محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
اعادہ روح اور منکرین حدیث
محمد رفیق طاھر
بعض منکرین حدیث مرنے کے بعد روح کے اسی جسم میں لوٹنے کا انکار کرتے ہیں ۔ اور سمجھتے ہیں کہ یہ عقیدہ رکھنا قرآن کے بر خلاف ہے ۔ اور اسکی دلیل کےطور پر وہ یہ قرآنی آیت پیش کرتے ہیں :
وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (المؤمنون:۱۰۰)
اور انکے پیچھے ایک آڑ ہے اس دن تک جس دن وہ اٹھائے جائیں گے ۔
اور یہ آیت پیش کرکے کہتے ہیں کہ چونکہ روح وبدن کے مابین قیامت تک آڑ ہے لہذا قیامت سے قبل روح بدن میں داخل نہیں ہوسکتی ۔ اور اس ضمن میں وہ سنن ابی داود کی حدیث۴۷۵۳ جو کہ مسند احمد ۱۸۵۳۴ میں مفصلا ذکر ہوئی ہے , اسکا انکار کرتے ہیں کیونکہ اس میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ مرنے والے کی روح اسکے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے ۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آسمانوں میں کوئی قبر یا برزخ ہے جہاں روحوں کو نئے بدن دے کر انہیں ثواب یا عذاب دیا جاتا ہے ۔
لیکن اللہ تعالى نے کتاب عزیز قرآن مجید فرقان حمید کی یہ خوبی رکھی ہے کہ کوئی بھی باطل پرست اسکی آیات بینات سے اپنا باطل نظریہ ثابت نہیں سکتا۔ اور یہی معاملہ یہاں ہے ۔ اک ذرا غور کرنے سے معاملہ صاف ہو جاتا ہے کہ یہ آیات انکے موقف کے خلاف ہیں , انکے حق میں نہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں :
اللہ کا فرمان ہے : حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100)
حتى کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے اے رب مجھے لوٹا دو ۔ تاکہ میں جو چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں, ہرگز نہیں یہ تو ایک بات ہے جو وہ کہنے والا ہے , اور انکے پیچھے اس دن تک جس دن وہ اٹھائے جائیں گے , ایک پردہ ہے ۔
ان آیات بینات پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالى فرما رہے ہیں "جب ان میں سے کسی ایک کوموت آتی ہے" تو جسے موت آرہی ہے وہ مرنے سے قبل "روح وجسد کا مجموعہ ہے" نہ کہ صرف بدن یا صرف روح !۔ اور پھر فرمایا کہ "وہ کہتا ہے" اب اختلاف یہاں ہے کہ کہنے والا کون ہے؟ روح کہہ رہی ہے یا روح وجسد کا مجموعہ ؟! ادنی تأمل سے بھی یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ یہاں "قال" کا مرجع ہے "أحدھم" اور وہ بالاتفاق روح وبدن کا مجموعہ ہے نہ کہ صرف روح ۔ کیونکہ زندہ انسان روح وجسم کا مرکب ہوتا ہے ۔ تو اس کا صاف معنى بنتا ہے کہ مرنے کے بعد وہی روح وجسد کا مجموعہ جسے موت آئی تھی اللہ سے درخواست کرتا ہے کہ مجھے لوٹا دیجئے ۔ تو جب مرنے کے بعد کہنے والا بھی روح وجسد کا وہی مجموعہ ہے جسے موت آئی تھی تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح اسکے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے تبھی تو وہ روح وجسد کا مجموعہ اللہ کے حضور عرض گداز ہوتا ہے ۔ کیونکہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا "قال روحہ ربی ارجعون" بلکہ فرمایا ہے "قال رب ارجعون"...اور روح کو بدن سے جدا کرنے کی یہاں کوئی دلیل موجودنہیں ہے ۔ کیونکہ قال کا مرجع ہی روح وجسد کا مجموعہ ہے ۔ فتدبر !
پھر فرمایا : وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ تو یہاں بھی ورائہم کا مرجع وہی احدھم ہی ہے ۔ جسکا معنى صاف ظاہر ہے کہ روح وجسد کے مجموعہ اور فیما ترکت کے مابین ایک آڑ ہے, نہ کہ روح وجسد کے درمیان ۔ کیونکہ اللہ تعالى نے ومن وراء أرواحھم یا ومن وراء اجسادہم یا ومن بین ارواحھم واجسادھم نہیں فرمایا ۔ اور یہی بات حدیث نبوی میں ذکر ہوئی ہے " فتعاد روحہ فی جسدہ ".....خوب سمجھ لیں۔