• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی سیاسی نظام کی خصوصیات

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
نظام کی تعریف
نظام یا سسٹم ایسے طریقہ کار کو کہتے ہیں جس میں کسی مقصد کے حصول کے لئے مخصوص اصولوں کے تحت کام کیا جائے مختلف مقاصد کے لئے مختلف قسم کے نظام ہوتے ہیں مثلا نظام تنفس، نظام انہضام، نظام حکومت، نظام معیشت، نظام معاشرت نظام تعلیم وغیرہ

نظام کا مقصد
کسی بھی نظام کا مقصد کسی بھی عمل کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوتا ہے یعنی یہ حل نکالنا کہ ان پٹس کو کن طریقوں سے ڈالا جائے کہ آوٹ پٹس بہترین ہوں جائیں

نظام کی کارکردگی کا انحصار
اوپر بحث سے یہ پتا چلتا ہے کہ کسی بھی نظام کی کاکردگی کی بہتری کا انحصار اس نظام کے لئے وضع کئے گئے اصولوں کے بہترین ہونے پر ہو گا اور ان اصولوں کی بہتری کا انحصار اسکے بنانے والے کے علم اور معلومات پر ہو گا کہ اس نظآم سے متعلقہ معاملات کو کس حد تک جانتا ہے یعنی نظام وضع کرنے والا کسی مسئلہ کے بارے جتنی زیادہ معلومات رکھے گا اتنا ہی کسی مسئلہ کے لئے وہ بہترین نظام وضع کر سکے گا مثلا کسی چوراہے پر اشاروں کی ٹائمنگ کو متعین کرنے والا اس جگہ ٹریفک کے بہاؤ سے جتنا واقف ہو گا اتنا بہترین پلان وہ بنا سکے گا اسی طرح وہ ذات جو انسان کے متعلقہ کسی نظام کو بنائے تو اسکے لئے بھی لازمی ہے کہ وہ اس انسان کی رگ رگ سے واقف ہو

انسان کے باہمی تعامل کے لئے کچھ بنیادی نظام
انسان چونکہ ایک معاشرے کی شکل میں رہتا ہے اس وجہ سے آپس میں تعامل کے لحاظ سے اسکو کچھ انتہائی اہم اور بنیادی نظاموں کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ بحثیت معاشرہ انکی کارکرگدی بہترین ہو سکے جن میں معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں
اگرچہ معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام آپس میں بہت زیادہ جڑے اور ایک دوسرے میں گھسے ہوتے ہیں اور ایک قسم کے معاشی نظام سے اسی جیسے معاشرتی یا سیاسی نظام کو زیادہ تقویت ملتی ہے مگر بنیادی طور پر یہ علیحدہ ہی ہیں

معاشرتی نظام:
جس میں معاشرے کے آپس میں تعامل کے اصول و ضوابط ہوتے ہیں

سیاسی نظام:
جس میں معاشرے کے تمام نظاموں کو چلانے کے اصول و ضوابط ہوتے ہیں

معاشی نظام:
جس میں چیزوں کی پیداوار انکی ترسیل اور استعمال کے اصول و ضوابط ہوتے ہیں

اس سے پہلے معاشی نظام کو موضوع بنایا تھا اب اس دھاگہ کے اندر میں نے سیاسی نظام کو موضوع بنایا ہے پس میں اوپر کی گئی وضاحت کی روشنی میں مروجہ سیاسی نظام اور اسلامی سیاسی نظام کا فرق اپنے علم کے مطابق پیش کروں گا
اسکی وجہ محترم اشماریہ بھائی کا پاکستان دارالاسلام دھاگہ میں ایک سوال تھا جس کی وضاحت آخر پر کروں گا انشاءاللہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
[سیاسی نظام:]
جس میں معاشرے کے تمام نظاموں کو چلانے کے اصول و ضوابط ہوتے ہیں
کسی بھی معاشرے (ملک، ریاست) جنگل کی بجائے پر امن معاشرہ بنانے کے لئے ایک کلی طور پر ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ جو باقی مختلف مقاصد کے لئے وضع کیے گئے مختلف نظاموں کو پرکھے اور پھر ان میں سے ہر ضروری معاملہ کے لئے بہترین نظام کو چن کر معاشرے کے سب افراد پر لاگو کر دے اور پھر اس کی پیروی کروائے ایسا نظام سیاسی نظام کہلائے گا

2-سیاسی نظام کی خصوصیات
1-ہر معاملہ کے لئے وضع کیے گئے (تجویز کیے گئے) مختلف نظاموں کو پرکھنا اور پھر ان میں سے بہترین نظام کو چننا
2-مختلف معاملوں میں مختلف چنے گئے نظاموں کی پیروی کو ممکن ببنانے کے لئے اقدامات کرنا

3-سیاسی نظام کی ضروریات
اسکے لئے ضروری ہے کہ آپ کے پاس سلطہ ہو یعنی وہ طاقت ہو کہ جس کے بل بوتے پر آپ اوپر والا نظام معاشرے پر لاگو کر سکیں

4-اسلامی سیاسی نظام کو سمجھنے میں غلط فہمی
اسلامی نظام کو سمجھنے سے پہلے میں ایک غلط فہمی دور کرنا چاہوں گا کہ عام طور پر اسلامی سیاسی نظام کے لاگو کرنے کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد آمریت یا بادشاہیت یا جمہوریت کا رد سمجھ لیا جاتا ہے مگر میرے خیال میں اسکا تعلق اوپر نمبر 3 کے ساتھ ہے نمبر 2 میں بیان کی گئی اسلامی سیاسی نظام کی خصوصیات کے ساتھ نہیں
پس اگر آپ کو سلطہ کسی بھی طریقے سے حاصل ہو جائے تو آپ اگر اسلامی سیاسی نظام کو لاگو کر دیتے ہیں تو اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا البتہ سلطہ حاصل کرنے کے عمل کا ٹھیک یا غلط ہونا وہ ایک علیحدہ بحث ہے جس کو اسلامی سیاسی نظام کی بحث کی بجائے اسلامی سیاسی نظام کے حصول کی بحث میں دیکھا جائے گا اور اسکی بھی اپنی حدود و قیود ہوں گی جیسے جہاد بھی حدود و قیود کی پابندی کی جاتی ہے
محترم انس بھائی اہل حدیث تقطہ نظر سے اورمحترم اشماریہ بھائی حنفی نقطہ نظر سے میری ساتھ ساتھ اصلاح کرتے رہیں کیونکہ یہ سب کچھ میں سیکھنے کے لئے ہی لکھ رہا ہوں اللہ جزائے خیر دے امین
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
نظام کی کارکردگی کا انحصار
نظام وضع کرنے والا کسی مسئلہ کے بارے جتنی زیادہ معلومات رکھے گا اتنا ہی کسی مسئلہ کے لئے وہ بہترین نظام وضع کر سکے گا مثلا کسی چوراہے پر اشاروں کی ٹائمنگ کو متعین کرنے والا اس جگہ ٹریفک کے بہاؤ سے جتنا واقف ہو گا اتنا بہترین پلان وہ بنا سکے گا اسی طرح وہ ذات جو انسان کے متعلقہ کسی نظام کو بنائے تو اسکے لئے بھی لازمی ہے کہ وہ اس انسان کی رگ رگ سے واقف ہو
اوپر جو وضاحت کی گئی ہے اس سے کسی عقلمند کو مفر نہیں پس ایک مسلمان چونکہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اسکا پیدا کرنے والا اور اسکی رگ رگ سے واقف صرف اللہ کی ذات ہے تو اسکے نزدیک انسانوں کے بہترین نظام بنانے والی ذات صرف اور صرف اللہ ہی ہو سکتی ہے اور وہ بھی خاص کر ایسا اہم نظام جس کو سیاسی نظام کہا جاتا ہے کیونکہ سیاسی نظام ایک ایسا نظام ہے کہ جس کی شہ پر ہی باقی نظام پنپ سکتے ہیں ورنہ انکا باقی رہنا مشکل ہوتا ہے

2-سیاسی نظام کی خصوصیات
1-ہر معاملہ کے لئے وضع کیے گئے (تجویز کیے گئے) مختلف نظاموں کو پرکھنا اور پھر ان میں سے بہترین نظام کو چننا
2-مختلف معاملوں میں مختلف چنے گئے نظاموں کی پیروی کو ممکن ببنانے کے لئے اقدامات کرنا
وہ مسلمان جس کو کسی خطے میں سلطہ حاصل ہے اسکو اسلامی سیاسی نظام نافذ کرنےکے لئے پہلے نمبر کے مطابق مختلف نظاموں سے بہترین نظام چننا ہو گا اس کے لئے اسکو اپنے آپ کو خلیفہ سمجھنا پڑے گا یعنی وہ اللہ کا نائب ہے اور صرف ان نظاموں کو چنے گا جسکی اجازت اللہ کی شریعت دیتی ہو پھر اسی نائب ہونے کی حیثیت سے وہ دوسرے نمبر کے تحت اس سیاسی نظام کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر لاگو بھی کرے گا

مختلف نظاموں کی منظوری کا طریقہ
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی سے کیا اپنے ہر ہر نظام کی منظوری لینی پڑے گی یعنی ہمیں ٹریفک کے کسی نظام کے لئے بھی شریعت کی کتابیں کھولنی پڑیں گی وغیرہ وغیرہ
تو اسکے لئے ایک کمپنی کے منیجر کی مثال لیتے ہیں منیجر وہ ہوتا ہے جو کمپنی کے سب معاملات پر مکمل دسترس رکھتا ہے تو اس کے ہر ہر کام کے اصول وہ مالک کی آشیر آباد سے خود بناتا ہے اگرچہ ایک بڑی کمپنی میں اسکو کچھ چھوٹے یا غیر اہم کاموں کو چھوٹے ملازموں کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں لیکن یہ یاد رہے کہ چھوٹے ملازم صرف ان کاموں میں مرضی کے مختار ہوں گے جن پر منیجر کے احکامات موجود نہیں
اسی طرح اللہ تعالی نے کچھ بنیادی احکامات کے قوانین کو وضع کرنے کا اختیار تو اپنے پاس رکھا ہے مگر کچھ غیر اہم چیزوں میں شریعت خاموش ہے
پس ایک مسلمان کو جس بھی طریقے سے سلطہ حاصل ہو تو اس کے لئے مندرجہ ذیل طریقے سے اوپر والی پوسٹ میں بتائے گئے ان اختیارات کو چھیڑنے کی اجازت نہیں جن پر اللہ نے اپنا اختیار باقی رکھا ہو چاہے وہ نیک نیتی سے ہی ایسا کرے البتہ باقی معاملات میں وہ اللہ کی رضا کی ہی نیت سے اصول وضع کر سکتا ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
یعنی وہ اللہ کا نائب ہے
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ اگرچہ خلیفۃ کو خلیفۃ اللہ (اللہ کا نائب یا وکیل) کے معنی میں لینے پر اختلاف ہے اگرچہ نواب صدیق حسن خان نے فتح البیان میں اسکو جائز کہا ہے البتہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے اجتناب بہتر ہے ابن قیم رحمہ اللہ نے مدارج السالکین میں اسکے عدم جواز کو درست قرار دیا ہے جیسے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اپنے آپ کو اللہ کے خلیفہ کی بجائے رسول اللہ کا خلیفہ کہنا اسکی دلیل ہے
البتہ ابن قیم رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر وکالت کو اس معنی میں لیا جائے کہ جس معاملہ میں وکیل بنایا گیا ہے اسکی حفاظت اور قیام پر اسکو مامور کیا گیا ہے تو ٹھیک ہے بعض نے خلیفۃ کو عن کے صلہ کے ساتھ لکھا ہے کہ خلیفۃ عن اللہ تعالی یعنی اللہ کی شریعت کے قیام پر مامور- پس میری مراد اوپر نائب سے یہی ہے واللہ اعلم
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ اگرچہ خلیفۃ کو خلیفۃ اللہ (اللہ کا نائب یا وکیل) کے معنی میں لینے پر اختلاف ہے اگرچہ نواب صدیق حسن خان نے فتح البیان میں اسکو جائز کہا ہے البتہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے اجتناب بہتر ہے ابن قیم رحمہ اللہ نے مدارج السالکین میں اسکے عدم جواز کو درست قرار دیا ہے جیسے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اپنے آپ کو اللہ کے خلیفہ کی بجائے رسول اللہ کا خلیفہ کہنا اسکی دلیل ہے
البتہ ابن قیم رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر وکالت کو اس معنی میں لیا جائے کہ جس معاملہ میں وکیل بنایا گیا ہے اسکی حفاظت اور قیام پر اسکو مامور کیا گیا ہے تو ٹھیک ہے بعض نے خلیفۃ کو عن کے صلہ کے ساتھ لکھا ہے کہ خلیفۃ عن اللہ تعالی یعنی اللہ کی شریعت کے قیام پر مامور- پس میری مراد اوپر نائب سے یہی ہے واللہ اعلم
جزا کاللہ خیرا

اگر آپ ان باتوں کا حوالہ بھی عنایت کر دیتے تو سونے پہ سہاگا ہوتا،
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
کلی طور پر ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ جو باقی مختلف مقاصد کے لئے وضع کیے گئے مختلف نظاموں کو پرکھے اور پھر ان میں سے ہر ضروری معاملہ کے لئے بہترین نظام کو چن کر معاشرے کے سب افراد پر لاگو کر دے اور پھر اس کی پیروی کروائے ایسا نظام سیاسی نظام کہلائے گا
اوپر یہ واضح کیا ہے کہ خلیفۃ نے ایک کلی سیاسی نظام کے اندر چھوٹے سب نظاموں کو چننا ہے اور لاگو کرنا ہے اب یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خلیفۃ مختلف نظاموں کو ایک جیسی اہمیت دے گا مثلا ٹریفک کے نظام کو بھی وہی اہمیت دے گا جو دعوت توحید کے نظام کو اہمیت ہے تو یاد رکھیں کہ اس بات کا فیصلہ بھی مالک لملک یعنی اللہ تعالی نے کرنا ہے اور ہمیں اسکا علم شریعت کے ذریعے ہونا ہے پس نیچے ہم دیکھیں گے کہ اس شریعت میں سب سے اہم اور توجہ طلب نظام کونسا ہے جسکو سب سے پہلے خلیفہ کی توجہ کی ضرورت ہے
سب سے اہم نظام-توحید کا پشتیبان
سب سے زیادہ اہمیت شریعت میں توحید کو حاصل ہے پس ایک خلیفہ کو سب سے پہلے ایک ایسا نظام وضع کرنا ہو گا کہ جس کے تحت توحید کی دعوت بڑھے حتی کہ باقی سارے نظاموں کو وضع کرتے ہوئے بھی اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ ان کا کوئی اصول اس دعوت میں رکاوٹ نہ بنے جیسا کہ جب کوئی قانون بنایا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ Not withstanding any thing contained in any other law or not withstanding any thing contained herein to the contrary
یعنی آپ کوئی بھی اصول یا قانون بنائیں مگر اسکے خلاف نہ جائے
توحید کے پشتیبان نظام سے مراد
یہاں پر ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ توحید کی دعوت سے مراد یہ نہیں کہ شرک کرنے کی دعوت نہ دی جائے جیسے کوئی کہے کہ قانون میں یہ تو کہیں نہیں لکھا ہوا کہ تم شرک کرو بلکہ توحید کی دعوت سے مراد یہ ہے کہ آپ شرک سے روکنے والے ہوں البتہ جبر نہیں مگر آپ بطور خلیفہ توحید والوں کے ساتھ کھڑے ہوں
مثلا سعودی عرب میں جب کوئی شرک کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت اسکو ڈر ہوتا ہے کہ کہیں مجھے ڈنڈے نہ لگیں لیکن توحیدکی دعوت دینے والے کو کھلی چھٹی ہوتی ہے حج پر کوئی محفل میلاد کرنا چاہے تو چھپ کے کرتا ہے لوگ بتاتے ہیں کہ وہاں انتظامیہ ہم توحید والوں کی پشت پر کھڑی ہوتی ہے جیسے ہم ایک نعت بھی سنتے ہیں کہ
تیری خیر ہووے پہرےدارا----روزے دی جالی چم لین دے
مگر یہاں اگر کوئی دربار پر جا کر توحید کی دعوت دینا چاہے تو انتظامیہ اس کی پشت پر تو واقعی کھڑی ہوتی ہے مگر ڈنڈے مارنے کے لئے- پشت پناہی کے لئے نہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
توحید کی پشتبانی کی اہمیت کی وجہ
یاد رکھیں کہ کسی نظام کی کامیابی کے لئے لازمی ہے کہ اس پر عمل بھی کیا جائے پس آپ بہت اچھا نظام بنا دیں مگر عمل کے قابل نہ ہو تو فائدہ نہیں ہو گا اسلام ہمیشہ ایسے نظام دیتا ہے کہ جس پر عمل بھی آسان ہو پس اسلام اصول بتانے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل کو آسان بنانے کا بھی انتظام کرتا ہے اور اس کے لئے لوگوں کو تیار کرتا ہے پس دوسرے ادیان تو صرف درست اور غلط کی نشاندہی کرتے ہیں مگر اسلام ساتھ ساتھ ایسے قواعد بھی بناتا ہے کہ جس سے غلط کا قلع قمع ہو اور درست بات کو فروغ حاصل ہو پس حدود اللہ کا یہی مقصد ہے
لیکن ان حدود کا کام تو مسلم معاشرے کو اندرونی طور پر بہتر بنانا ہوتا ہے مگر جب دوسرے غیر مسلموں پر برتری کا معاملہ ہو تو اس میں مدد دینے والا ایک اور نظریہ ہوتا ہے جو بنیادی کام کرتا ہے اور وہ اللہ کی توحید ہے کہ جس سے مسلمان یہ عقیدہ بنا لیتا ہے کہ جب اللہ کے علاوہ کوئی بھی ہمیں نفع نقصان نہیں دے سکتا اور اس کی ہدایت سے بڑھ کر کوئی ہدایت نہیں تو پھر ہمیں اس راہ پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے
جو انسان توحید پر جتنا زیادہ قائم ہو گا اسکو اللہ کے لئے سب کچھ لٹانے میں اتنی ہی زیادہ آسانی ہو گی پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ میں توحید اس حد تک بھر دی کہ بیٹے (ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ) نے باپ کو تہ تیغ کر دیا اور بھائی (مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ)نے بھائی کو رسیوں سے بندھوا دیا
اسکی مثال ہم فوج سے دیتے ہیں جب بھی کوئی پاک فوج میں عام کمیشن حاصل کرتا ہے تو اسکی پہلی ٹریننگ کاکول اکیڈمی میں ہوتی ہے اب وہاں جس چیز کی سب سے زیادہ ٹریننگ دی جاتی ہے وہ کوئی علمی یا جسمانی ورزش کی بات نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک نظریہ کا انڈیلنا ہوتا ہے کہ آگے جو مرضی ہو جائے حتی کہ اسلام بھی سانے آ جائے لیکن اپنے افسر کی مخالفت نہیں کرنی ہمارے بچپن میں ایک ڈرامہ پی ٹی وی پر پیش کیا جاتا تھا جس کا نام "الفا بریوو چارلی" تھا جس میں نصرت فتح علی خان کا گانا "کسی دا یار نہ وچھڑے" بھی حصہ بنایا گیا تھا اس کو دیکھنے والوں کو میری اوپر بات کا اندازہ ہو گا
اس کے علاوہ وطن سے محبت کو بھی بنیاد بنایا جاتا ہے تاکہ اسکے لئے سب کچھ قربان کرنے پر تیار کیا جا سکے اسی پس منظر میں پرچم سے محبت ترانے سے محبت وغیرہ شامل ہے ان سب محبتوں سے اصل مقصد کو تقویت ملتی ہے
پس جب ہم اس ملک کی بقا کے لئے فوج کے اس نظریہ کو اور ترانے اور پرچم کی اس تعظیم کے نظریے کو قبول کر لیتے ہیں تو اپنے پیارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں ہمیں یہ کیوں نہیں نظر آتا کہ انھوں نے اپنی ڈیوٹی (لیظھرہ علی الدین کلہ) کو پورو کرنے کے لئے توحید کو ہی بنیاد بنایا اور اللہ کی ذات کی لوگوں میں وہ معرفت پیدا کی کہ جس کا تقاضا آیت والذین امنوا اشد حبا للہ کرتی ہے
 
Top