• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم اخلاق و اوصاف و حُلیہ مُبارک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
اخلاق و اوصاف

نبی کریم ﷺ ایسے جمالِ خَلق اور کمالِ خُلق سے مُتّصِف تھے جو حیطہء بیان سے باہر ہے۔ اس جمال و کمال کا اثر یہ تھا کہ دل آپ ﷺ کی تعظیم اور قدر و منزلت کے جذبات سے خود بخود لبریز ہو جاتے تھے۔ چنانچہ آپ کی حفاظت اور اجلال و تکریم میں لوگوں نے ایسی ایسی فدا کاری و جاں نثاری کا ثبوت دیا جس کی نظیر دنیا کی کسی اور شخصیت کے سلسلے میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ آپ ﷺ کے رفقاء اور ہم نشین وارفتگی کی حد تک آپ سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گوارا نہ تھا کہ آپ ﷺ کو خراش آ جائے، خواہ اس کے لیے ان کی گردنیں ہی کیوں نہ کاٹ دی جائیں۔ اس طرح کی محبت کی وجہ یہی تھی کہ عادتاً جن کمالات پر جان چھڑ کی جاتی ہے ان کمالات سے جس قدر حصہ وافر آپ ﷺ کو عطا ہوا تھا کسی اور انسان کو نہ ملا۔ ذیل میں ہم عاجزی و بے مائیگی کے اعتراف کے ساتھ ان روایات کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں جن کا تعلق آپ ﷺ کے جمال و کمال سے ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
حُلیہ مُبارک :

ہجرت کے وقت رسول اللہ ﷺ اُمّ معبد خُزاعیہ کے خیمے سے گذرے تو اس نے آپ ﷺ کی روانگی کے بعد اپنے شوہر سے آپ ﷺ کے حلیہ مبارک کا جو نقشہ کھینچا وہ یہ تھا۔ چمکتا رنگ، تابناک چہرہ، خوبصورت ساخت، نہ توندلے پن کا عیب، نہ گنجے پن کی خامی، جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر، سرمگیں آنکھیں، لمبی پلکیں، بھاری آواز، لمبی گردن، سفید و سیاہ آنکھیں، سیاہ سرمگیں پلکیں، باریک اور باہم ملے ہوئے ابرو، چمکدار کالے بال، خاموش ہوں تو باوقار، گفتگو کریں تو پُرکشش، دور سے (دیکھنے میں) سب سے تابناک و پُر جمال، قریب سے سب سے خوبصورت اور شیریں، گفتگو میں چاشنی، بات واضح اور دوٹوک، نہ مختصر نہ فضول، انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں۔ درمیانہ قد، نہ ناٹا کہ نگاہ میں نہ جچے، نہ لمبا کہ ناگوار لگے، دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ جو تینوں میں سب سے زیادہ تازہ و خوش منظر و پُر رونق، رفقاء آپ ﷺ کے گرد حلقہ بنائے ہوئے، کچھ فرمائیں تو توجہ سے سنتے ہیں۔ کوئی حکم دیں تو لپک کر بجا لاتے ہیں مطاع و مکرم نہ ترش رو، نہ لغو گو۔ (زاد المعاد ۲/۵۴)
حضرت علیؓ آپ ﷺ کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آپ نہ لمبے تڑنگے تھے نہ ناٹے کھوٹے، لوگوں کے حساب سے درمیانہ قد کے تھے، بال نہ زیادہ گھنگریالے تھے نہ بالکل کھڑے کھڑے، دونوں کے بیچ بیچ کی کیفیت تھی، رخسار نہ بہت زیادہ پُر گوشت تھا، نہ ٹھڈی چھوٹی اور پیشانی پست، چہرہ کسی قدر گولائی لیے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
ہوئے تھا۔ رنگ گورا گلابی، آنکھیں سرخی مائل، پلکیں لمبی، جوڑوں اور مونڈھوں کی ہڈیاں بڑی بڑی، سینہ پر ناف تک بالوں کی ہلکی سی لکیر، بقیہ جسم بال سے خالی، ہتھیلی اور پاؤں پر گوشت، چلتے تو قدرے جھٹکے سے پاؤں اٹھاتے۔ اور یوں چلتے گویا کسی ڈھلوان پر چل رہے ہیں، جب کسی طرف ملتفت ہوتے تو پورے وجود کے ساتھ ملتفت ہوتے، دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ آپ ﷺ سارے انبیاء کے خاتم تھے۔ سب سے زیادہ سخی دست اور سب سے بڑھ کر جرأت مند، سب سے زیادہ صادق اللہجہ اور سب سے بڑھ کر عہد و پیمان کے پابندِ وفاء۔ سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے شریف ساتھی۔ جو آپ ﷺ کو اچانک دیکھتا ہیبت زدہ ہو جاتا۔ جو جان پہچان کے ساتھ ملتا محبوب رکھتا۔ آپ ﷺ کا وصف بیان کر نے والا یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے آپ ﷺ سے پہلے اور آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ جیسا نہیں دیکھا۔ (ابن ہشام ۱/۴۰۱، ۴۰۲، ترمذی شرح تحفۃ الاحوذی ۴/۳۰۳)
حضرت علیؓ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کا سر بڑا تھا۔ جوڑوں کی ہڈیاں بھاری بھاری تھیں۔ سینے کے درمیان بال کی لمبی لکیر تھی۔ جب آپ چلتے تو قدرے جھک کر چلتے گویا کسی ڈھلوان سے اتر رہے ہیں۔ (ایضاً ترمذی مع شرح)
حضرت جابر بن سمرہؓ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ کا دہانہ کشادہ تھا۔ آنکھیں ہلکی سُرخی لیے ہوئے، اور ایڑیاں باریک۔ (صحیح مسلم ۲/۴۵۸)
حضرت ابو الطفیل کہتے ہیں کہ آپ ﷺ گورے رنگ، پُر ملاحت چہرے اور میانہ قدر وقامت کے تھے۔ (صحیح مسلم ۲/۴۵۸)
حضرت انس بن مالکؓ کا ارشاد ہے کہ آپ ﷺ کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں، اور رنگ چمکدار، نہ خالص سفید، نہ گندم گوں، وفات کے وقت تک سر اور چہرے کے بیس بال بھی سفید نہ ہوئے تھے۔ (صحیح بخاری ۱/۵۰۲) صرف کنپٹی کے بالوں میں سفیدی تھی، اور چند بال سر کے سفید تھے۔ (صحیح مسلم ۲/۲۵۹)
حضرت ابو جُحَیفہؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے نچلے ہونٹ کے نیچے عنفقہ (داڑھی بچہ) میں سفیدی دیکھی۔ (صحیح بخاری ۱/۵۰۱ ، ۵۰۲)
حضرت عبد اللہ بن بسرؓ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ کے عنفقہ (داڑھی بچہ) میں چند بال سفید تھے۔ (صحیح بخاری ۱/۵۰۲)
حضرت براء کا بیان ہے کہ آپ کا پیکر درمیانی تھا۔ دونوں کندھوں کے درمیان دوری تھی۔ بال دونوں کانوں کی لو تک پہنچتے تھے۔ میں نے آپ کو سرخ جوڑا زیب تن کیے ہوئے دیکھا، کبھی کوئی چیز آپ سے زیادہ خوبصورت نہ دیکھی۔ (صحیح بخاری ۱/۵۰۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
پہلے آپ اہل کتاب کی موافقت پسند کرتے تھے، اس لیے بال میں کنگھی کرتے تو مانگ نہ نکالتے۔ لیکن بعد میں مانگ نکالا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری ۱/۵۰۳)
حضرت براء کہتے ہیں : آپ کا چہرہ سب سے زیادہ خوبصورت تھا اور آپ کے اخلاق سب سے بہتر تھے۔ (ایضاً ۱/۵۰۲ صحیح مسلم ۲/۲۵۸)
ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا نبی ﷺ کا چہرہ تلوار جیسا تھا۔ انہوں نے کہا: نہیں بلکہ چاند جیسا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کا چہرہ گول تھا۔ (صحیح بخاری ۱/۵۰۲ صحیح مسلم ۲/۲۵۹)
ربیع بنت معوذ کہتی ہیں کہ اگر تم حضور کو دیکھتے تو لگتا کہ تم نے طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھا ہے۔ (مسند دارمی، مشکوٰۃ ۲/۵۱۷)
حضرت جابر بن سمرہؓ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بار چاندنی رات میں آپ ﷺ کو دیکھا، آپ پر سُرخ جوڑا تھا۔ میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا، اور چاند کو دیکھتا۔ آخر (اسی نتیجہ پر پہنچا کہ) آپ چاند سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ (ترمذی فی الشمائل ص ۲ دارمی، مشکوٰۃ ۲/۵۱۷)
حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز نہیں دیکھی لگتا تھا سورج آپ ﷺ کے چہرے میں رواں دواں ہے۔ اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کسی کو تیز رفتار نہیں دیکھا۔ لگتا تھا زمین آپ کے لیے لپیٹی جا رہی ہے۔ ہم تو اپنے آپ کو تھکا مارتے تھے۔ اور آپ بالکل بے فکر۔ (جامع ترمذی مع شرح تحفۃ الاحوذی ۴/۳۰۶ مشکوٰۃ ۲/۵۱۸)
حضرت کعب بن مالک کا بیان ہے کہ جب آپ ﷺ خوش ہوتے تو چہرہ دمک اٹھتا، گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے۔ (صحیح بخاری ۱/۵۰۲)
ایک بار آپ ﷺ حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ جوتا سی رہے تھے۔ اور وہ دھاگا کات رہی تھیں۔ پسینہ آیا تو چہرے کی دھاریاں چمک اٹھیں۔ یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عائشہؓ مبہوت ہو گئیں۔ اور کہنے لگیں کہ اگر ابو کبیر ہذلی آپ ﷺ کو دیکھ لیتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کے اس شعر کے حقدار کسی اور سے زیادہ آپ ہیں :
وإذا نظرت إلی أسرۃ وجہہ
برقت کبرق العارض المتہلل
''جب ان کے چہرے کی دھاریاں دیکھو تو وہ یوں چمکتی ہیں جیسے روشن بادل چمک رہا ہو۔'' (تہذیب تاریخ دمشق لابن عساکر)
ابو بکرؓ آپ کو دیکھ کر یہ شعر پڑھتے :
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
أمین مصطفی بالخیر یدعــو
کضـــوء البدر زایلہ الظـلام 1
''آپ امین ہیں چنیدہ وبرگزید ہ ہیں۔ خیر کی دعوت دیتے ہیں۔ گویا ماہ کامل کی روشنی ہیں۔ جس سے تاریکی آنکھ مچولی کھیل رہی ہے۔''
حضرت عمرؓ زُہیر کا یہ شعر پڑھتے جو ہرم بن سنان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ
لو کنت من شئ سـوی البشر
کنت المضـئ للیلـۃ البــدر2
''اگر آپ بشر کے سوا کسی اور چیز سے ہوتے تو آپ ہی چودھویں کی رات کو روشن کرتے۔'' پھر فرماتے کہ رسول اللہﷺ ایسے ہی تھے۔''
جب آپﷺ غضب ناک ہوتے تو چہرہ سرخ ہوجاتا گویا دونوں رخساروں میں دانۂ انار نچوڑ دیا گیا ہے۔3
حضرت جابر بن سمرہؓ کا بیان ہے کہ آپﷺ کی پنڈلیاں قدرے پتلی تھیں۔ اور آپﷺ ہنستے تو صرف تبسم فرماتے (آنکھیں سرمگیں تھیں ) تم دیکھتے تو کہتے کہ آپﷺ نے آنکھوں میں سرمہ لگا رکھا ہے حالانکہ سرمہ نہ لگا ہو تا۔4
حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ کے دانت سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔5
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے کہ آپﷺ کے آگے کے دونوں دانت الگ الگ تھے۔ جب آپﷺ گفتگو فرماتے تو ان دانتوں کے درمیان سے نور جیسا نکلتا دکھائی دیتا۔6
گردن گویا چاندی کی صفائی لیے ہوئے گڑیا کی گردن تھی، پلکیں طویل، داڑھی گھنی ، پیشانی کشادہ ، ابرو پیوستہ اور ایک دوسرے سے الگ ، ناک اونچی ، رخسار ہلکے ، لبہ سے ناف تک چھڑی کی طرح دوڑا ہوا بال ، اور اس کے سوا شکم اور سینے پر کہیں بال نہیں ، البتہ بازو اور مونڈھوں پر بال تھے ، شکم اور سینہ برابر ، سینہ مسطح اور کشادہ ، کلائیاں بڑی بڑی ، ہتھیلیاں کشادہ ، قد کھڑا ، تلوے خالی ، اعضاء بڑے بڑے ، جب چلتے تو جھٹکے کے ساتھ چلتے ، قدرے جھکاؤ کے ساتھ آگے بڑھتے ، اور سہل رفتارسے چلتے۔ 7
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1خلاصۃ السیر ص ۲۰ 2 ایضاً خلاصۃ السیر ص ۲۰
3 مشکوٰۃ ۱/۲۲، ترمذی : ابواب القدر ، باب ماجاء فی التشدید فی الخوض فی القدر ۲/۳۵
4 جامع ترمذی مع شرح تحفۃ الاحوذی ۴/۳۰۶
5 صحیح مسلم :کتاب الطلاق ، باب فی الایلاء ۳/۱۱۰۷ حدیث نمبر ۱۴۸۹
6 ترمذی مشکوٰۃ ۲/۵۱۸
7 خلاصۃ السیر ص ۱۹،۲۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حریر و دیبا ج نہیں چھویا جو رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلی سے نرم رہا ہو۔ اور نہ کبھی کوئی عنبر یا مشک یا کوئی ایسی خوشبو سونگھی جو رسول اللہ ﷺ کی خوشبو سے بہتر رہی ہو۔ (صحیح بخاری۱/۵۰۳ صحیح مسلم ۲/۲۵۷)
حضرے ابو جحیفہؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کا ہاتھ اپنے چہرہ پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبو دار تھا۔ (صحیح بخاری ۱/۵۰۲)
حضرت جابر بن سمرہؓ ... جو بچے تھے ... کہتے ہیں: آپ ﷺ نے میرے رخسار پر ہاتھ پھیرا تو میں نے آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور ایسی خوشبو محسوس کی گویا آپ ﷺ نے اسے عطار کے عطر دان سے نکالا ہے۔ (صحیح مسلم ۲/۲۵۶) حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ کا پسینہ گویا موتی ہوتا تھا۔ اور حضرت اُم سُلَیْم کہتی ہیں کہ یہ پسینہ ہی سب سے عمدہ خوشبو ہوا کرتی تھی۔ (ایضاً صحیح مسلم)
حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کسی راستے سے تشریف لے جاتے اور آپ ﷺ کے بعد کوئی اور گزرتا تو آپ ﷺ کے جسم یا پسینہ کی خوشبو کی وجہ سے جان جاتا کہ آپ ﷺ یہاں سے تشریف لے گئے ہیں۔ (دارمی مشکوٰۃ ۲/۵۱۷)
آپ ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی جو کبوتر کے انڈے جیسی اور جسم مُبارک ہی کے مشابہ تھی۔ یہ بائیں کندھے کی کری (نرم ہڈی) کے پاس تھی۔ اس پر مسوں کی طرح تلوں کا جمگھٹ تھا۔ (صحیح مسلم ۲/۲۵۹، ۲۶۰)
کمال نفس اور مکارمِ اخلاق:

نبی ﷺ فصاحت و بلاغت میں ممتاز تھے۔ آپ طبیعت کی روانی، لفظ کے نکھار، فقروں کی جزالت، معانی کی صحت، اور تکلف سے دوری کے ساتھ ساتھ جوامع الکلم (جامع باتوں) سے نوازے گئے تھے۔ آپ کو نادر حکمتوں اور عرب کی تمام زبانوں کا علم عطا ہوا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ ہر قبیلے سے اسی کی زبان اور محاوروں میں گفتگو فرماتے تھے۔ آپ ﷺ میں بدویوں کا زورِ بیان اور قوتِ تخاطب اور شہریوں کی شستگی الفاظ اور شفتگی و شائستگی جمع تھی اور وحی پر مبنی تائید ربانی الگ سے۔
بُردباری، قوتِ برداشت، قدرت پا کر درگزر اور مشکلات پر صبر ایسے اوصاف تھے جن کے ذریعہ اللہ نے آپ کی تربیت کی تھی۔ ہر حلیم و بردبار کی کوئی نہ کوئی لغزش اور کوئی نہ کوئی ہفوات جانی جاتی ہے ، مگر نبی ﷺ کی بلندی کردار کا عالم یہ تھا کہ آپ کے خلاف دشمنوں کی ایذا رسانی اور بد معاشوں کی خود سری و زیادتی جس قدر بڑھتی گئی، آپ کے صبر و حلم میں اسی قدر اضافہ ہوتا گیا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب بھی دو کاموں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آپ وہی کام اختیار فرماتے جو آسان ہوتا، جب تک کہ وہ گناہ کا کام نہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
ہوتا۔ اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ ﷺ سب سے بڑھ کر اس سے دور رہتے۔ آپ ﷺ نے کبھی اپنے نفس کے لیے انتقام نہ لیا، البتہ اگر اللہ کی حرمت چاک کی جاتی تو آپ ﷺ اللہ کے لیے انتقام لیتے۔ (صحیح بخاری ۱/۵۰۳)
آپ ﷺ سب سے بڑھ کر غیظ و غضب سے دور تھے۔ اور سب سے جلد راضی ہو جاتے تھے۔ جود و کرم کا وصف ایسا تھا کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ آپ ﷺ اس شخص کی طرح بخشش و نوازش فرماتے تھے جسے فقر کا اندیشہ نہ ہو۔ ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ سب سے بڑھ کر پیکر جود و سخا تھے۔ اور آپ ﷺ کا دریائے سخاوت رمضان میں اس وقت زیادہ جوش پر ہوتا جب حضرت جبریل آپ ﷺ سے ملاقات فرماتے۔ اور حضرت جبریل رمضان میں آپ ﷺ سے ہر رات ملاقات فرماتے۔ اور قرآن کا دور کراتے۔ پس رسول اللہ ﷺ خیر کی سخاوت میں (خزائن رحمت سے مالا مال کرکے) بھیجی ہوئی ہو اسے بھی زیادہ پیش پیش ہوتے تھے۔ (ایضاً ۱/۵۰۲) حضرت جابرؓ کا ارشاد ہے کہ ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ نے نہیں کہہ دیا ہو۔ (ایضاً ایضاً)
شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی آپ ﷺ کا مقام سب سے بلند اور معروف تھا۔ آپ ﷺ سب سے زیادہ دلیر تھے۔ نہایت کٹھن اور مشکل مواقع پر جبکہ اچھے اچھے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے، آپ ﷺ اپنی جگہ برقرار رہے اور پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے ہی برھتے گئے۔ پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی۔ بڑے بڑے بہادر بھی کبھی نہ کبھی بھاگے اور پسپا ہوئے ہیں۔ مگر آپ ﷺ میں یہ بات کبھی نہیں پائی گئی۔ حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ جب زور کا رَن پڑتا اور جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول اللہ ﷺ کی آڑ لیا کر تے تھے۔ آپ ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخص دشمن کے قریب نہ ہوتا۔ (شفاء قاضی عیاض ۱/۸۹ صحاح و سنن میں بھی اس مضمون کی روایت موجود ہے) حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا۔ لوگ آواز کی طرف دوڑے۔ راستے میں رسول اللہ ﷺ واپس آتے ہوئے ملے۔ آپ ﷺ لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ (کر خطرے کے مقام کا جائزہ لے) چکے تھے۔ اس وقت آپ ﷺ ابو طلحہؓ کے ایک ننگے گھوڑے پر سوار تھے۔ گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی۔ اور فرما رہے تھے: ڈرو نہیں، ڈرو نہیں۔ (کوئی خطرہ نہیں) (صحیح مسلم ۲/۲۵۲۔ صحیح بخاری ۱/۴۰۷)
آپ ﷺ سب سے زیادہ حیا دار اور پست نگاہ تھے۔ ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ آپ پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ جب آپ ﷺ کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرے سے پتہ لگ جاتا۔ (صحیح بخاری ۱/۵۰۴) اپنی نظریں کسی کے چہرے پر گاڑتے نہ تھے۔ نگاہ پست رکھتے تھے اور آسمان کی بہ نسبت زمین کی طرف نظر زیادہ دیر تک رہتی تھی۔ عموماً نیچی نگاہ سے تاکتے تھے۔ حیا اور کرم نفس کا عالم یہ تھا کہ کسی سے ناگوار بات رُو در رُو نہ کہتے۔ اور نہ کسی کی کوئی ناگوار بات آپ ﷺ تک پہنچتی تو نام لے کر ا س کا ذکر کرتے۔ بلکہ یوں فرماتے کہ کیا بات ہے کہ کچھ لوگ ایسا کر رہے ہیں۔ فَرزْدَق کے اس شعر کے سب سے زیادہ صحیح مصداق آپ تھے۔
یغضی حیاء ویغضی من مہابتہ
فلا یکلــــم إلا حیـن یبتســــم
"آپ حیاء کے سبب نگاہ پست رکھتے ہیں۔ اور آپ کی ہیبت کے سبب نگاہیں پست رکھی جاتی ہیں، چنانچہ آپ سے اسی وقت گفتگو کی جاتی جب آپ تبسم فرما رہے ہوں۔"
آپ ﷺ سب سے زیادہ عادل، پاک دامن، صادق اللہجہ اور عظیم الامانتہ تھے۔ اس کا اعتراف آپ ﷺ کے دوست دشمن سب کو ہے۔ نبوت سے پہلے آپ ﷺ کو امین کہا جاتا تھا۔ اور دور جاہلیت میں آپ ﷺ کے پاس فیصلے کے لیے مقدمات لائے جاتے تھے۔ جامع ترمذی میں حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ ایک بار ابو جہل نے آپ ﷺ سے کہا: ہم آپ ﷺ کو جھوٹا نہیں کہتے، البتہ آپ ﷺ جو کچھ لے کرآئے ہیں اسے جھٹلاتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّـهِ يَجْحَدُونَ (۶: ۳۳)
''یہ لوگ آپ ﷺ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔'' (مشکوٰۃ ۲/۵۲۱)
ہِرَقْل نے ابو سفیان سے دریافت کیا کہ کیا اس (نبی ﷺ) نے جو بات کہی ہے اس کے کہنے سے پہلے تم لوگ اسے جھوٹ سے متہم کرتے تھے؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ ''نہیں۔''
آپ ﷺ سب سے زیادہ متواضع اور تکبّر سے دور تھے۔ جس طرح بادشاہوں کے لیے ان کے خُدام و حاشیہ بردار کھڑے رہتے ہیں اس طرح اپنے لیے آپ صحابہ کرام کو کھڑے ہونے سے منع فرماتے تھے۔ مسکینوں کی عیادت کرتے تھے، فقراء کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ غلام کی دعوت منظور فرماتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کسی امتیاز کے بغیر ایک عام آدمی کی طرح بیٹھتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ اپنے جوتے خود ٹانکتے تھے۔ اپنے کپڑے خود سیتے تھے۔ اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کام کرتے تھے جیسے تم میں سے کوئی آدمی اپنے گھر کے کام کاج کرتا ہے۔ آپ ﷺ بھی انسانوں میں سے ایک انسان تھے۔ اپنے کپڑوں میں جوئیں تلاش کرتے تھے۔ اپنی بکری دوہتے تھے اور اپنا کام خود کرتے تھے۔ (مشکوٰۃ ۲/۵۲۰)
آپ ﷺ سب سے بڑھ کر عہد کی پابندی اور صلہ رحمی فرماتے تھے۔ لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ شفقت اور رحم و مروت سے پیش آتے تھے۔ رہائش اور ادب میں سب سے اچھے تھے۔ آپ ﷺ کا اخلاق سب سے زیادہ کشادہ تھا۔ بد خلقی سے سب سے زیادہ دور و نفور تھے نہ عادتا فحش گو تھے، نہ بہ تکلف فحش کہتے تھے۔ نہ لعنت کرتے تھے۔ نہ بازار میں چیختے چلاتے تھے۔ نہ بُرائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے۔ بلکہ معافی اور درگذر سے کام
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
لیتے تھے۔ کسی کو اپنے پیچھے چلتا ہوا نہ چھوڑتے تھے۔ اور نہ کھانے پینے میں اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر ترفُّع اختیار فرماتے تھے۔ اپنے خادم کا کام خود ہی کر دیتے تھے۔ کبھی اپنے خادم کو اُف نہیں کہا، نہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر عتاب فرمایا۔ مسکینوں سے محبت کرتے، ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور ان کے جنازوں میں حاضر ہوتے تھے۔ کسی فقیر کو اس کے فقر کی وجہ سے حقیر نہیں سمجھتے تھے۔ ایک بار آپ ﷺ سفر میں تھے۔ ایک بکری کاٹنے پکانے کا مشورہ ہوا۔ ایک نے کہا: ذبح کرنا میرے ذمہ، دوسرے نے کہا کھال اتارنا میرے ذمہ، تیسرے نے کہا: پکانا میرے ذمہ، نبی ﷺ نے فرمایا لکڑی جمع کرنا میرے ذمہ، صحابہ نے عرض کیا: ہم آپ کا کام کر دیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں جانتا ہوں تم لوگ میرا کام کر دو گے۔ لیکن میں پسند نہیں کرتا کہ تم پر امتیاز حاصل کروں، کیونکہ اللہ اپنے بندے کی یہ حرکت ناپسند کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے رفقاء میں ممتاز سمجھے، اس کے بعد آپ ﷺ نے اُٹھ کر لکڑی جمع فرمائی۔ (خلاصۃ السیر ص ۲۲)
آیئے! ذرا ہند بن ابی ہالہ کی زبانی رسول اللہ ﷺ کے اوصاف سنیں۔ ہند اپنی ایک طویل روایت میں کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ پیہم غموں سے دوچار تھے۔ ہمیشہ غور و فکر فرماتے رہتے تھے۔ آپ کے لیے راحت نہ تھی۔ بلا ضرورت نہ بولتے تھے۔ دیر تک خاموش رہتے تھے۔ بات کا آغاز و اختتام پورے منہ سے کرتے تھے، یعنی صرف منہ کے کنارے سے نہ بولتے تھے، جامع اور دوٹوک کلمات کہتے تھے۔ جن میں نہ فضول گوئی ہوتی تھی نہ کوتاہی۔ نرم خو تھے۔ جفا جو اور ناقدرے نہ تھے۔ نعمت معمولی بھی ہوتی تو اس کی تعظیم کرتے تھے۔ کسی چیز کی مذمت نہیں فرماتے تھے۔ کھانے کی نہ برائی کرتے تھے نہ تعریف، حق سے کوئی تعرض کیا جاتا تو جب تک انتقام نہ لے لیتے آپ کے غضب کو روکا نہ جا سکتا تھا۔ البتہ کشادہ دل تھے، اپنے نفس کے لیے نہ غضبناک ہوتے نہ انتقام لیتے۔ جب اشارہ فرماتے تو پوری ہتھیلی سے اشارہ فرماتے۔ اور تعجب کے وقت ہتھیلی پلٹتے۔ جب غضبناک ہوتے تو رُخ پھیر لیتے۔ اور جب خوش ہوتے تو نگاہ پست فرما لیتے۔ آپ کی بیشتر ہنسی تبّسم کی صورت میں تھی۔ مسکراتے تو دانت اولوں کی طرح چمکتے۔
لایعنی بات سے زبان روکے رکھتے۔ ساتھیوں کو جوڑتے تھے توڑتے نہ تھے۔ ہر قوم کے معزز آدمی کی تکریم فرماتے تھے۔ اور اسی کو ان کا والی بناتے تھے۔ لوگوں (کے شر) سے محتاط رہتے اور ان سے بچاؤ اختیار فرماتے تھے۔ لیکن اس کے لیے کسی سے اپنی خندہ جبینی ختم نہ فرماتے تھے۔
اپنے اصحاب کی خبر گیری کرتے۔ اور لوگوں کے حالات دریافت فرماتے۔ اچھی چیز کی تحسین و تصویب فرماتے اور بری چیز کی تقبیح و توہین۔ معتدل تھے، زیادہ نشیب و فراز نہ تھا غافل نہ ہوتے تھے کہ مبادا لوگ بھی غافل یا ملول خاطر ہو جائیں۔ ہر حالت کے لیے مستعد رہتے تھے۔ حق سے کوتاہی نہ فرماتے تھے نہ ناحق کی طرف تجاوز
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
فرماتے تھے، جو لوگ آپ ﷺ کے قریب رہتے تھے وہ سب سے اچھے لوگ تھے۔ اور ان میں بھی آپ ﷺ کے نزدیک افضل وہ تھا جو سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہو۔ اور سب سے زیادہ قدر آپ ﷺ کے نزدیک اس کی تھی جو سب سے اچھا غمگسار مددگار ہو۔
آپ ﷺ اُٹھتے بیٹھتے اللہ کا ذکر ضرور فرماتے۔ جگہیں متعین نہ فرماتے - یعنی اپنے لیے کوئی امتیازی جگہ مقرر نہ فرماتے- جب قوم کے پاس پہنچتے تو مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے۔ اور اسی کا حکم بھی فرماتے۔ ہر جلیس کو اس کا حصہ عطا فرماتے، حتیٰ کہ کوئی جلیس یہ نہ محسوس کرتا کہ کوئی شخص آپ ﷺ کے نزدیک اس سے زیادہ باعزت ہے۔ کوئی کسی ضرورت سے آپ ﷺ کے پاس بیٹھتا یا کھڑا ہوتا تو آپ ﷺ اتنے صبر کے ساتھ اس کے لیے رکے رہتے کہ وہی پلٹ کر واپس ہوتا۔ کوئی کسی ضرورت کا سوال کر دیتا تو آپ اسے عطا کیے بغیر یا اچھی بات کہے بغیر واپس نہ فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نے اپنی خندہ جبینی اور اخلاق سے سب کو نوازا۔ یہاں تک آپ سب کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے۔ اور سب آپ کے نزدیک یکساں حق رکھتے تھے۔ کسی کو فضیلت تھی تو تقویٰ کی بنیاد پر۔ آپ ﷺ کی مجلس حلم و حیاء اور صبر و امانت کی مجلس تھی۔ اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھیں۔ اور نہ حرمتوں کا مرثیہ ہوتا تھا - یعنی کسی کی آبرو پر بٹہ کا اندیشہ نہ تھا- لوگ تقویٰ کے ساتھ باہم محبت و ہمدردی رکھتے تھے۔ بڑے کا احترام کرتے تھے۔ چھوٹے پر رحم کرتے تھے۔ حاجت مند کو نوازتے تھے اور اجنبی کو انس عطا کرتے تھے۔
آپ ﷺ کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی، سہل خو اور نرم پہلو تھے۔ جفا جو اور سخت خو نہ تھے۔ نہ چیختے چلاتے تھے، نہ فحش بکتے تھے نہ زیادہ عتاب فرماتے تھے۔ نہ بہت تعریف کرتے تھے، جس چیز کی خواہش نہ ہوتی اس سے تغافل برتتے تھے۔ آپ ﷺ سے مایوسی نہیں ہوتی تھی۔ آپ ﷺ نے تین باتوں سے اپنے نفس کو محفوظ رکھا۔ [۱] ریاء سے [۲ ] کسی چیز کی کثرت سے [۳] اور لا یعنی بات سے، اور تین باتوں سے لوگوں کو محفوظ رکھا۔ یعنی آپ ﷺ [۱ ] کسی کی مذمت نہیں کرتے تھے [۲ ] کسی کو عار نہیں دلاتے تھے [ ۳ ] اور کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے تھے۔ آپ ﷺ وہی بات نوک زبان پر لاتے تھے جس میں ثواب کی امید ہوتی۔ جب آپ ﷺ تکلم فرماتے تو آپ ﷺ کے ہم نشین اپنے سر جھکا لیتے گویا ان کے سروں پر چڑیا ہے۔ اور جب آپ ﷺ خاموش ہوتے تو لوگ گفتگو کرتے۔ لوگ آپ ﷺ کے پاس گپ بازی نہ کرتے۔ آپ کے پاس جو کوئی بولتا سب اس کے لیے خاموش رہتے، یہاں تک کہ وہ اپنی بات پوری کر لیتا۔ ان کی بات ان کے پہلے شخص کی بات ہوتی۔ جس بات سے سب لوگ ہنستے اس سے آپ بھی ہنستے، اور جس بات پر سب لوگ تعجب کرتے اس پر آپ ﷺ بھی تعجب کرتے۔ اجنبی آدمی بات میں جفا سے کام لیتا تو اس پر آپ صبر کرتے، اور فرماتے: جب تم لوگ حاجت مند کو دیکھو کہ وہ اپنی حاجت کی طلب میں ہے تو اسے سامان ضرورت سے نواز دو۔ آپ احسان کا بدلہ دینے والے کے سوا کسی سے ثناء کے طالب نہ ہوتے۔ (شفاء قاضی عیاض ۱/۱۲۱ نیز دیکھئے شمائل ترمذی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
خارجہ بن زیدؓ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ اپنی مجلس میں سب سے باوقار ہوتے۔ اپنا کوئی عضو باہر نہ نکالتے۔ بہت زیادہ خاموش رہتے۔ بلا ضرورت نہ بولتے۔ جو شخص نامناسب بات بولتا اس سے زُخ پھیر لیتے۔ آپ کی ہنسی مسکراہٹ تھی۔ اور کلام دوٹوک، نہ فضول نہ کوتاہ، آپ کے صحابہ کی ہنسی بھی آپ کی توقیر و اقتداء میں مسکراہٹ ہی کی حد تک ہوتی۔ (شفاء قاضی عیاض ۱/۱۰۷)
حاصل یہ کہ نبی ﷺ بے نظیر صفاتِ کمال سے آراستہ تھے۔ آپ کے رب نے آپ کو بے نظیر ادب سے نوازا تھا حتیٰ کہ اس نے خود آپ کی تعریف میں فرمایا :
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ (۶۸: ۴)
''یقینا آپ عظیم اخلاق پر ہیں۔''
اور یہ ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے لوگ آپ ﷺ کی طرف کھینچ آئے۔ دلوں میں آپ ﷺ کی محبت بیٹھ گئی۔ اور آپ کو قیادت کا وہ مقام حاصل ہوا کہ لوگ آپ ﷺ پر وارفتہ ہو گئے۔ انہی خوبیوں کے سبب آپ کی قوم کی اکڑ اور سختی نرمی میں تبدیل ہوئی یہاں تک کہ یہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو گئی۔
یاد رہے کہ ہم نے پچھلے صفحات میں آپ ﷺ کی جن خوبیوں کا ذکر کیا ہے، وہ آپ کے کمال خلق اور عظیم صفات کے مظاہر کی چند چھوٹی چھوٹی لکیریں ہیں۔ ورنہ آپ کے مجد و شرف اور شمائل و خصائل کی بلندی اور کمال کا یہ عالم تھا کہ ان کی حقیقت اور تہ تک نہ رسائی ممکن ہے، نہ اس کی گہرائی ناپی جا سکتی۔
بھلا عالم وجود کے اس سب سے عظیم بشر کی عظمت کی کنہ تک کس کی رسائی ہو سکتی ہے، جس نے مجد و کمال کی سب سے بلند چوٹی پر اپنا نشیمن بنایا۔ اور اپنے رب کے نور سے اس طرح منور ہوا کہ کتاب الٰہی ہی کو اس کا وصف اور خُلق قرار دیا گیا، یعنی ...
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
اللّٰہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی إبراہیم وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید اللہم بارک علی محمد وعلی محمد کما بارکت علی إبراہیم وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید

حسین آباد، مبارکپور صفی الرحمن المبارکفوری
ضلع اعظم گڑھ (یو پی) ہند ۱۶ رمضان المبارک ۱۴۰۴ھ
۱۷ جون ۱۹۸۴ھ
 
Top