محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرجسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے28-ذوالقعدہ- 1434کا خطبہ جمعہ "اسلامی اخوت" کے عنوان پر ارشاد فرمایا،جس میں انہوں نے اسلامی معاشرے میں محبت پھیلاتے ہوئےاخوت کے قیام پر زور دیا، ایسے ہی انہوں نے دشمنوں کی دسیسہ کاریوں کے چنگل میں پھنس کر اختلافات میں پڑنے کے خطرات کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کئے اور اس پر دلائل بھی ذکر کئے۔پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، جو مؤمنین کا دوست ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ بادشاہ، حق، اور ہر چیز واضح کرنے والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی ان پر انکی آل ، اور صحابہ کرام پر درود و سلام بھیجے۔
حمد و ثنااور درود و سلام کے بعد، مسلمانو!
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کرام کو بہترین وصیت کرتا ہوں، اور وہ ہے: "اللہ کا ڈر اور تقوی" یہ آخرت کے دن کیلئے بہترین زادِ راہ ہے ۔
اسلامی بھائیو!
اسلامی اصول و ضوابط اور ایمان کے بنیادی تقاضوں کے مطابق مسلم معاشرے میں ایمان کی بنیاد پر اخوت کا قیام انتہائی ضروری ہے، اسی لئے تو اللہ تعالی نے فرمایا: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ یقینا تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں [الحجرات: 10] جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مسلمان مسلمان کا بھائی ہے)
مسلمانو!
اس بنیادی اصول و ضابطے کے کچھ حقوق اور واجبات ہے، یہ اصول ہم سے کچھ چیزوں کا مطالبہ کرتا ہے، اور ہم پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کرتاہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں جو بھلے کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں [التوبة: 71]
اخوت اور بھائی چارے کا یہ تقاضا ہے کہ ہم مسلمانوں کے لئے ہر اچھا قول و فعل کر گزریں، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے اس وقت تک کوئی بھی کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کیلئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے کرتا ہے)
سچی اخوت دل کی گہرائی سے انسان کو دوسروں کیلئے بھلائی کرنے پر ابھارتی ہے، اور دوسروں کی تکلیف دور کرنے کی ترغیب دلاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو ان کے کسی قصور کے بغیر دکھ پہنچاتے ہیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بار اٹھا لیا۔ [الأحزاب: 58]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: (مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں)
ایمانی بھائیو!
ایمان کی بنیاد پر قائم اخوت کا اسلام میں بہت بڑا مقام ہے، اسی لئے ایک مسلمان ایمانی اخوت کی بنا پر مسلمان بھائیوں سے اور پورے مسلم معاشرے سےتعلقات عبادت کے طور پر قائم رکھتا ہے، اور اسے اپنی عملی زندگی میں جگہ ایسے دیتا ہے جیسے دیگر ایمانی شعائر کو دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان اسے بے لوث اور فرض سمجھ کر نبھاتا ہے اور اسے کسی قسم کا ذاتی لالچ نہیں ہوتا ۔
اگر یہ بات شرمندہ تعبیر ہو جائے تو معاشرہ وہی شکل اختیار کرجائے گا جیسے کہ شریعت نے چاہا ، کہ انکی مثال ایک عمارت جیسی ہوگی کہ تمام لوگ ایک دوسرے کو سہارا دے کر اخوت کی عمارت کو مضبوط سے مضبوط ترین بناتے ہیں، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا: (ایک مؤمن دوسرے مؤمن کیلئے عمارت ہے جسکا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط بناتا ہے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں کو ایک دوسرے میں ڈال کر مضبوط گرہ لگائی۔
اس اخوت کا ہم سے مطالبہ ہے کہ ہمارے اندر ایثار اور قربانی کا جذبہ ہو، آپس میں پیار و محبت ہو، نرمی اور برداشت کا مادہ پایا جائے، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں جن کی دعوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی ہے، فرمایا: (آپس میں پیار و محبت اور رحم دلی کیلئے مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے، اگر اس جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہوتو سارا جسم ہی بے چینی اور بخار کی سی تکلیف میں رہتا ہے)
مسلمانو!
انہی ایمانی اصولوں اور اسلامی قواعد و ضوابط پر چلتے ہوئے پوری امت اسلامیہ سے مطالبہ ہے کہ آپس میں اتحاد پیدا کریں ، اور اپنی صفوں میں کسی قسم کا خلل نہ آنے دیں ، مسلمانوں میں داخلی انتشار پیدا کرنے کی غرض سے کی جانے والی دشمنوں کی مکاریوں سے بچ کر رہیں، ان کی مکاریوں کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ وہ چاہتے ہیں کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ ان کی دشمنی ان کی زبانوں پر بے اختیار آجاتی ہے اور جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے بیٹھے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔ [آل عمران: 118]
آج امت اسلامیہ کو تفرقہ اور اختلاف کا سامنا ہے، پورے مسلم معاشرے میں اس حد تک بغض، عداوت پھیل چکا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار بھی استعمال کئے جارہے ہیں، یہ کیفیت کسی بھی صورت میں اللہ تعالی کو پسند نہیں، اور نہ ہی اس حالت کا دین سے کوئی تعلق ہے، بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے سراسر مخالف ہے، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو ہم پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں) جبکہ ایک دوسری روایت میں فرمایا: (کوئی بھی اپنے بھائی کی طرف اسلحہ سے اشارہ بھی نہ کرے؛ کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ شیطان اسے بہکا دے اور وہ جہنم کے گڑھے میں جاگرے)
امت اسلامیہ!
تفرقہ کے تمام اسباب سے دور ہو جاؤ! فتنہ پروری سے بچو، اور ہر اس کام سے اجتناب کرو جس سے نقصانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے، کہ کہیں کسی کی آبرو تار تار ہو، تو کہیں قیمتی جانوں کا قتل ہو، اور کہیں املاک کا ضیاع ہو، اور نتیجے میں مسلمانوں کا رعب جاتا رہے، اور دشمن ہم پر پھبتی کسیں اور خوش ہوں۔
آج امت کی یہی حالت ہے، اور دشمنوں کا ہدف بھی یہی تھا، اللہ تعالی نے ہمیں انکا یہ ہدف پہلے ہی بتلا دیا ہے، فرمایا: لَوْ خَرَجُوا فِيكُمْ مَا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ اگر وہ نکلتے بھی تو تمہارے اندر خرابی ہی کا اضافہ کرتے اور تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لئے ادھر ادھر دوڑتے پھرتے۔ پھر تم میں بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو ان کی باتیں دھیان سے سنتے ہیں [التوبة: 47]
اسلامی بھائیو!
سب سے بڑا فتنہ جس سے دور رہنا ہر شخص پر ضروری ہے، وہ بغیر کسی برہانِ ربانی یا ارشادِ نبوی کے مسلمانوں کی تکفیرہے ، جو کہ بلا دلیل اور نظریاتی جذبات پر مبنی ہوتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں پر آنے والے تاریک دن اسی قسم کے غلط نظریات و افکار کی وجہ سے آئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح اور شفاف انداز میں فرمایا، جسے سمجھنے کی ہر شخص طاقت رکھتا ہے: (جونماز ایسے ادا کرے جیسے ہم کرتے ہیں، ہمارے قبلہ کو اپنا قبلہ سمجھے، اور ہمارے ہاتھ کا ذبیحہ کھائے تو یہ شخص مسلمان ہے، وہ اللہ اور اسکے رسول کے ذمے ہے) یہ حدیث صحیح بخاری میں ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اپنے بھائی پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے ذلیل کرتا ہے، اور نہ ہی حقیر جانتا ہے، تمام مسلمانوں کے ایک دوسرے پر مال ، جان، اور عزت حرام ہیں)
مسلمانو!
اگر مسلمان الفت، محبت، اتفاق و اتحاد کا سبب بنے تو یہ علاماتِ فلاح و سعادت میں شامل ہے۔
جبکہ مسلمانوں میں اختلافات، اور دشمنی پھیلانا ذلت اور ناکامی کی علامت ہے، اللہ تعالی اسی بارے میں فرماتے ہیں: لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ اکثر سرگوشیوں میں خیر نہیں ہوتی۔ الا یہ کہ کوئی شخص پوشیدہ طور پر لوگوں کو صدقہ کرنے یا بھلے کام کرنے یا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کاحکم دے [النساء: 114]، ایک اور مقام پر فرمایا: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ تمام مؤمنین آپس میں بھائی ہیں، اس لئے تم اپنے بھائیوں میں صلح کرواؤ [الحجرات: 10]، جبکہ ایک جگہ فرمایا: وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ اپنے تعلقات کو درست رکھو [الأنفال: 1]
ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا میں تمہیں نفل روزے، صدقات، اور نماز سے بھی افضل کام نہ بتاؤں؟) انہوں نے کہا: جی اللہ کے رسول، آپ نے فرمایا: (جھگڑا کرنے والوں کے درمیان صلح کرواؤ)
اسلامی بھائیو!
اسلام ایمانی اخوت کو مزید پختہ بنانے کیلئے زور دیتا ہے، تا کہ ایک مؤمن دیگر ایمان داروں کے بارے میں بغض، دشمنی نہ رکھے، کہ کہیں نہ ختم ہونے والے فتنوں کا سلسلہ نہ شروع ہو جائے، آپ نے فرمایا: (آپس میں بغض نہ رکھو، حسد بھی نہ کرو، ایک دوسرے سے منہ موڑ کر نہ بھاگو، اور نہ ہی قطع تعلقی کرو) مزید آپ نے فرمایا: (جنت کے دروازے ہر سوموار اور جمعرات کو کھولے جاتے ہیں، اور مشرک کے علاوہ سب کو معاف کردیا جاتا ہے ، جبکہ آپس میں بغض اور کینہ رکھنے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے، انہیں آپس میں صلح کرنے تک مہلت دے دو-اس وقت تک انہیں معاف نہیں کیا جائے گا-)
چنانچہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے سینہ کو مسلمانوں کے بارے میں کینہ سے خالی رکھے، چاہے آپس میں نظریات کا کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہوجائے۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم مسلمانوں کیلئے ہر خیر اور نفع بخش چیز کو پسند کریں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، آپ نے فرمایا: (جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اسے جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کردیا جائے ، تو اسے چاہئے کہ موت کے وقت اللہ اور آخرت کے دن پر کامل ایمان رکھتا ہو، اور لوگوں سے ایسے معاملہ کرے جیسے وہ لوگوں سے امید کرتا ہے کہ اس سے معاملہ کریں)
اللہ تعالی ہمارے لئے جو کچھ سنا ہے اسے با برکت بنائے، میں اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، جنہوں نے اللہ کی رضا کے حصول کیلئے لوگوں کو دعوت دی، اللہ تعالی اُن پر ، آل ،و صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلام نازل فرمائے۔
مسلمانو!
مسلمانوں میں اخوت پیدا کرنے کیلئے فریضہ حج میں مقاصد الشریعہ کھل کر سامنے آتے ہیں، جو کہ مؤمنوں کے درمیان محبت پھیلانے کا سبب بنتے ہیں، چنانچہ حجاج کرام !اُٹھو! مسلمانوں!اُٹھو! حج کیلئے تا کہ اخوت اور رواداری کی فضا پیدا ہوسکے۔
تمام حجاج کرام پر ضروری ہے کہ اس فریضہ کی ادائیگی کے دوران اچھے اخلاق اور طور طریقے کو اپنائیں، جابر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (اللہ کے ہاں افضل ترین ایمان ، اللہ پر ایمان ، جہاد فی سبیل اللہ اور حج مبرور ہے)آپ سے پوچھا گیا: حج مبرور کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: (کھانا کھلانا، اور اچھی گفتگو کرنا) احمد نے اسے روایت کیا ہےاور یہ حدیث علماء کے ہاں حسن درجہ کی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر مسلمانوں کو بہت بڑی بڑی نصیحتیں کی تھیں، جن میں سے اہم ترین مسلمانوں میں اخوت بھائی چارہ پیدا کرنے کیلئے کوشش کے متعلق تھی ، چنانچہ آپ نے فرمایا: (تمہاری جان، مال، عزت آبرو تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے آج کے دن کی حرمت ، اس شہر میں اور اس ماہ میں ہے)
اس لئے کسی مؤمن کو تکلیف دینااللہ کے ہاں بہت ہی بڑا گناہ ہے ، جو کہ اس عظیم فریضہ حج کے بھی منافی ہے۔
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: (تین کام جس میں پائیں جائیں تو وہ منافق ہوتا ہے، چاہے روزے رکھے، نمازیں پڑھے، حج اور عمرہ کرے، اور مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرے؛ (1) بات کرے تو جھوٹ بولے،(2) وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، (3)اور جب امانت دی جائے تو اس میں خیانت کرے) اس روایت کو ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور محققین کی ایک جماعت نے اسے حسن کہا ہے۔
اللہ تعالی نے ہمیں بہت ہی عظیم کام کا حکم دیا اور وہ ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا ہے:
یا اللہ! درود و سلام اور برکتیں قیامت تک نازل فرما ہمارے پیارے پیغمبر محمد پر آپ کی آل اور صحابہ کرام پر بھی۔
یا اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی ہر جگہ حفاظت فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی ہر جگہ حفاظت فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو انکے اپنے نفس کے شرسے محفوظ فرما، گناہوں کی تباہ کاریوں سے بچا، یا اللہ! انہیں دشمنوں کی مکاریوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! انہیں دشمنوں کی مکاریوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! مسلمانوں میں اخوت پیدا فرما، یا اللہ! انہیں آپس میں محبت کرنے والے بھائی بھائی بنا دے، یا اللہ! خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے والے بنادے۔
یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو بخش دے، یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو بخش دے، یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو بخش دے، یا اللہ! جو فوت ہوچکے ہیں اور جو زندہ ہیں سب کو معاف فرما۔
یا اللہ ! تمام حجاج اور عمرہ کرنے والوں کی حفاظت فرما، یا اللہ انکی حفاظت کے ساتھ ساتھ اِن کیلئے حج بھی آسان فرما دے، یا اللہ! اِن کیلئے اور تمام مسلمانوں کیلئے امن، سکون پیدا فرما دے۔
یا اللہ! تمام مسلمانوں پر رحم فرما، یا اللہ! ان پر اپنا رحم کرتے ہوئے انکے حالات درست فرما، یا اللہ! ان پر اپنا رحم کرتے ہوئے انکے حالات درست فرما، یا اللہ! ان پر اپنی رحمت نازل فرما، جس سے انکے حالات درست ہو جائیں، یا اللہ! انکی جان، مال، اور عزت آبرو کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان پر اتنی رحمت فرما کہ دشمن بھی آگ بگولہ ہو جائیں، یا ذوالجلال و الاکرام!
یا اللہ! مسلم حکمرانوں کی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! مسلم حکمرانوں کی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔
یا اللہ! ہمیں تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عنائت فرما، یا اللہ! ہمارے لئے اور تمام مسلمانوں کیلئے امن و امان پیدا فرما، یا اللہ! ہمارے لئے اور تمام مسلمانوں کیلئے امن و امان پیدا فرما۔
یا اللہ! ہمیں اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں اچھے حکمران نصیب فرما۔
یا اللہ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی نصیب فرما اور آخرت میں بھی بھلائی نصیب فرما۔
یا اللہ! ہماری اور حجاج کرام کی تمام تمنائیں پوری فرما، یا اللہ! حجاج کرام کو انکے گھروں میں گناہوں پاک کر کے بھیج، یا ارحم الراحمین!
اللہ کے بندو!
اللہ کا ذکر کثرت سے کرو، اور صبح و شام اسکی پاکیزگی بیان کرو،اور ہماری آخری بات یہی ہے کہ تمام تعریفات اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔
لنک