نظریاتی کونسل کی سفارش کی قانونی وضاحت
6۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارش پر تنقید کا طوفان کھڑے کرنے والے بظاہر ریپ کا شکار ہونے والی خواتین سے ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں اور خواتین پر سنگین ظلم کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر تو وہ اپنے دعوےمیں سچے ہیں تواس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ ریپ کے ملزمان کے لئے سنگین ترین سزا کے بھی علم بردارہوں۔اور یہ امر ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اسلام کے سوا دنیا کے کسی ضابطے اور قانون میں زنا کی سنگین ترین سزا موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشروں میں شراب نوشی کی طرح عصمت دری کے واقعات کی تعداد بھی انتہائی محدود ہے جبکہ مغربی اور سیکولر معاشروں میں خواتین پر اس ظلم کے اعداد وشمار اندوہ ناک بلکہ ہولناک ہیں، جو اُن سے واقف ہونا چاہے وہ 'محدث' کے اسی شمارے میں مغرب میں عورت کی حالت ِزار اور اس پر جنسی جرائم کے حوالے چشم کشا رپورٹ کا مطالعہ کرلے۔بھارت میں ریپ کے حوالے سے جو کچھ ماضی قریب میں ہوا، وہ دراصل بھارتی خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم واندوہ کی ایک جھلک ہے، اس معاشرے کی بھیانک تصویر کے لئے اُردو ڈائجسٹ کے شمارہ اپریل 2013ء میں شائع ہونے والی رپورٹ آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ خواہش نفس کے پجاری اور ملحدانہ تہذیب کے رسیا معاشروں میں یہ ناسور اس شدت سے بڑھتا جارہا ہے کہ وہاں بسنے والے خواتین کا یہ اہم ترین مسئلہ بن چکا ہے۔اسلام نے اس جرم کو جڑ سے اُکھاڑنے کا ایک مضبوط اور مؤثر نظام دیا ہے، اور آج سنجیدہ فکر لوگ جو دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، اسلام کے اس حوالے سے مضبوط موقف کے پیش نظر کئی ممالک میں اِسی کو رواج دینے کے مطالبے کررہے ہیں۔
اگر ہم اپنے ممدوحین کے بارے میں یہ دریافت کریں کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش کی آڑ میں، مظلوم خواتین سے ہمدردی کا جو ڈھونگ رچا رہے ہیں ، کیا وہ بھی اس امر پر آمادہ ہیں کہ اس جرمِ بد کے مرتکب کوبدترین سزا یعنی سنگسار کیا یا کوڑے مارے جائیں تو اُن میں کوئی ایک بھی ہاں میں جواب نہیں دے گا، بلکہ وہ فورا ً اسلامی سزاؤں کے وحشیانہ اور ظالمانہ ہونے کا راگ الاپنا اور دوسری سمت سے اسلام کو رگیدنا شروع کردیں گے۔
اور اَب توجہ فرمائیے کہ کونسل نے جس دائرہ عمل میں بات کی ہے ، وہ اسلام کا نظامِ حدود وتعزیرات ہے، جس کے شرعی تقاضے پورے کرنے کی اُنہوں نے سفارش کی ہے۔کونسل چونکہ شرعی نظام کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے اور کونسل کا یہ موقف زنا کی شرعی سزا کے نفاذ کے حوالے سے ہی ہے۔ جب ہمارے ناقد حضرات اسلام کے نظامِ حدود وتعزیرات کو ہی نہیں مانتے، اُس کو نافذ ہی نہیں کرنا چاہتے، مظلوم عورت کی حقیقی داد رسی کرنے میں مخلص ہی نہیں توپھر اس شرعی نظام تعزیرات کے ایک جزاور لازمہ کو ملحدانہ آنکھ سے کیوں دیکھ رہے ہیں۔ کیا اس پورے عمل میں اُن کا حصہ صرف تنقید برائے تنقید کرکے مسلمانوں کے ایمان واعتقاد سے کھیلنا ہی ہے!!
کونسل نے یہ سفارش ا س تناظر میں کی ہے کہ زنا کی شرعی سزا دینے کے لئے چارگواہوں کی موجودگی ضروری ہے، ان چار گواہوں کا قرآنی مطالبہ آگے ذکر ہوگا اوراگر چار گواہ پورے نہ ہوں تو وہاں زنا کی شرعی حد نہیں دی جاسکتی۔ زنا کی شرعی سزا کیا ہے؟ کوڑے+جلاوطنی یا سنگساری...ہمارے ممدوحین شرعی سزا کے توقائل ہیں نہیں اور اس کے تقاضوں پر لگے ہیں مفت میں چاند ماری کرنے۔
اگر کسی جنسی وقوعہ میں چار گواہ پورے نہیں تو نہ تو اُس کا یہ مطلب ہے کہ ایسے ملزم کو کوئی سزا نہیں دی جاسکتی بلکہ حاکم وقت فحاشی وبے حیائی کا ارتکاب کرنے پر کوئی بھی تادیبی وتعزیری سزا نافذ کرسکتا ہے، مبادیاتِ زنا اور جنسی جرائم کی روک تھام کے لئے کوئی بھی تعزیرمقرر کی جاسکتی ہے، تاہم شرعی احتیاط اس امر میں ہے کہ اس جرم کو زنا کی بجائے کسی کمتر لفظ سے تعبیر کیا جائے۔یہی صورتحال پاکستانی قانون میں بھی ہے کہ اگر جرم زنا کے شرعی تقاضے پورے ہوں (اور اس میں ڈی این اے ، بنیادی اور اکیلی کافی شہادت نہیں) تو اس کو شرعی حد یعنی سنگساری یا کوڑوں کی سزا جاری کی جائے گی ، بصورتِ دیگراس کے لئے تادیبی سزائیں مثلاً 10 ہزار جرمانہ اور 5سال قید کی قانون میں موجود تعزیری سزا دی جائے گی۔جب چار گواہ پورے نہیں، اور شرعی سزا سیکولر لوگ چاہتے بھی نہیں، دوسری طرف ڈی این اے موجود ہے اور دیگر ذرائع شہادت بھی پورے ہیں تو پاکستانی قانون کے تحت اس کو کوئی بھی کم تر سزا دی جاسکتی ہے، یعنی قید ومالی جرمانہ وغیرہ... اور یہی سیکولر حضرات کا منشا ، خواہش اور ماضی کا مطالبہ بھی رہا ہے، تو پھر اعتراض کس بات پر کررہے ہیں، تنقید کس نکتے پر ہے...؟
یہی بات نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارش کے حوالے سے بیرسٹر شاہدہ جمیل نے کہی ہے:
''کم از کم اسے حد (حدود آرڈیننس) میں نہیں تو تعزیری جرم میں تو آنا ہی چاہیے۔'' [11]
امر واقعہ میں قانون بھی یہی ہے کہ جیسا کہ قانونِ شہادت ١٩٨٤ء کے آرٹیکل ١٧ کی ذیلی شِق'٢ بی' میں صراحت کی گئی ہے کہ
''حد زنا کے نفاذ سے قطع نظر، زنا کے مقدمے میں عدالت ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی پر تعزیر کی سزا دے سکتی ہے۔ ''
مذکورہ بالاشق میں 'حد زنا' کا لفظ قابل توجہ ہے، یعنی زنا کی شرعی سزا سے قطع نظر،شرعی ثبوت پورے نہ ہونے کی بنا پر زنا کی سیکولر قانون والی سزا دی جاسکتی ہے۔... پھر عدالت کو یہ بھی اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اگر مناسب سمجھے تو جرمِ زنا کے اثبات کے لئے گواہوں کی تعداد اوراہلیت کے متعلق بھی فیصلہ کرے۔عدالت ِعالیہ نے ایک مقدمہ میں اس اُصول کی حسب ِذیل الفاظ میں صراحت کی ہے :
''قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ مقدمہ کے حالات و واقعات کے پیش نظر گواہوں کی تعداد اور اہلیت کے تعین کا اختیار عدالت کو حاصل ہے۔''[12]
٭ ایک توجیہ تو وہ ہے جو اوپر درج کی گئی کہ جرم کی نوعیت کی بنا پر سزا کی نوعیت میں تبدیلی کی جائے یعنی شرعی تقاضوں کی تکمیل پر عین شرعی سزا اور کمتر ثبوتوں کی بنا پر کمتر؍تعزیری سزا، یہ شرعی اور انگریزی قانون میں مفاہمت پیدا کرنے کی ایک تاویل ہے...اس کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے نظامِ تعزیرات میں زنا کاری کے جرائم پر دو طرح کے قوانین موجود ہیں: انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین اوراللہ کی نازل کردہ شریعت۔ ماضی میں حدود آرڈیننس کی بنا پر شریعتِ اسلامیہ کو انسانی وضعی قوانین پربرتری حاصل ہوگئی تھی جو عین اسلامی تقاضا تھا، کیونکہ اسلامی قوانین کی موجودگی میں انگریزی قوانین پر عمل درآمدکسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا اور پاکستان کا خطہ اسی مقصد کےلئے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں انگریزی نظام وقانون سے چھٹکارا حاصل کرکے ، اللہ کی شریعت کو نافذ کیا جائے گا۔
حدود قوانین کی معاصر انگریزی قانون پر برتری کی بنا پر ماضی میں کئی فیصلوں میں عدالتوں نے حدود قوانین پر عمل درآمد[13] کرایا تھا، جس کو نام نہاد تحفظ نسواں بل 2006ء نے ختم کرکے، دونوں قوانین کو متوازی طور پر جاری کردیا بلکہ عملاً شرعی سزا کا نفاذانتہائی مشکل کرنے کے لئے بھی قانونی ترامیم منظور کی گئیں، جس کے بعد عملاً انگریزی قانون جاری وساری ہوگیا۔جب دسمبر 2010ء میں وفاقی شرعی عدالت نے 'تحفظِ نسواں بل 2006ء 'کے خلافِ اسلام ہونے کا فیصلہ [نمبرا ۔آئی2010]دیا، تو اس وقت عدالت نے نکتہ نمبر 117 کے تحت یہ بھی مطالبہ کیا کہ
''قرآن وسنت کی رو سے جو جرائم حدود کے زمرے میں آتے ہیں اور ان کی سزا قرآن وسنت میں مذکور ہے، ان تمام جرائم میں مدد گار یا اُن سے مماثلت رکھنے والے جرائم بھی حدود کے زمرے میں آتے ہیں۔ اور حدود یا اس سے متعلقہ تمام جرائم پر جاری کئے گئے فوجداری عدالت کے احکامات کی اپیل یا نظرثانی کا اختیار بلاشرکت غیرے وفاقی شرعی عدالت کو ہی حاصل ہے۔ ایسے ہی حدود جرائم پر ضمانت کے فیصلے کی اپیل بھی صرف اسی عدالت میں ہی کی جائے ۔
عدالت نے ان جرائم کی فہرست مرتب کرتے ہوئے جو حدود کے زمرے میں آتے ہیں، ان جرائم کو بھی اس میں شامل کردیا ہے جو اس سے قبل مجموعہ تعزیرات پاکستان کے تحت آتے تھے۔ مجموعی طورپر ان جرائم کی تعداد 10 شمار کی گئی ہے: زنا، لواطت، قذف، شراب، سرقہ، حرابہ، ڈکیتی، ارتداد، بغاوت اور قصاص ؍انسانی سمگلنگ۔''
گویا عدالت کا مطالبہ تھا کہ ان جرائم پر معاصر انگریزی قانون کی بجائے شرعی قانون کو لاگو کیا جائے اور ان کے کیسز بھی شرعی عدالت میں چلائے جائیں۔وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ آجانے کے بعدچونکہ ماتحت عدالتیں اس کی پابند ہوتی ہیں،اس بنا پر یہ طے پا گیا کہ ایسے کیسز کی اپیل وغیرہ کو وفاقی شرعی عدالت میں لایا جائے۔ اَب شرعی عدالت کے 2010ء کے اس فیصلے کی تائید ہی اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارش سے ہوئی ہے۔