• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ازلام

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
ازلام

ازلام كی تشریح:
ازلام جو زلم کی جمع ہے۔ ازلام ان تیروں کو کہا جاتا ہے جن پر قرعہ اندازی کر کے عرب میں جوا کھیلنے کی رسم جاری تھی۔ جس کی صورت یہ تھی کہ دس آدمی شرکت میں ایک اونٹ ذبح کرتے تھے پھر اس کا گوشت تقسیم کرنے کے بجائے اس کے دس حصے برابر کر کے تقسیم کرتے اس تیروں پر کچھ مقررہ حصوں کے نشانات بنا رکھے تھے کسی پر ایک کسی پر دو یا تین تیروں کو سادہ رکھا ہوا تھا ان تیروں کو ترکش میں ڈال کر ہلاتے تھے پھر ایک شریک کےلئے ایک ایک تیر ترکش میں سے نکالتے اور جتنے حصوں کا تیر کسی کے نام پر نکل آئے وہ ان حصوں کا مستحق سمجھا جاتا تھا اور جس کے نام پر سادہ تیر نکل آئے وہ حصہ سے محروم رہتا تھا۔ (معارف القرآن از مولانا مفتی محمد شفیع: 3/ 226)
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
’’ ازلام ان تیروں کو کہتے ہیں جن میں مشرکین مال لیا کرتے تھے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر: 2/ 15)
اسی سے ملتا جلتا ایک رواج مشرکین میں جوا کھیلنے اور جوے کے تیر استعمال کرنے کا تھا، اسی تیر کی نشاندہی پر وہ جوئے کا اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت بانٹتے تھے۔ (الرحیق المختوم : 26)
ازلام كی اقسام:
مشرکین عرب ازلام یعنی فال کے تیر بھی استعمال کرتے تھے۔ ازلام زلم کی جمع ہے اور زلم اس تیر کو کہتے ہیں جس میں پر نہ نہ لگے ہوں۔
فال گیری کے لئے استعمال ہونے والے یہ تیر تین قسم کے ہوتے تھے۔
1. ایک وہ جن صرف ’’ ہاں‘‘ یا نہیں‘‘ لکھا ہوتا تھا۔
اس قسم کے تیر سفر اور نکاح وغیرہ جیسے کاموں کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ اگر فال میں ’’ہاں‘‘ نکلتا تو مطلوبہ کام کر ڈالا جاتا اگر ’’ نہیں‘‘ نکلتا تو سال بھر کے لئے ملتوی کر دیا جاتا او رآئندہ پھر فال نکال لی جاتی۔
2. فال گیری کے تیروں کی دوسری قسم وہ تھی جن پر پانی اور دیت وغیرہ درج ہوتے تھے ۔
3. اور تیسری قسم وہ تھی جس پر درج ہوتا تھا کہ ’’ تم میں سے ہے‘‘ یا تمہارے علاوہ سے ہے‘‘ یا ملحق ‘‘ہے۔
ان تیروں کا مصرف یہ تھا کہ جب کسی کے نسب میں شبہ ہوتا تو اسے ایک سو اونٹوں سمیت ہبل کے پاس لے جاتے اونٹوں کو تیر والے مہنت کے حوالے کر تے اور وہ تمام تیروں کو ایک ساتھ ملا کر گھماتا جھنجھوڑتا ، پھر ایک تیر نکالتا اب اگر یہ نکلتا کہ ’’ تم میں سے ہے‘‘ تو حلیف قرار پاتا اور اگر یہ نکلتا ’’ ملحق‘‘ ہے تو ان کے اندر ذہنی حیثیت پر برقرار رہتا نہ قبیلے کا فرد مانا جاتا نہ حلیف۔( محاضرات تاریخ الامم والاسلامیۃ از الشیخ محمد الحضرمی: 1/ 56)
بتوں کے استھانوں پر فال گیری:
مشرکین مکہ نے فال گیری (جس میں کسی دیوی یا دیوتا سے قسمت کا حال پوچھا جاتا تھا یا غیب کی خبر دریافت کی جاتی تھی یا باہمی نزاعات کا تصفیہ کرایا جاتا تھا) کی غرض سے کعبہ کے اندر ہبل دیوتا کے بت کو مخصوص کر رکھا تھا۔ اس کے استھان میں سات تیر رکھے ہوئے تھے جن پر مختلف الفاظ او ر فقرے کندہ تھے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہو یا بھولی ہوئی چیز کا پتہ پوچھنا ہو یا خون کے مقدمہ کا فیصلہ مطلوب ہو غرض کوئی کام بھی ہو، اس کے لئے ہبل کے پاسہ دار (صاحب القداح) کے پاس پہنچ جاتے تھے، اس کا نذرانہ بیش کرتے اور ہبل سے دعا مانگتے تھے کہ ہمارے اس معاملے کا فیصلہ کر دے پھر ہاسہ دار ان تیروں کے ذریعے سے فال نکالتا او رجو تیر بھی فال میں نکل آتا اس پر لکھے ہوئے لفظ کو ہبل کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔ (سیرت سرور دوعالم از مولانا سید ابو الاعلی مودودی: 1/ 156 )
محمد رفيق ڈوگر لکھتے ہیں:
’’ قریش باہمی جھگڑوں کے فیصلے اور سفر پر جانے یا نہ جانے کے بارے میں ہبل کے تیروں سے فال نکالتے تھے۔‘‘ (الامین از محمد رفیق ڈوگر: ص 156)
نذرو نیاز کے طریقے:
اہل عرب کا قاعدہ تھا کہ بعض جانور وں کے متعلق یا بعض کھیتوں کی پیدوار کے متعلق منت مان لیتے کہ یہ فلاں آستانے یا فلاں حضرت کی نیازک کے لئے مخصوص ہیں، اس نیاز کو ہر ایک نہ کھا سکتا تھأ بلکہ اس کے لئے ان کے ہاں ایک مفصل ضابطہ تھا جس کی رو سے مختلف نیازوں کو مختلف قسم کے مخصوص لوگ ہی کھا سکتے تھے۔
اہل عرب کےہاں بعض مخصوص منتوں اور نذروں کے جانور ایسے ہوتے تھے جن پر خدا کا نام لینا جائز نہ سمجھا جاتا تھا ان پر سوار ہو کر حجت کرنا ممنوع تھآ، کیونکہ حج کے لئے لبیک اللہم لبیک کہنا پڑتا تھا، اسی طرح ان کا دودھ دوہتے وقت یا ان پر سوار ہونے کی حالت یا ان کو ذبح کرتے ہوئے یا ان کو کھانے کے وقت اہتمام کیا جاتا تھا کہ خدا کا نام زبان پر نہ آئے۔ (سیرت سرور دوعالم از سید ابو الاعلی مودودی: 1/ 586)
جانوروں کو پن کر چھوڑنا:
زمانہ جاہلیت میں اہل عرب مختلف طریقوں سے جانوروں کو پل کر چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اور ان طریقوں سے چھوڑے ہوئے جانوروں کے نام الگ الگ رکھتے تھے۔
قرآن کریم میں ہے:
’’ اللہ تعالی نے بحیرہ ، سائبہ وصیلہ او رحام عصر کو نہیں فرمایا یہ تو کفار اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔
علامہ عماد الدین ابن کثیر فرماتے ہیں:
صحیح بخاری میں حضرت سعید بن مسیب سے مرویب ہے کہ بحیرہ اس جانور کو کہتے ہیں جس کے بطن کا دودھ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام کر دیتے تھے اسے کوئی دوہتا نہ تھا۔
سائبہ : ان جانوروں کو کہتے تھے جنہیں وہ اپنے معبود باطل کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور بوجھ سے آزاد کر دیتے تھے، اس پر نہ سامان لادا جاتا تھا اور نہ سواری کی جاتی تھی۔
وصیلہ: وہ اونٹنی ہے جس کے پلوٹھے دو بچے اوپر تلے کے مادہ ہوں ان دونوں کے درمیان کوئی نر اونٹ پیدا نہ ہواہو اسے بھی وہ اپنےبتوں کے نام وقف کر دیتے تھے۔
حام : اس نر اونٹ کا نام تھا جس کی نسل سے کئی بچے ہو گئے ہوں پھر اسے بھی اپنے بزرگوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور کسی کام میں نہ لاتے تھے۔(تفسیر ابن کثیر از علامہ عماد الدین ابن کثیر:2/ 33 )
مولانا مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں:
’’علاوہ اس کے کہ یہ چیزیں شعائر شرک میں سے تھیں جس جانور کے گوشت یا دودھ یا سواری وغیرہ سے منقطع ہونے کو حق تعالی نے جائز رکھا اس کی حلت وحرمت پر اپنی طرف سے قیود لگانا۔ گویا اپنے لیے منصب تشریع تجویز کرنا تھا اور بڑی ستم ظریفی یہ تھی کہ اپنی مشرکانہ رسوم کو حق تعالی کی خوشنودی اور قربت کا ذریعہ تصور کرتے تھے اس کا جواب دیاگیا کہ اللہ تعالی نے ہرگز یہ رسوم مقرر نہیں کیں ان کے بڑوں نے خدا پر یہ بہتان باندھا اور اکثر بے عقل عوام نے اسے قبول کر لیا۔‘‘ (معارف القرآن از مولانا مفتی محمد شفیع: 3/ 247 )
زمانہ جہاہلیت میں عربوں کا حج:
مولانا صفی الرحمن مبارکپوری ’’ الرحیق المختوم‘‘ میں رقمطراز ہیں:
’’ عرب حالت احرام میں گھر کے اندر دروازے سے داخل نہ ہوتے تھے بلکہ گھر کے پچھواڑے ایک بڑا سوراخ بنا لیتے اور اسی سے آتے جاتے تھے اور اپنے اس اجڈہنے کو نیکی سمجھتے تھے۔‘‘ (الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری:ص 79)
ان توہم پرستانہ رسموں کے جو عرب میں رائج تھیں ایک یہ بھی تھی کہ جب حج كى احرام باندھ لیتے تو اپنے گھروں میں دروازے سے داخل نہ ہوتے تھے بلکہ پیچھے سے دیوار کود کر یا دیوار میں سے کھڑکی سی بنا کر داخل ہوتے تھے۔ نیز سفر سے واپس آ کر بھی گھروں میں پیچھے سے داخل ہوتے تھٰے۔‘‘ (سیرت سرور دو عالم از سید ابو الاعلی مودودی :1/ 587)
قرآن کریم میں اس سے منع فرمایا گیا ہے۔
’’یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہوتے ہو۔ نیکی تو اس میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضگی سے بچے لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔‘‘ (سورة البقرة 2 :189)
احرام کی حالت میں پنیر اور گھی بنانا درست نہیں:
وہ کہتے تھے کہ حمس (قریش) کے لئے احرام کی حالت میں پنیر اور گھی بنانا درست نہیں اور نہ ہی یہ درست ہے کہ بال والے گھر (یعنی کمبل کے خیمے) میں داخل ہوں اور نہ یہ درست ہے کہ سایہ حاصل کرنا ہو تو چمڑے خیمے کےسوا کہیں اور سایہ حاصل نہ کریں۔
(سیرۃ النبی از ابن ہشام:1/ 199)
یہ بھی قدیم عربوں کا ایک جلاہلانہ تصور تھا کہ سفر حج کے دوران میں کسب معاش کے لئے کام کرنے کو وہ برا سمجھتے تھے۔ کیونکہ ان کے نزدیک کسب معاش ایک دنیا دارانہ فعل تھا او رحج جیسے ایک مذہبی کام کے دوران میں اس کا ارتکاب مذموم تھا۔
اہل عرب حج سے فارغ ہو کر جلسے کرتے تھے جن میں ہر قبیلے کے لوگ اپنے باپ دادا کے کا دماغ فخر کے ساتھ بیان کرتے اور اپنی بڑائی کی ڈینگیں مارتے۔
مظاہر قدرست سے شگون لینا:
چاند کا گھٹنا بڑھنا ایک ایسا منظر ہے جس نے ہر زمانے میں انسان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچا ہے اور اس کے متعلق طرح طرح کے اوہام و تخیلات اور رسوم ودنیا کی قوموں میں رائج رہے ہیں اور اب تک رائج ہیں۔ اہل عرب میں بھی اس قسم کے اوہام موجود تھے۔ چاند سے اچھے یا برے شگون لینا، بعض تاریخوں کو سعد اور بعض کو نحس سمجھنا۔ کسی تاریخ کو سفر کے لئے اور کسی کو ابتدائے کار کے لئے اور کسی کو شادی بیاہ کے لئے منحوس یا مسعود خیال کرنا، اور یہ سمجھنا کہ چاند طلوع و غروب اور اس کی کمی وبیشی اور اس کی حرکت اور اس کے گہن کا کوئی اثر انسانی قسمتوں پر پڑتا ہے، یہ سب باتیں دوسری جاہل قوموں کی طرح اہل عرب میں بھی پائی جاتی تھیں اور اس سلسلے میں مختلف تو ہم پرستانہ رسمیں ان میں رائج تھیں۔
جنات کے بارے میں توہم پرستی:
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
’’ جاہلیت کے زمانے میں جب عرب کسی سنسان وادی میں رات گزارتے تھے تو پکار کر کہتے ہیں ’’ ہم اس وادی کے مالک (یعنی جن، کی پناہ مانگتے ہیں۔‘‘ عہد جاہلیت کی دوسری روایات میں بھی بکثرت اس بات کا ذکر ملتا ہے۔ مثلا اگر کسی جگہ پانی او رچارہ ختم ہو جاتا تو خانہ بدوش بدو اپنا ایک آدمی کوئی دوسری جگہ تلاش کرنے کےلئے بھیجتے جہاں پانی اور چارہ مل سکتا ہو، پھر اس کی نشان دہی پر جب یہ لوگ نئی جگہ پہنچتے تو وہاں اترنے سے پہلے پکار پکار کرکہتے کہ ’’ ہم اس وادی کے رب کی پناہ مانگتے ہیں تاکہ یہاں ہم ہر آفت سے محفوظ رہیں۔‘‘ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر غیر آباد جگہ کسی نہ کسی جن کے قبضے میں ہے اور اس کی پناہ مانگے بغیر وہاں کوئی ٹھہر جائے تو وہ جن یا تو خود ستاتا ہے یا دوسرے جنوں کو ستانے دیتا ہے۔
حائضہ سے سلوک:
اہل مدینہ چونکہ یہودیوں سے بہت متاثر تھے اس لیے ان کے ہاں یہودیوں کی طرح ایام ماہواری میں عورت کو بالکل پلید سمجھا جاتا تھأ۔ نہ اس کا پکایا ہوا کھانا کھاتے نہ اس کے ہاتھ کا پانی پیتے ، نہ اس کے ساتھ ایک فرش پر بیٹھتے۔ بلکہ اس کے ہاتھ سے ہاتھ چھو جانے کو بھی مکروہ سمجھتے تھے۔ ان چند دنوں میں عورت خود اپنے گھر میں اچھوت بن کر رہ جاتی تھی۔
پرندوں سے شگون:
مشرکین میں بدشگونی کا عام رواج تھا اسے عربی میں طیرۃ کہتے ہیں۔ اس کی صورت یہ تھی کہ مشرکین کسی چڑیا یا ہرن کے پاس جا کر اسے بھگاتے تھے پھر اگر وہ دائیں جانب بھاگتا تو اسے اچھائی اور کامیابی کی علامت سمجھ کر اپنا کام کر گذرتے اور اگر بائیں جانب بھاگتا تو اسے نحوست کی علامت سمجھ کر اپنے کام سے باز رہتے اسی طرح اگر کوئی چڑیا یا جانور راستہ کاٹ دیتا تو اسے بھی منحوس سمجھتے۔ (الرحیق المختوم از مولاناصفی الرحمن مبارکپوری:ص 76)
حضر ت شيخ احمد رومی لکھتے ہیں:
اہل جاہلیت نے کبھی ان کی حرکات کا اور کبھی آوازوں کا اور کبھی رنگوں اور کبھی ناموں کا اعتبار کر کے بعضوں کو نحوست خیال اور بعضوں کو برکت سمجھا۔ اس طرح کہ عقاب سے عقوبت یعنی عذاب اور غراب سے غربت یعنی مسافری کی او رہد ہد سے ہدایت کی برکت کہتے تھے۔ اور ساغ وہ پرندہ) وحشی ہے جو بائیں طرف سے داہنی طرف کو چلا جائے۔ اور عرب کے لوگ اس کو مبارک سمجھتے تھے اس لیے کہ اس کو تیر مارنا اور اس کا شکار کرنا بدون پھیرے ہوئے ممکن ہے اور بارح وہ پرندہ یا وحشی ہوتا ہے جو داہنی طرف سے بائیں طرف چلا جائے اور عرب کے لوگ اسے نحس جانیں گے۔
ایک ماہر شگون عرب:
وائل ابن حجر سے روایت ہےیہ پرندوں کی اڑان سے (مختلف قسم کے) شگون لینے میں بے حد ماہر تھا یہ زیاد کے پاس کوفہ میں آیا تھا۔ یہ زیاد وہی ہے جس کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے أپنے والد ابو سفیان کی اولاد قرار دیا ہے۔ یہ زیاد ای عبد اللہ ابن زیاد کا باپ ہے جس نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے جنگ کی تھی۔ غرض اس زمانے میں کوفہ کے گورنر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ( یہ وائل ابن حجر کو فہ سے زیاد کے پاس سے روانہ ہوا تو) اس نے دیکھا کہ ایک کوا بول رہا ہے۔ چنانچہ اسی روز حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا قاصد بصرہ میں زیاد کے پاس آ گیا، زیاد نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت تسلیم کر کے بیعت کر لی تھی۔ چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کو بصرہ کا حاکم بنا دیا تھا۔ اس کے بارے میں روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ابو سفیان کی ناجائز اولاد تھا جو سمیہ نامی طائف کی ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا۔‘‘ (تاریخ ابو الفداء :1/ 185)
وفات نبویﷺ اور شگون :
(اسی شگون لینے کے فن کے سلسلے میں یہ روایت بھی ہے) کہا جاتا ہے کہ ابو ذویب ہذلی ایک شاعر تھا یہ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں مسلمان ہو گیا تھا مگر اس کی آنحضرت ﷺسے ملاقات نہیں ہو سکی۔ یہ ہذلی کہتا ہے کہ ہمیں معلوم ہوا کہ آنحضرت  بیمار ہیں۔ صبح کو منہ اندھیرے جبکہ سو رہا تھا مجھے ایک پکارنے والے کی آواز آئی جو یہ کہہ رہا تھا۔
قبض النبی محمد فعیونا ندری الدموع عليه یا لسجام
’’ آنحضرت ﷺ وفات پا گئے ہیں اور ہماری آنکھیں آپﷺ کی یاد میں مسلسل آنسو بہا رہی ہیں۔‘‘
یہ کہتا ہے کہ میں فورا گھبرا کر نیند سے بیدا ہو گیا۔ اس وقت مجھے آسمان میں سوائے نحس ستارے کے اور کچھ نظر نہیں آیا۔ میں نے اس سے برا شگون لیا اور سمجھ گیا کہ آنحضرت ﷺ وفات پا چکے ہیں۔ میں اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر چل دیا یہاں تک کہ جنگل میں پہنچ گیا۔ یہاں میں نے ایک پرندے کو گھونسلے سے اڑایا اس (کی پرواز) نے مجھے بتلایا کہ آنحضرت ﷺ کی وفات ہو چکی ہے۔ چنانچہ جب میں مدینہ میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ لوگوں کی آہ وبکا اوررونے کی آواز اس طرح آ رہی ہے جیسے حاجیوں کے مجمع کا شور ہوتا ہے۔ میں نے ایک شخص سے وجہ پوچھی تو مجھے بتلایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی ہے اور آپ کو چادر اڑھا کر آپ کے گھر والے وہاں سے ہٹ گئے ہیں۔ اسی کے بارے میں ابو ہذیل کے یہ شعر ہیں:
امن المنون ورية تتوجع وللدهر لیمس بمعتب من یجزع
’’ کیا تو موت اور اس کے خیال سے پریشان ہوتا ہے۔ زمانہ گھبرانے والے آدمی کو کوئی مہلت نہیں دیتا۔‘‘
وإذا المنية انشبت اظفا رها الفیت کل تمیمة لا تنفع
’’ جب موت اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے تو میں نے کسی تدبیر اور علاج کو کار گر ہوتے نہیں دیکھا۔‘‘
وتجلدی للمشامین اريهم انی لریب الدهر لا اتضعضع
’’ میں نے بد خواہوں کو دکھلا دیا ہے کہ میں زمانے کے فریب کے سامنے جھکنے والا نہیں ہوں۔‘‘
والنفس راغبة إذا رغبتها وإذا ترد إلی قلیل تقنم
’’ نفس کو اگر تم زیادہ کی طرف راغب کر دو تو وہ راغب ہو جائے گا اور اگر اسے کم (مال و دولت) کی طرف پھیر دو تو وہ اسی پر قناعت کرے گا۔‘‘
گائے کی دم کو آگ لگانا:
ان کی جاہلانہ رسوم میں سے ایک رسم یہ بھی تھی کہ جب بارش برسانا بند ہو جاتی اور قحط سالی کا دور دورہ ہوتا تو وہ سلع اور عشر دونوں درختوں کی ٹہنیاں کاٹ کر ایک گائے کی دم کے ساتھ باندھ دیتے اور ان شاخوں کو آگ لگا دیتے اور اس گائے کو دشوار گزار پہاڑیوں پر لٹھ مار کر بھگا دیتے اور یہ خیال کرتے کہ ان کے اس طر یقہ سے بادل امڈ کر آئیں گے، بجلی چمکے گی، اور موسلا دھار بارش برسے گی۔
ایک اعرابی اس لغو حرکت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’ ہم نے اس گائے سے شفاعت طلب کی جس کی دم سے وہ شاخیں باندھ کر آگ لگا دی گئی تھی تاکہ موسلا دھار بارش برسے لیکن اس چیز نے ہمیں کوئی نفع نقصان نہ پہنچایا بلکہ خشک سالی میں مزید اضافہ ہو گیا۔‘‘(سیرت مصطفی جان رحمت از امام احمد رضا خان محدث بریلوی:1/ 151)
صحت مند اونٹ کو داغنا بيماری کے ڈر سے:
ان کے ہاں ایک اور رواج تھا کہ اگر ایک اونٹ کو خارش کی بیماری لاحق ہوتی تو اس کے ساتھ جو صحت مند اونٹ ہوتا تو اس کو آگ سے داغ لگائے جاتے اور وہ یہ خیال کرتے کہ اس طرح خارش زدہ اونٹ درست ہو جائے گا۔ خارش زدہ اونٹ کو ذی العر كہا جاتا ہے۔
ان کی اس توہم پرستی سے شعراء نے اشعار میں بڑنی نگتہ آفرینی کی ہیں۔ ایک شاہر کہتا ہے:
فالزمتني دنبا وغيري حره حنانيك لا تكو الصحح باجربا
’’ تو نے مجھے ایک گناہ کا الزام لگایا حالانکہ اس کا ارتکاب میرے علاوہ وہ ایک اور آدمی نے کیا ہے۔ مجھ پر رحم کرو ایک خارش زدہ اونٹ کے بدلے میں صحت مند اونٹ کو داغ مت لگاؤ۔‘‘
روح ایک پرندے کی شکل میں:
ان کے ہاں ایک اور عقیدہ بھی پھیلا ہوا تھا کہ جب کسی آدمی کو قتل کر دیا جاتا ہے تو اس کے سر سے روح ایک پرندہ کی شکل میں نکلتی ہے او رجب تک مقتولین کا انتقام نہ لیا جائے اس وقت تک وہ اس کی قبر پر چکر کاٹتی رہتی ہے۔ اور کہتی ہے کہ
’’مجھ پلاؤ میں سخت پیاسی ہوں۔‘‘
اس اعتقاد کے باعث عربوں کے یہاں اگر کسی آدمی کو قتل کر دیا جاتا تو اس کے قریبی رشتہ داروں اوربیٹوں بھائیوں کے لئے اس کے خون کو معاف کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ کیونکہ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ جب تک ہم مقتول کا بدلہ نہیں لیں گے اس وقت تک روح کو چین نہیں آئے گا۔
اسلام نے دوسری خرافات کی طرح اس توہم پرستی کی بھی بیخ کنی کر دی اور اہل عرب کو اس ناسور سے شفا بخشی جس سے ہر وقت خون رستا رہتا تھا اور قیامت برپا کرتا رہتا تھا۔(سیرت مصطفی جان رحمت از امام احمد رضا خان محدث بریلوی:1/ 153)
کنگن چوڑیاں، منکے:
عربوں میں یہ رواج تھا کہ لوگ کنگن چوڑیاں، منکے گھونگھے او رہار وغیرہ بطور ظلم، برائی سے بچنے او رخوش قسمتی حاصل کرنے کے لئے پہنتے تھے۔ (توحید کے بنیادی اصول از ڈاکٹر امینہ بلال :ص 97)
مشرکین خرگوش کے ٹخنے کی ہڈی لٹکاتے تھے اور بعض دنوں ، مہینوں ، جانوروں ، گھروں اور عورتوں کو منحوس سمجھتے تھے۔ بیماریوں کی چھوت کے قائل تھے اور روح کے الو بن جانے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ یعنی ان کا عقیدہ تھا کہ جب تک مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے اس کو سکون نہیں ملتا اور اس کی روح الو بن کر بیابانوں میں گردش کرتی رہتی ہے۔ اور پیاس پیاس، مجھے پلاؤ، کی صدا لگاتی رہتی ہے۔ جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو اسے راحت او ر سکون ملتا ہے۔
چوپایوں کے متعلق:
﴿وَقَالُواْ مَا فِي بُطُونِ هَذِهِ الأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا وَإِن يَكُن مَّيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاء سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ إِنَّهُ حِكِيمٌ عَلِيمٌ﴾
’’اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جو بچہ ان چارپایوں کے پیٹ میں ہے وہ خاص ہمارے مردوں کے لئے ہے او رہماری عورتوں کو ( اس کا کھانا) حرام ہے۔ اور اگر وہ بچہ مرا ہوا ہو تو سب اس میں شریک ہیں( یعنی اسے مرد اورعورتیں سب کھائیں) عنقریب اللہ ان کو ان کی غلط بیانیوں کی سزا دے گا۔ وہ بے شک حکمت والا خبردار ہے۔‘‘
امن کے مہینوں میں رد وبدل:
﴿ إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُواْ يُحِلِّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِّيُوَاطِؤُواْ عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّهُ فَيُحِلُّواْ مَا حَرَّمَ اللّهُ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ﴾ (سورة التوبة:37 )
’’ اس کے کسی مہنیے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دیا کفر میں اضافہ کرتا ہے اس سے کافر گمراہی میں پڑے رہتے ہیں۔ ایک سال تو اس کو حلال سمجھتے لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام تاکہ ادب کے مہینوں کی جو اللہ نے مقرر کیے اس گنتی پوری کر لیں اور جو اللہ نے منع کیا ہے اس کو جائز کر لیں ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں اور اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘
مولانا سعید مجتبی سعیدی ایم۔ اے لکھتے ہیں:
دور جاہلیت میں لوگوں کے ذہنوں میں بیماری کی تعدی، بعض اشیاء اور جانوروں کی نحوست، ان سے بد شگونی ، مقتول کے قتل کا بدلہ لینے کی صورت میں اس کی قبر سے ایک منحوس جانور کے نکلنے اور بھوت پریت کے تصور کے ساتھ ساتھ ماہ صفر کی نحوست بھی ان کے ذہنوں میں تھی۔(ماہنامہ محدث ، مولانا سعید مجتبی سعیدی ایم۔ اے، نیک فالی اور بد شگونی:ص23)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا کثیرا محمد عمر بھائی۔۔۔دور حاضر میں اب طوطا فال، کبھی آکٹوپس بابا اور کبھی دادا ہاتھی کے نام سے جدت پیدا کی گئی ہے۔۔۔اور اب اس مسلمان ملک کے نیوز چینلز پر یہی کاہن نئے اور خوبصورت ناموں سے آ کر پاکستان کے سیاسی مستقبل کی پیشین گوئیاں کرتے ہیں اور عوام داد دیتی ہے۔
 
Top