درج ذیل اقوال سے تضعیف ثابت نہیں ہوتی
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ (المتوفى161) سے منقول ہے:
سماك بن حرب ضعيف
سماک بن حرب ضعیف ہے۔[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 541 واسنادہ ضعیف]
اس قو ل کی سند ضعیف ہے۔کیونکہ اس کی سند میں ''محمد بن خلف بن عبد الحميد'' مجہول ہے۔
لیکن اما م یعقوب بن شیبہ نے زکریابن عدی کے حوالہ سے یہ قول نقل کیا ہے اوراس میں سفیان ثوری کاحوالہ چھوٹ گیا ہے۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس قول کی کوئی اصل ہے[تهذيب الكمال للمزي: 12/ 120 نقلہ عن یعقوب ۔نیز دیکھیں:التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 16/ 14]۔
اور حقیقت میں یہ قول سفیان ثوری ہی کا ہے جیساکہ ابن عدی کی روایت سے معلوم ہوتاہے۔ ابن عدی کی سند گرچہ ضعیف ہے لیکن حافظ یعقوب بن شیبہ کے نقل سے اس کے اصل کی تائید ہوتی لہٰذا دونوں کو ملا کریہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ سفیان ثوری ہی کا قول ہے۔دیکھئے:[تنقيح التحقيق لابن عبد الهادي بتحقیق سامی: 1/ 48 حاشیہ نمبر5]
لیکن سفیان ثوری کی اس تضعیف سے مراد معمولی درجے کی تضعیف ہے جیساکہ سفیان ثوری ہی سے ایک دوسراقول منقول ہے جس سے معلوم ہوتا ہےکہ سفیان ثوری سماک میں معمولی درجہ کا ضعف مانتے تھے چنانچہ:
امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
وكان سفيان الثوري يضعفه بعض الضعف
سفیان ثوری ان کے اندرکچھ ضعیف بتلاتے تھے[تاريخ الثقات للعجلي: ص: 207 بدون سند]
دوسری طرف سفیان رحمہ اللہ نے یہ کہا:
ما يسقط لسماك بن حرب حديث
سماک بن حرب کی کوئی حدیث ساقط نہیں[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 9/ 214 واسنادہ صحیح]
اوراس کا مطلب یہی ہے کہ سفیان ثوری کے نزدیک سماک بن حرب ثقہ ہیں جیساکہ معدلین کے اقوال میں نمبر (2) کے تحت مزید تفصیل آرہی ہے دیکھئے: ص۔۔
اوراس توثیق کی روشنی میں ان کی تضعیف کی تفسیر یہی کی جائے گی کہ اس سے معمولی درجے کا ضعف مراد جیساکہ امام عجلی نے صراحۃ یہی بات ان کے حوالہ سے نقل کی ہے،کمامضی۔
یاپھر یہ کہ اس سے مراد بعد میں ان کا مختلط ہونا ہے جیساکہ حافظ یعقوب نے اس قول کی یہی تفسیر کی ہے لیکن انہوں نے اسے سفیان ثوری کے شاگرد ابن المبار ک کی طرف منسوب کردیا ہے جوکہ سہوہے۔جیساکہ وضاحت کی گئی۔
جرير بن عبد الحميد الضبي (المتوفى188)نے کہا:
أتيت سماك بن حرب فوجدته يبول قائما فتركته، ولم أسمع منه
میں سماک بن حرب کے پاس آیا تو میں نے انہیں کھڑے ہوکر پیشاکرتے ہوئے دیکھا تو میں نے انہیں چھوڑ دیا اور ان سے کچھ بھی نہیں سنا[الضعفاء الكبير للعقيلي: 2/ 178 واسنادہ صحیح]
عرض ہے کہ ممکن ہے سماک بن حرب کسی عذر کی وجہ سے کھڑے ہوکر پیشاب کررہے ہوں ، اس لئے محض اتنی سی بات سے کسی پر تنقید نہیں کی جاسکتی ۔کیونکہ اس طرح کی بات توبعض صحابہ سے بھی ثابت نہیں چنانچہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے بھی کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ثابت ہے۔دیکھئے:[موطأ مالك ت عبد الباقي: 1/ 65 واسنادہ صحیح]
احناف کے امام محمد نے بھی ابن عمررضی اللہ عنہ کا یہ عمل نقل کیا ہے دیکھئے:[موطأ محمد بن الحسن الشيباني: ص: 343]
بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ثابت ہے۔[صحيح البخاري 1/ 54 رقم224]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل ابوحنیفہ کی طرف منسوب مسند ابی حنیفہ میں بھی منقول ہے۔دیکھئے:[جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 250]
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
مضطرب الحديث
یہ حدیث میں اضطراب کے شکار ہوجاتے ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 279 واسنادہ صحیح]
نوٹ:
اس قول کی سند میں امام ابن ابی حاتم کے استاذ ’’محمد بن حمويه بن الحسن‘‘ ثقہ ہیں ۔امام ابن ابی حاتم نے ان سے روایت بیان کیا ہے اور امام ابن ابی حاتم صرف ثقہ ہی سے روایت بیان کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک مقام پر ایک راوی کے بارے میں خود انہوں نے کہا:
كتبت عنه وامسكت عن التحديث عنه لما تكلم الناس فيه
میں نے ان سے لکھا لیکن ان سے روایت بیان کرنے سے رک گیا کیونکہ لوگوں نے ان پر کلام کیا ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 62]
معلوم ہواکہ غیرثقہ راوی سے امام ابن ابی حاتم روایت بیان نہیں کرتے تھے جیساکہ ان کے والدکا بھی یہی معمول تھا ۔اور’’محمد بن حمويه بن الحسن‘‘ سے امام ابن ابی حاتم نے تقریبا ڈھائی سو روایات بیان کی ہیں ۔ لہٰذا امام ابن ابی حاتم کے نزدیک یہ یقینی طور پر ثقہ ہیں۔
امام احمدرحمہ اللہ کی اس جرح کا تعلق خاص عکرمہ عن ابن عباس کے طریق سے ہے چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ کے دوسرے شاگرد ابوبکربن هانئ الأثرم نے امام احمد رحمہ اللہ کی یہ جرح ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
حدیث سماک مضطرب عن عکرمہ
عکرمہ سے سماک کی روایت مضطرب ہے[النفح الشذی : ص326 نقلہ من کتاب الاثرم]
اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ کے شاگر امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا :
سمعت أحمد، قال: قال شريك: كانوا يلقنون سماك أحاديثه عن عكرمة، يلقنونه: عن ابن عباس، فيقول: عن ابن عباس
میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے سنا کہ شریک نے کہا: لوگ سماک کو عکرمہ سے ان کی مرویات کی تلقین کرتے تھے ۔لوگ تلقین کرتے ہوئے کہتے تھے : عن ابن عباس یعنی یہ ابن عباس سے مروی ہے۔ تو سماک بھی کہتے : عن ابن عباس ، یعنی یہ ابن عباس سے مروی ہے[مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني ص: 440]
نیز ''علل'' میں یوں صراحت ہے:
وسماك يرفعها عن عكرمة عن بن عباس
سماک عکرمہ عن ابن عباس کی روایت کو مرفوع بناتے دیتے ہیں[العلل ومعرفة الرجال لأحمد: 1/ 395]
ثابت ہوا کہ امام احمدرحمہ اللہ کی جرح عکرمہ عن ابن عباس والی سند پر ہے اور اس کے علاوہ دیگر سندوں میں سماک امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک ثقہ ہیں۔
اس کی مزید تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ دیگر محدثین نے بھی اضطراب والی جرح خاص عکرمہ والی سند پر ہی کی ہے چنانچہ :
امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234) نے نقل کرتے ہوئے حافظ یقوب نے کہا:
قلت لابن المديني رواية سماك عن عكرمة فقال مضطربة
میں نے امام علی بن المدینی سے پوچھا: عکرمہ سے سماک کی روایت کیسی ہے؟ تو انہوں نے کہا: مضطرب ہے[تهذيب التهذيب لابن حجر: 4/ 233 ونقلہ من یعقوب بن شیبہ وھو صاحب کتاب]
حافظ يعقوب بن شيبة (المتوفى262)نے کہا:
وروايته عن عكرمة خاصة مضطربة
سماک کی خاص عکرمہ سے روایت مضطرب ہے[تهذيب الكمال للمزي: 12/ 120 ونقلہ من یعقوب]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق وروايته عن عكرمة خاصة مضطربة
آپ صدوق ہیں اور خاص عکرمہ سی آپ کی روایات مضطرب ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم2624]
بلکہ امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795)نے تو متعدد حفاظ کے اقوال کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا:
ومن الحفاظ من ضعف حديثه عن عكرمة خاصة
اورحفاظ میں سے کچھ لوگوں نے خاص عکرمہ ہی سے سماک کی روایت کو ضعیف قراردیا ہے[شرح علل الترمذي 2/ 797]
معلوم ہوا کہ امام احمد کی مضطرب والی جرح صرف عکرمہ والی سند کے ساتھ خاص ہے۔
نیزاس کی زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ امام احمد نے سماک کی حدیث کو ''عبد الملك بن عمير'' کی حدیث سے بہتر کہا ہے چنانچہ:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
سماك بن حرب اصلح حديثا من عبد الملك بن عمير
سماک بن حرب یہ عبدالملک بن عمیر سے بہتر حدیث والے ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 279 واسنادہ صحیح]
اور''عبد الملك بن عمير'' کتب ستہ کے معروف ثقہ راوی ہیں[تهذيب الكمال للمزي: 18/ 370]
لہٰذا امام احمدرحمہ اللہ کے نزدیک سماک بدرجہ اولی ثقہ ہیں۔
محمد بن عبد الله بن عمارالموصلى (المتوفى242)نے کہا:
سماك بن حرب يقولون انه كان يغلط ويختلفون في حديثه
سماک بن حرب کے بارے میں محدثین کہتے ہیں کہ یہ غلطی کرتے تھے اور محدثین ان کی حدیث میں اختلاف کرتے ہیں[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 9/ 214 واسنادہ صحیح]
عرض ہے کہ محض غلطی کرنے سے کوئی ضعیف نہیں ہوجاتا ثقہ رواۃ سے بھی غلطی ہوجاتی ہے اس لئے یہ قول مجمل ہے ابن عمار موصلی کا یہ اپنا قول نہیں ہے بلکہ انہوں نے محدثین کی طرف اسے منسوب کیا ہے اور محدثین نے اپنے قول کی تفسیر یہ کی ہے کہ خاص عکرمہ والی سند میں ہی سماک غلطی کرتے تھے۔
امام صالح بن محمد جزرة رحمه الله (المتوفى293)نے کہا:
وسماك بن حرب يضعف
سماک بن حرب کو ضعیف کہاجاتاہے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 9/ 214 واسنادہ حسن]
نوٹ:-اس قول کی سند میں خطیب بغدادی کے استاذ ”محمد بن علي المقرئ“ یہ ”محمد بن محمد: بن علي المقرئ. العكبري الجوزراني“ ہیں۔ اور امام ذہبی نے انہیں ”صدوق“ کہا ہے ، لہٰذا اس قول کی سند حسن ہے[تاريخ الإسلام ت بشار : 10/ 359 ]۔
عرض ہے کہ یہ بھی مجمل قول ہے ۔ اور انہیں ضعیف کہنے والوں کے قول میں یہ تفسیر موجود ہے کہ ان کا ضعف صرف عکرمہ والی سند کے ساتھ خاص ہے۔
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
يخطىء كثيرا
یہ بہت زیادہ غلطی کرتے ہیں[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 4/ 339]
عرض ہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے سماک کو اپنی کتاب ”الثقات“ میں ذکرکرکے ان پرجرح کی ہے ، اوربظاہر یہ متعارض بات لگتی ہے کہ اگر یہ ثقہ ہیں تو ان پر جرح کیوں کی گئی؟ اور اگر مجروح ہیں توانہیں ثقات میں کیوں ذکر کیا گیا ؟
ہمارے نزدیک اس اشکال کا حل یہ ہے کہ بعض محدثین جب تٍضعیف کے ساتھ ساتھ توثیق بھی کرتے ہیں تو ایسے مواقع پر توثیق اصطلاحی مراد نہیں ہوتی بلکہ محض دیانت داری مراد ہوتی ہے۔
یعنی امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں دیانت داری کے لحاظ سے ثقہ بتلایا ہے اور ضبط کے لحاظ سے ان پر جرح کی ہے۔
لیکن چونکہ ابن حبان رحمہ اللہ جرح میں متشدد ہیں اس لئے ثابت شدہ صریح توثیق کے مقابلہ میں ان کی جرح کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
بلکہ خود ابن حبان نے بھی اپنی اس جرح کا اعتبار نہیں کیا ہے اور سماک بن حرب کو ثقہ مان کر اس کی کئی احادیث کو اپنی کتاب صحیح ابن حبان میں درج کیا ہے۔
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ولم يرفعه غير سماك، وسماك سيء الحفظ.
اسے سماک کے علاوہ کسی نے مرفوع بیان نہیں کیا اور سماک سيء الحفظ. ہے[علل الدارقطني : 13/ 184]
امام دارقطنی رحمہ اللہ کی اس جرح کا پس منظر یہ ہے کہ ایک روایت کو کئی لوگوں نے موقوفا بیان کیا ہے اور صرف سماک نے مرفوعا بیان کیا ہے تو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے روایت کو موقوفا راجح قرار دیا ہے اور سماک کی بیان کردہ مرفوعا روایت کو مرجوح قرار دیا ۔
معلوم ہوا کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے محض سماک کے سوء حفظ کی وجہ سے ان کی روایت کو ضعیف نہیں کہا ہے بلکہ سماک کی دیگر رواۃ کی مخالفت کی وجہ سے ان کی روایت کو ضعیف کہا ہے۔
نیز یہاں سيء الحفظ. سے امام دارقطنی کی مراد سماک کا اخیر میں مختلط ہونا ہے جیساکہ خود امام دارقطنی ہی نے کہا:
سِمَاكُ بنُ حربٍ إذا حدَّث عنه شُعبةُ والثَّوريُّ وأبو الأَحْوصِ فأحاديثُهم عنه سليمةٌ، وما كان عن شَريكِ ابنِ عبدِاللهِ وحفصِ بن جُمَيْع ونظرائِهم، ففي بعضِها نَكارةٌ
سماک بن حرب سے جب شعبہ ، سفیان ثوری اور ابوالاحوص روایت کریں تو سماک سے ان کی احادیث (صحیح و) سالم ہیں۔اورسماک سے جوروایات شریک بن عبداللہ ، حفص بن جمیع اوران جیسے لوگ نقل کریں تو ان میں سے بعض میں نکارت ہے[سؤالات السلمي للدارقطني ت الحميد ص: 189 نیز دیکھئے:المؤتلف والمختلف للدارقطني 2/ 35 ، مزید دیکھیں :إكمال تهذيب الكمال 6/ 110]
نوٹ:-امام دارقطنی کے شاگرد أبو عبد الرحمن السلمي ثقہ ہیں بلکہ امام حاکم نے کہا:
كثير السماع والطلب متقن فيه
یہ کثیرالسماع اور بہت زیاد علم حاصل کرنے والے تھے اور ان سب میں یہ متقن تھے[سؤالات السجزي للحاكم: ص: 65]
بعض لوگوں نے بلاوجہ ان پر جرح کردی ہے جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے قدرے تفصیل کے لئے دیکھئے:سؤلات السلمي للدار قطني بتحقیق مجدی فتحی السید ، مقدمہ: ص 32 تا 37۔ نیز دیکھیں :[التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل 2/ 593]۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اس قول سے معلوم ہوا کہ وہ سماک کو علی الاطلاق سیء الحفظ نہیں مانتے ہیں بلکہ خاص سندوں میں ہی انہیں سی الحفظ مانتے ہیں ۔
اس کی مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ بعض دیگر مقامات پر امام دارقطنی رحمہ اللہ نے سماک بن حرب کی حدیث کو صحیح بھی کہا ہے چنانچہ اپنی مشہور کتاب ’’سنن‘‘ میں ان کی ایک روایت درج کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
هذا إسناد حسن صحيح
یہ سند حسن اورصحیح ہے[سنن الدارقطني: 2/ 175]
امام عقیلی اور ابن الجوزی نے انہیں ’’ ضعفاء‘‘ والی کتاب میں ذکر کیا ہے لیکن ضعفاء والی کتابوں میں کسی راوی کا ذکر ہونا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ راوی ضعفاء کے مولفین کے نزدیک ضعیف ہے ، کیونکہ ضعفاء کے مؤلفین ثقہ رواۃ کا تذکرۃ بھی ضعفاء میں یہ بتانے کے لئے کردیتے ہیں کہ ان پر جرح ہوئی ہے۔دیکھئے: یزیدبن معاویہ پرالزامات کاتحقیقی جائزہ :ص675 تا 677۔
نیز سماک پر جس نوعیت کی جرح ہوئی ہے اس کی تفصیل پیش کی جاچکی ہے کہ اس پر کی گئی جرح کا تعلق خاص عکرمہ والی سند پر ہے اور یہی اقوال امام عقیلی اور ابن الجوزی نے بھی نقل کئے ہیں ۔لہٰذا ان اقوال میں علی الاطلاق تضعیف کی کوئی بات ہے ہی نہیں۔
تنبیہ بلیغ:
بعض لوگ” امام ابوالقاسم “کے نام اس کی کتاب (قبول الأخبار ومعرفة الرجال:ج2ص390)سے یہ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے سماک کوان لوگوں کی فہرست میں ذکرکیا ہے جن پر بدعت اورخواہش پرستی کاالزام۔
عرض ہے :
اولا:
اس بات کے لئے جس ”امام ابوالقاسم“ کاحوالہ دیا جاتا ہے یہ کوئی اہل سنت کاامام نہیں ہے بلکہ اہل سنت والجماعت سے خارج گمراہ فرقہ معتزلہ کا سردارہے۔اوریہ انتہائی بدعقیدہ اوربدفکرشخص ہے۔تدلیس وتلبیس کی حد ہوگئی کہ ایسے کج عقیدہ وبددماغ اورباطل افکارکے حامل شخص کو امام کالقب دے کراہل سنت کے ائمہ کی فہرست پیش کیاجاتاہےاورظلم علی ظلم یہ کہ اس معتزلی کے حوالہ سے سنی راوی کو بدعتی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی۔اسے کہتے ہیں الٹاچور کوتوال کوڈانتے۔
ثانیا:
ابوالقاسم معتزلی کے بارے میں ائمہ اہل سنت نے صراحت کی ہے یہ شخص محدثین سے دشمنی رکھتاہے اوران پرزبان درازی کرتاہے۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
من كبار المعتزلة وله تصنيف في الطعن على المحدثين
یہ معتزلہ کے اکابریں میں سے ہیں اوراس نے محدثین پرطعن وتشنیع کرنے کے لئے کتاب لکھی ہے[لسان الميزان ت أبي غدة (4/ 429)]
اب بھلاکسی سنی راوی کے خلاف بدزبان معتزلی کی بات کون سے گا؟
ثالثا:
”ابوالقاسم معتزلی نےاس ضمن میں مذکورمحدثین کے بارے میں خود کہا:
ولیس قولنا کل من نسبوہ الی البدعۃاسقطوۃ اوضعفوہ قولھم،معاذاللہ من ذلک بل کثیرمن اولئک عندنااہل عدالۃ وطھارۃوبروتقوی ...ولکن اتیت بالجمل التی تدل علی المرادوعلیھاالمدار
اورہمارا یہ کہنانہیں ہے کہ جن کی طرف بھی لوگوں نے بدعت کی نسبت کی ہے یااسے ساقط وضعیف قراردیا ہے۔معاذاللہ ہم بھی اسی کے قائل ہیں۔بلکہ ان میں سے اکثرلوگ ہمارے نزدیک دیانت داروپاکبازاورنیک اورمتقی ہیں ...لیکن میں نے وہ الفاظ نقل کئے ہیں جو مراد پردلالت کرتے ہیں اور جن پرقول کا دارومدارہوتا[قبول الأخبار ومعرفة الرجال :ج 1ص19]۔
اورابوالقاسم معتزلی نے سماک بن حرب سے متعلق کوئی بھی ایسالفظ نقل نہیں کیا ہے جو ان کی کسی بدعت پردلالت کرے۔
رابعا:
کسی راوی کے بدعتی ہونے سے اس کی ثقاہت پر اثر نہیں پڑتا[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 5]