محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ تقلید فی زمانہ بہت ضروری ہے !!!
السلام علیکم عزیزانِ گرامی
اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ تقلید فی زمانہ بہت ضروری ہے ۔
تقلید ضروری ہے کہ نہیں ۔۔۔ اس مسئلہ کو کچھ دیر کے لیے علیحدہ رکھتے ہیں ۔
فی الحال تقلید کی تعریف کا علم حاصل کر لیا جائے۔
مستند دیوبندی لغت "القاموس الوحید" میں درج ہے :
قلّد ۔۔ فلانا : تقلید کرنا ، بلا دلیل پیروی کرنا ، آنکھ بند کر کے کسی کے پیچھے چلنا
التقلید : بے سوچے سمجھے یا بے دلیل پیروی ، نقل ، سپردگی ۔
لغت کی اس تعریف سے ثابت ہوتا ہے کہ (دین میں) بے سوچے سمجھے ، آنکھیں بند کر کے ، بغیر دلیل اور بغیر حجت ، کسی غور و فکر کے بغیر ، کسی شخص کی (جو نبی نہیں ہے) پیروی یا اتباع کرنا تقلید کہلاتا ہے ۔
تقلید کے اصطلاحی معنی جاننے کے لیے ۔۔۔ آئیے احناف کی معتبر کتاب "مسلم الثبوت" دیکھتے ہیں ۔
تقلید : (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) غیر (امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کا نام) ہے ۔
پس نبی علیہ الصلوۃ والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے ۔
اور اسی طرح عامی (جاہل) کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا تقلید میں سے نہیں ہے ۔ کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے۔
نص بمعنی قرآنی آیت :
تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو
سورہ النحل ، آیت ٤٣
اور
سورہ الانبیاء ، آیت ٧ ۔
جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی رحمہ اللہ کی کتاب "الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ، ملفوظات حکیم الامت" میں درج ہے کہ
تقلید کہتے ہیں امتی کا قول ماننا بلا دلیل ۔۔۔ اللہ اور رسول کا حکم ماننا تقلید نہ کہلائے گا وہ اتباع کہلاتا ہے ۔
مفتی سعید احمد پالن پوری دیوبندی اپنی معروف کتاب "آپ فتویٰ کیسے دیں" میں لکھتے ہیں
تقلید کسی کا قول اس کی دلیل جانے بغیر لینے کا نام ہے ۔
علماء نے فرمایا ہے کہ اس تعریف کی رو سے امام کے قول کو دلیل جان کر لینا تقلید سے خارج ہو گیا ، کیونکہ وہ تقلید نہیں ہے بلکہ دلیل سے مسئلہ اخذ کرنا ہے ۔ مجتہد سے مسئلہ اخذ کرنا نہیں ہے ۔
احناف کی درج بالا تعریف و تشریح سے درج ذیل باتیں ثابت ہوتی
ہیں:
١) آنکھیں بند کر کے ، بے سوچے سمجھے ، بغیر دلیل و بغیر حجت کے ، کسی غیر نبی کی بات ماننا تقلید ہے ۔
٢ ) قرآن ، حدیث اور اجماع پر عمل کرنا تقلید نہیں ہے ۔ جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں ہے ۔
٣) تقلید اور اتباع بالدلیل میں فرق ہے ۔
یاد رہے کہ دین میں معروف دلائل چار ہیں ، یعنی ادلہ اربعہ ، یعنی ، قرآن ، حدیث ، اجماع اور قیاسِ شرعی ۔
لہذا تقلید کی وہ تعریف ، جس پر جمہور علماء کا اتفاق ہے ، یوں ہے کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی غیر کی بےدلیل بات کو ، جو ادلہ اربعہ میں سے نہیں ہے ، حجت مان لینا ، تقلید ہے ۔
بعض لوگ غلطی یا غلط فہمی کے سبب جاہل کے عالم سے مسئلہ پوچھنے کو تقلید باور کراتے ہیں جو درست نہیں ۔
کیونکہ اوپر ثابت کیا گیا ہے کہ : جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ ۔۔۔
اگر ایک جاہل جب ایک عالم بنام قاری چن محمد سے کوئی مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کرتا ہے تو کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ وہ قاری چن محمد کی تقلید کر رہا ہے یا قاری چن محمد کا مقلد (چن محمدی) ہو گیا ہے ۔
جو لوگ تقلید پر زور دیتے ہیں ۔۔۔ ان سے ادباََ درخواست ہے کہ درج بالا تعریفات کی روشنی میں وہ ثابت فرمائیں کہ تقلید کیوں ضروری ہے ؟؟
=========
طبقات الشافیعہ یا طبقات الحنابلہ ، مالکیہ ، حنفیہ میں کسی محدث یا عالم کے اسمِ گرامی کی موجودگی اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ فلاں محدث یا عالم شافعی یا حنبلی مذہب کے تھے ۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا نام طبقات المالکیہ اور طبقات الحنابلہ دونوں میں درج ہے ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا نام طبقات الحنابلہ اور طبقات المالکیہ میں ذکر ہے ۔
پھر یہ دونوں امام کس مذھب کے مقلد تھے ؟
بعض علماء کے نام کے ساتھ حنفی ، شافعی ، مالکی یا حنبلی کا سابقہ یا لاحقہ جو لگا ہوتا ہے اس سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ یہ علماء مقلدین میں سے تھے ۔ اگر کوئی مقلد ہے تو وہ اپنے مقلد ہونے کا اعتراف کرے گا ، تقلید کی برائیاں گنانے نہیں بیٹھے گا ۔
جبکہ حنفی اور شافعی علماء نے تک تقلید پر شدید رد کر رکھا ہے تو وہ خود کو مقلد کیسے کہلوائیں گے ؟
کسی مستند عالم کا کوئی ایسا قول پیش فرمائیں جس میں انہوں نے فرمایا ہو کہ "انا مقلد ( میں مقلد ہوں)" ۔
استادی ، شاگردی کا رتبہ ظاہر کرنے کے لیے اگر علماء کے نام کتبِ طبقات میں درج کیے گئے ہیں تو یہ کوئی مضبوط دلیل نہیں بنتی کہ ان علماء کو مقلد مانا جائے ۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو (چھوڑ دو) ، پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے زیادہ بہتر ہے ، اور میری تقلید نہ کرو ۔
(حوالہ : آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم ، سندہ حسن ، صفحہ ٥١ )
امام ابو حنیفہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا
اے یعقوب (ابو یوسف) تیری خرابی ہو ، میری ہر بات نہ لکھا کر ، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے ، کل دوسری رائے ہوتی ہے تو پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے ۔
(حوالہ : تاریخ یحییٰ بن معین ، سندہ صحیح ، ج ٢ ، ص ٦٠٧ )
شافعیوں کے علماء
ابوبکر القفال ، ابو علی اور قاضی حسین سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا
ہم (امام) شافعی کے مقلد نہیں ہیں بلکہ ہماری رائے (اجتہاد کی وجہ سے) اُن کی رائے کے موافق ہو گئی ہے۔
(بحوالہ : النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر ، طبقات الفقہاء : تصنیف عبدالحئی لکھنوی ، صفحہ ٧ )
دیکھ لیں کہ یہاں علماء خود اعلان کر رہے ہیں کہ ہم مقلدین نہیں ہیں اور مقلدین یہ شور مچا رہے ہیں کہ یہ علماء ضرور مقلدین ہیں ، سبحانک ھذا بہتان عظیم۔
تقلید کے حرام ہونے کا حکم امام ابن حزم رحمہ اللہ نے لگایا ہے ، ملاحظہ فرمائیں
۔۔۔ اور تقلید حرام ہے ۔
(بحوالہ : النبذہ الکافیہ فی احکام اصول الدین ، صفحہ ٧٠ )
مقلد کو متعصب اور بیوقوف کا خطاب کس نے دیا ہے ؟ ملاحظہ فرمائیں امام ابو جعفر الطحاوی رحمہ اللہ کا قول :
تقلید تو صرف وہی کرتا ہے جو متعصب اور بیوقوف ہوتا ہے ۔
(بحوالہ : لسان المیزان ٢٨٠/١ )
اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تقلید کے خلاف زبردست بحث کرنے کے بعد فرماتے ہیں
اور اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ : عوام پر فلاں یا فلاں کی تقلید واجب ہے ، تو یہ قول کسی مسلمان کا نہیں ۔
(بحوالہ : مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ، جلد ٢٢ ، صفحہ ٢٤٩ )
========
السلام علیکم عزیزانِ گرامی
اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ تقلید فی زمانہ بہت ضروری ہے ۔
تقلید ضروری ہے کہ نہیں ۔۔۔ اس مسئلہ کو کچھ دیر کے لیے علیحدہ رکھتے ہیں ۔
فی الحال تقلید کی تعریف کا علم حاصل کر لیا جائے۔
مستند دیوبندی لغت "القاموس الوحید" میں درج ہے :
قلّد ۔۔ فلانا : تقلید کرنا ، بلا دلیل پیروی کرنا ، آنکھ بند کر کے کسی کے پیچھے چلنا
التقلید : بے سوچے سمجھے یا بے دلیل پیروی ، نقل ، سپردگی ۔
لغت کی اس تعریف سے ثابت ہوتا ہے کہ (دین میں) بے سوچے سمجھے ، آنکھیں بند کر کے ، بغیر دلیل اور بغیر حجت ، کسی غور و فکر کے بغیر ، کسی شخص کی (جو نبی نہیں ہے) پیروی یا اتباع کرنا تقلید کہلاتا ہے ۔
تقلید کے اصطلاحی معنی جاننے کے لیے ۔۔۔ آئیے احناف کی معتبر کتاب "مسلم الثبوت" دیکھتے ہیں ۔
تقلید : (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) غیر (امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کا نام) ہے ۔
پس نبی علیہ الصلوۃ والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے ۔
اور اسی طرح عامی (جاہل) کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا تقلید میں سے نہیں ہے ۔ کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے۔
نص بمعنی قرآنی آیت :
تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو
سورہ النحل ، آیت ٤٣
اور
سورہ الانبیاء ، آیت ٧ ۔
جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی رحمہ اللہ کی کتاب "الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ، ملفوظات حکیم الامت" میں درج ہے کہ
تقلید کہتے ہیں امتی کا قول ماننا بلا دلیل ۔۔۔ اللہ اور رسول کا حکم ماننا تقلید نہ کہلائے گا وہ اتباع کہلاتا ہے ۔
مفتی سعید احمد پالن پوری دیوبندی اپنی معروف کتاب "آپ فتویٰ کیسے دیں" میں لکھتے ہیں
تقلید کسی کا قول اس کی دلیل جانے بغیر لینے کا نام ہے ۔
علماء نے فرمایا ہے کہ اس تعریف کی رو سے امام کے قول کو دلیل جان کر لینا تقلید سے خارج ہو گیا ، کیونکہ وہ تقلید نہیں ہے بلکہ دلیل سے مسئلہ اخذ کرنا ہے ۔ مجتہد سے مسئلہ اخذ کرنا نہیں ہے ۔
احناف کی درج بالا تعریف و تشریح سے درج ذیل باتیں ثابت ہوتی
ہیں:
١) آنکھیں بند کر کے ، بے سوچے سمجھے ، بغیر دلیل و بغیر حجت کے ، کسی غیر نبی کی بات ماننا تقلید ہے ۔
٢ ) قرآن ، حدیث اور اجماع پر عمل کرنا تقلید نہیں ہے ۔ جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں ہے ۔
٣) تقلید اور اتباع بالدلیل میں فرق ہے ۔
یاد رہے کہ دین میں معروف دلائل چار ہیں ، یعنی ادلہ اربعہ ، یعنی ، قرآن ، حدیث ، اجماع اور قیاسِ شرعی ۔
لہذا تقلید کی وہ تعریف ، جس پر جمہور علماء کا اتفاق ہے ، یوں ہے کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی غیر کی بےدلیل بات کو ، جو ادلہ اربعہ میں سے نہیں ہے ، حجت مان لینا ، تقلید ہے ۔
بعض لوگ غلطی یا غلط فہمی کے سبب جاہل کے عالم سے مسئلہ پوچھنے کو تقلید باور کراتے ہیں جو درست نہیں ۔
کیونکہ اوپر ثابت کیا گیا ہے کہ : جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ ۔۔۔
اگر ایک جاہل جب ایک عالم بنام قاری چن محمد سے کوئی مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کرتا ہے تو کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ وہ قاری چن محمد کی تقلید کر رہا ہے یا قاری چن محمد کا مقلد (چن محمدی) ہو گیا ہے ۔
جو لوگ تقلید پر زور دیتے ہیں ۔۔۔ ان سے ادباََ درخواست ہے کہ درج بالا تعریفات کی روشنی میں وہ ثابت فرمائیں کہ تقلید کیوں ضروری ہے ؟؟
=========
طبقات الشافیعہ یا طبقات الحنابلہ ، مالکیہ ، حنفیہ میں کسی محدث یا عالم کے اسمِ گرامی کی موجودگی اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ فلاں محدث یا عالم شافعی یا حنبلی مذہب کے تھے ۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا نام طبقات المالکیہ اور طبقات الحنابلہ دونوں میں درج ہے ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا نام طبقات الحنابلہ اور طبقات المالکیہ میں ذکر ہے ۔
پھر یہ دونوں امام کس مذھب کے مقلد تھے ؟
بعض علماء کے نام کے ساتھ حنفی ، شافعی ، مالکی یا حنبلی کا سابقہ یا لاحقہ جو لگا ہوتا ہے اس سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ یہ علماء مقلدین میں سے تھے ۔ اگر کوئی مقلد ہے تو وہ اپنے مقلد ہونے کا اعتراف کرے گا ، تقلید کی برائیاں گنانے نہیں بیٹھے گا ۔
جبکہ حنفی اور شافعی علماء نے تک تقلید پر شدید رد کر رکھا ہے تو وہ خود کو مقلد کیسے کہلوائیں گے ؟
کسی مستند عالم کا کوئی ایسا قول پیش فرمائیں جس میں انہوں نے فرمایا ہو کہ "انا مقلد ( میں مقلد ہوں)" ۔
استادی ، شاگردی کا رتبہ ظاہر کرنے کے لیے اگر علماء کے نام کتبِ طبقات میں درج کیے گئے ہیں تو یہ کوئی مضبوط دلیل نہیں بنتی کہ ان علماء کو مقلد مانا جائے ۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو (چھوڑ دو) ، پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے زیادہ بہتر ہے ، اور میری تقلید نہ کرو ۔
(حوالہ : آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم ، سندہ حسن ، صفحہ ٥١ )
امام ابو حنیفہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا
اے یعقوب (ابو یوسف) تیری خرابی ہو ، میری ہر بات نہ لکھا کر ، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے ، کل دوسری رائے ہوتی ہے تو پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے ۔
(حوالہ : تاریخ یحییٰ بن معین ، سندہ صحیح ، ج ٢ ، ص ٦٠٧ )
شافعیوں کے علماء
ابوبکر القفال ، ابو علی اور قاضی حسین سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا
ہم (امام) شافعی کے مقلد نہیں ہیں بلکہ ہماری رائے (اجتہاد کی وجہ سے) اُن کی رائے کے موافق ہو گئی ہے۔
(بحوالہ : النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر ، طبقات الفقہاء : تصنیف عبدالحئی لکھنوی ، صفحہ ٧ )
دیکھ لیں کہ یہاں علماء خود اعلان کر رہے ہیں کہ ہم مقلدین نہیں ہیں اور مقلدین یہ شور مچا رہے ہیں کہ یہ علماء ضرور مقلدین ہیں ، سبحانک ھذا بہتان عظیم۔
تقلید کے حرام ہونے کا حکم امام ابن حزم رحمہ اللہ نے لگایا ہے ، ملاحظہ فرمائیں
۔۔۔ اور تقلید حرام ہے ۔
(بحوالہ : النبذہ الکافیہ فی احکام اصول الدین ، صفحہ ٧٠ )
مقلد کو متعصب اور بیوقوف کا خطاب کس نے دیا ہے ؟ ملاحظہ فرمائیں امام ابو جعفر الطحاوی رحمہ اللہ کا قول :
تقلید تو صرف وہی کرتا ہے جو متعصب اور بیوقوف ہوتا ہے ۔
(بحوالہ : لسان المیزان ٢٨٠/١ )
اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تقلید کے خلاف زبردست بحث کرنے کے بعد فرماتے ہیں
اور اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ : عوام پر فلاں یا فلاں کی تقلید واجب ہے ، تو یہ قول کسی مسلمان کا نہیں ۔
(بحوالہ : مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ، جلد ٢٢ ، صفحہ ٢٤٩ )
========