اِلٰی اَنْ یَّرْجِعَ مِنْ حَیْثُ فَارَقَہٗ فَاِنْ قُضِیَتْ حَاجَتُہٗ عَلٰی یَدَیْہِ خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِہٖ کَیَوْمٍ وَّلَدَتْہُ اُمُّہٗ وَاِنْ ھَلَکَ فِیْمَا بَیْنَ ذٰلِکَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔ (ترغیب)
جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی میں چلے پھرے گا، اس کو اللہ تعالیٰ ہر ہر قدم پر ستر(۷۰) ستر(۷۰) نیکیاں دے گا اور ستر(۷۰) ستر(۷۰) گناہ معاف فرمائے گا یہاں تک کہ وہ واپس آجائے، اگر اس کے ہاتھوں اس کی ضرورت پوری ہوجائے تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے گا گویا آج ہی وہ پیدا ہوا ہے، اگر وہ اسی دوران مر جائے تو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوگا۔

اللہ تعالی ہمارا شمار بھی ان میں سے کرے جو بغیر حساب کے جنت الفردوس میں داخل ہوں گے آمین۔
 
Top