• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں مختلف فرقے بننے کے اسباب

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
جنتی فرقہ کون سا ہے؟

السلام علیکم

@یوسف ثانی بھائی! آپکی یہ پوسٹ پڑھی تو "کارتوس خان" کی یاد آ گئی، اس نے سب سے مختلف اس پر ایک بہت مفید پوسٹ لگائی تھی جو میری نظر میں تھی، تلاش کرنے پر مل گئی آپ اس کا مطالعہ فرمائیں امید ھے اس میں آپکو جواب مل جائے گا۔


بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور یہ قرآن مجھ پر اس لئے اتارا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تم کو اور جس شخص تک وہ پہنچ سکے اس کو آگاہ کر سکوں۔
(الانعام- ١٩)

ہر قسم کی تعریفات اس اللہ وحدہ لاشریک کے لئے لائق و زیبا ہیں جس نے ہمیں اور آپ کو پیدا فرمایا اور دورد و سلام اس ذات اقدس پر جن کا نام نامی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ ہے۔


برادران اسلام واجب الحترام
بھائیوں۔ بہنوں۔ دوستوں۔ عزیز ساتھیوں۔
اسلام علیکم۔


اسلام میں مختلف فرقے بننے کے اسباب

اہل کتاب (یہود و نصارٰی) کے اختلاف کے اسباب و وجود پر قرآن مجید کی بے شمار آیتیں شاہد ہیں جن اسبات سے اہل کتاب میں اختلاف پھوٹے وہ اسبات امت مسلمہ میں بھی مدت دراز سے وجود پذیر ہو چکے ہیں۔ اور اختلافات باہمی کا جو نتیجہ یہود و نصارٰی کے حق میں نکلا تھا، مسلمان بھی صدیوں سے اس کا خمیازہ اٹھا رہے ہیں۔ کتاب الٰہی کو پس پشت ڈالنے اور انبیاء کی سنت و طریقے کو فراموش کر دینے اور اس کی جگہ کم علم اور دنیا ساز علماء اور گمراہ مشائخ کی پیروی اختیار کرنے کا جو وطیرہ اہل کتاب نے اختیار کر رکھا تھا مسلمان بھی عرصہ دراز سے اسی شاہراہ پر گامزن ہیں وضع مسائل اور اختراع بدعات سے دین کو تبدیل کرنے کا جو فتنہ یہود و نصارٰی نے برپا کیا تھا بد قسمتی سے مسلمان بھی اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے دین حنیف کا حُلیہ بگاڑ چکے ہیں۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت میں اختلاف بے حد ناگوار تھا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم گذشتہ امتوں کی مثال دے کر اپنی امت کو باہمی اختلافات سے ڈرایا کرتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن میں دوپہر کے وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو کسی آیت کی نسبت آپس میں اختلاف کر رہے تھے پس رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور آپ کے چہرہ مبارک پر غصے کے آثار ظاہر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہی ہے کہ تم سے پہلے لوگ کتاب اللہ میں اختلاف کرنے ہی کے سبب ہلاک ہو گئے۔
(مشکوٰہ باب الاعتصام، صفحہ۔ ٢٠)

قرآن میں اللہ تعالٰی نے مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنے اور مختلف فرقوں میں بٹ جانے سے منع فرمایا ارشاد باری تعاٰلی ہے۔

تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کی انہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔
(ال عمران۔ ١٠٥)

یہ آیت دین میں باہمی اختلاف اور گروہ بندی کی ممانعت میں بالکل واضع اور صریح ہے اللہ تعالٰی نے گذشتہ امتوں کا ذکر کرتے ہوئے امت مسلمہ کو ان کی روش پر چلنے سے منع فرمایا، اس آیت کے ذیل میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ قول ہے۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مومنوں کو آپس میں متحد رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کو اختلاف و فرقہ بندی سے منع کیا گیا ہے اور ان کو خبر دی گئی ہے کہ پہلی امتیں صف آپس کے جھگڑوں اور مذہبی عداوتوں کی وجہ سے ہلاک ہوئیں بعض نے کہا کہ ان سے اس امت کے بدعتی لوگ مراد ہیں اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ حروری خارجی ہیں
(تفسیر خازن، علامہ علاء الدین ابوالحسن بن ابراہیم بغدادی۔ جلد١ صفحہ ٢٦٨)


صحیح مسلم میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! اللہ تعالٰی نے زمین کو میرے سامنے اس طرح سمیٹ دیا کہ مشرق و مغرب تک بیک وقت دیکھ رہا تھا اور میری امت کی حدود مملکت وہاں تک پہنچیں گی جہاں تک مجھے زمین کو سمیٹ کر دکھایا گیا ہے اور مجھے دو خزانے عطاء فرمائے گئے ہیں ایک سرخ اور دوسرا سفید آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالٰی سے اپنی امت کے بارے میں عرض کیا تھا کہ اسے ایک ہی قحط سالی میں صفحہ ہستی سے نہ مٹایا جائے اور یہ کہ میری امت پر مسلمانوں کے علاوہ کوئی خارجی دشمن مسلط نہ کیا جائے جو مسلمان کے بلاد و اسبات کو مباح سمجھے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے جوابا ارشاد فرمایا کہ! اے میرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب میں کسی بات کا فیصلہ کر دیتا ہوں تو اسے ٹالا نہیں جا سکتا۔ میں نے آپ کی اُمت کے بارے میں آپ کو وعدہ دے دیا ہے کہ اسے ایک ہی قحط سالی میں تباہ نہیں کیا جائے گا اور دوسرا یہ کہ ان کے اپنے افراد کے علاوہ کسی دوسرے کو ان پر مسلط نہیں کیا جائے گا جو ان کے مملوکہ مال و اسبات کو مباح سمجھ لے اگرچہ کفر کی ساری طاقتیں اکٹھی ہو کر مسلمانوں کے مقابلے کے لئے جمع کیوں نہ ہو جائیں ہاں! مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کرتے رہیں گے۔۔

حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں لکھا ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد ہیں!
میں اپنی امت کے بارے میں ان گمراہ کن پیشواؤں سے ڈرتا ہوں اور جب میری امت میں آپس میں تلواریں چل پڑیں گی تو قیامت تک نہ رُک سکیں گی اور اس وقت تک قیامت نہ ہو گی جب تک میری امت کی ایک جماعت مشرکوں سے نہ مل جائے اور یہ کہ میری امت کے بہت سے لوگ بُت پرستی نہ کر لیں۔ اور میری اُمت میں تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جو سب کے سب نبوت کا دعوٰی کریں گے حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آئے گا اور میری امت میں ایک گروہ حق پر قائم رہے گا اور فتح یاب ہوگا جن کی مدد چھوڑنے والے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی کا حکم آجائے گا۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو فتنہ بنی اسرائیل پر آیا وہی قدم با قدم میری امت پر آنے والا ہے کہ اگر ان میں سے ایک شخص ایسا ہو گا جس نے اعلانیہ اپنی ماں کے ساتھ زنا کیا ہو گا، تو میری اُمت میں بھی ایسا شخص ہو گا یہ حرکت کرے گا بنی اسرائیل میں پھوٹ پڑنے کے بعد بہتر (٧٢) فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے، اور میری امت تہتر (٧٣) فرقوں میں متفرق ہو جائے گی ان میں بہتر (٧٢) دوزخی ہوں گے اور ایک فرقہ باجی یعنی جنتی ہو گا، صحابہ رضوان علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ! ناجی فرقہ کون سا ہوگا؟۔ فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہما کے طریقہ پر چلتا ہوگا۔
(ترمذی)

اس حدیث مبارکہ میں امت مسلمہ کے اندر تفریق و گروبندی کی جو پیشن گوئی تھی وہ محض بطور تنبہہ و نصیحت تھی لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں کے مختلف فرقوں نے اس حدیث کو اپنے لئے ڈھال بنا لیا ہے اور (ماآنا علیہ واصحابی) کی کسوٹی سے صرف نظر کرتے ہیں ہرگر وہ اپنے آپ کو ناجی فرقہ کہتا ہے اور اپنے علاوہ دیگر تمام مکاتب فکر کو ضال و مضل اور بہتر (٧٢) فرقوں میں شمار کرتا ہے۔

حالانکہ اگر اس حقیقت پر غور کیا جائے کہ اختلاف مسالک اور فرعات دین مختلف الرائے ہونے کے باوجود تمام مسلمان جو اللہ تعالٰی پر اس کے ملائکہ پر اس کے رسولوں پر قیامت کے دن پر اچھی بُری تقدیر کے منجانب اللہ ہونے پر اور موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں زکاٰت ادا کرتے ہیں اور صاحب استطاعت ہونے پر حج کرتے ہیں معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں تو اللہ اس کے رسول کی نزدیک یہ سب مومن ہیں بشرطیکہ وہ اللہ یا اس کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرتے ہوں احادیث قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں تمام مومنین کو آپس میں بھائی بھائی کہا گیا ہے۔ اور قرآن مجید میں بھی انہیں جنتیں دینے کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔

بیشک ﷲ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور جن لوگوں نے کفر کیا اور (دنیوی) فائدے اٹھا رہے ہیں اور (اس طرح) کھا رہے ہیں جیسے چوپائے (جانور) کھاتے ہیں سو دوزخ ہی ان کا ٹھکانا ہے
(محمد۔ ١٢)

یہ اور اس طرح کی بیشمار آیتیں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں مومنین صالحین کی مغفرت اور فوز و فلاح کا وعدہ کیا گیا ہے اور کفار مشرکین کے لئے جہنم کی وعید سنائی گئی ہے جو شخص دین کی مبادیات پر ایمان رکھتا ہو اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہو وہ دین کے فروعات میں دیگر مسلمانوں سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود مومن و مسلم ہی رہتا ہے ایمان سے خارج نہیں ہوتا دین کا فہم نہ تو سب کو یکساں عطا کیا گیا ہے اور نہ ہی اللہ تعالٰی نے تمام انسانوں کے ذہن، صلاحیتیں اور طبائع ایک جیسے رکھے ہیں بہرحال یہ طے شدہ بات ہے کہ فرعی اختلاف میں قلت فہم کی بناء پر دو فریقوں میں سے ایک یقینی طور پر غلطی پر ہو گا اور دوسرے فریق کا نظریہ درست اور شریعت کے مزاج و احکام کے مطابق لہذا ایسی صورت میں جو فریق دانستہ طور پر غلطی پر ہے تو اس کا دینی اور اخلاقی فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنی انانیت اور کبر و غرور کو پس پشت ڈال کر اس غلطی سے تائب ہو جائے اور اپنی کم فہمی اور جہالت کے لئے اللہ تعالٰٰی سے مغفرت طلب کرے بلاشبہ وہ غفور رحیم ہے اور اگر اس فریق سے غلطی کا ارتکاب نادانستہ طور پر ہو رہا ہے تو اس کا شمار (سیئات) میں ہو گا ایسی صورت میں فریق مخالف یعنی فریق حق کا فرض ہو گا کہ وہ اپنے ان بھائیوں کو نرمی محبت اور دلسوزی سے سمجھائیں اور صحیح راہ عمل واضح کریں۔ اس کے باوجود بھی اگر دوسرا فریق سمجھ کر نہیں دیتا تو اس کے لئے ہدایت کی دُعا کریں۔ آپ اپنی ذمداریوں سے سبکدوش ہو گئے مسلمانوں کی (سیئات) یعنی کوتاہیوں کے بارے میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے۔۔۔

اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کئے اور ان سب چیزوں پر ایمان لائے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئیں وہ چیزیں ان کے رب کے پاس سے امر واقعی ہیں اللہ تعالٰی ان کو تاہیوں کو درگذر فرمائے گا اور ان کی حالت درست کرے گا۔
(محمد۔ ٢)

لہذا معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے ایمان و عمل صالح کے مطالبہ کو پورا کرنے کے بعد ان کے تمام گناہوں اور کوتاہیوں کو معاف کرنے کا اعلان عام کر رہا ہے تو دوسروں کو یہ حق کب پہنچتا ہے کہ وہ اپنے صاحب ایمان بھائیوں کو محض فروعی اختلافات کی بناء پر جہنم رسید کر دیں اور ان کا شمار ان بہتر (٧٢) ناری فرقوں میں کرتے رہے جو خارج ایمان ہونے کی بناء پر زبان وحی و رسالت سے دوزخی قرار پائے؟ کیا ان کی یہ روش اللہ کے کلام کو جھٹلانے کے مترادف نہیں ہے؟۔۔۔

کارتوس خان
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
بنی اسرائیل میں پھوٹ پڑنے کے بعد بہتر (٧٢) فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے، اور میری امت تہتر (٧٣) فرقوں میں متفرق ہو جائے گی ان میں بہتر (٧٢) دوزخی ہوں گے اور ایک فرقہ باجی یعنی جنتی ہو گا، صحابہ رضوان علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ! ناجی فرقہ کون سا ہوگا؟۔ فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہما کے طریقہ پر چلتا ہوگا۔ (ترمذی)
اس حدیث کے چار حصے ہیں۔
  1. پہلے حصے میں یہ خبر دی گئی ہے کہ بنی اسرائیل میں پھوٹ پڑ گئی تھی اور اس میں 72 (یعنی کثیر) فرقے بن گئے تھے۔
  2. دوسرے حصے میں یہ پیشنگوئی کی گئی ہے کہ میری امت میں 73 (یعنی بنی اسرائیل سے بھی زیادہ) فرقے بن جائیں گے۔
  3. تیسرے حصے میں یہ وعید سنائی گئی ہے کہ 72 (یعنی کے تقریباً تمام) فرقے جہنم میں جائیں گے۔ (کیونکہ قرآن نے فرقے بنانے سے سختی سے منع کیا ہے ۔ اور فرقے بننے کے بعد فرقہ پرست، قرآن و حدیث کی بجائے فرقہ کے بانیان کو فالو کرنے لگے ہیں)
  4. چوتھے حصے میں یہ کہا گیا ہے کہ 73 میں سے ایک فرقہ ناجی یعنی جنتی ہوگا۔
لیکن اگر ”ناجی گروپ“ کو ”73 فرقوں میں سے ایک“ سے ”جوڑنے“ کی بجائے آخری فقرے سے ”جوڑا“ جائے کہ ۔ ۔ ۔ صرف وہی لوگ (یعنی لوگوں کا گروپ) جنت میں جائیں گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ کے طریقے پر چلیں گے۔ ۔ ۔ ۔ تو اس موضوع پر قرآن و حدیث کا یہ منشا زیادہ واضح ہوسکتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ فرقے بنانا حرام ہے۔ جو فرقے بنیں گے وہ سب کے سب دوزخی ہوں گے۔ صرف وہی لوگ جنت میں جائیں گے، جو فرقے بنا نے کی بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ کے طریقے پر چلیں گے۔

میرا سوال اپنی جگہ وہی ہے کہ کیا اس حدیث سے یہ مفہوم اخذ کرنا درست ہے ؟؟؟
یا وہی بات درست ہے جو ہر فرقہ کہتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ اسلام میں 73 فرقے ہوں گے، جن میں سے 72 فرقے جہنمی ہوں گے اور صرف ایک فرقہ (میرا والا) جنتی ہوگا۔


@خضر حیات
@سرفراز فیضی
@ابن بشیر الحسینوی
@ابوالحسن علوی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
مسلمان کہلانے کے ساتھ اہل سنت اور اہل حدیث کون؟​

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین کے زمانے میں کوئی فرقہ نہ تھا۔

قرآن و حدیث پر عمل کرنے والے سب مسلمان تھے ۔ بعد کے زمانے میں وہ لوگ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کا حقدار خیال کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو شیعان علی کہلاوایا یہ جو ابتدائی دور کے شیعہ تھے ان کا یہ اختلاف بھی سیاسے تھا، جو بعدمیں مذہبی رنگ اختیار کر گیا۔ پھر شہادت حسین کا واقعہ اس مذہب کا ایسا شرچشمہ بنا کہ ماتم و تعزیہ اور دیگر کئی رسومات وقت کے ساتھ ساتھ ایجاد ہو کر اس مذہب کا حصہ بنتی چلی گئیں صحابہ اکرام کو برا بھلا کہنا انکا امتیاز ٹھہرا۔

اللہ کے دین کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست اخذ کرنے والی جماعت تو صحابہ کی جماعت ہے اصل دین تو انہی سے ملے گا مگر ان لوگوں نے صرف یہ کہ اس مقدس گروہ سے دین اسلام لینے سے انکار کر دیا بلکہ ان پر سب و شتم اور گالی گلوچ کے غلیظ حملے شروع کردیے۔

شیعہ کا یہ فرقہ جس نے یہ طرز عمل اپنایا اور اس طرز عمل کے باوجود وہ اپنے آپ کو مسلمان ہی کہلاتے تھے، ان کے مقابلےامتیاز کیلئے وہ مسلمان اہل سنت کہلوائے کہ جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یعنی آپ کے طریقے اور اسوہ حسنہ پر گامزن تھے۔

وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اور آپ کی حدیث صحابہ کی مقدس جماعت سے حاصل کرتے تھے۔ تو ان مسلمانوں کا لقب جو اہل سنت معروف ہوا یہ شیعہ کے مقابلے میں ایک پہچان تھا۔

پھر جب یہ اہل سنت چوتھی صدی ہجری میں اپنے اپنے مجتہدوں کی تقلید کرنے لگے تو تقلیدی تعصب میں یہ سنت سے ہٹنے لگے۔ اپنے اماموں کے اقوال اور فرامین کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور فرامین مصطفی پر ترجیح دینے لگے۔ تو جواصلی اہل سنت تھے انہوں نے اس انحراف کو گوارا نہ کیا اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کی حدیث کے ساتھ چمٹے رہے، تو اب امتیاز کے لیے مقلدین کے مقابلے میں یہ لوگ اہل حدیث معروف ہوئے۔

ان مقلدین کے فرقے حنفی ، شافی ، مالکی، اور حنبلی چار تو تھے ہی بعد کو ان میں مزید اضافہ ہوتا رہا، جیسے مثال کے طور پر حنفیوں میں سے دیوبندی بنے اور بریلوی بنے پھر تصوف ایجاد ہوا اور اس کے آگے کئی فرقے بھی بنے جیسے سہروردی ، نقشبندی ، چشتی وغیرہ۔ تو تصوف کے یہ فرقے بھی سب کے سب حنفی مذہب سے نکلی ہوئی شاخیں ہیں۔ نیز قبر پرستی اور بدعات اور رسومات کے علمبردار بھی زیادہ تر حنفی المسلک ہی ہیں۔​
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
الحمد للہ:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

یا رسول اللہ! ہم جاہلیت میں شر کے ساتھ تھے تو اللہ تعالی نے ہمیں یہ خیر عنائت فرمائی، تو کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: (ہاں) حذیفہ نے کہا: تو کیا اُس شر کے بعد خیر ہوگی؟ آپ نے فرمایا: (ہاں، لیکن ساتھ میں کچھ دھواں بھی ہوگا) میں نے کہا: دھوئیں سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: (ایسی قوم جو میری راہنمائی سے ہٹ کر ہدایات دینگے اور میری سنت سے ہٹ کر طریقے وضع کرینگے، انکی کچھ باتوں کو تم پہچان لوگے اور کچھ تمہارے لئے اوپری ہونگی) حذیفہ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: (ہاں! وہ جہنم کے دروازوں پر بلانے والے ہونگے، جو بھی انکی بات مان لے گا اسے وہ جہنم میں ڈال دینگے) حذیفہ نے کہا: یا رسول اللہ ! ہمیں انکی صفات بتلادیں۔ آپ نے فرمایا: (وہ ہماری ہی نسل سے ہونگے، اور ہماری ہی زبان بولیں گے) یعنی عرب میں سے ہونگے، میں نے کہا: یا رسول اللہ! اس وقت کے بارے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: (مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام کو لازمی پکڑنا) میں نے کہا: اگر اس وقت کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ہی کوئی امام ہو؟ آپ نے فرمایا: (تو پھر ان تمام فرقوں سے الگ تھلگ ہوجانا، چاہے تمہیں موت کے آنے تک درختوں کی جڑیں چبانی پڑیں، تم ان سے الگ ہی رہنا)

بخاری و مسلم

اس عظیم حدیث میں ہمیں بتلایا گیا ہے کہ ایک مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہے، اور ان کے ساتھ تعاون کرے، چاہے یہ جماعت کسی بھی جگہ جزیرہ عرب میں یا مصر، شام، عراق، امریکہ، یورپ یا کسی اور جگہ ۔

چنانچہ جب کسی مسلمان کو ایسی جماعت ملے جو حق کی طرف بلاتی ہو، تو انکی مدد کرے اور انکے شانہ بشانہ چلے، اور انکی ہمت باندھے، اور حق و بصیرت پر قائم رہنے کی تلقین کرے، اور اگر اسے کوئی جماعت نظر ہی نہ آئے تو حق پر اکیلا ہی ڈٹ جائے، وہ اکیلا ہی جماعت ہوگا، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ نے عمرو بن میمون سے کہا تھا: "جماعت اسے کہتے ہیں جو حق کے مطابق ہو، چاہے تم اکیلے ہی کیوں نہ ہو"

اس لئے ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ تلاشِ حق کیلئے سرگرداں رہے، اور جیسے ہی یورپ، امریکہ یا کسی بھی جگہ پر حق یعنی کتاب و سنت اور صحیح عقیدہ کی دعوت دینے والے اسلامی مرکز ، یا جماعت کے متعلق علم ہو تو ان کے ساتھ مل جائے اور حق سیکھے ، پھر اہل حق میں شامل ہوکر اس پر ڈٹ جائے۔

ایک مسلمان کیلئے یہی واجب ہے، چنانچہ اگر اسے کوئی جماعت، حکومت ایسی نظر نہیں آتی جو حق کی طرف دعوت دے تو اکیلا ہی حق پر کاربند رہے اور اس پر ثابت قدم ہوجائے، اس وقت وہ اکیلا ہی جماعت ہوگا، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے عمرو بن میمون کیلئے کہا تھا۔

اور آجکل الحمد للہ ایسی بہت سی جماعتیں پائی جاتی ہیں جو حق کی طرف دعوت دیتی ہیں، جیسے کہ جزیرہ عرب میں ۔۔۔، یمن، خلیج، مصر، شام، افریقہ، یورپ، امریکہ، ہندوستان، پاکستان وغیرہ ساری دنیا میں ایسی جماعتیں اور اسلامی مراکز موجود ہیں جو حق کی دعوت دیتی ہیں اور حق کی خوشخبری لوگوں تک پہنچاتی ہیں، اور مخالفتِ حق سے خبردار کرتی ہیں۔

چنانچہ حق کے متلاشی مسلمان کوچاہئے کہ ان جماعتوں کے بارے میں کھوج لگائے، اور جب کوئی جماعت، یا ایسا مرکز ملے جو قرآن کی دعوت دے، اور سنت رسول اللہ کی طرف بلائے تو ان کے پیچھے چل پڑے، اور انہی کا ہو کر رہ جائے، مثال کے طور پر مصر اور سوڈان میں انصار السنہ، اور جمعیت اہل حدیث پاکستان اور ہندوستان میں، اور بھی ان کے علاوہ جماعتیں ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دیتے ہیں، صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اور اللہ کے ساتھ کسی قبر والے یا کسی اور کو نہیں پکارتے.

یہ اقتباس : " مجموع فتاوى ومقالات" از سماحة الشيخ العلامۃ عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمه الله . 8/ 179" سے لیا گیا ہے۔

http://islamqa.info/ur/21065
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
@کنعان بھائی ایک شخص کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح فرمان یعنی صیحیح حدیث پہنچ جائے اور پھر اس کا دل بھی گواہی دے کہ یہ صحیح حدیث ہے اور پھر اس کو چھوڑ کر اپنے امام کی بات کو مان لے آپ ان کے بارے میں کیا کہے گے ؟؟؟؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
کیا اہل حدیث نام رکھنا درست ہے؟


میں ہندوستان میں رہتا ہوں، اور میں نے سن 2008ء میں اسلام قبول کیا تھا، میرا تعلق رومن کیتھولک چرچ سے تھا، اور اب میں جس مسجد میں جاتا ہوں وہ اہل حدیث کی مسجد ہے، میرے علاقے میں لوگ اپنے مسلمان ہونے سے زیادہ اہل حدیث ہونے پر زیادہ زور دیتے ہیں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جماعت جنت میں داخل ہوگی وہ قرآن وسنت کی اتباع کرتی ہوگی، مجھے وضاحت سے بتلائیں کہ کیا یہ جائز ہے کہ ہم اپنے کو اہل حدیث کہیں یا مسلمان ؟

الحمد للہ:

پہلی بات:

آپ کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں سن کر ہمیں بہت خوشی ہوئی، اور پھر آپ مسجد میں جاکر نماز ادا کرنے کی پابندی بھی کرتے ہیں اس سے اور زیادہ مسرت ملی، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپکو مزید ہدایت اور ثابت قدمی سے نوازے۔

دوسری بات:

کوئی مسلمان جماعت اپنے آپ کو اہل سنت یا اہل حدیث وغیرہ ناموں سے موسوم کرے جن سے صحیح منہج کی نشاندہی اور اتباعِ کتاب وسنت آشکار ہو تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں، تا کہ دیگر بدعتی فرقوں سے امتیاز ہوسکے، جبکہ "مسلم" نام بلاشک وشبہ ایک عظیم اور اعلی نام ہے ، لیکن ۔۔۔ افسوس کہ مسلمان مختلف گروہوں میں بٹ چکے ہیں، یہ صوفی، وہ شیعی اور فلاں عقل پرست ۔۔۔

بلکہ اسلام کی طرف کچھ ایسے لوگ بھی نسبت کرتے ہیں جو حقیقت میں مسلمان ہی نہیں، جیسے بہائیت، اور بریلویت ۔

چنانچہ اگر کوئی مسلمان اپنے بارے میں یہ کہے کہ وہ اہل حدیث ہے، تو وہ اسکی بنا پر آپنے آپ کو ان گمراہ فرقوں سے جدا رکھنا چاہتا ہے، اور اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہے کہ وہ اہل سنت والجماعت میں سے ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"سلفی منہج کی طرف نسبت کرنے والے پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے، بلکہ اگر کوئی نسبت ظاہر کرتا ہے تو اسے قبول کرنا چاہئے، اس بات پر سب کا اتفاق ہے، کیونکہ مذہبِ سلف حق ہی ہوسکتا ہے، اور اگر سلف کی طرف نسبت کا قائل شخص ظاہری اور باطنی ہر دو طرح سے سلف کے ساتھ اتفاق رکھتا ہو تو وہ ایسے مؤمن کی طرح ہے جو باطنی اور ظاہری طور پر حق پر ہے، اور اگر یہ شخص صرف ظاہری طور پر سلف کی موافقت کرتا ہے ، باطنی طور پر نہیں تو یہ شخص منافق کے درجہ میں ہے، اس لئے اسکی ظاہری حالت کو مان لیا جائے گا، اور دل کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا جائے گا، کیونکہ ہمیں لوگوں کے دلوں کا بھید لگانے کاحکم نہیں دیا گیا کہ وہ اندر سے کیسے ہیں" ماخوذ از: " مجموع الفتاوى " ( 1 / 149)

شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:

"سلفی کہلوانا اگر حقیقت پر مبنی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر خالی دعوی ہو تو اس کیلئے اپنے آپ کو سلفی کہلوانا درست نہیں کیونکہ وہ سلف کے منہج پر ہی نہیں ہے" ماخوذ از: " الأجوبة المفيدة على أسئلة المناهج الجديدة " ( ص 13 )

یہ بات ذہن نشین رہے کہ "اہل حدیث"نام رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ قرآن مجید پر عمل نہیں کرتے، اور شاید آپکو اسی وجہ سے تعجب ہوا ہو ، بلکہ اہل حدیث قرآن و سنت پر عمل کرتے ہیں، یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلتے ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے نقش قدم کی اتباع کرتے ہیں،

فرمانِ باری تعالی ہے:

(وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ)

ترجمہ: وہ مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پران کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ التوبة/100


تیسری بات:

اللہ تعالی نے آپ پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ آپ اسلام کی نعمت پانے کے بعد اہل حدیث ، اہل سنت والجماعت میں رہتے ہیں، آپ اُنکے ساتھ مزید جُڑے رہیں، اور انہی کی اقتدا کرتے ہوئے انکے طریقے پر چلیں۔


واللہ اعلم .

اسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/163503
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
فرقہ ناجیہ کون سا ہے ؟؟؟؟

الحمد للہ

اہل حدیث کی اصطلاح ابتداہی سے اس گروہ کی پہچان رہی جو سنت نبویہ کی تعظیم اوراس کی نشراشاعت کا کام کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ کے عقیدہ جیسا اعتقاد رکھتا اورکتاب وسنت کوسمجھنے کے لیے فہم صحابہ رضي اللہ تعالی عنہم پرعمل کرتے جو کہ خیرالقرون سے تعلق رکھتے ہیں ، اس سے وہ لوگ مراد نہیں جن کا عقیدہ سلف کے عقیدہ کے خلاف اوروہ صرف عقل اوررائ اوراپنے ذوق اورخوابوں پراعمال کی بنیادرکھتے اوررجوع کرتے ہيں۔

اوریہی وہ گروہ اورفرقہ ہے جوفرقہ ناجيہ اورطائفہ منصورہ جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان :


( ہروقت میری امت سے ایک گروہ حق پررہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ انہيں نقصان نہیں دے سکے گا ، حتی کہ اللہ تعالی کا حکم آجاۓ تووہ گروہ اسی حالت میں ہوگا )

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1920 ) ۔


بہت سارے آئمہ کرام نے اس حدیث میں مذکور گروہ سے بھی اہل حدیث ہی مقصودو مراد لیا ہے ۔

اہل حدیث کے اوصاف میں آئمہ کرام نے بہت کچھ بیان کیا ہے جس میں کچھ کا بیان کیا جاتا ہے :

1 - امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کی بہت اچھی تفسیر اورشرح کی ہے جس میں یہ بیان کیا گيا کہ طائفہ منصورہ جوقیامت تک قائم رہے گا اوراسے کوئ بھی ذلیل نہیں کرسکے گا ، وہ اہل حدیث ہی ہيں ۔

تواس تاویل کا ان لوگوں سے زیادہ کون حق دار ہے جو صالیحین کے طریقے پرچلیں اورسلف کے آثارکی اتباع کریں اوربدعتیوں اورسنت کے مخالفوں کوسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دبا کررکھیں اورانہیں ختم کردیں ۔ دیکھیں کتاب : معرفۃ علوم الحديث للحاکم نیسابوری ص ( 2 - 3 ) ۔

2 - خطیب بغدادی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اللہ تعالی نے انہیں ( اہل حدیث ) کوارکان شریعت بنایا اور ان کے ذریعہ سے ہرشنیع بدعت کی سرکوبی فرمائ‏ تویہ لوگ اللہ تعالی کی مخلوق میں اللہ تعالی کے امین ہیں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی امت کے درمیان واسطہ و رابطہ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت کی حفاظت میں کوئ‏ دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ۔

ان کی روشنی واضح اور ان کے فضائل پھیلے ہوۓ اوران کے اوصاف روز روشن کی طرح عیاں ہيں ، ان کا مسلک ومذھب واضح و ظاہر اور ان کے دلائل قاطع ہیں اہل حدیث کے علاوہ ہر ایک گروہ اپنی خواہشات کی پیچھے چلتا اور اپنی راۓ ہی بہترقرار دیتا ہے جس پراس کا انحصار ہوتا ہے ۔

لیکن اہل حدیث یہ کام نہیں کرتے اس لیے کہ کتاب اللہ ان کا اسلحہ اورسنت نبویہ ان کی دلیل و حجت ہے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا گروہ ہیں اوران کی طرف ہی ان کی نسبت ہے ۔

وہ اھواء وخواہشا ت پرانحصار نہیں کرتے اورنہ ہی آراء کی طرف ان کا التفات ہے جوبھی انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کی ان سے وہ قبول کی جاتی ہیں ، وہ حدیث کے امین اور اس پرعدل کرنے والے ہیں ۔

اہل حدیث دین کے محافظ اوراسے کے دربان ہيں ، علم کے خزانے اورحامل ہیں ،جب کسی حدیث میں اختلاف پیدا ہوجاۓ تواہل حدیث کی طرف ہی رجوع ہوتا ہے اورجو وہ اس پرحکم لگا دیں وہ قبول ہوتااورقابل سماعت ہوتا ہے ۔

ان میں فقیہ عالم بھی اوراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت کے امام بھی ، اورزھد میں یدطولی رکھنے والے بھی ، اورخصوصی فضیلت رکھنے والے بھی ، اورمتقن قاری بھی بہت اچھے خطیب بھی ، اوروہ جمہورعظیم بھی ہیں ان کا راستہ صراط مستقیم ہے ، اورہربدعتی ان کے اعتقاد سے مخالفت کرتا ہے اوران کے مذھب کے بغیر کامیابی اورسراٹھانا ممکن نہیں ۔

جس نے ان کے خلاف سازش کی اللہ تعالی نے اسے نیست نابود کردیا ، جس نے ان سے دشمنی کی اللہ تعالی نے اسے ذلیل ورسوا کردیا ، جوانہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہيں دے سکتا ، جوانہیں چھوڑ کرعلیحدہ ہوا کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔

اپنی دین کی احتیاط اورحفاظت کرنے والا ان کی راہنمائ کا فقیر ومحتاج ہے ، اوران کی طرف بری نظر سے دیکھنے والے کی آنکھیں تھک کرختم ہوجائيں گی ، اوراللہ تعالی ان کی مدد و نصرت کرنے پرقادر ہے ۔ دیکھیں کتاب : شرف اصحاب الحدیث ص ( 15 ) ۔

3 – شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

تواس سے یہ ظاہرہوا کہ فرقہ ناجیہ کے حقدارصرف اورصرف اہل حدیث و سنت ہی ہیں ، جن کے متبعین صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں اورکسی اورکے لیے تعصب نہیں کرتے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واحوال کوبھی اہل حدیث ہی سب سے زيادہ جانتے اوراس کا علم رکھتے ہيں ، اوراحادیث صحیحہ اورضعیفہ کے درمیان بھی سب سے زيادو وہی تیمیز کرتے ہيں ، ان کے آئمہ میں فقہاء بھی ہیں تواحادیث کے معانی کی معرفت رکھنے والے بھی اوران احادیث کی تصدیق ،اورعمل کے ساتھ اتباع و پیروی کرنے والے بھی ، وہ محبت ان سے کرتے ہیں جواحادیث سے محبت کرتا ہے اورجواحادیث سے دشمنی کرے وہ اس کے دشمن ہيں ۔

وہ کسی قول کو نہ تومنسوب ہی کرتے اورنہ ہی اس وقت تک اسے اصول دین بناتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو ، بلکہ وہ اپنے اعتقاد اور اعتماد کا اصل اسے ہی قرار دیتے ہیں جوکتاب وسنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم لاۓ ۔

اور جن مسا‏ئل میں لوگوں نے اختلاف کیا مثلا اسماءو صفات ، قدر ، وعید ، امربالمعروف والنھی عن المنکر ،وغیرہ کواللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاتے ہیں ، اورمجمل الفاظ جن میں لوگوں کا اختلاف ہے کی تفسیر کرتے ہیں ، جس کا معنی قران وسنت کےموافق ہو اسے ثابت کرتے اورجوکتاب وسنت کے مخالف ہواسے باطل قرار دیتے ہیں ، اورنہ ہی وہ ظن خواہشات کی پیروی کرتے ہيں ، اس لیے کہ ظن کی اتباع جھالت اوراللہ کی ھدایت کے بغیر خواہشات کی پیروی ظلم ہے ۔ مجموع الفتاوی ( 3/347 ) ۔

اورجس بات کا ذکر ضروری ہے وہ یہ کہ ہر وہ شخص اہل حدیث ہے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پرعمل پیرا ہوتا اورحدیث کوہرقسم کے لوگوں پرمقدم رکھتا ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم و حافظ اورفقیہ یا عام مسلمان ہی کیوں نہ ہووہ حدیث کومقدم رکھتا ہوتو اسے اہل حدیث کہا جاۓ گا ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

ہم اہل حدیث سے صرف حدیث لکھنے اور سننے اور روایت کرنے والا ہی مراد نہیں لیتے ، بلکہ ہر وہ شخص جس نے حدیث کی حفاظت کی اوراس پرعمل کیا اوراس کی ظاہری وباطنی معرفت حاصل کی ، اور اسی طرح اس کی ظاہری اورباطنی طور پر اتباع وپیروی کی تو وہ اہل حديث کہلا نے کا زيادہ حقدار ہے ۔اوراسی طرح قرآن بھی عمل کرنے والا ہی ہے ۔

اوران کی سب سے کم خصلت یہ ہے کہ وہ قرآن مجید اورحدیث نبویہ سے محبت کرتے اوراس کی اور اس کے معانی کی تلاش میں رہتے اوراس کے موجبات پرعمل کرتے ہیں ۔ مجموع الفتاوی ( 4/ 95 ) ۔


واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
آپ کا ہائی لائیٹ کردہ پیرایہ حسب ذیل ہے :
الحمد لله
كان مصطلح " أهل الحديث " ممثلاً للفرقة التي تعظم السنة وتقوم على نشرها ، وتعتقد عقيدة أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ، وترجع في فهم دينها إلى الكتاب والسنة على فهم خير القرون دون ما يفعله غيرها من اعتقاد غير عقيدة السلف الصالح ومن الرجوع إلى العقل المجرد والذوق والرؤى والمنامات .
فكانت هذه الفرقة هي الفرقة الناجية والطائفة المنصورة ، والتي ذكر كثير من الأئمة أنها المقصودة في قوله عليه الصلاة والسلام " لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق لا يضرهم من خذلهم حتى يأتي أمر الله وهم كذلك " رواه مسلم ( 1920 )
الحمد للہ

اہل حدیث کی اصطلاح ابتداہی سے اس گروہ کی پہچان رہی جو سنت نبویہ کی تعظیم اوراس کی نشراشاعت کا کام کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ کے عقیدہ جیسا اعتقاد رکھتا اورکتاب وسنت کوسمجھنے کے لیے فہم صحابہ رضي اللہ تعالی عنہم پرعمل کرتے جو کہ خیرالقرون سے تعلق رکھتے ہیں ، اس سے وہ لوگ مراد نہیں جن کا عقیدہ سلف کے عقیدہ کے خلاف اوروہ صرف عقل اوررائ اوراپنے ذوق اورخوابوں پراعمال کی بنیادرکھتے اوررجوع کرتے ہيں۔

اوریہی وہ گروہ اورفرقہ ہے جوفرقہ ناجيہ اورطائفہ منصورہ جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان :


( ہروقت میری امت سے ایک گروہ حق پررہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ انہيں نقصان نہیں دے سکے گا ، حتی کہ اللہ تعالی کا حکم آجاۓ تووہ گروہ اسی حالت میں ہوگا )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سطور میں مفتی صاحب نے دراصل ’‘ حق پرست ’‘گروہ کی نشاندہی کی ہے ۔کہ نجات پانے والی جماعت کے اوصاف کیا ہیں ؛
انکے بنیادی اور امتیازی اوصاف (۱) سنت کی تعظیم اور اس کی اشاعت و ترویج (۲ ) سلف یعنی صحابہ کرام کے عقیدہ کو بلا کم و کاست
اپنانا۔(۳) قرآن و سنت کے مفاہیم اور مرا دسمجھنے کےلئے سلف کے فہم سے استفادہ کرنا ۔
(۴)معتزلہ اور جہمیہ اور دیگر گمراہ فرقوں کی طرح ،عقل ،رائے ، ذوق و وجدان ،یا صوفیاء کی طرح خوابوں کو دلیل نہ بنانا ،بلکہ

صرف نصوص شرعیہ ،اور فہم ِسلف پر عقیدہ و عمل کو استوار کرنا ،
(یعنی قرآن کا مفہوم و مراد ،عقل ورائے ۔یا ۔خوابوں سے متعین نہیں ہو سکتی ۔نہ رد ہوسکتی ہے )
یہی اوصاف جس جماعت میں پائے جائیں ،وہ ہی ۔حق۔ پر ہوگی ۔اور یہ اوصاف یقیناً اہل الحدیث میں پائے جاتے ہیں۔
لہذا فرقہ ناجیہ صرف وہی ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
میرے بھائیوں حق والی جماعت کون سی ہے جو کہ فرقہ ناجیہ ہے

1- شیعہ

2- حنفی (دیوبندی یا پھر بریلوی)

3- اہل حدیث

1 - کیا شیعہ فرقہ ! فرقہ ناجیہ میں سے ہے ؟

شيعہ كے كئى عقائد اور اعمال ايسے ہيں جو انہيں دائرہ اسلام سے خارج كر ديتے ہيں، مثلا قرآن مجيد كى تحريف كا عقيدہ، اور يہ عقيدہ كہ ان كے آئمہ علم غيب ركھتے ہيں، اور وہ غلطى و خطا سے معصوم ہيں.

اور وہ مردوں سے استغاثہ اور مدد بھى مانگتے ہيں، اور اللہ تعالى كے علاوہ انہيں پكارتے اور قبروں كو سجدہ كرتے ہيں، اور انبياء و رسل كے بعد سب سے افضل ترين افراد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كو كافر قرار ديتے ہيں


شيخ عبد اللہ بن جبرين حفظہ اللہ سے رافضہ كا ذبح كردہ گوشت كھانے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:

" رافضى كا ذبح كردہ گوشت حلال نہيں، اور نہ ہى اس كا ذبح كردہ گوشت كھانا حلال ہے، كيونكہ غالب طور پر رافضى مشرك ہيں، اس ليے كہ وہ على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كو مصيبت و آسانى ميں ہر وقت پكارتے رہتے ہيں، حتى كہ عرفات اور طواف اور سعى كے دوران بھى اور ان كى اولاد اور اپنے اماموں كو بھى پكارتے ہيں جيسا كہ ہم نے كئى بار سنا ہے، اور يہ شرك اكبر اور اسلام سے ارتداد ہے، اس پر وہ قتل كے مستحق ہيں.

اسى طرح وہ على رضى اللہ تعالى عنہ كے اوصاف بيان كرنے ميں بھى غلو كرتے ہيں اور انہيں ايسے اوصاف ديتے ہيں جو صرف اللہ سبحانہ و تعالى كے علاوہ كسى اور كے لائق نہيں، جيسا كہ ہم نے عرفات ميں سنا ہے، تو اس كى بنا پر وہ مرتد ہيں، كيونكہ انہوں نے على رضى اللہ تعالى عنہ كو رب اور خالق اور كون ميں تصرف كرنے والا اور علم غيب كا علم ركھنے اور نفع و نقصان دينے والا قرار دے ركھا ہے.

اسى طرح وہ قرآن مجيد ميں بھى طعن كرتے ہيں اور گمان كرتے ہيں كہ صحابہ كرام نے اس ميں تحريف كرتے ہوئے اہل بيت اور ان كے دشمنوں كے متعلقہ بہت سارى آيات حذف كر دى ہيں، نہ تو وہ صحابہ كرام كى اقتداء كرتے ہيں، اور نہ ہى انہيں دليل سمجھتے ہيں، اسى طرح وہ اكابر صحابہ كرام مثلا خلفاء ثلاثہ اور بقيہ عشرہ مبشرہ صحابہ كرام اور امہات المومنين اور مشہور صحابہ كرام مثلا انس اور جابر اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہم وغيرہ ميں طعن كرتے ہيں.

نہ تو وہ ان كى احاديث قبول كرتے ہيں، اور نہ ہى صحيحين كى احاديث پر عمل كرتے ہيں، كيونكہ صحابہ كرام ان كے گمان ميں كفار ہيں، وہ صرف اہل بيت كے متعلقہ احاديث ہى تسليم كرتے ہيں، اور مكذوب اور موضوع احاديث كى طرف رجوع كرتے ہيں، يا پھر اس كى طرف جس ميں ان كے قول كى كوئى دليل نہيں ملتى، ليكن اس كے باوجود وہ نفاق كرتے ہوئے اپنى زبانوں سے وہ كچھ كہتے ہيں جو ان كے دلوں ميں نہيں، اور اپنے اندر وہ كچھ چھپا كر ركھتے ہيں جو ظاہر نہيں كرتے، اور وہ يہ كہتے ہيں:

" جو تقيہ نہيں كرتا اس كا كوئى دين ہى نہيں "

اس ليے اخوت اور شريعت وغيرہ سے محبت كا دعوى قابل قبول نہيں نفاق ان كا عقيدہ ہے، اللہ تعالى ہميں ان كے شر سے محفوظ ركھے " انتہى.


واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/60046
 
Last edited:
Top