محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
آب حیات میں مولانا محمد حسن آزاد نے میر سوز کا ذکر کرتے ہوئے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک دن سودا کے ہاں میر سوز تشریف لائے۔ ان دنوں شیخ حزیں کی غزل کا چرچا تھا جس کا مطلع ہے۔
می گرفتیم بجا تا سرِ را ہے گا ہے
اُد ہم از لطفِ نہاں داشت نگا ہے گا ہے
میر سوز مرحوم نے اپنا مطلع پڑھا۔
نہیں نکلے ہے مرے دل کی اَپا ہے گا ہے
اے مُلک بہرِ خُدا رخصتِ آہے گا ہے
مرزا سن کر بو لے کہ میر صاحب بچپن میں ہمارے ہاں پشور کی ڈومنیاں آیا کرتی تھیں یا جب یہ لفظ سنا تھا یا آج سنا۔ میر سوز بچا رے ہنس کر چپ ہو رہے۔
پشا ور کی ڈومنیاں جو کہ نکسے اور اَیا ہے بو لتی تھیں فا رسی غزلوں کے بجائے ہندی چیزیں سنا تی ہونگی جو ان دنوں قریب الفہم اور مقبولِ عام تھیں۔
خلاصہ اس گفتگو کا یہ ہے کہ اردو جو کھڑی بو لی کا ایک مخصوص روپ ہے، عوام کی بولی چال کی زبان بنی اور ا س نے پہلی بار ان کے جذبہ اظہار کو زبان دی ادبی زبان اور بول چال کے فرق کو مٹا یا۔ چنانچہ اٹھارویں صدی پر دہلوی شعراء کا کلام
بالعموم اسی لسانی اصول کا پا بند اور آئینہ دار ہے۔
آ گے چل کر جب مرزا مظہر جانجاناں، حا تم، سودا، نا سخ، شا ہ نصیر اور ذوق نے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر کے مطابق اصلا ح زبان کا کام کیا تو دہلی میں گاہ گا ہ متروک الفا ظ و محاورات کے سا تھ ساتھ جو قدیم لب و لہجے کی گونج سنا ئی دیتی رہی۔ اس کا سہرا مردوں سے زیادہ عورتوں کے سر ہے۔ عورتیں زبان کے معاملے میں قدامت پسند ہو تی ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں ان کا ملنا جُلنا باہر والوں سے کم ہوتا ہے۔ نیز مختلف النوع اقوام اور بھانت بھانت کی زبان بولنے والوں سے بعد کی وجہ سے ان کی زبان بگڑ نے سے محفوظ رہتی ہے۔ عورتوں کی نما یاں خصوصیت انتخابِ الفاظ کے سلسلے میں یہ ہے کہ وہ کریہہ الفا ظ کی جگہ لطیف الفا ظ استعمال کرتی ہیں۔ ان جزوی اختلافاتِ زبان کے علاوہ انتہا ئی نما یاں خصوصیت مردوں اور عورتوں کی زبان کے اختلاف کی یہ ہے کہ عورتیں جنسیات سے متعلق باتیں واضح الفا ظ میں کہنے کے بجائے اشارے اور کنائے میں بیان کر تی ہیں۔ بیگمات کی زبان میں ہر قسم کا جنسی افعال کے لئے پر دہ پوش اصطلاحات و محاورات مو جود ہیں۔ مثلاً میلے سر سے ہو نا، گود میں پھول جھڑنا، دوجیاں ہونا بات کر نا جیسے متعدد محاورے عورتوں نے مختلف کیفیات کو ظاہر کر نے کے لئے بنائے اور اُن کا چلن عام کیا۔
جو ہونی تھی وہ بات ہو ئی کہاروں
چلو لے چلو میری ڈولی کہاروں
مَردُوا کہتا ہے آؤ چلو آرام کریں
جس کو آرام یہ سمجھے ہے وہ آرام ہو نوج۔
عورتیں اپنے گرد و پیش کے الفاظ چنتی ہیں ان کے ہاں کسی شئے کی جزئیات کو پیش کر نے کے لئے الفاظ کی کمی نہیں ہو تی اسی لئے مردوں کی بجائے عورتوں کی لکھی ہو ئی کتابیں زیادہ عام فہم صاف اور شستہ ہو تی ہیں۔ عورتیں لسانی اعتبار سے مردوں سے زیادہ تیز طرار ہوتی ہیں۔ وہ سیکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ سننے میں تیز ہیں اور جواب دینے پر زیادہ قدرت رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں عورتیں باتونی مشہور ہیں۔ مردوں کے برعکس انہیں الفاظ ٹٹولنے اور تولنے میں دیر نہیں لگتی۔ عورتیں نئی نئی اصطلاحیں محاورے وضع کر لیتی ہیں، جن میں اکثر خوش آواز مترنم اور پرلطف ہو تے ہیں۔ ہر زبان کی لغت میں ایک ایسی فرہنگ موجود ہوتی ہے جو عورتوں کی بول چال کے لئے مخصوص ہے۔ مردوں کی گفتگو میں یہ الفا ظ شاذ ہی نظر آتے ہیں۔ اُردو نثر میں عورتوں کی بول چال کم و بیش طلسمِ باغ و بہار اور دیگر نثری داستانوں میں سمٹ آئی ہے۔ ایک اور مثال واجد علی شاہ کی بیگمات کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے واجد علی شاہ کو مٹیا برج جانے کے بعد لکھے ہیں۔
زبان سے ملک کا سکّہ ہے عورت
انوکھا ہے چلن سارے جہاں سے
زباں کا فیصلہ ہے عورتوں پر
یہ باتیں مردوئے لائیں کہاں سے
عورتوں کی زبان سے خدا بچائے، بیگمات کی بول چال سے گو کان آشنا نہیں، آنکھوں نے اور اقِ پارینہ میں اُن کی جھلکیاں دیکھی ہیں۔ ان کے ممتاز محاورات پر نظر ڈالئے تو آنکھوں کے سامنے رمز و کنائے کا ایک رنگیں چمن ہو گا۔ اُن کی صناعی طباعی کا جوہر منہ بند کلیوں کی طرح کھلتا اور خندۂ مل کی طرح مہکتا نظر آئے گا۔
می گرفتیم بجا تا سرِ را ہے گا ہے
اُد ہم از لطفِ نہاں داشت نگا ہے گا ہے
میر سوز مرحوم نے اپنا مطلع پڑھا۔
نہیں نکلے ہے مرے دل کی اَپا ہے گا ہے
اے مُلک بہرِ خُدا رخصتِ آہے گا ہے
مرزا سن کر بو لے کہ میر صاحب بچپن میں ہمارے ہاں پشور کی ڈومنیاں آیا کرتی تھیں یا جب یہ لفظ سنا تھا یا آج سنا۔ میر سوز بچا رے ہنس کر چپ ہو رہے۔
پشا ور کی ڈومنیاں جو کہ نکسے اور اَیا ہے بو لتی تھیں فا رسی غزلوں کے بجائے ہندی چیزیں سنا تی ہونگی جو ان دنوں قریب الفہم اور مقبولِ عام تھیں۔
خلاصہ اس گفتگو کا یہ ہے کہ اردو جو کھڑی بو لی کا ایک مخصوص روپ ہے، عوام کی بولی چال کی زبان بنی اور ا س نے پہلی بار ان کے جذبہ اظہار کو زبان دی ادبی زبان اور بول چال کے فرق کو مٹا یا۔ چنانچہ اٹھارویں صدی پر دہلوی شعراء کا کلام
بالعموم اسی لسانی اصول کا پا بند اور آئینہ دار ہے۔
آ گے چل کر جب مرزا مظہر جانجاناں، حا تم، سودا، نا سخ، شا ہ نصیر اور ذوق نے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر کے مطابق اصلا ح زبان کا کام کیا تو دہلی میں گاہ گا ہ متروک الفا ظ و محاورات کے سا تھ ساتھ جو قدیم لب و لہجے کی گونج سنا ئی دیتی رہی۔ اس کا سہرا مردوں سے زیادہ عورتوں کے سر ہے۔ عورتیں زبان کے معاملے میں قدامت پسند ہو تی ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں ان کا ملنا جُلنا باہر والوں سے کم ہوتا ہے۔ نیز مختلف النوع اقوام اور بھانت بھانت کی زبان بولنے والوں سے بعد کی وجہ سے ان کی زبان بگڑ نے سے محفوظ رہتی ہے۔ عورتوں کی نما یاں خصوصیت انتخابِ الفاظ کے سلسلے میں یہ ہے کہ وہ کریہہ الفا ظ کی جگہ لطیف الفا ظ استعمال کرتی ہیں۔ ان جزوی اختلافاتِ زبان کے علاوہ انتہا ئی نما یاں خصوصیت مردوں اور عورتوں کی زبان کے اختلاف کی یہ ہے کہ عورتیں جنسیات سے متعلق باتیں واضح الفا ظ میں کہنے کے بجائے اشارے اور کنائے میں بیان کر تی ہیں۔ بیگمات کی زبان میں ہر قسم کا جنسی افعال کے لئے پر دہ پوش اصطلاحات و محاورات مو جود ہیں۔ مثلاً میلے سر سے ہو نا، گود میں پھول جھڑنا، دوجیاں ہونا بات کر نا جیسے متعدد محاورے عورتوں نے مختلف کیفیات کو ظاہر کر نے کے لئے بنائے اور اُن کا چلن عام کیا۔
جو ہونی تھی وہ بات ہو ئی کہاروں
چلو لے چلو میری ڈولی کہاروں
مَردُوا کہتا ہے آؤ چلو آرام کریں
جس کو آرام یہ سمجھے ہے وہ آرام ہو نوج۔
عورتیں اپنے گرد و پیش کے الفاظ چنتی ہیں ان کے ہاں کسی شئے کی جزئیات کو پیش کر نے کے لئے الفاظ کی کمی نہیں ہو تی اسی لئے مردوں کی بجائے عورتوں کی لکھی ہو ئی کتابیں زیادہ عام فہم صاف اور شستہ ہو تی ہیں۔ عورتیں لسانی اعتبار سے مردوں سے زیادہ تیز طرار ہوتی ہیں۔ وہ سیکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ سننے میں تیز ہیں اور جواب دینے پر زیادہ قدرت رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں عورتیں باتونی مشہور ہیں۔ مردوں کے برعکس انہیں الفاظ ٹٹولنے اور تولنے میں دیر نہیں لگتی۔ عورتیں نئی نئی اصطلاحیں محاورے وضع کر لیتی ہیں، جن میں اکثر خوش آواز مترنم اور پرلطف ہو تے ہیں۔ ہر زبان کی لغت میں ایک ایسی فرہنگ موجود ہوتی ہے جو عورتوں کی بول چال کے لئے مخصوص ہے۔ مردوں کی گفتگو میں یہ الفا ظ شاذ ہی نظر آتے ہیں۔ اُردو نثر میں عورتوں کی بول چال کم و بیش طلسمِ باغ و بہار اور دیگر نثری داستانوں میں سمٹ آئی ہے۔ ایک اور مثال واجد علی شاہ کی بیگمات کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے واجد علی شاہ کو مٹیا برج جانے کے بعد لکھے ہیں۔
زبان سے ملک کا سکّہ ہے عورت
انوکھا ہے چلن سارے جہاں سے
زباں کا فیصلہ ہے عورتوں پر
یہ باتیں مردوئے لائیں کہاں سے
عورتوں کی زبان سے خدا بچائے، بیگمات کی بول چال سے گو کان آشنا نہیں، آنکھوں نے اور اقِ پارینہ میں اُن کی جھلکیاں دیکھی ہیں۔ ان کے ممتاز محاورات پر نظر ڈالئے تو آنکھوں کے سامنے رمز و کنائے کا ایک رنگیں چمن ہو گا۔ اُن کی صناعی طباعی کا جوہر منہ بند کلیوں کی طرح کھلتا اور خندۂ مل کی طرح مہکتا نظر آئے گا۔