• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اطاعت پر استقامت

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن​
جناب ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 13 ذو الحجہ 1434 کو" اطاعت پر استقامت " کے موضوع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے ہمیشہ اطاعت پر قائم رہنے پر زور دیا کیونکہ انسان کی زندگی کا یہی حسین پہلو ہے، انہوں نے ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کرنے کی ترغیب دلائی، جبکہ نیکیاں کرنے کے بعد گناہ کرنے سے خبردار بھی کیا۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے واضح آیات نازل کیں، وہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہےاور انکے گناہوں کو معاف کرتا ہے، میں اپنے رب کی تعریف اور شکر گزاری کرتے ہوئے اسی کی جانب رجوع اور گناہوں سے معافی چاہتا ہوں، اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے،اسکا کلام انتہائی جامع اور کامل ہے،اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد پر درود و سلام بھیج، آپکی آل اور تمام متقی صحابہ کرام پر بھی جنہوں نے نیکیوں کے بدلے میں بلند درجات حاصل کئے۔
اللہ کی حمد و ثناء اور درود و سلام کے بعد!
خلوت و جلوت میں اللہ سے ڈرو؛ کسی کا کوئی عمل بھی اللہ سے مخفی نہیں ، اس دنیا میں کامیابی اللہ کے ڈر سے ہی ممکن ہے، اور اسی کی وجہ سے جنت ملے گی۔
مسلمانو!
ہر شخص کو چاہے کہ ہمہ وقت اچھی سے اچھی حالت میں رہے، اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے اسی پر توکل کر کےاچھے اچھے کام کرے، پھر اللہ سے اجر و ثواب کی امید کے ساتھ ساتھ اسکے عذاب کا خوف بھی دل میں رکھے۔
اللہ کے بندو!
کیا تم جانتے ہو کہ انسان کی زندگی کا بہترین منظر اطاعت گزاری پر استقامت رکھتے ہوئے حرام کاموں سے بچنا ہے، اسی لئے مکلف کی کامیابی کا راز: "نیکی کے بعد پھر نیکی اور گناہ سے پناہ "میں ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ اور جن لوگوں نے ہدایت پائی ہے اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور تقویٰ عطا کرتا ہے۔ [محمد: 17]، ایسے ہی فرمایا: وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ مَرَدًّا اور جو لوگ راہ راست پر چلتے ہیں اللہ انھیں مزید ہدایت عطاکرتے ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں ہی آپ کے پروردگار کے نزدیک ثواب اور انجام کے لحاظ سے بہتر ہیں۔ [مريم: 76]
مسلمانو!
آپ اسوقت حج کے بعد والے دنوں سے گزر رہے ہو ، جسے اللہ تعالی نے حج کرنے کی سعادت دی وہ اللہ کی حمد بیان کرے، اور اپنی پوری زندگی نیکیوں میں صرف کردے، اس لئے کہ جسکا حج باقی رہا اسکی ساری زندگی گناہوں سے سلامت رہے گی اور وہ جنت میں جائے گا، اور جسے اللہ تعالی نے فرض حج کے بعد نفل حج کی سعادت بخشی ، اللہ تعالی نے اسکے کھاتے میں بہت ہی زیادہ خیر لکھ دی ہے ، اسے چاہئے کہ اللہ کی طرف سے عنائت کردہ اجر کی حفاظت کرے، اور اسے گناہوں کے ذریعے ضائع مت ہونے دے، حدیث مبارکہ میں ہے کہ (اسلام اور حج سابقہ تمام گناہوں کو گرا دیتے ہیں) یعنی مٹا دیتے ہیں۔
اور جسے اللہ تعالی نے حج کی توفیق نہیں دی یقینا اس نے بھی عشرہ ذو الحجہ اور یومِ عرفہ میں کثرت سے نیکیاں کمائی ہونگی جس سے اسکے درجات بلند ہونگے، اسے بھی چاہئے کہ ہمیشہ اسی طرح نیکیاں کرتا رہے، اور صراطِ مستقیم پر ڈٹ جائے، اور اللہ کی نافرمانی کی طرف مائل نہ ہو، جو اللہ کے ناپسندیدہ کام کریگا ، اللہ تعالی بھی اسکے ساتھ ناپسندیدہ معاملہ فرمائے گا، بعینہٖ اللہ کے پسندیدہ کام کرنے والے کو اللہ تعالی اسکی پسند عطا فرماتا ہے، اس لئے کہ جیسا کروگے ویسا ہی بھروگے۔
سب بڑی نیکی یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت پر استقامت ہو، سفیان بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے اسلام کی ایسی تعلیم دیں کہ میں آپ کے بعد کسی سے پوچھنے کا محتاج نہ رہوں، آپ نے فرمایا: (یہ کہو: میں اللہ پر ایمان لایا، اور پھر اس پر ڈٹ جاؤ) مسلم
اسی بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ یقینا جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر ڈٹ گئے انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ [الأحقاف: 13]
استقامت کا مطلب ہے کہ اللہ کی وحدانیت پر انسان ڈٹ جائے، فرائض و واجبات کی ادائیگی کرے اور حرام کاموں سے بچ کر رہے۔
کوئی بھی نیکی اور اچھائی کے کاموں سے ہٹ کر اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اللہ تعالی اسکے سارے معاملات درہم برہم فرما دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی (اچھی) حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اوصاف خود نہ بدل دے [الرعد: 11]، ایک اور مقام پر فرمایا: فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ پھر جب انہوں نے کجروی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو کبھی ہدایت نہیں دیتا [الصف: 5]
نیکیوں پر ہمیشگی سے نیچے بھی ایک درجہ ہے اور وہ ہے کہ انسان کے پاس نیکیاں اور برائیاں دونوں موجود ہوں، انکے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے: وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ نیز آپ دن کے دونوں طرفوں کے اوقات میں اور کچھ رات گئے نماز قائم کیجئے۔ بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں یہ ایک یاددہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں [هود: 114]
معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جہاں بھی رہواللہ سے ڈرتے رہو، گناہ کے بعد نیکی کرو ، یہ نیکی گناہ مٹا دے گی، اور لوگوں کیساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ) ترمذی، اور کہا یہ حدیث حسن اور صحیح ہے۔
اس لئے کہ نیکیاں گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں، اور یہی نیکیاں مکلف کو شیطان کے پیچھے چلنے سے روکتی ہیں۔
انسان کی بد ترین حالت یہ ہے کہ انسان گناہ پر گناہ کرتا چلا جائے، یا نیکیاں کرنے کے بعد گناہوں کا ارتکاب کرے، جسکی وجہ سے نیکیاں برباد ہو جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے عملوں کو ضائع نہ کر لو [محمد: 33]
اس لئے نیکیوں کے بعد کئےجانے والے گناہ کبھی کبھار نیک اعمال کو یا تو کلی طور پر ضائع کردیتے ہیں، یا پھر جزوی طور پر اعمال کو نقصان پہنچاتے ہیں، اور کبھی اجر و ثواب میں کمی کا باعث بنتے ہیں، فرمایا: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ آپ ان سے کہئے:کیا تمہاری ہنسی اور دل لگی، اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہی ہوتی ہے؟ [65]بہانے نہ بناؤ۔ تم فی الواقع ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔ [التوبة: 65، 66] اس آیت میں ایک گناہ کی وجہ سے سابقہ تمام اعمال ضائع ہونے کا ذکر ہے، اللہ تعالی ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔
مسلمانو!
اگر اللہ تعالی تمہیں ایک بار کسی نیکی کے دروازے پر جانے کی توفیق دے تو اس نیکی کو ہمیشہ کرتے رہو، اور اسکی حفاظت بھی کرو، پھر نیکیوں کی مزیددروازے بھی تلاش کرتے جاؤ، یاد رکھنا کبھی بھی کسی چھوٹی یا بڑی نیکی کو حقیر مت سمجھنا، کیونکہ نیکی انسان کو نیکی کی جانب کھینچ کر لے جاتی ہے، جبکہ برائی انسان کو برائی کی دعوت دیتی ہے، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عبد اللہ! فلاں کی طرح مت کرنا ، وہ رات کو قیام اللیل کیا کرتا تھا بعد میں اس نے چھوڑ دیا) بخاری و مسلم
استقامت کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ پس آپ ثابت قدم رہیں جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ اور آپ کے وہ ساتھی بھی جنہوں نے آپ کے ساتھ (ایمان کی طرف) رجوع کیا ہے اور سرتابی نہ کرنا کیونکہ جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے دیکھ رہا ہے [هود: 112]
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، ہمارے لئے سنتِ سید المرسلین اور انکی جانب سے ملنے والی ہدایات کو نفع بخش بنائے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ بزرگ و برتر سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں یقینا وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، جو گناہوں کو بخشنے والا، مشکل کشا، اور عیوب پر پردہ پوشی کرنے والا ہے، غیب کی کوئی چیز بھی اس سے مخفی نہیں، میں اپنے رب کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہی معبودِ برحق ہے، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، وہ دلوں کو پھیرنے والا ہے،اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر ، آپکی آل اور تمام پرہیز گار صحابہ کرام پر درودو سلام اور برکتیں نازل فرما۔
حمدوثناء اور درودو سلام کے بعد!
اللہ سے ایسے ڈرو، جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے، اوراسے کی طرف توبہ کرو اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔
اللہ کے بندو!
زندگی کے چار دن نیک اعمال کرنے کیلئے ہیں، یہی وقت ہے جس میں ہم برے کاموں سے توبہ کر سکتے ہیں، گزرے لوگوں کی زندگیاں نصیحت پکڑنے والوں کیلئے کافی ہیں، دن اور رات تمہیں ایسے راستے کی طرف لے جارہے ہیں جو تمہیں مردہ لوگوں سے ملا دے گا، تمہیں پھر اس گھر کی طرف جانا ہے جسے ابھی تم نہیں جانتے، وہاں نرم گرم بستر نہیں ہونگے، ایسا شخص انتہائی خوش نصیب ہے جس کیلئے وہ گھر عزت اور تکریم کا باعث بنے گا، یقینا یہ اسکی اطاعت اور استقامت کا بدلہ ہوگا، اور وہ شخص تباہ برباد ہوجائے گا جس کیلئے وہ گھر ذلت و رسوائی کا باعث بنے گا ، اسکی وجہ صرف یہی ہوگی کہ اس نے اپنی عمر کو ضائع کردیا اور آخرت کے دن کو بھول گیا تھا۔
فرمانِ باری تعالی ہے: وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (55) أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَا عَلَى مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ كُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ (56) أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (57) أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوا ہے اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرو پیشتر اس کے کہ اچانک تم پر عذاب آجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو[55] (کہیں ایسا نہ ہو کہ اس وقت) کوئی کہنے لگے: "افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں اللہ کے حق میں کرتا رہا اور میں تو مذاق اڑانے والوں میں سے تھا"[56] یا یوں کہے کہ: "اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں پرہیز گاروں سے ہوتا" [57] یا جب عذاب دیکھے تو کہنے لگے:"مجھے ایک اور موقعہ مل جائے تو میں نیک کام کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں" [الزمر: 55- 58]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لذتوں کو پاش پاش کردینے والی کو کثرت سے یاد کیا کرو) یعنی موت کو۔ ترمذی، اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔
اس لئے کہ موت کی یاد ہمیشہ نیک کام کرنے کی ترغیب دلائے گی، اور ہمہ قسم کے گناہوں سے روکے گی، اسی لئے جیسے ہی موت یاد آتی ہے تو مسلمان عمل اچھے انداز اور اخلاص کے ساتھ کرتا ہے۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56] اور دوسری جانب فرمانِ رسالت ہے: (جس نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا اللہ اس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے)
چنانچہ سب سید الاولین و الآخرین امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد.
اے اللہ ! تمام صحابہ سے راضی ہو جا ،تما م خلفائے راشدین ہدایت یافتہ ائمہ کرام ، ابو بکر ، عمر، عثمان اور علی اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! تمام تابعین راضی ہوجا اور ان لوگوں سے بھی جو انکی راہ پر چلیں، اے اللہ !اپنے کرم ، احسان، اور رحمت کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا۔
یا اللہ!اسلام اور مسلمانوں کو عزت نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت نصیب فرما، یا اللہ!اپنے دین، قرآن، اور نبی کی سنت کو غالب فرما، یا قوی، یا عزیز، یا رب العالمین۔
یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو دین کی سمجھ عطا فرما، بیشک توں جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما۔
یا اللہ! تمام حجاج کرام سے انکا حج قبول فرما، اور انہیں اپنے اپنے علاقوں میں صحیح سلامت واپس لوٹا، بیشک توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ ہمارے ممالک میں امن وا مان نصیب فرما، یا اللہ! ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما۔
یا اللہ! ہمارے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرما، یا اللہ! جو ہم نے اعلانیہ کئے یا پوشیدہ کئے سب معاف فرما، یا اللہ! توں ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے، یا اللہ! توں ہی آگے کرنے والا ہے اورتوں ہی پیچھے کرنے والا ہے، تیرے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں ہے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے اپنے تمام معاملات کے اچھے نتائج کا سوال کرتے ہیں، اور توں ہمیں دنیا اور آخرت کے عذاب سے بچا۔
یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ فرما، یا اللہ! ہمیں غلبہ عنائت فرما، ہم پر کسی کو مسلط نہ کر، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف تدبیر نہ ہو، یا رب العالمین۔
یا اللہ ہمیں اپنا ذکر کرنے والا، اور شکر گزار بنا دے، یا رب العالمین۔
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول چوک ہو جائے تو اس پر گرفت نہ کرنا! اے ہمارے پروردگار! ہم پر اتنا بھاری بوجھ نہ ڈال جتنا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے ہمارے پروردگار! جس بوجھ کو اٹھانے کی ہمیں طاقت نہیں وہ ہم سے نہ اٹھوائیو۔ ہم سے درگزر فرما، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مولیٰ ہے لہذا کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔ [البقرة: 286]
یا اللہ! خادم الحرمین الشریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ ! اپنی راہنمائی کے مطابق اسے توفیق دے، یا اللہ !اسکے تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما، یا اللہ! ہر اچھے کام میں اسکی مدد فرما، یا اللہ! ولی عہد کو بھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عنائت فرما یا اللہ ! اسے بھی اپنی راہنمائی کے مطابق توفیق دے، یا اللہ !اسکے بھی تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما۔
یا اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی تمام چالوں کو ناکام کردے، یا اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی تمام مکاریوں کو ناکام کردے۔
یا اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! خونِ مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ! بھوکے لوگوں کو کھلا، یا اللہ! بے امنی کی وجہ سے پریشان لوگوں کو امن و امان نصیب فرما، یا اللہ! ہماری گھبراہٹ ختم کردے، اور ہمارے عیوب کی پردہ پوشی فرما، یا اللہ! خونِ مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں اپنے نفسوں کے شر سے بچا، یا اللہ! انہیں اپنے نفسوں کے شر سے بچا اور دشمنوں کے شر سےبھی محفوظ فرما، یا ذالجلال و الاکرام۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگی شازشیں کرنے والوں کا مقدر تباہی اور بربادی بنا دے، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست ونابود فرما۔
یا اللہ! یا ذالجلال و الاکرام! ہمارے معاملات آسان فرمادے، ہماری شرح صدر فرما، اور ہر مسلمان مر د اور عورت کے معاملات آسان فرما دے۔
اللہ کے بندوں!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو[٩0] اور اگر تم نے اللہ سے کوئی عہد کیا ہو تو اسے پورا کرو۔ اور اپنی قسموں کو پکا کرنے کے بعد مت توڑو۔ جبکہ تم اپنے (قول و قرار) پر اللہ کو ضامن بناچکے ہوجو تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ [النحل: 90، 91]
اللہ عز و جل کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی عنایت کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، اللہ ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اور اللہ تعالی تمہارے کاموں کو بخوبی جانتا ہے۔

لنک
 
Top