• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی خطبات - 16 شرک کی مذمت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خطبہ ــ 16
شرک کی مذمّت
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمدللہ الذی لم یتخذ ولداو لم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ ولی من الذل وکبرہ تکبیرا۔ ونشھد ان لاالہ ا لااللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان محمداعبدہ ورسولہ صلی اللہ علیہ وعلی اٰلہ واصحابہ وسلم تسلیما کثیرا۔ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ط بسم اللہ الرحمن الرحیم بِہٖ۝۰ۭ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاۗءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّيْرُ اَوْ تَہْوِيْ بِہِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ (الحج:۳۱)
سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، جو نہ اولاد رکھتا ہے، اور اپنی سلطنت میں کسی کو شریک بھی نہیں کرتا، اور نہ وہ ایسا حقیر ہے، کہ اس کا کوئی حمائتی ہو، تم اس کی بڑائی بیان کرو، اور ہم اس بات کی شہادت دیتے ہیں، کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ ایک ا کیلا ہے، اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے، اور ہم اس بات کی شہادت دیتے ہیں، کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر اور ان کے اصحابؓ پر بہت بہت درود بھیجے حمدو صلوٰۃ کے بعد عرض ہے ، کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یہ فرما رہاہے، کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا، تو اب اسے یا تو پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز مقام پر پھینک دے گی۔​
مطلب یہ ہے، کہ شرک بدترین چیز ہے، جو مشرکوں کو تباہی کے گڑھے میں ڈال دیتی ہے، اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے یہ دی ہے کہ جیسے کوئی آسمان سے گر پڑے، تو یا تو اسے پرندے ہی اچک لے جائیں یا ہوا کسی ہلاکت کے دور دراز گڑھے میں پھینک دے۔
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ البلاغ المبین میں فرماتے ہیں: اس آیت کریمہ سے چار باتیں معلوم ہوئیں (۱) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا (۲) آسمان سے گرنا(۳) پرندوں کا اچک لینا(۴) تیز ہوا کا دور جگہ لے جا کرڈال دینا۔
پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا یہ ہے، کہ جو صفتیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں، جیسے زندہ کرنا مارنا، اولاد بخشنا، روزی دینا ، اور چھپی ہوئی باتوں کو جاننا وغیرہ یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہیں، ان باتوں کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کی طرف نسبت کریں اور یہ سمجھیں کہ یہ کام دوسرابھی کر سکتا ہے شرک کے یہی معنی ہیں، ورنہ کوئی شخص ایسا نہیں ہے، جو یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کا شریک کوئی دوسرا خدا ہے۔
اور آسمان سے گرنے سے یہ مراد ہے، کہ دین توحید آسمان کی طرح ایک ایسی اونچی اور بلند جگہ ہے جہاں پر نبی ﷺ کی سنت کی روشنی چمکتے سورج کی طرح امتیوں کے دل کو روشن کرتی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار روشن ستاروں کی طرح مسلمانوں کو راستہ بتاتے ہیں، جیسا کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں۔
اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم۔ (مشکوۃ)
میرے صحابہؓ روشن ستاروں کی طرح ہیں، ان میں سے جس کی بھی اتباع کرو گے ہدایت اور راستہ پالوگے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پس جس نے دین توحید اسلام کو چھوڑ دیا، تو گویا وہ آسمان جیسے بلند مقام سے گر پڑا، اسی نکتہ (باریکی) کی طرف اشارہ کرنے کے لیے لفظ کانما (گویا) حرف تشبیہ کالا یا گیا، جس سے مضمون کی خوبی اور باریکی اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے، اور پرندوں کے اچک لے جانے کا مطلب یہ ہے، کہ شیاطین مشرکوں کو اچک لے جانے کے لیے زمین و آسمان کے درمیان اڑتے رہتے ہیں، جیسے چیل، کوّے، ٹڈی وغیرہ کا شکار کرتے ہیں، اسی طرح شیاطین ان مشرکوں کو شکار کرتے رہتے ہیں، مشرکین کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جن پر دنیا میں شرک کا حکم کھلم کھلا لگا سکتے ہیں، دوسرے وہ جن پر آخرت میں شرک کا حکم لگایا جائے گا، پہلی قسم کے مشرکوں کو تخطفہ الطیر کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، کہ شیطان ان کے اوپر پورا پورا قابو پا چکا ہے، اور دوسری قسم کو تھوی بہ الریح میں بیان کیا گیا ہے، اور وہ ریح(آندھی) نفسانی خواہشات ہیں، جو منافقوں کے لیے ہلاکت کا سبب ہو جاتی ہیں، اور دوسری جگہ منافقین کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت اتری:
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ۔ (النساء:۱۴۵)
کہ منافقین یقینا جہنم کے سب سے نیچے درجے میں ہوں گے۔
پس اس جگہ سوچنا چاہیے، کہ جب ریح سے خواہشات نفسانی مراد ہیں، تو پھر مکان سحیق (دور جگہ) کیا ہے؟ یعنی اس سے مراد ہے، کہ نفسانی خواہشات ایسی جگہ لے جا کر پٹخ دیتی ہیں، جہاں سے پھر کبھی باہر نہیں نکل سکتا، یہ بات جان لینی چاہیے، کہ ''مکان سحیق'' سے مراد اس جگہ تقلید کا مقام ہے، کہ اس جگہ پہنچ کر انسان راہ راست سے بھٹک جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کی بات قرآن مجید میں نقل کی ہے، کہ جب کافروں سے کہا جاتاہے کہ اللہ و رسول ﷺ کی بات مانو، اور باپ دادا کے رسم و رواج کو چھوڑ دو، تو کہتے ہیں:
اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ۔ (الزخرف:۲۳)
ہم نے اپنے بزرگوں(باپ دادوں) کو ایک (خاص) طریقہ پر پایا ہے، اور ہم ہمیشہ ان ہی کے نقش قدم پر چلیں گے۔
بڑے گناہوں میں شرک کبیرہ گناہ ہے، اللہ سب گناہوں کو معاف کر دے گا، مگر مشرک کو کبھی معاف نہیں فرمائے گا، مشرکوں کے لیے بڑی بڑی سزائیں ہیں، مرنے کے بعد ہی قبر میں عذاب کے فرشتے ان کو گرزوں سے ماریں گے، جن سے ان کی ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو جائیں گی، اور ایسے زہریلے سانپ ، بچھو ان کو کاٹیں اور ڈنگ ماریں گے، کہ وہ اگر ایک مرتبہ زمین پر پھونک مار دیں، تو ان کے زہر کی وجہ سے قیامت تک زمین پر کوئی سبزہ نہ اُگے، ا ور خود قبر بھی ایسی بری طرح دبوچے گی، کہ تمام پسلیاں ٹوٹ کر اِدھر اُدھر نکل جائیں گی اور جہنم کی طرف کھڑکی کھول دی جائے گی، جس سے گرم لو آئے گی، اور قیامت میں دوزخ کی آگ میںہمیشہ جلیں گے، سانپ بچھو کاٹیں گے، اور پیپ ، لہو اور اتنا گرم کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا، کہ لبوں تک پہنچتے ہی اوپر کا ہونٹ اس قدر سوکھ اور سکڑ جائے گا، کہ ناک اور آنکھیں ڈھک جائیں گی، اور نیچے کا ہونٹ سوج کر سینے اور ناف تک پہنچ جائے گا، زبان جل جائے گی، حلق میں اترتے ہی پھیپھڑے ، معدے اور آنتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے نکال دے گا، اور کھانے کو زقوم (تھوہر) دیا جائے گا، جو کھاتے ہی گلے میں پھنس جائے گا، اسی طرح دوزخ کی آگ میں ہمیشہ جلتے رہیں گے، روئیں گے، شور مچائیں گے، مگر بے فائدہ ہوگا، ان سے کہا جائے گا، کہ دنیا میں تم ایک خدا کو نہیں مانتے تھے، اس لیے یہ سزا مل رہی ہے، اگر ایک خدا کو مانتے ، تو یہ سزا نہ ملتی
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِيْہِمْ نَارًا۝۰ۭ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَيْرَھَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ۝۰ۭ (نساء:۵۶)
جو لوگ ہمارے احکام سے قطع تعلق کریں گے، ان کو ہم آگ میں ڈالیں گے، جب کبھی ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ہم ان پردوسری کھالیں مڑھ دیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔
اَلْقِيَا فِيْ جَہَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيْدٍ۝۲۴ۙ مَّنَّاعٍ لِّــلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُّرِيْبِۨ۝۲۵ۙ الَّذِيْ جَعَلَ مَعَ اللہِ اِلٰـــہًا اٰخَرَ فَاَلْقِيٰہُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيْدِ۔ (ق:۲۴ تا ۲۶)
دونوں جاکر ہر ناشکرے، شریر، بھلائی سے روکنے والے حد سے بڑھنے والے ، ایمان کی باتوں میںشک کرنے والے کودوزخ میں جھونک دو، جو اللہ کے سوائے دوسرا معبود ٹھہرائے، اس کو سخت عذاب میں ڈال دو۔
اِنَّ الْمُجْرِمِيْنَ فِيْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ۝۴۷ۘ يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰي وُجُوْہِہِمْ۝۰ۭ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ۔
ٍُبیشک نافرمان گمراہی میں ہیں اور دہکتی ہوئی آگ میں وہ جھونک دیے جائیں گے، جس دن یہ لوگ اوندھے منہ دوزخ کی آگ میں گھسیٹے جائیں گے تب ان سے کہا جائے گا اب دوزخ کی آگ کا مزہ چکھو۔ (القمر:۴۷۔۴۸)
ثُمَّ اِنَّكُمْ اَيُّہَا الضَّاۗلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ۝۵۱ۙ لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ۝۵۲ۙ فَمَالِــــُٔـوْنَ مِنْہَا الْبُطُوْنَ۝۵۳ۚ فَشٰرِبُوْنَ عَلَيْہِ مِنَ الْحَمِيْمِ۝۵۴ۚ فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْہِيْمِ۝۵۵ۭ ھٰذَا نُزُلُہُمْ يَوْمَ الدِّيْنِ۝۵۶ۭ
پھر بے شک اے خدا کے اور قیامت کے جھٹلانے والو تھوہر کے درختوں سے ضرور کچھ کھانا پڑے گا، اس سے پیٹ بھرنا پڑے گا، پھر اوپر سے کھولتا ہوا پانی پینا ہوگا، اسی طرح پیو گے، جیسے کہ بیمار پیاسے اونٹ غٹ غٹ پی جاتے ہیں، جزا اور انصاف کے دن ان کی یہ مہمانی ہوگی۔ (الواقعۃ:۵۱ تا ۵۶)
فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِيَابٌ مِّنْ نَّارٍ۝۰ۭ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِہِمُ الْحَمِيْمُ۝۱۹ۚ يُصْہَرُ بِہٖ مَا فِيْ بُطُوْنِہِمْ وَالْجُلُوْدُ۝۲۰ۭ وَلَہُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيْدٍ۝۲۱ كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْہَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْہَا۝۰ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ۝۲۲ۧ (الحج:۱۹ تا ۲۲)
نافرمانوں اور منکرین خدا کے لیے آگ کے کپڑے ٹھیک ان کے بدن کے موافق تراشے جائیں گے، ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا، جس کی گرمی سے آنتیں وغیرہ جو ان کے پیٹ میںہیں اور کھالیں گل جائیں گی، اور ان کے مارنے کے لیے لوہے کے گرز ہوں گے، پھر جب گھٹ کر ان سے نکلنا چاہیں گے، تو پھر اسی میں لوٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا، جلنے کے عذاب کا مزہ چکھتے رہو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وَاِنَّ لِلطّٰغِيْنَ لَـشَرَّ مَاٰبٍ۝۵۵ۙ جَہَنَّمَ۝۰ۚ يَصْلَوْنَہَا۝۰ۚ فَبِئْسَ الْمِہَادُ۝۵۶ ھٰذَا۝۰ۙ فَلْيَذُوْقُوْہُ حَمِيْمٌ وَّغَسَّاقٌ۝۵۷ۙ وَّاٰخَرُ مِنْ شَكْلِہٖٓ اَزْوَاجٌ۝۵۸ۭ (ص:۵۵ تا ۵۸)
اور شریروں کے لیے بڑا ٹھکانا ہے، لازمی دوزخ میں جا پڑیں گے، وہ بری جگہ ہے، یہ گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ اور اسی صورت کی دوسری چیزیں تیار ہیں، ان کو چکھیں۔
سَاُصْلِيْہِ سَقَرَ۝۲۶ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا سَقَرُ۝۲۷ۭ لَا تُبْقِيْ وَلَا تَذَرُ۝۲۸ۚ لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ۝۲۹ۚۖ عَلَيْہَا تِسْعَۃَ عَشَرَ۝۳۰ۭ (المدثر:۲۶ تا ۳۰)
اس کافر کو دوزخ میں جھونک دوں گا،تمہیں معلوم بھی ہے دوزخ کیا بلا ہے، وہ کھال کوجلا دے گی، اس پر انیس داروغہ مقرر ہیں۔
یہ سب قرآن مجید کی آیتیں ہیں، جن کا ترجمہ بھی آپ نے پڑھ لیا، اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کافروں اور مشرکوں کے لیے کیسی بڑی بڑی سزائیں ہیں، لہٰذا آپ کسی وقت بھی شرک و کفر کی باتوں کے قریب بھی نہ جائیں خواہ آپ کو کتنا ہی مجبور کیا جائے۔ آخرت کے عذابوں کے مقابلے میں قتل کی تکلیف یا دنیاوی آگ کا عذاب بھی برداشت کرنا پڑے، تو شرک سے بچنے کے لیے اسے برداشت کرنا چاہیے، کیونکہ مشرک کبھی نہ بخشا جائے گا، ہمیش ہمیش کے لیے اس کا ٹھکانا جہنم میں ہوگا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۔ (النساء:۴۸)
خدا شرک کو ہرگز معاف نہیںفرمائے گا، اور اس کے علاوہ جس کو چاہے گا، معاف فرما دے گا۔
دوسری آیت میں فرمایا:
اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ۝۱۳ (لقمان:۱۳)
یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
آدمی کا اشرف المخلوقات ہونا شرک کی تردید کے لیے سب سے بڑی دلیل ہے، نوعیت میں انسان سے بڑھ کر کون سی مخلوق ہے، جس کے سامنے یہ جھکے، اور اللہ تعالیٰ نے شرک کرنے والوں پر جنت حرام کر دی ہے، جیسا کہ سورہ مائدہ میں فرمایا:
اِنَّہٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَيْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰىہُ النَّارُ۝۰ۭ وَمَا لِلظّٰلِــمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝۷۲
کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے، تو اللہ تعالیٰ جنت کو اس پر حرام کر چکا ، اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے، اور ظالموں کا یعنی مشرکوں کا کوئی مدد گار نہ ہوگا۔ (المائدہ:۷۲)
معلوم ہوا، کہ شرک ایسی بری چیز ہے، جس سے جنت حرام ہو جاتی ہے، اور دوزخ واجب ہو جاتی ہے اس لیے ہر حال میں شرک سے بچتے رہنا چاہیے، رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نصیحت فرمائی کہ:
لا تشرک باللہ وان قتلت اوحرقت۔ (احمد۔ مشکوۃ)
اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، اگرچہ تجھ کو قتل کیا جائے یا جلایا جائے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یعنی کتنی ہی سخت مصیبت کیوں نہ ہو، اور ظالم ظلم کر کے شرک کرانا چاہے، اور آپ پر جبر کر کے یہ کہے کہ یا تو شرک کرو، ورنہ ہم تم کو قتل کر دیں گے یا جلا دیں گے، تو قتل ہونا یا جلنا منظور ہو، لیکن شرک کرنا ہرگز منظور نہ ہونا چاہیے، پہلے مسلمانوں پر اس قسم کی مصیبتیں آئیں، اور ان کو زندہ جلایا گیا، مگر انہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا، اس سلسلہ میں ہم خندق والوں کا ایک واقعہ سناتے ہیں، جس کا بیان قرآن مجید میں بھی ہے اورحدیثوں میں بھی آیا ہے، اسے پڑھ کر اور سن کر ایمان کو مضبوط کرو۔
مسند احمد میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ اگلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا، اس کے ہاں ایک جادوگر تھا، جب جادوگر بوڑھا ہوا،تو اس نے بادشاہ سے کہا، کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں، اور میری موت کا وقت قریب آرہا ہے، مجھے کوئی بچہ سونپ دو، میں اس کو جادو سکھا دوں، چنانچہ ایک ذہین لڑکے کو وہ تعلیم دینے لگا، لڑکا اس کے پاس جاتا تو راستے میںایک راہب کا گھر پڑتا، جہاں وہ عبادت میں کبھی وعظ و نصیحت میں مشغول ہوتا، یہ بھی کھڑا ہو جاتا، اور اس کے طریقہ عبادت کودیکھتا، اور وعظ سنتا آتے جاتے، یہاں رک جایاکرتا تھا، جادوگر بھی مارتا، اور ماں باپ بھی، کیونکہ وہاں بھی دیر میںپہنچتا ، اور یہاں بھی دیر میں آتا، ایک دن اس بچے نے راہب کے سامنے یہ شکایت بیان کی، راہب نے کہا جب جادوگر تم سے پوچھے کیوں دیر لگ گئی، تو کہنا کہ گھر والوں نے روک لیا تھا، اور اگر گھر والے بگڑیں، تو کہنا، کہ جادوگر نے روک لیا تھا۔
یوں ہی ایک زمانہ گذر گیا، کہ ایک طرف تو وہ جادو سیکھتا تھا، اور دوسری طرف کلام اللہ اور اللہ کا دین سیکھتا تھا، ایک دن یہ دیکھتا ہے، کہ راستے میں ایک زبردست ہیبت ناک سانپ پڑا ہے، لوگوں کی آمد و رفت بند کر رکھی ہے، ادھر والے اوھر، اور اوھر والے ادھر ہیں، اور سب لوگ اوھر ادھر پریشان کھڑے ہیں، اس نے اپنے دل میں سوچا، کہ آج موقع ہے، کہ میں امتحان کر لوں، کہ راہب کا دین خدا کو پسند ہے یا کہ جادوگر کا اس نے ایک پتھر اٹھایا، اور یہ کہہ کر اس پر پھینکا، کہ خدایا تیرے نزدیک راہب کا دین اور اس کی تعلیم جادوگر کی تعلیم سے زیادہ محبوب ہے تو تواس جانور کو اس پتھر سے ہلاک کر دے، تا کہ لوگوں کو اس بلا سے نجات ملے، پتھر کے لگتے ہی وہ جانور مرگیا، اور لوگوں کا آنا جانا شروع ہوگیا، پھر جاکر راہب کو خبر دی ، اس نے کہا پیارے بچے تو مجھ سے افضل ہے، اب خدا کی طرف سے تیری آزمائش ہوگی، اگر ایسا ہو، تو میری خبر نہ کرنا۔
اب اس بچے کے پاس حاجت مند لوگوں کا تانتا لگ گیا، اور اس کی دعا سے مادرزاد اندھے، کوڑھی ، جذامی اور ہر قسم کے بیمار اچھے ہونے لگے، بادشاہ کے ایک نابینا وزیر کے کان میں یہ آواز پڑی، وہ بڑے تحفے تحائف لے کرحاضر ہوا، اور کہنے لگا، اگر تو مجھے شفا دیدے، تو یہ سب میںتجھے دے دوں گا، اس نے کہا، شفا میرے ہاتھ میں نہیں ہے، میں کسی کو شفا نہیں دے سکتا، شفا دینے والا تو اللہ وحدہ لاشریک لہ ہے، اگر تو اس پر ایمان لانے کا وعدہ کرے، تو میں اس سے دعا کروں، اس نے اقرار کیا، بچے نے اس کے لیے دعا کی اللہ نے اسے شفا دے دی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وہ بادشاہ کے دربارمیں آیا، اور جس طرح اندھا ہونے سے پہلے کام کرتا تھا کرنے لگا، اور آنکھیں بالکل روشن تھیں، بادشاہ نے متعجب ہو کر پوچھا ، کہ تجھے آنکھیں کس نے دیں؟ اس نے کہا''میرے رب نے'' بادشاہ نے کہا ''ہاں'' یعنی میں نے دی ہیں، وزیر نے کہا''نہیں نہیں میرا اور تیرا رب اللہ ہے''بادشاہ نے کہا''کیا تیرا رب میرے سوا کوئی اور ہے'' وزیر نے کہا''ہاں میرا اورتیر ا رب اللہ عزوجل ہے'' اب بادشاہ نے اسے مار پیٹ شروع کر دی اور طرح طرح کی تکلیفیں اور ایذائیں دینے لگا ، اور پوچھنے لگا، کہ تجھے یہ تعلیم کس نے دی ہے، آخر اس نے بتا دیا، کہ میںنے اس بچے کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا ہے، اس نے اسے بلوایا اور کہا اب تو تم جادو میں کامل ہو گئے کہ اندھوںکودیکھتا، اور بیماروں کو تندرست کرنے لگ گئے ہو۔
اس نے کہا، غلط ہے، نہ میں کسی کو شفا دے سکتا ہوں، نہ جادو گر ہوں، شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے،وہ کہنے لگا اللہ تو میں ہی ہوں، اس نے کہا ہر گز نہیں، بادشاہ نے کہا، پھر کیا تو میرے سوا کسی اور کو رب مانتا ہے، تو اس نے کہا،ہاں میرا رب اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہے، اس نے اب اس بچے کو طرح طرح کی سزائیں دینی شروع کیں، یہاں تک کہ راہب کا پتہ لگا لیا، اور راہب کو بلا کر کہا، کہ تو اسلام کو چھوڑ دے، اس نے انکار کیا، تو بادشاہ نے اسے آرے سے چروادیا، پھر اس نوجوان سے کہا، کہ تو بھی دین اسلام سے پھر جا، اس نے بھی انکار کیا، تو بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کوحکم دیا، کہ اسے فلاں پہاڑ کی بلند چوٹی پر لے جاؤ، وہاں پہنچ کر بھی اگر دین سے باز آجائے تو اچھا ہے، ورنہ وہیں سے اسے لڑھکا دیں، چنا نچہ سپاہی اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے جب اسے دھکا دینا چاہا،تو اس نے اللہ سے دعا کی اللھم اکفنیھم بماشئت اللہ جس طرح توچاہے مجھے اس سے نجات دے، اس دعا کے ساتھ ہی پہاڑ ہلا، اور سب سپاہی لڑھک گئے، صرف وہ بچہ ہی بچا رہا، وہاں سے وہ بادشاہ کے پاس آگیا، بادشاہ نے کہا یہ کیا ہوا ، میرے سپاہی سب کہاں ہیں، بچے نے کہا خدا نے مجھے بچا لیا، وہ سب ہلاک ہوگئے۔
بادشاہ نے اپنے دوسرے سپاہیوں کو حکم دیا، کہ اسے کشتی میں بٹھا کربیچو بیچ سمندر میں لے جا کرڈبو آؤ، یہ لوگ اسے لے کر چلے بیچ سمندر کے پہنچ کر جب اسے پھینکنا چاہا، تو اس نے پھر وہی دعا کی، کہ بارالٰہا! جس طرح چاہ مجھے ان سے بچا، دعا کے ساتھ ہی موج اٹھی ، اور وہ سارے کے سارے سپاہی سمندر میں ڈوب گئے، صرف وہ بچہ ہی باقی بچا، وہ پھر بادشاہ کے پاس آیا اور کہا، میرے رب نے مجھے ان سے بھی بچا لیا، اور اے بادشاہ تو چاہے جتنی تدبیریں کرڈال، لیکن تو مجھے ہلاک نہیں کرسکتا، ہاں ایک صورت ہے، جس طرح میں کہوں اگر اس طرح تو کرے، تو البتہ میری جان نکل جائے گی، بادشاہ نے کہا، اچھا بتا کیاکروں، اس نے کہا تمام لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرو، پھر کھجور کے تنے پر مجھے سولی چڑھا، اور میرے تیر کو میری کمان پر چڑھا اور بسم اللہ رب ھذا الغلام، یعنی اس اللہ کے نام سے جو اس بچے کا رب ہے، کہہ کر تیر میری طرف پھینک وہ مجھے لگے گا،اور میں اس سے مروں گا، چنانچہ بادشاہ نے یہ کیا تیر بچے کی کنپٹی میں لگا، اس نے اپنا ہاتھ اس جگہ رکھ لیا، چاروں طرف سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں، کہ ہم سب اس بچے کے رب پر ایمان لائے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے ساتھی بڑے گھبرائے، اور بادشاہ سے کہنے لگے، اس لڑکے کی ترکیب ہم تو سمجھے ہی نہیں، دیکھیے اس کا اثر کیا پڑا، کہ یہ تمام لوگ اس کے مذہب میں داخل ہوگئے۔ ہم نے تو اس لیے قتل کیا تھا کہ کہیں یہ مذہب پھیل نہ جائے لیکن جو ڈر تھا وہ تو سامنے ہی آگیا اور سب مسلمان ہو گئے۔ بادشاہ نے کہا اچھا یہ کرو کہ تمام محلوں اور راستوں میںخندقیں کھدوادو، ان میں لکڑیاں بھرو، اور ان میں آگ لگا دو، جو اس دین سے پھر جائے اسے چھوڑ دو، اور جو نہ مانے اسے آگ میں ڈال دو، ان مسلمانوں نے صبرو شکیب اور سہار کے ساتھ آگ میں جلنا منظور کر لیا، اور اس میں کود کود کر گرنے لگے، البتہ ایک عورت جس کی گود میں دودھ پیتا چھوٹا سا بچہ تھا، وہ ذراجھجکی، تو اس بچہ کو خدا نے بولنے کی طاقت دی، اس نے کہا، اماں کیاکر رہی ہو، تم توحق پر ہو، صبر کرو، اور اس میں کود پڑو، یہ حدیث مسند احمد میں بھی ہے، اور مسلم میں بھی، اور بعض کتب احادیث میں بھی ہے، قرآن مجید کے سورہ بروج میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الْبُرُوْج ۝۱ۙ وَالْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِ۝۲ۙ وَشَاہِدٍ وَّمَشْہُوْدٍ۝۳ۭ قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ۝۴ۙ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ۝۵ۙ اِذْ ہُمْ عَلَيْہَا قُعُوْدٌ۝۶ۙ وَّہُمْ عَلٰي مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُہُوْدٌ۝۷ۭ وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللہِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ۝۸ۙ الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ۝۹ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ۝۱۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝۰ۥۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيْرُ۝۱۱ۭ (البروج:۱تا۱۱)
برجوں والے آسمان کی قسم، اور وعدہ کیے گئے دن کی قسم حاضر ہونے والے ا ور حاضر کیے گئے کی قسم کہ خندق والے ہلاک کیے گئے، وہ آگ ایندھن اور شعلہ والی وہ لوگ اس کے آس پاس بیٹھے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کررہے تھے، اپنے سامنے دیکھ رہے تھے ان مسلمانوں کے کسی اور گناہ کا یہ بدلہ نہ تھا، سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ غالب سزاوار حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے، جس کے لیے آسمان و زمین کا ملک ہے اور جو خدا ہر چیز سے خوب واقف ہے بے شک جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو ستایا پھر توبہ بھی نہیں کی ان کے لیے جہنم کے عذاب ہیں، بے شک ایمان قبول کرنے والوں اور مطابق سنت کام کرنے والوں کے لیے وہ باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اور وہی بڑی کامیابی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو امن و عافیت سے رکھے، اور ہر فتنہ و فساد سے بچائے رکھے، اور مرتے دم تک دین حق پر قائم رکھے، آمین ثم آمین۔
بارک اللہ لنا ولکم فی القراٰن العظیم
ونفعنا وایاکم بالایات و الذکر الحکیمط
 
Top