• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں بنیادی حقوق

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
حکمرانوں اور رعایا کے حقوق

"ولاۃ" (حکمران) وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے امور کے نگران ہوتے ہیں خواہ یہ ولایت "عامہ" ہو ،جیسے سلطنت کا سربراہ اعلیٰ یا "خاصہ" ہو،جیسے کسی مخصوص ادارے یا معین کام کا سربراہ اور ان سب کا اپنی اپنی عریت پر حق ہوتا ہے جس سے وہ اپنے فرائ انجام دے سکیں۔اسی طرح عریت کا بھی ان پر حق ہے۔
رعایا کے حکمرانوں پر حقوق
رعایا کے حکمرانوں پر حقوق یہ ہیں کہ وہ اس امانت کو قائم رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذمے رکھی ہے۔وہ رعیت کی خیرخواہی کے کام سر انجام دینا لازم سمجھیں اور ایسی متوازن راہ پر چلیں جو دنوی اور اخروی مصلحتوں کی کفیل ہو۔یہ مومنوں کے راستے کا اتباع ہو گا اور یہی رسول اللہ ﷺ کا طریقہ تھا ،کیونکہ اسی میں ان کی،ان کی رعیت کی اور ان کے ماتحت کام کرنے والوں کی سعادت ہے۔اور یہی وہ چیز ہے جس میں رعیت زیادہ سے زیادہ اپنے حکمرانوں سے خوش اور مربوط رہ سکتی ہے۔ان کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر سکتی ہے اور اس امانت کی حفاظت بھی ہو سکتی ہے جس کے لیے رعیت نے اسے حاکم بنایا تھا۔کیونکہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اسے لوگوں سے بچاتا ہے اور جو شخص اللہ کو راضی رکھتا ہے اللہ اُس کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور اسے لوگوں کی رضامندی اور مدد سے بے نیاز کر دیتا ہے کیونکہدل تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔وہ جس طرف چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔
حکمرانوں کے رعایا پر حقوق
حکمرانوں کے رعایا پر حقوق یہ ہیں کہ وہ حکمرانوں کی بھلائی اور خیر خواہی کے جذبے سے صحیح مشورے دیں۔انہیں نصیحت کرتے رہیں تاکہ وہ راہ راست پر قائم رہیں ۔اگر وہ راہ حق سے ہٹنے لگیں تو انہیں راہ راست کی طرف بلائیں ،ان کے حکم بجا لانے میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو تی ہو تو اسے بجا لائیں کیونکہ اسی صورت میں سلطنت کا کام اور انتظام درست رہ سکتا ہے اور اور اگر حکمرانوں کی مخالفت اور نافرمانی کی جائے تو انارکی پھیل جائے گی اور سب کام بگڑ جائیں گے،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ،اپنے رسول اور حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔فرمان الہی ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَأُو۟لِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ
ترجمہ: مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں (سورۃ النساء،آیت 59)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
على المرء المسلم السمع والطاعة فيما أحب وكره إلا أن يؤمر بمعصية فإن أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
"مسلمان پر لازم ہے کہ وہ سنے اور اطاعت کرے خواہ وہ کام اسے پسند ہو یا نا پسند مگر یہ کہ اسے نافرمانی والا حکم دیا جائے اور جب اللہ کی نافرمانی والا حکم دیا جائے تو پھر نہ سنے اور نہ اطاعت کرے۔"
اس حدیث پر شیخین کا اتفاق ہے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نی کریم ﷺ کے ستاھ تھے۔ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو رسول اللہ ﷺ کے منادی نے الصلاۃ جامعۃ کی ندا دی ۔ہم سب رسول اللہ ﷺ کے پاس اکھٹے ہو گئے آپ نے فرمایا:
إنه لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه أن يدل أمته على خير ما يعلمه لهم وينذرهم شر ما يعلمه لهم وإن أمتكم هذه جعل عافيتها في أولها وسيصيب آخرها بلاء وأمور تنكرونها وتجيء فتنة فيرقق بعضها بعضا وتجيء الفتنة فيقول المؤمن هذه مهلكتي ثم تنكشف وتجيء الفتنة فيقول المؤمن هذه هذه فمن أحب أن يزحزح عن النار ويدخل الجنة فلتأته منيته وهو يؤمن بالله واليوم الآخر وليأت إلى الناس الذي يحب أن يؤتى إليه ومن بايع إماما فأعطاه صفقة يده وثمرة قلبه فليطعه إن استطاع فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا عنق الآخر (صحیح مسلم)
"اللہ تعالیٰ نے جو بھی نبی بھیجا،اس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ اپنی اُمت کی ہر اس بھلائی کی طرف راہنمائی کرے جسے وہ اُمت کے لیے بہتر سمجھتا ہے اور ہر اس برائی سے ڈرائے جس کو اُمت کے لیے شر سمجھتا ہے اور تمہاری اُمت کے ابتدائی دور میں عافیت رکھی گئی ہے۔آخری دور میں آزمائش اور ایسے امور پیش آئیں گے جنہیں م ناپسند کو گے۔ایک فتنہ آئے گا جس کا ایک ھصہ دوسرے کو کمزور بنا دے گا ۔فتنہ آئے گا تو مومن کہے گا یہ مجھے پلاک کر ڈالے گا،پھر وہ ختم ہو گا تو ایک اور فتنہ آ جائے گا تو مومن کہے گا: یہ تو مجھے نہیں چھوڑے گا ،لہذا جو شخص چاہتا ہے کہ آگ سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے اسے چاہیے کہ وہ اس حال میں مرے کہ اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو۔اور لوگوں کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔اور جس نے کسی امام کی بیعت کی ،اس کے ہاتھ میں ہتھ دیا اور دل سے تسلیم کیا تو اسے چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اس کی اطاعت کرے اور اگر کوئی دوسرا امام آ جائے جو اس (پہلے امام) سے جھگڑا کرے تو اس دوسرے (امام) کی گردن اڑا دو۔"
ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا،اے اللہ کے نبی ! دیکھیے اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوں جو ہم سے اپنا حق تو مانگتے ہوں لیکن ہمارا حق نہ دیتے ہوں تو اس بارے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں،آپ ﷺ نے اس شخص سے منہ پھیر لیا۔اس شخص نے دوسری بار وہی سوال کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اسمعوا وأطيعوا فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم (صحیح مسلم)
"ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ان کی ذمہ داری کا بار( بوجھ) ان پر ہے اور تمہاری ذمہ داری کا بوجھ تم پر!"
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
عام مسلمانوں کے حقوق

عام مسلمانوں کے حقوق بہت زیادہ ہیں۔صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
حق المسلم على المسلم ست قيل ما هن يا رسول الله قال إذا لقيته فسلم عليه وإذا دعاك فأجبه وإذا استنصحك فانصح له وإذا عطس فحمد الله فسمته وإذا مرض فعده وإذا مات فاتبعه (صحیح مسلم)
"ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔آپ سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! وہ کون سے ہیں ؟آپ نے فرمایا :جب تو اسے ملے تو السلام علیکم کہے ،جب وہ دعوت دے تو تُو اسے قبول کرے ،جب وہ خیرخواہی طلب کرے تو تُو اس کی خیر خواہی کرے،جب وہ چھینک مارے اور الحمدللہ کہے تو تُو یرحمک اللہ کہے،جب وہ بیمار ہو تو تُو اس کی عیادت کر اور جب وہ مر جائے تو تُو اس کے جنازہ میں شامل ہو۔"
پہلا حق
السلام علیکم کہنا ہے۔السلام علیکم سنت موکدہ ہے اور مسلمانوں میں انس و محبت پیدا کرنے کے اسباب و وسائل میں سے ایک اہم سبب ہے جیسا کہ یہ بات مشاہدے میں آ چکی ہے اور اس پر نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے:
لا تدخلون الجنة حتى تؤمنوا ولا تؤمنوا حتى تحابوا أولا أدلكم على شيء إذا فعلتموه تحاببتم أفشوا السلام بينكم (صحیح مسلم)
"اللہ کی قسم !جب تک تم مومن نہ بن جاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے اور جب تک تم آپس میں محبت نہ کرو مومن نہیں بن سکتے۔کیا میں تمہیں ایسی چیز کی خبر نہ دوں کہ جب تم اسے کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟آپس میں "السلام علیکم" کو خوب پھیلاؤ۔"
رسول اللہ ﷺ کو جو بھی ملتا آپ اسے سلام کہنے میں پہل کرتے اور جب بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں بھی سلام کہتے۔
سلام کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کہے اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو،سوارپیدل چلنے والوں کو سلام کہے۔لیکن سنت کے مطابق جسے سلام کہنا چاہیے تھا اگر وہ سلام نہ کہے تو دوسرا کہہ لے تاکہ تاکہ نیکی کا موقع ضائع نہ ہو ،مثلا: جب چھوٹا سلام نہ کہے تو برا کہہ لے اور اگر تھوڑے سلام نہ کہیں تو زیادہ کہہ لیں تاکہ دونوں کو اجر مل جائے۔
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو شخص انہیں اکھٹا کر لے اس کا ایمان مکمل ہو گیا: "اپنے آپ سے انصاف کرنا (یعنی شرک و بدعت سے دور بھاگنا) سب لوگوں کو سلام کہنا اور تنگی کی حالت میں خرچ کرنا۔"
سلام کہنا سنت اور اس کا جواب دینا فرض کفایہ ہے۔اگر ایک شخص بھی جواب دے دے تو سب کی طرف سے کافی ہو جاتا ہے ،مثلا : کوئی شخص ایک جماعت کو سلام کہے اور ان میں سے ایک شخص سلام کا جواب دے دے تو باقی سب کی طرف سے کافی ہو جائے گا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍۢ فَحَيُّوا۟ بِأَحْسَنَ مِنْهَآ أَوْ رُدُّوهَآ ۗ
ترجمہ: ور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) دعا دو یا انہیں لفظوں سے جواب دے دو (سورۃ النساء،آیت 86)
سلام کے جواب میں صرف "اهلا وسهلا" کہہ دینا کافی نہیں ،کیونکہ یہ الفاظ نہ سلام سے اچھے ہیں ،نہ اس جیسے ہیں،لہذا جب کوئی "السلام علیکم" کہے تو اس کے جواب میں "وعلیکم السلام" کہے اور جب کوئی " اهلا " کہے تو اس کے جواب میں اسی طرح " اهلا " کہہ سکتا ہے اور اگر سلام میں کچھ زیادہ الفاظ "ورحمۃ اللہ وبرکاتہ"کہے تو یہ افضل ہے۔

دوسرا حق
جب تجھے مسلمان بھائی دعوت دے تو اسے قبول کر،یعنی جب تجھے اپنے گھر کھانے پر یا کسی اور کام کے لیے بلائے تو تجھے جانا چاہیے کیونکہ دعوت قبول کرنا سنت موکدہ ہے۔اور اس لیے بھی کہ بلانے والے کی دل جوئی اور قدر شناسی ہے۔اس سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے۔جو شخص دعوت قبول نہیں کرتا اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ومن لم يجب الدعوة فقد عصى الله ورسوله (صحیح مسلم)
"جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
نیز آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے : (وإذا دعاك فأجبه)"جب (کوئی مسلمان) تجھے دعوت دے تو اسے قبول کر۔" ایسی دعوت کے لیے بھی ہے جو امداد و معاونت کے لیے ہو۔کیونکہ تجھے اس کو قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
المؤمن للمؤمن كالبنيان، يشد بعضه بعضاً (صحیح بخاری)
"ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔"
تیسرا حق
جب کوئی مسلمان تجھ سے خیرخواہی طلب کرے تو اس کی خیرخواہی کر،یعنی جب وہ تیرے پاس آ کر اپنے لیے کسی چیز میں تجھ سے خیرخواہی کا طالب ہو تو اس کی خیرخواہی کر کیونکہیہ بھی دین کا حصہ ہے جیسا کہ نبی رکیم ﷺ نے فرمایا ہے:
الدين النصيحة قلنا لمن قال لله ولكتابه ولرسوله ولائمة المسلمين وعامتهم (صحیح مسلم)
"دین خیرخواہی ہے۔ہم نے پوچھا: کس سے؟ آپ نے فرمایا: اللہ سے،اس کی کتاب سے،اس کے رسول سے،مسلمانوں کے اماموں سے اور عام مسلمانوں سے۔
البتہ اگر وہ خیر خواہی طلب کرنے کے لیے تیرے پاس نہ آئے اور صورت حال یہ ہو کہ اسے کوئی نقصان پہنچنے والا ہو یا وہ کسی گناہ میں مبتلا ہونے والا ہو تو تجھ پر واجب ہے کہ اس کی خیرخواہی کر۔

چوتھا حق
جب کوئی مسلمان چھینک مارے اور اس کے بعد (الحمدلله)کہے تو دوسرا مسلمان اس کے جواب میں (يرحمك الله) کہے ،البتہ اگر وہ چھینک مارتے وقت (الحمدلله) نہ کہے تو پھر اس کا کوئی حق رہا نہ کہ اس کے لیے (يرحمك الله) کہا جائے کیونکہ اس نے اللہ کی تعریف بیان نہیں کی،لہذا اس کے لیے یہی مناسب ہے کہ (يرحمك الله) نہ کہا جائے۔
اور جب چھینک مارنے والا (الحمدلله) کہے تو پھر (يرحمك الله) کہنا فرض ہے اور چھینک مارنے والے پر س کا جواب دینا واجب ہے کہ (يهديكم الله يصلح بالكم) "اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال درست کرے"کہے اور جب اسے بار بار چھینکیں آ رہی ہوں تو تین بار تشمیت(يرحمك الله) کہے اور چوتھی بار (يرحمك الله) کے بجائے (عافاك الله) "اللہ تمہیں عافیت میں رکھے" کہے۔

پانچواں حق
جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو اس کی بیمار پوسی کر۔مریض کی عیادت کے معنی اس سے ملاقات کرنا ہے اور یہ مسلمان بھائیوں کا اس پر حق ہے،لہذا مسلمانوں پر عیادت کرنا واجب ہ اور جب مریض سے تمہاری قرابت،دوستی یا ہمسائیگی ہو تو عیادت اور زیادہ ضروری ہو جاتی ہے۔
عیادت مریض اور مریض کے حسب حال ہونی چاہیے۔کبھی حالات کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بار بار عیادت کے لیے آتا رہے۔جو شخص مریض کی عیادت کرے ،اس کے لیے سنت طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کا حال پوچھے اور اس کے لیے دعا کرے،صحت و عافیت کی اُمید دلائے۔کیونکہ یہ چیز صحت اور شفا کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔مناسب یہ ہے کہ اس سے توبہ کا ذکر اس انداز سے کرے جو اسے تعجب یا کس وسوسے میں نہ ڈال دے۔مثلا یوں کہے: مومن کی بھی عجیب شان ہے کہ وہ ہر حال میں نیکیاں ھاصل کر سکتا ہے کیونکہ مریض سے اللہ تعالیٰ خطائیں معاف کرتا اور برائیاں متا دیتا ہے،اسلیے تم اپنی بیماری میں کثرت ذکر،استغفار اور دعاؤں کے ذریعے بہت بڑا اجر کما سکتے ہو۔

چھٹا حق
مسلمان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے بھائی کے جنازے میں شریک ہو۔اس میں بہت بڑا اجر ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
من شهد الجنازة حتى يصلى عليها فله قيراط ومن شهدها حتى تدفن فله قيراطان قيل وما القيراطان قال مثل الجبلين العظيمين (صحیح بخاری)
"جو شخص جنازہ کے ساتھ چلے حتی کہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے،اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے اور جو اس کے ساتھ چلے یہاں تک کہ دفن کیا جائے،اس کے لیے دو قیراط ہیں۔آپ سے پوچھا گیا کہ یہ دو قیراط کیا ہیں؟آپ نے فرمایا: جیسے دو بڑے بڑے پہاڑ۔"
ساتواں حق
مسلمان کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے تکلیف پہنچانے سے باز رہے کیونکہ مسلمانوں کو دکھ پہچانا بہت برا گناہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَٱلَّذِينَ يُؤْذُونَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَٰتِ بِغَيْرِ مَا ٱكْتَسَبُوا۟ فَقَدِ ٱحْتَمَلُوا۟ بُهْتَٰنًۭا وَإِثْمًۭا مُّبِينًۭا ﴿58﴾
ترجمہ: اور جو ایمان دار مردوں اور عورتوں کو ناکردہ گناہوں پر ستاتے ہیں سو وہ اپنے سر بہتان اور صریح گناہ لیتے ہیں (سورۃ الاحزاب،آیت 58)
اور اکثر یوں ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے بائی پر کوئی تکلیف مسلط کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا ہی میں اس سے ابتقام لے لیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ولا تباغضوا ولا تدابروا ولا يبع بعضكم على بيع بعض وكونوا عباد الله إخوانا المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يخذله ولا يحقره بحسب امرئ من الشر أن يحقر أخاه المسلم كل المسلم على المسلم حرام دمه وماله وعرضه (صحیح مسلم)
"(نہ)آپس میں دشمنی رکھو نہ تعلقات منقطع کرو اور اللہ تعالیٰ کے بندے بن کر بھائی بھائی ہو جاؤ،مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے ۔آدمی کے لیے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔مسلمان پر مسلمان کا کون،مال اور اس کی عزت حرام ہے۔"
مسلمان پر مسلمان کے بہت سے حقوق ہیں۔نبی کریم ﷺ کے مذکورہ بالا فرمان :
المسلم أخو المسلم
"مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے۔
کا تقاضا یہی ہے کہ جو چیز اپنے لیے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرو اور اس کی ہر ممکن بھلائی کے لیے کوشش کرتے رہو۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
غیر مسلموں کے حقوق

غیر مسلمموں میں ہر طرح کے کافر شامل ہیں اور ان کی چار قسمیں ہیں:
(1) حربى
(2) مستامن
(3) معاهد
(4) ذمى

حربی
وہ کافر جو مسلمانوں سے برسرپیکار ہوں۔حربی کفار کا ہم پر کوئی حق نہیں کہ ان کی کوئی حمایت یا رعایت کی جائے۔

مستامن
وہ کافر جو مسلمانوں سے مال و جان کی امان کی درخواست کریں اور انہیں امان دے دی جائے ۔کفار کا ہم پر یہ حق ہے کہ ان کو امن دینے کے وقت (مدت امان) اور اس جگہ کا لحاظ رکھا جائے جہاں انہیں امان دی گئی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَإِنْ أَحَدٌۭ مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ٱسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَٰمَ ٱللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُۥ ۚ
ترجمہ: اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ الله کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو (سورۃ التوبہ،آیت 6)
معاھد
وہ کافر جن کا مسلمانوں کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو ،مثلا: اتنے سال ہم باہم جنگ و جدال نہیں کریں گے۔(معاھدین) کا ہم پر یہ ھق ہے کہ ہم ان کا عہد اس مدت تک پورا کریں جو ہمارے اور ان کے درمیان اتفاق رائے سے طے ہوا ہے۔جب تک وہ اس عہد پر قائم رہیں،اس میں کچھ کمی کریں نہ ہمارے خلاف کسی کی مدد کریں،نہ ہمارے دین میں طعنہ زنی کریں،اُس وقت تک ہمیں عہد کا پاس کرنا چاہیے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِلَّا ٱلَّذِينَ عَٰهَدتُّم مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْا وَلَمْ يُظَٰهِرُوا۟ عَلَيْكُمْ أَحَدًۭا فَأَتِمُّوٓا۟ إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَّقِينَ﴿٤﴾
ترجمہ: مگر جن مشرکوں سے تم نے عہد کیا تھا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی قصور نہیں کیا اور تمہارے مقابلے میں کسی کی مد نہیں کی سو ان سے ان کا عہد ان کی مدت تک پورا کر دو بے شک الله پرہیز گارو ں کو پسند کرتا ہے (سورۃ التوبہ،آیت 4)
نیز فرمایا:
وَإِن نَّكَثُوٓا۟ أَيْمَٰنَهُم مِّنۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا۟ فِى دِينِكُمْ فَقَٰتِلُوٓا۟ أَئِمَّةَ ٱلْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَآ أَيْمَٰنَ لَهُمْ
ترجمہ: اور اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں تو ڑ دیں اور تمہارے دین میں عیب نکالیں تو کفر کے سرداروں سے لڑو ان کی قسموں کوئی اعتبار نہیں (سورۃ التوبہ،آیت12)
ذمی
وہ غیر مسلم ہوتے ہیں جو جزیہ ادا کر کے مسلمانوں کے ملک میں رہنے والے ہوں جس کے عوض اسلامی حکومت ان کے مال و جان کے تحفظ کی ذمہ دار ہو۔ذمیوں کے ھقوق باقی تمام کافروں سے زیادہ ہیں۔ان کے کچھ حقوق ہیں اور کچھ ذمہ داریاں ،کیونکہ وہ مسلمانون کے ملک میں زندی بسر کرتے ہیں اور ان کی حمایت اور رعایت میں رہتے ہیں جس کے عوض وہ جزیہ ادا کرتے ہیں،لہذا مسلمانوں کے حاکم پر واجب ہے کہ وہ ان کے خون،مال اور عزت کے مقدمات میں اسلام کے حکم کے مطابق فیصلہ کرے اور جس چیز کی حرمت کا وہ عقیدہ رکھتے ہیں اس میں ان پر حدود قائم کرے اورحاکم پر ان کی حمایت اور ان کی اذیت و پریشانی کو دور کرنا واجب ہے۔
یہ بھی ضرورہ ہے کہ ان کا لباس مسلمانوں کے لباس سے الگ ہو اور وہ کسی ایسی چیز کا اظہار نہ کریں جو اسلام میں ناپسندیدہ ہو یا ان کے دین کا شعار (شناختی علامت) ہو،جیسے ناقوس اور صلیب۔ذمیں کے احکام اہل علم کی کتابوں میں موجود ہیں،لہذا ہم اسے طول نہیں دیتے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
انتباہ

ان حقوق پر عمل کرنا مسلمانوں میں باہمی محبت کا ذریعہ ہے۔یہ ایسے حقوق ہیں جن پر عمل کرنے سے باہمی عداوت اور نفرت زائل ہو جاتی ہے،مزید برآں ان علیمات پر عمل برائیوں کے مٹنے،نیکیوں کے دوگنا چوگنا ہونے اور درجات کی بلندی کا سبب ہے۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
ختم شد​
 
Top