• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

''اسامہ بن لادن مسلم دنیا میں حملوں کے خلاف تھے''

ابوحتف

مبتدی
شمولیت
اپریل 04، 2012
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
318
پوائنٹ
0
امریکا نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے گذشتہ سال کی گئی کارروائی کے دوران برآمد شدہ دستاویزات میں سے سترہ کو جمعرات کو جاری کیا ہے۔ان میں القاعدہ کے مقتول لیڈر نے مسلمانوں کی جہاد سے چشم پوشی پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور ان سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ وہ مسلم دنیا میں حملوں کے مخالف تھے۔

وائٹ ہاؤس نے ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکادمی میں قائم انسداد دہشت گردی مرکز کو اسامہ بن لادن کے خفیہ خطوط اور دوسری دستاویزات شائع کرنے کی اجازت دی ہے۔عربی زبان میں ان کاغذات میں ایک سو پچھہتر صفحات کو محیط خطوط یا ان کے مسودے شامل ہیں جو انھوں نے ستمبر دوہزار چھے سے اپریل دوہزار گیارہ تک لکھوائے تھے یا خود لکھے تھے۔

ان دستاویزات سے القاعدہ کے نیٹ ورک کے درمیان اندرونی خط وکتابت کا بھی انکشاف ہوا ہے۔یہ خطوط خود اسامہ بن لادن یا یمن ،پاکستان اور صومالیہ میں القاعدہ سے وابستہ جنگجو گروپوں نے لکھے تھے۔ان کے علاوہ اسامہ کی اپنے ہاتھ سے لکھی ایک ڈائری بھی امریکی کمانڈوز کے ہاتھ لگی تھی جو وہ بھاگتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے تھے اور اب اس میں سے القاعدہ کے لیڈر کی نجی وتنظیمی زندگی اور دوسری تنظیموں کے ساتھ ان کے روابط کے حوالے سے انکشافات کیے جارہے ہیں۔

ان تحریروں میں اسامہ بن لادن نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا تھا کہ مسلمان جہاد کے نظریے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسامہ بن لادن نے اپنے پیروکاروں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اسلامی دنیا میں حملوں سے گریز کریں اور اس کے بجائے صرف امریکا پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔

بن لادن کی خط وکتابت کے ساتھ امریکی تجزیہ کاروں کی ایک رپورٹ بھی جاری کی گئی ہے جس کے مطابق وہ دہشت گرد گروپوں کی جانب سے اپنے نصب العین کے لیے عوامی حمایت کے حصو ل میں ناکامی ،ناکام میڈیا مہموں اور حملوں کی ناقص منصوبہ بندی پر اپ سیٹ تھےکیونکہ ان کے حملوں میں اسامہ کے نقطہ نظر سے بہت زیادہ بے گناہ مسلمان مارے گئے تھے۔

اسامہ بن لادن کے مشیر آدم جدھن نے ان پر زوردیا تھا کہ وہ عراق میں القاعدہ سے وابستہ تنظیم کی کارروائیوں سے اظہار لاتعلقی کریں۔اس پر انھوں نے دوسری تنظیموں اور امریکیوں کے بہ قول دہشت گرد گروپوں پر زوردیا تھا کہ وہ عراقی القاعدہ کی غلطیوں کو نہ دہرائیں۔

اس خط وکتابت میں القاعدہ کے اس وقت کے نائب کماندار ابو یحییٰ اللبی کے خطوط بھی شامل ہیں جن میں انھوں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے کہا تھا کہ وہ مسلمانوں پر بلا امتیاز حملوں سے گریز کرے۔

اسامہ بن لادن نے جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کے لیڈر ناصر الوحشی کو یمن میں اقتدار سنبھالنے پر خبردار کیا تھا اور ان سے کہا تھا کہ وہ اس کے بجائے امریکا پر حملوں پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔

ان خطوط ودستاویزات کے مطابق القاعدہ کے لیڈر نے صومالیہ سے تعلق رکھنے والے الشباب جنگجوؤں کی جانب سے وفاداری کے اعلان پر کوئی زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی اور ان کے خیال میں الشباب کے جنگجو اپنے کنٹرول والے علاقوں میں کوئی اچھا نظم ونسق قائم نہیں کرسکے تھے اور انھوں نے اسلامی سزاؤں اور لوگوں کے ہاتھ کاٹنے میں سختی کا مظاہرہ کیا تھا۔

امریکیوں کےبہ قول ان خطوط سے القاعدہ اور ایران کے درمیان تعلقات کا بھی انکشاف ہوا ہے لیکن امریکا کو اس کی حقیقی مراد حاصل نہیں ہوسکی کیونکہ ملنے والے خطوط سے صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ ایرانی حکام اور القاعدہ کے درمیان ایران میں قید بعض جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کی رہائی کے ضمن میں بات چیت ہوئی تھی لیکن القاعدہ اور ایران کے درمیان کوئی خوشگوار اور توانا تعلق قائم نہیں تھا۔

ان کاغذات سے براہ راست یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ پاکستانی حکومت میں القاعدہ کا کوئی خیرخواہ بھی موجود تھا۔اسامہ بن لادن نے اپنی بعض تحریروں میں ''قابل اعتماد پاکستانی بھائیوں'' کے الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن انھوں نے پاکستان کے کسی سرکاری یا فوجی عہدے دار کی شناخت ظاہر نہیں کی جس سے یہ پتاچل سکے کہ کسی پاکستانی عہدے دار کو ایبٹ آباد میں ان کے ٹھکانے کا علم تھا۔

رپورٹ کے مطابق بن لادن نے سکیورٹی اقدامات پراطمینان کا اظہار کیا تھا جن کہ وجہ سے ان کا خاندان کئی سال تک محفوظ رہا تھا۔انھوں نے ایبٹ آباد میں واقع اپنی رہائش گاہ پر سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے سخت انتطامات کررکھے تھے اور بچوں کو کمپاؤنڈ سے باہر کسی بڑے آدمی کی نگرانی کے بغیر کھیل کود کے لیے جانے کی اجازت نہیں تھی۔

اسامہ بن لادن نے یکم مئی کوامریکی سیلز ٹیم کی کارروائی میں اپنی ہلاکت تک امریکا کو اپنے حملوں کا نشانہ بنانے لیے اپنی توجہ مرکوز کیے رکھی تھی اور اس مقصد کے لیے وہ منصوبے تیار کرتے رہتے تھے لیکن وہ کسی امریکی لیڈر کو ہلاک کرنے یا امریکا پر کوئی بڑا حملہ کرنے میں ناکام رہے تھے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن القاعدہ سے وابستہ تنظیموں کی دنیا بھر میں کارروائیوں سے متعلق روزانہ کی بنیاد پر باخبر نہیں تھے۔

القاعدہ کے مقتول لیڈراسامہ بن لادن کے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں واقع مکان سے امریکیوں کے ہاتھ لگنے والی دستاویزات کو ان کی ہلاکت کا ایک سال پورا ہونے پر منظرعام پر لایا جارہا ہے اور ان کے مطابق اسامہ بن لادن ،افغانستان کے طالبان مزاحمت کاروں اور دوسرے جنگجوؤں کے درمیان نیٹو فوجیوں پر حملوں کے لیے منصوبہ بندی سمیت قریبی تعلقات کار قائم تھے۔امریکا میں اس موقع پر باقاعدہ طور پر ایک ہفتے کا جشن منایا جارہا ہے جس کے دوران امریکی صدر براک اوباما اور دوسرے عہدے دار دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس ''فتح عظیم'' پر ڈونگرے برسا رہے ہیں اور اسامہ کی ہلاکت کے واقعہ سے متعلق نئے نئے گوشے منظرعام پر لارہے ہیں۔۔

امریکیوں کے ہاتھ لگنے والی دستاویزات میں وہ خط وکتابت اور یادداشتیں بھی شامل ہیں جو اسامہ بن لادن نے لکھوائی تھیں اور ان میں انھوں نے اپنے پیروکاروں پر زوردیا تھا کہ وہ بلاامتیاز حملوں سے گریز کریں کیونکہ اس طرح مسلمانوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔

برطانوی اخبار گارڈین نے لکھا کہ ''امریکی اور افغان حکام نے حال ہی میں اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ طالبان کو دہشت گردی کی مذمت پر آمادہ کیا جاسکتا ہے لیکن ان دستاویزات سے ان خدشات کو تقویت ملی ہے کہ طالبان نے ایک مرتبہ پھر القاعدہ یا اس کے ہم خیال جنگجوؤں کو محفوظ ٹھکانوں کی پیش کش کی ہے۔اس لیے اس کے تناظر میں طالبان اور القاعدہ کی اعلیٰ قیادت کے درمیان قریبی تعاون اور اتحاد کو ایک بڑا مسئلہ قرار دیا جارہا ہے۔

اخبارکی رپورٹ کے مطابق اسامہ بن لادن کی کمپیوٹر پر تحریریں ان کی ہلاکت سے صرف ایک ہفتہ قبل سے لے کر کئی سال پرانی تھیں اور ان سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے جنگجو گروپ بوکو حرام کے علاوہ متعدد دوسرے گروپوں سے براہ راست یا بالواسطہ ابلاغی رابطے میں تھے۔دستاویزات سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بوکوحرام کے سربراہ گذشتہ اٹھارہ ماہ سے القاعدہ سے اعلیٰ سطح پر رابطوں میں تھے۔

واضح رہے کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں 2مئی 2011ء کو امریکی خصوصی فورسز کی ایک چھاپہ مار کارروائی میں ہلاک ہوگئے تھے۔اس واقعہ کے بعد سے امریکی اور مغربی میڈیا اور خفیہ ادارے القاعدہ کے مقتول لیڈر کا پاکستان کے سکیورٹی اداروں سے ناتا جوڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ
 
Top