• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصحاب کہف کی خاص دعا

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اصحاب کہف کی خاص دعا
رَبَّنَآ ءَاتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةًۭ وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًۭا
اے ہمارے رب ہم پر اپنی طرف سے رحمت نازل فرما اور ہمارے اس کام کے لیے کامیابی کا سامان کر دے
(سورۃ الکہف،آیت 10)
 

Rashid Iqbal Malik

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2017
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
13
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
اصحاب الکہف پر جدید ترین تحقیق اسکی اہمیت اور افادیت
(علمِ روایت ودرایت کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ)
مقدمہ
اصحابؒ الکہف کا قصہ بلاشبہ قرآن کریم کے چند اہم ترین موضوعات میں تصور کیا جاتا ہے۔ اس سورۃ کی شان نزول ہی اسکی اہمیت اور افادیت کی شاہد ہے۔ جسکی بدولت ایک طرف نبی کریمﷺکی شان نبوت کفار مکہ اور یہود مدینہ کے سامنے مزید نکھر کر سامنے آئی اور دوسری طرف انکے سوالات کا عظیم الشان جواب اللہ کریم نے سورہ الکہف کی صورت میں نازل فرمایا۔ اس واقعہ کی حقیقت تک پہنچنے سے پہلے ایک امر کا ادراک ضروری ہے کہ سورۃ الکہف کی آیات 9 سے 26 تک اللہ تعالی نے یہ واقعہ براہ راست بیان فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور جگہ اس واقعہ کا ذکر آتا ہے اور ناں ہی کسی حدیثﷺ میں اسکی کسی بھی لحاظ سے تصریح ملتی ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺکے وصال کے بعد تفسیری موضوع میں مسلم مفسرین کو کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی بنیادی طور پر دو وجوہات تھیں۔
۱۔ یہ واقعہ غیر عرب اقوام سے تعلق رکھتا تھا اور خطہ عرب سے باہر واقع ہوا تھا۔
۲۔ قدیم عرب مؤرخین اور مسلم علماء و مفسرین اس واقعہ سے کلی طور پر ناواقف تھے۔
اسکی روایت کرنے والوں متقدمین مفسرین میں اصحاب رسولﷺ حضرت عباس بن عبدالمطلب، حضرت عبداللہ ابن عباس اورحضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم کا ذکر ملتا ہے۔جبکہ اسکے اصل راوی درحقیقت یہودیت اور نصرانیت سے نومسلم تابعینؒ کرام تھے جو اسرائیلی علوم سے عمومی واقفیت کی بنیاد پر اسرائیلیات کے بنیادی مصادر تھے۔مثلا ان ہی تابعین میں ایک تابعی کعبؒ بن الآحبارکا نام کثرت سے ملتا ہے ۔ تدّبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو متآخرین نے اِنھی مصادر کی روایات کو اِنھی کے طرق کے ساتھ یا بغیر کسی بیانِ سند کے اپنی اپنی تفسیری کتابوں میں محض نقل کردیا ہے اور پھر یہ واقعہ نقل در نقل ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ اسکو حقّانیت کی سند مل گی۔ اس واقعہ کا موجودہ عیسائیت سے دور دور کا واسطہ نہیں اور نا ہی یہ ایک عیسائی روایت ہے۔ یہی اس سورۃ کی عظمت ہے جو ایک طرف تو اس قصہ کی اصل حقیقت بتاتی ہے اور دوسری طرف یہ فہم و شعور کہ کیوں عیسائیت اس واقعہ کو گلے سے لگا کر بیٹھی ہوئی ہے۔
تحقیقی مقالے کی اہمیت، افادیت اور وجہ تصنیف
بعثت نبوی ﷺکی تصدیق کے لیے نبوت کے درمیانی دور میں کفارمکہ نے یہودِ مدینہ سے رابطہ کیا اور جواباً مشیّت الٰہی کے تحت یہودِ مدینہ نے بھی انھی اصحابؒ کے متعلق سوال اٹھا دیا۔ چاہے یہودِ مدینہ کی نیت نبی کریمﷺ کے دعویٰ نبوت کی حقّانیت کی تصدیق ہی تھی بحرحال مشیّت الٰہی انکی سوچ سے کہیں اگے تھی۔ اللہ بزرگ و بر تر نے اس واقعہ سے عیسائیت کے پیشروں کی 1600 سو سال پہلے کی جانے والی ریشہ دوانیوں کو اکیسویں صدی میں بحر مردار کی دستاویزات کے شواہد کی روشنی میں کھولنا تھا اور اس عظیم خدمت کے لیے مجھے چننا تھا۔ یہ یقیناً بڑا دعویٰ ہے مگراس مقالے کو عالمی سطح پر مستند تحقیق کا درجہ ملنا اس دعویٰ کی سچائی کا بیّن ثبوت ہے۔

اس تحقیقی مقالے کی رو سے اس واقعہ کی تین جہتیں ہیں۔ اولاً، تاریخی، دوئم، مذہبی، سوئم، علمی۔ان تین جہتوں پر ہی حقائق کی روشنی میں دلائل دیے گئے ہیں۔ اس قصے کی بے مثل افادیت جاننےکے لیے اس امر کی آگاہی ضروری ہے کہ تقریباً تمام مروّجہ رواٰیت کا بنیادی ماخذ عیسائیت سے مشتق ہے۔چنانچہ اس علمی کاوش کو دو جہتی تناظر میں سمجھنے کی اشّد ضرورت ہے۔
۱۔ اس من گھڑت اسرائیلی روایت سے عیسائیت نے کیا پایا۔
۲۔ اور مسلمانوں نے کیا کھویا۔
مقدمہ میں مقالے کی افادیت اور مسلمانوں کو پہنچائے گئے نقصان کی تفصیل بیان کرنا قطاً مقصود نہیں صرف اجمالی ذکر ایک طرح کا توجہ دلاؤ نوٹس ہے۔ یہ مقالہ اول تا آخر اسی افادیت، اہمیت اور اثرات کو اجاگر کرنے کی کاوش ہے۔اگرچہ عظمت قرآن ایک مسّلم حقیقت ہے اور یہودِمدینہ کے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات اسکی عظمت کے دلائل ہیں لیکن یہاں اس جواب کو عظیم الشان کہنا ایک مختلف پیرائے میں ہے۔ یہ پیرایا شاید اسلامی اسکالرشپ کی وسعتِ نظری سے بعید رہا۔ اسلامی علماء کرام کی اکثریت اس واقعہ کو ایک اسرائیلی روایت سمجھ کر نادانستگی میں من و عن تفسیر قرآن میں مزّین کرتے رہے۔ کچھ علماء نے تو پوری شد و مد کے ساتھ اس خود ساختہ عیسائی واقعہ کی باقاعدہ تبلیغ و ترویج کی۔ اسی لیے تقریباً تمام کتب تفاسیر میں اس واقعہ کا ذکر ایک عیسائی روایت کے طور پر ہی درج ہے مثلاً مشہور کتاب قصص الانبیاء میں مصنف سورۃ الکہف کی تفسیر میں یوں رقم طراز ہیں" کیوں کہ عرصہ ہوا یہاں کہ باشندوں نے شرک چھوڑ کر عیسائیت قبول کر لی ہے"۔ یہ مفسرین اس بات کو نظر انداز کر گئے کی تلثیثی عیسائیت اور حضرت عیسیؑ کے پیرؤکاروں میں عقیدے کا بنیادی فرق تھا اور عیسائی مبلیغین و مفسرین کے دعویٰ کا محور تلثیثی عیسائیت رہا ہے نا کہ توحیدی عقاید کا پرچار انکا مطلوب تھا۔
چنانچہ اس خود ساختہ اسرائیلی روایت کو اسلامی درجہ قبولیت کا ایک انتہائی غیرپسندیدہ اثر سامنے آیا جس کی حدت مسلم علماء کے سوا کوئی محسوس نہیں کر سکتا تھا۔ اس قبولیت کی بدولت مسیحی علماء اور موّرخین کو نبی کریمﷺ کی ذات اقدس پر کیچڑ اچھالنے کا ایک نادر موقعہ مل گیا۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ پر علمی چوری کے پہ درپہ الزامات عائد کر دیئے۔ مثلاً اٹھارویں صدی عیسوی کے سب سے بڑے عیسائی موّرخ ایڈورڈ گّبن نے یہ کہہ کر دشنام طرازی کی کہ
ترجمہ ”اصحاب الکھف کی شہرت نا صرف عیسائی دنیا تک محدود تھی ۔ یہ کہانی مہومیٹ (محمدﷺ) نے اپنے شامی قافلوں کے دوران سیکھی اور بعد میں ایک وحی کے طور پر قرآن میں متعارف کردی". علٰی ھذاٰ القیاس۔
ان مسیحی مؤرخین اور مستشرقین نے اپنے اپنے ادوار میں اس ناپاک سعی میں حتی المقدور اپنا اپنا حصہ ڈالا اور دلائل سے یہ باور کرتے رہے کہ بالخصوص اس واقعہ کی رو سے قرآن اور نبی کریمﷺ موردِ الزام ہیں اور یہ کے اس واقعہ پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں تھا۔ یہ واقعہ زبردستی قرآن میں مذموم مقاصد کے لیے ٹھونسا گیا (نعوذباللہ و لعن اللہ علیہم اجمعین)۔بحرحال مسلمانوں پر علمی حملہ تو ہو چکا تھا۔ مستشرقین کا یہ الزام پوری شدومد کے ساتھ پوری اسلامی دنیا کی جامعات میں مسلم اسکالرز کو پی ایچ ڈی کی سطح تک پڑھایا جاتا ہے۔ مسلم علماء پر اسکا جواب ایک فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا تھا اور رکھتا ہے۔اس زمن میں سرسری جواب تو یہ دیا گیاکہ یہ محض ایک تعصب زدہ الزام ہے ۔ برسبیل مثال پیر کرم شاہ نے اپنی تفسیر ضیاءالقرآن میں لکھا ہے کہ ”ہاں ایک چیز ضرور قابل غور ہے۔ گبن نے بڑی گستاخی سے کام لیتے ہوئے لکھا ہے کہ حضور کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ واقعہ اپنے شام کے تجارتی سفروں کے اثناء میں علماء اہل کتاب سے سنا اور اسے وحی الٰہی کہہ کر قرآن میں درج کر دیا۔ کیونکہ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات جمیس کے مواعظ میں لکھی ہوئی تفصیلات سے کلی مطابقت نہیں رکھتیں۔ اس لیے اس گستاخ اور منہ پھٹ مؤرخ نے سپہر علم و حکمت کے نیّراعظم پر بےعملی اور جہالت کا الزام لگایا۔ اس طرح اس نے یہ صرف حقیقت کا منہ چڑایا ہے بلکہ مؤرخ کے بلند مقام کو بھی تعصب کی غلاظت سے آلودہ کر دیا ہے”۔

ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلم علماء محسن انسانیتﷺ پر لگائے گئے الزامات کی تہہ تک پہنچتے اور ان مسیحی مؤرخین کو مناسب علمی و تحقیقی جواب دیتے۔ اس سارے قصے میں یا مسیحی علماء کا دعوی سچا ہےیا قرآن سچا ہے۔ مسلم علماء نے یہ جوابِ دعوی بدقسمتی سے پچھلے کم و بیش ڈھائی سو سال سے داخل نہیں کیا جسکی بدولت سوائے الزام در الزام کے کوئی سود مند مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔
مقاصد
راقم الحروف نے دو مقاصد کے تحت اس کا جواب دینے کا بیڑا اٹھایا۔
گبن اور مستشرقین کا قرآن اور محمدﷺ پر علمی چوری کا الزام رد کیا جائے۔
2۔ یہ بتایا جائے کی الزام لگانے والوں نے دراصل خود یہ روایت عیسائیت کے فروغ کے لئے استعمال کیا۔
ان مقاصد کے حصول کے لئے یہ جواب رائج الوقت دو ہی طریقوں سے دیا جا سکتا تھا۔ اولاً اسکو کتابی شکل میں شائع کر دیا جاتا۔ اس طریقہ کا سب سے بڑا نقصان تھا کہ یہ مصنف کی ذاتی رائے سمجھی جاتی اس جوابِ دعوی کو درجہ استناد قطعاً ناں ملتا جو ہرگز مقصود نہیں تھا۔ اسی امر کی طرف میری توجہ میرے مہربان دوست ڈاکٹر عدیل صاحب نے کروائی جس پر میں نےاس موضوع پر کتاب لکھنے کے ارادے سے رجوع کر لیا۔ درجہ سند دینے کے لیے دوسرا طریقہ تھا کہ اس تحقیقی کام کو وقت کے نامور علماء (بشمول مسیحی علماء)کے سامنے کسی تحقیقی مجلے میں پیش کیا جاتاتاکہ علماء اسکو پرکھتے اور اپنی تمام تر علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس مقالے کے دلائل کو جانچتے۔ چنانچہ اس مقالے کو کسی تحقیقی مجّلے میں شائع کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ اس ارادے کو پایہ تکمیل پہنچانے میں بھی دو گانہ سوچ کار فرما تھی۔
۱۔ کیا صرف کسی بھی سطحی مجّلے میں جوابِ دعوی دائر کرنے پر اکتفا کیا جائے؟
۲۔ یا انتہائی معیاری تحقیقی مجلے کا انتخاب کرکے ان مستشرقین کی زبان میں، انکے علمی و تحقیقی مراکز تک پہنچایا جائے تاکہ مقصد کماحقہ حاصل ہو سکے۔
کسی بھی علاقائی مجّلے میں یہ تحقیق شائع تو ہو جاتی مگر اس عظیم الشان تحقیقی کام کا معیار گر جاتا دوسرا یہ بھی ممکن تھا کہ یہ داخلِ دفتر ہو جاتا اور مسیحی علماء تک پہنچنے سے رہ جاتا اور اگر پہنچ بھی جاتا تو وہ اسکو یک جنبشِ قلم رد کر دیتے۔ان تمام امکانات سے بچنے کی واحد صورت تھی کہ تحقیقی مجّلے کے چناؤ میں انتہائی احتیاط برتی جائے اور کسی ایسے مجّلے کا انتخاب کیا جائے جس میں درج ذیل خصوصیات پائی جائیں۔
۱۔وہ مجّلہ بین القوامی تحقیق کا علمبردار ہو۔
۲۔ کسی اسلامی ادارے سے وابسطہ ہو تاکہ اسلامی جوابِ دعوی سمجھا جائے۔
۳۔ غیر اسلامی مذاہب کے علماء اسکے ریویو بورڈ کے ممبر ہوں۔
۴۔یورپ میں شائع ہوتا ہو اور یورپی اسکالرشپ اس سے استفادہ حاصل کرتی ہو۔
۵۔ بین الاقوامی زبان میں ہو تاکہ محسن انسانیتﷺ پر لگائے گئے الزامات کا بھرپور جواب کھلے چیلنج کے ساتھ پوری دنیا کے علماء پڑھیں اور اسکو غلط ثابت کرنے کی اگر سعی کرنا چاہیں تو میدان میں اتریں۔
یہ صفات کسی بلند پایہ یورپی یونیورسٹی کے مجّلے میں پائی جاتی ہیں مگر چونکہ یہ جامعات پوائنٹ نمبر ۲ پر پورا نہیں اترتیں اس لیے اس عظیم تر سوچ کے ساتھ راقم الحروف نے’یونیورسٹی آف ملایا’ کےکثیرالاشعات مجّلے ”Al-Bayan Journal of Quran and Hadith Studies” کا انتخاب کیا۔یہ مجّلہ یورپ سے شائع ہوتا ہے اور بیش قیمت علمی ذخیرہ تصور کیا جاتا ہے۔اس بیش قیمت مجّلے کی قیمت 32 ہزار کے قریب ہے جس میں تقریباً چھے مقالے شامل ہوتے ہیں۔ اور اگر میرے اس ایک مقالے کو آن لائن پڑھنے کے لیے سرچ کیا جائے تو اسکی قیمت 3 ہزار سے کچھ اوپر ہے۔ قیمت لکھنے کا واحد مقصد عوام الناس کو مجّلے اور مقالے کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہےوگرنہ یہ تحقیق تو انمول ہے۔
یہ تحقیقی کام میری آٹھ سالہ محنت شاقہ کا نچوڑ ہے۔ اور اللہ نے اسکے لئے بالخصوص مدد فرمائی اور مجھے عربی زبان کی عمومی سمجھ سے روشناس کروایا ایسے حالات پیدا کئے کہ میں نے ایک قومی ادارے سے ایک سالہ عربی کا ڈپلومہ حاصل کیا اور اسکی بنیاد پر ایم اے عربی میں داخلہ لیا جو بوجوہ ہنوز نا مکمل ہے۔ اسی خدمت لینے کے لئے اللہ نے مجھے اسلامی تعلیمات کی طرف راغب کیا جہاں مجھ پر یہ ادراک ہوا کہ یہ ان الزامات کا جواب دینا کتنا ضروری ہے۔ چنانچہ اس کام میں لگ گیا اور تحقیق مکمل کرنے کے بعد بھی ایک سال سے زائد عرصہ تک یہ تحقیقی کام دنیا کی بلند پایہ جامعات کے مسلم و غیر مسلم علماء کے ہر پہلو سے جائزہ لینے کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا جون 2017کے شمارے میں شائع ہو گا (انشاءاللہ)۔ یہ جوابِ دعویٰ اب ایک سند کا درجہ رکھتا ہے اور اسکا رد اسی سطح کی کوئی نئی تحقیق، اسی سطح کے تحقیقی مجّلے سے ہی ہوسکتی ہے جو الحمداللہ فی الوقت ممکن نہیں۔
اهداف
اس بین الاقوامی تحقیقی مقالے میں درج زیل اهداف حاصل کئے ہیں(الحمداللہ)۔
· مستشرقین کے قرآن اور محمد ﷺ پر علمی چوری کے الزامات یورپ کے معروف اسکالرز کے ریویوز کے بعد رد کیے جا چکے ہیں
· یہ ثابت کیا ہے کہ اس واقعہ کا استحصال کر کے بت پرست یورپ میں عیسائیت کو پھیلانے کے لیےکامیابی سے استعمال کیا گیا
· اسرائیلی روایت کی پرکھ اور جانچ کے لئےانتہائی آزمودہ کسوٹی دریافت کی ہے اور اسی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے یہ عیسائی روایت کھنگالی ہے
· اصحاب الکہف پر نیا نظریہ دیا ہے جو موجودہ نظریات سے بالکل مختلف ہے.
· بحر مردار کی دستاویزات کی تحقیق پر کاری سوالات اٹھا ئےہیں اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ انکی ٹائم لائن غلط اور عیب زدہ ہے
· یہ تحقیقی پیپر بائیبل کے علماء کو متاثر کر یگا اور انکو چند انتہائی اہم امور پر جوابدہ بنائے گی۔
· قرآن کی تمام تفاسیر میں اصحاب الکہف کی شرح تبدیل ہو جائے گی جو بہت بڑا کام ہے.
میں والد صاحب کا احسان مند ہوں جنھوں نے میری تعلیم وتربیت اس انداز سے کی کہ مجھے اس غیر معمولی سعادت کا اہل بنایا۔اس کام میں بالخصوص اپنے بڑے بھائی ملک خالد اقبال ، مربی و غمگسار محترم ڈاکٹر عدیل صاحب اور سید اظہار الحسن ہاشمی صاحب کا بے حد مشکور ہوں جنھوں نے میری خصوصی مدد فرمائی۔
میں اس عظیم سعادت کے چناؤ پر اللہ کریم کا بے حد مشکور ہوں اور اس کو روزِ قیامت سبیلِ نجات مانتا ہوں اور بطور وصیت لکھتا ہوں کہ محسن انسانیتﷺ پر لگائے گئے الزمات کا یہ رد میرے کفن کا حصہ بنے تاکہ سفرِ برزخ اور روز قیامت میرے ہمراہ ہو۔

راشد اقبال ملک
سعیلہ جہلم
rashid37009@gmail.com
May 2017
 
Top