• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اقوال جرح وتعدیل کی سند وصحت اور اس کی حد

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
السلام علیکم
میرا سوال یہ ہے کہ کتاب الرجال میں سند اور اتصال کی کیا حیثیت ہے ؟
ایک محدث اگر کسی راوی کے متعلق کچھ کہتا ہے تو اس محدث کا اس راوی سے ملاقات ثابت ہونا چاہئیے یا نہیں ؟
ایک مثال سے بات کو واضح کرتا ہوں ۔
ایک کتاب ہے "میزان الاعتدال فی نقد الرجال " تالیف ہے الامام الحافظ شمس الدین محمد بن احمد الذھبی کی
حروف الالف میں ابان بن جبلہ الکوفی کے بارے میں صفحہ 119 پر لکھتے ہیں
و قال البخاري : منکر الحديث

الامام الذھبی کی تاریح پیدائش 673 ہجری اور وفات 748 ہجری ہے ۔ اور امام بخاري کی تاریخ پیدائش 194 ہجری اور وفات 256 ہجری ہے ۔
امام الذھبی کا یہ کہنا و قال البخاري : منکر الحديث قابل اعتبار ہوگا یا نہیں کیوں امام الذھبی امام بخاری کے بہت بعد آئے تھے ۔ اس لئیے اس قول کے ذکر کرنے کی کوئی سند نہیں تو کیا عدم سند کی وجہ سے امام الذھبی کے اس قول کا اعتبار کیا جائے گا یا نہیں


آگلی سطر میں امام الذھبی لکھتے ہیں
و نقل ابن القطان ان البخاري قال : کل من قلت فيہ منکر الحدیث فلا تحل الروایہ عنہ

اب امام الذھبی ابن القطان کے حوالہ سے کہ رہے ہیں کہ انہوں کہا کہ امام بخاری نے کہا کہ کل من قلت فيہ منکر الحدیث فلا تحل الروایہ عنہ
تو کیا یہاں سند متصل ہے نہیں ۔ اگر متصل ہے تو کیا صحیح ہے یا نہیں ۔
کیا دوسری سطر کے لحاظ سے امام الذھبی کا ابن القطان سے ملاقات ثابت ہونا ضروری ہے یا نہیں اور آگے ابن القطان کی امام بخاری سے ملاقاقت ثابت ہونا ضروری ہے یہ نہیں۔
اگر یہ سند متصل ہے تو کیا ابن القطان کا ثقہ ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟ کیا ابن القطان کے متعلق تحقیق کی جائے گي کہ یہ ثقہ ہیں یا نہیں ؟ اگر کسی مجتھد سے ثابت ہو کہ انہوں نے ابن القطان کو ثقہ کہا ہے تو کیا وہاں بھی سند کی اتصال اور سند کی صحت کا دھیان رکھنا ہوگا ؟ یہ سلسلہ (سند کی اتصال اور صحت کا ) کہاں تک جائے گآ ؟
علم الرجال حدیث سے متعلق ہے اسلئیے اس سوال کو حدیث کی تحقیق کے حصہ میں پیش کر رہا ہوں ۔
جزاکم اللہ خیرا
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
وعلیکم السلام

میرا سوال یہ ہے کہ کتاب الرجال میں سند اور اتصال کی کیا حیثیت ہے ؟
اسماء الرجال میں جرح وتعدیل کے اقوال کے ثبوت کی بھی تحقیق اسی طرح کی جائے گی جس طرح روایات کی تحقیق کی جاتی ہے۔

اہل فن کے اقوال:
اس سلسلے میں اہل فن کے اقوال ملاحظہ ہوں:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
قلت لم يثبت من أمر بن الباغندي ما يعاب به سوى التدليس[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 3/ 213]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
وكذلك لا يفرح عاقل بما جاء / بإسناد مظلم عن يحيى بن بدر. قال: قال يحيى بن معين: أبو هدبة لا بأس به ثقة [ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 72]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
قال الأزدي: قال ابن معين: ضعيف، كذا نقله أبو العباس النباتي ولم يسنده الأزدي عن يحيى، فلا عبرة بالقول المنقطع،[ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 416]۔

سیر اعلام النبلا میں امام ذہبی نے امام ابو حنیفہ کے متعلق ایک حکایت بیان کی، اور اس کے بعد فرمایا:
"وَأَحسِبُ هَذِهِ الحِكَايَةَ مَوْضُوْعَةً، فَفِي إِسْنَادِهَا مَنْ لَيْسَ بِثِقَةٍ." [سیر اعلام النبلا: 6/393، ط الرسالۃ]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ولا يجب لمن شم رائحة العلم أن يعرج على قول يزيد بن أبي زياد يعني المتقدم لأن يزيد بن أبي زياد ليس ممن يحتج بنقل مثله لأن من المحال أن يجرح العدل بكلام المجروح[تهذيب التهذيب لابن حجر: 22/ 272]۔

ایک اور مقام پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
لم يثبت عَن الْقطَّان أَنه تَركه [فتح الباري لابن حجر: 1/ 463]۔؎

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ضعیف راوی کے ذریعہ مروی جرح کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''ونقل ابن الجوزی من طریق الکُدیْمی عن ابن المدینی عن القطان أنہ قال:أنا لا أروی عنہـیعنی أبان بن یزید العطارـ و ہذا مردود لأن الکُدیْمی ضعیف''[هدي الساري:ص٣٨٧،وانظر:ضوابط الجرح والتعديل:ص٣٨،وانظر:التنکيل:ص٥٤].

اورایک جگہ توثیق کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''لا یغترّ أحد بالحکایة المرویة فی توثیقہ عن ابن مہدی؛ فنہا من روایة سلیمان بن أحمد وہو الواسطی وہو کذاب'' [تهذيب التهذيب:٨/٢٦٢،وانظر:ضوابط الجرح والتعديل:٣٩].

معاصرین کے اقوال:
امام مزی رحمہ اللہ نے ’’خالد بن سلمہ‘‘ سے متعلق نقل کیا:
وَقَال محمد بن حميد الرازي عن جرير : كان خالد بن سلمة الفأفاء رأسا في المرجئة ، وكان يبغض عليا. [تهذيب الكمال للمزي: 8/ 86]

تو حاشیہ میں دکتور بشار عواد نے لکھا:
قلت : ومحمد بن حميد الرازي كذاب معروف ، فهذا لا يصح [تهذيب الكمال للمزي: 8/ 86 حاشیہ 6]۔

اور ایک مقام پر دکتور بشار عواد ہی نے کہا:
وإن أقوال الجرح والتعديل لا تؤخذ عن مثل هذا المفتري [تهذيب الكمال للمزي: 8/ 88]۔

ضوابط الجرح والتعدیل کے مؤلف اقوال تضعیف سے متعلق فرماتے ہیں:
''لا عبرة بجرح لم يصح إسناده إلي الإِمام المحکي عنه''[ضوابط الجرح والتعديل:ص38].

دوسری جگہ اقوال توثیق فرماتے ہیں:
ضوابط الجرح والتعدیل کے مؤلف فرماتے ہیں:
''لا یُقبل توثیق لم یصح سنادہ لی المام المحکی عنہ''[ضوابط الجرح والتعديل:ص٣٩].

ذہبی عصرعبدالرحمن المعلمی جرح وتعدیل کے اقوال سے متعلق فرماتے ہیں:
''اذاوجد فی الترجمة کلمة جرح أوتعدیل منسوبة الی بعض الائمة فلینطرأثابتہ ہی عن ذالک الامام أم لا''[التنکيل بمافي تانيب لکوثري من الاباطيل:ص٢٥٠،ط.المکتب الاسلامي].
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ایک محدث اگر کسی راوی کے متعلق کچھ کہتا ہے تو اس محدث کا اس راوی سے ملاقات ثابت ہونا چاہئیے یا نہیں ؟
اگرمحدث کوئی جرح یا تعدیل کاقول نقل کررہا ہے تو درج ذیل شرائط پر اس کے نقل کا اعتبار ہوگا۔

وہ بذات خود ثقہ ہو۔
وہ ایسے اپنےمعاصر سے نقل کرہا ہو۔
یا معاصر نہ ہو تو اس کی کتاب سے نقل کررہا ہوں۔
یا اپنی صحیح سند سے نقل کررہا ہو۔

بصورت دیگر کسی راوی سے متعلق نقل کردہ بات معتبر نہ ہوگی۔
ہاں اگر وہ قول دوسرے ذرائع سے ثابت ہوگیا مثلا اصل محدث کی کتاب میں مل گیا یا کہیں اور صحیح سند سے مل گیا تو پھر نقل کا اعتبار ہوگا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ایک مثال سے بات کو واضح کرتا ہوں ۔
ایک کتاب ہے "میزان الاعتدال فی نقد الرجال " تالیف ہے الامام الحافظ شمس الدین محمد بن احمد الذھبی کی
حروف الالف میں ابان بن جبلہ الکوفی کے بارے میں صفحہ 119 پر لکھتے ہیں
و قال البخاري : منکر الحديث
الامام الذھبی کی تاریح پیدائش 673 ہجری اور وفات 748 ہجری ہے ۔ اور امام بخاري کی تاریخ پیدائش 194 ہجری اور وفات 256 ہجری ہے ۔
امام الذھبی کا یہ کہنا و قال البخاري : منکر الحديث قابل اعتبار ہوگا یا نہیں کیوں امام الذھبی امام بخاری کے بہت بعد آئے تھے ۔ اس لئیے اس قول کے ذکر کرنے کی کوئی سند نہیں تو کیا عدم سند کی وجہ سے امام الذھبی کے اس قول کا اعتبار کیا جائے گا یا نہیں
امام ذہبی یاکسی اور متاخر محدث کا متقدمین کے اقوال جرح وتعدیل کو ایک کتاب میں جمع کرنا بالکل ایسے ہی ہیں جیسے صاحب مشکاۃ نے مشکاۃ میں احادیث جمع کی ہیں ۔
اب مشکاۃ کا فائدہ یہ ہے کہ ایک موضوع سے متعلق بہت سی احادیث ایک ہی مقام پر مل جاتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں مشکاۃ نے ان احادیث کی سندوں سے بے نیاز کردیا ہے بلکہ مشکاۃ سے جمع احادیث کے باب میں استفادہ کیا جائے گا اور حدیث کی تحقیق کے وقت اس کی سند تلاش کی جائے گی ۔

یہی معاملہ متاخرین کی ان کتب کا ہے جن میں انہوں نے جرح وتعدیل کے اقوال یکجا کردئے ہیں ۔
ان کتاب سے جمع اقوال کے باب میں استفادہ کیا جائے گا لیکن ان کی قول کے ثبوت کی تحقیق الگ سے کئی جائے گی۔
میں امام ذہبی کا نقل کردینا کافی نہ ہوگا۔
البتہ اگر امام ذہبی رحمہ اللہ امام بخاری کا کوئی قول ان کی کتاب کا حوالہ دے کر نقل کریں تو سند کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کتاب سے نقل کردہ بات حجت ہے ۔
اورنیز اگر کہیں گرچہ حوالہ کے طور پر کتاب کا نام نہ ہو لیکن قرائن بتلاتے ہیں کہ امام ذہبی نے کتاب ہی سے نقل کیا ہے تو وہاں بھی سند کی ضرورت نہیں ہے۔

بصورت دیگر قول کے ثبوت کی تحقیق ضروری ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
آگلی سطر میں امام الذھبی لکھتے ہیں
و نقل ابن القطان ان البخاري قال : کل من قلت فيہ منکر الحدیث فلا تحل الروایہ عنہ
اب امام الذھبی ابن القطان کے حوالہ سے کہ رہے ہیں کہ انہوں کہا کہ امام بخاری نے کہا کہ کل من قلت فيہ منکر الحدیث فلا تحل الروایہ عنہ
تو کیا یہاں سند متصل ہے نہیں ۔ اگر متصل ہے تو کیا صحیح ہے یا نہیں ۔
کیا دوسری سطر کے لحاظ سے امام الذھبی کا ابن القطان سے ملاقات ثابت ہونا ضروری ہے یا نہیں اور آگے ابن القطان کی امام بخاری سے ملاقاقت ثابت ہونا ضروری ہے یہ نہیں۔
یہاں تو سند ہے ہی نہیں پھر متصل ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔
جیسے مشکاۃ میں عن فلاں قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں سند نہیں ہوتی تو وہاں اتصال کیسے ہوگا ۔ بلکہ مشکاۃ میں منقول حدیث کی سند کے متصل یا صحیح ہونے کے لئے ہمیں اصل مرجع کی طرف جانا ہوگا ۔
ٹھیک اسی طرح امام ذہبی نے بھی ابن القطان کے حوالہ سے کچھ نقل کیا تو یہاں سند ہے ہی نہیں اب نقل اسی صورت میں معتبرہوگا جب اصل ابن القطان کی کتاب میں مل جائے یا کہیں اور صحیح واسطہ سے مل جائے ۔

پھرابن القطان سے لیکر امام بخاری تک بھی صحیح سند مطلوب ہوگی ۔
البتہ اگر امام بخاری کی کتاب میں مل جائے یا کسی اور مقام پر صحیح واسطہ یہ بات مل جائے تو امام ذہبی یا ابن القطان یا کسی کا بھی نقل معتبرہوگا۔


اگر یہ سند متصل ہے تو کیا ابن القطان کا ثقہ ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟ کیا ابن القطان کے متعلق تحقیق کی جائے گي کہ یہ ثقہ ہیں یا نہیں ؟
جی ہاں بالکل ابن القطان سے متعلق بھی تحقیق کی جائے ۔
بلکہ کسی بھی ناقد کے قول سے استدلال سے قبل خود ناقد کاثقہ ہونا ضروری ہے اسی لئے تو امام ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام ازدی کے قول سے استدلال نہیں کرتے بلکہ رد کردیتے ہیں کیونکہ امام ازدی بذات خود ثقہ نہیں ہیں گرچہ موصوف ناقد امام ہیں۔

ہاں دیگر محدثین اقوال بھی ان کے موافق ہوجائیں تو الگ بات ہے۔

اگر کسی مجتھد سے ثابت ہو کہ انہوں نے ابن القطان کو ثقہ کہا ہے تو کیا وہاں بھی سند کی اتصال اور سند کی صحت کا دھیان رکھنا ہوگا ؟
جی ہاں بالکل !
وہاں بھی اس کا دھیان دینا ہو اور یہی تو علم رجال کی وہ خوبی ہے جو دنیا کے کسی بھی علم میں نہیں ہے۔

یہ سلسلہ (سند کی اتصال اور صحت کا ) کہاں تک جائے گآ ؟
ہراس شخص تک جائے گا جو کسی بھی مقام پر کوئی بات نقل کررہا ہو۔
 
Top