• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اقیمو االصلوٰۃ و اٰتو االزکوٰۃ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
طس ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْ‌آنِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿١﴾ هُدًى وَبُشْرَ‌ىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَ‌ةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿٣النمل
ترجمہ :طٰسٓ یہ قرآن کی آیتیں ہیں اور واضح روشن کتاب ہدایت اور خوش خبری ہے ایمان والوں کے لئے جو نمازیں قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور یہی تو ہیں آخرت پر ایمان و یقین رکھنے والے ۔
توضیح: طٰسٓ یہ حروف مقطعات میں سے ہیں جس کے معنی و مراد اللہ تعالیٰ کے ہی علم میں ہیں اس کے بعد قرآن مجید کے فھم اور آسانی کی وضاحت کتنے احسن انداز میں بیان کئے گئے ہیں ''واضح روشن کتاب'' افسوس کہ امت مسلمہ کو علماء سوء نے خواہ مخواہ الجھا دیا کہ یہ قرآن تمہارے سمجھ سے باہر ہے اس لئے آج گمراہی کا بازار گرم ہے بہر کیف اللہ تعالیٰ نے نمازیں قائم کرنے والوں اور زکوٰۃ کے ادا کرنے والوں کو آخرت پر ایمان و یقین رکھنے والے قرار دیا ہے گویا بے نمازی اور بے زکاتی منکرین اسلام ہیں !۔
الم ﴿١﴾ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ ﴿٢﴾ هُدًى وَرَ‌حْمَةً لِّلْمُحْسِنِينَ ﴿٣﴾ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَ‌ةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿٤لقمان
ترجمہ :ا لٓ مٓ یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں جو نیکو کاروں کے لئے رہبر اور (سراسر) رحمت ہے جو نمازوں کو پابندی سے ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ بھی پابندی سے دیتے رہتے ہیں اور آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں اور یہی لوگ ہیں اپنے رب کی ہدایت پر اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں
توضیح:الٓ مٓ حروف مقطعات میں سے ہیں جن کے معنی و مطالب صرف اللہ ہی کو ہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آیات کے اعجاز کا ذکر فرمایا اور کفار و مشرکین کے بطلان اور اس کا رد فرما کر اس پر عمل کرنے والوں کو بشارت عظمیٰ کی سندعطا کی گئی ہے محسنین کہتے ہیں احسان کرنے والا اور نیکیاں کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت پورے اخلاص کے ساتھ کرنے والا کہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے اس کے بعد تشریح موجود ہے کہ اصل ہدایت پانے والے کو ن لوگ ہیں جو نمازیں قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے رہتے ہیں یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیابی سے ہمکنار ہونے والے ہیں سبحان اللہ۔
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَ‌ضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُ‌وفًا ﴿٣٢﴾ وَقَرْ‌نَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّ‌جْنَ تَبَرُّ‌جَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّ‌جْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَ‌كُمْ تَطْهِيرً‌ا ﴿٣٣﴾ وَاذْكُرْ‌نَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرً‌ا ﴿٣٤الاحزاب
ترجمہ :اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جہالت کے دور کی طرح اپنے بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرو اور نمازیں برابر ادا کرتی رہو اور زکوٰۃ بھی دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کے گھر والیو!تم سے وہ ہرقسم کی گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو یقیناً اللہ باریک سے باریک خبر رکھنے والا ہے ۔
توضیح:نبوت کے ابتدائی حالات بڑے ہی آزمائشی تھے فیضان محمدی ﷺ تھا کہ مومنین صبر و ثبات واستقلال کے پہاڑ ثابت ہوئے مدنی دور بھی کچھ کم نہ تھا پھر اللہ تعالیٰ مومنین کے قدم جما دئیے اور فتوحات کے دروازے کھلے تو چین وسکون حاصل ہوا مومنین کی حالت پہلے سے بہتر ہو گئی اس سے قبل خود رحمۃ اللعلمین رسول اللہ ﷺ کے گھرانے کا حال ایسا تھا کہ کئی کئی دن چولہے نہیں جلتے تھے آپﷺ اور آپ کی ازدواج مطہرات کے فاقوں کا معمول بن چکا تھا بعد میں مال غنیمت سے اللہ تعالیٰ نے غناء کے دروازے کھول دیئے اور انصارو مہاجرین خوشحالی کی زندگی میں آ چکے تھے تو ان کی عورتوں کو دیکھ کر، امہات المومنین رضی اللہ عنہم بھی رحمۃ اللعلمین ﷺ سے مزید نان و نفقہ گھریلو ضرورتوں کے اضافے کا ۔
مطالبہ فرمانے لگیں رحمۃ اللعلمین ﷺ کی زندگی کا کیا کہنا کسی نے سچ کہا ہے کہ سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی اس لئے ازدواج مطہرات کے مطالبے پرایسے کبیدہ خاطر ہوئے کہ بیویوں سے علیحدگی اختیار فرما لی بالاخر ایک مہینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین رضی اللہ عنھن کی اصلاح کے لئے آیات مذکورہ نازل فرمائی۔
اس وقت آپ کے حرم مبارک میں نو ازواج مطہرات تھیں آپﷺ نے ہر ایک کو آیات سنا کر اختیار دیا کہ آیا تمہیں دنیا کا عیش و آرام پسندہے یا پھر رحمۃ اللعلمین ﷺ سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ ہم سب کائنات کے آخری نبی رحمۃ اللعلمین سیدالمرسلین افضل الرسل کو پسندکرتے ہیں ۔
سورۃ الاحزاب کی ۲۸ویں آیت سے ۳۵ ویں آیت تک یہی مضمون ہے (قارئین سے درخواست ہے کہ قرآن کریم جو ایک موجودہ معجزہ ہے اس کے مطالعہ کو زندگی کا معمول بنا لیں )۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اب میں اصل موضوع کے طرف آتا ہوں اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین رضی اللہ عنہم کی اصلاح کے لئے جو آیات نازل فرمائی ہیں اس میں خصوصیت کے ساتھ نمازوں کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں حکم ہے ۔
کیا معاذاللہ ہماری مائیں نمازیں ترک کرتی تھیں ؟نہیں ہرگز نہیں بلکہ اس کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا خصوصی ذکرفرمایا ہے تاکہ امت مسلمہ کے مرد اور عورتیں اس پر عمل کریں اور اس سے غفلت نہ برتیں اور جواس سے غفلت برتے گا اس سے بڑا محروم اور بدنصیب کوئی نہیں ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّ‌سُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ‌ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٢﴾ أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ ۚ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ‌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿١٣المجادلہ
ترجمہ :اے مومنو! جب تم رسول اللہ ﷺسے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ تر ہے ہاں اگر نہ پاؤ تو بے شک اللہ بخشنے والا ہے مہربانی ہے کیا تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے سے ڈر گئے ؟پس جب تم نے یہ نہ کیا اور اللہ نے بھی تمہیں معاف کر دیا تو اب تم (بخوبی) نمازوں کو قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو اور اللہ کی اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے رہو اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔
توضیح: ہر ایمان والی نفوس رحمۃ اللعلمین ﷺسے سرگوشی کا اشتیاق رکھتی تھی اور کیوں نہ رکھے جسے رب کائنات نے المومنین رؤف رحیم کے اعجاز سے نوازا ہو (التوبہ ۹:۱۲۸۔)
اسی کے پیش نظر فیضان رسول سے معطر ہونے کے لئے پروانوں کے جھرمٹ دیر تک آپ کے پاس بیٹھ کر گفتگو فرماتے تھے کبھی آپ پر یہ بات ذرا شاق سی گزرتی تھی مگر آپ کچھ نہ کہہ سکتے تھے جیسے سورۃ الاحزاب ۳۳:۵۳ میں بھی شامل ہے۔
اسی طرح یہود و نصاریٰ اور مشرکین مومنوں کو دیکھ کر آپس میں سرگوشیاں کرتے تھے تاکہ مومنوں کو تکلیف پہنچائیں تواس سے ان کو روکا گیا ہے اور مومنوں کو اس کے آداب سکھلائے ہیں اور اسلام کی اہم باتوں کا حکم دیا گیا کہ کسی بھی صورت میں نماز معاف نہیں ہے اسی لئے نمازوں کی پابندی کرتے رہیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول ﷺ کی تابعداری کا حق ادا ہو سکے۔
سب سے زیادہ یہود و نصاریٰ و مشرکین و کفار کو اسی نماز اور زکوٰۃ سے دشمنی ہے اس سے امت مسلمہ کو دور کرنے کے لئے ان لوگوں نے ذرائع ابلاغ کے تحت گھروں گھر فحش و بے حیائی پہنچا دی گئی ہے اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے آمین۔
إِنَّ رَ‌بَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ ۚ وَاللَّـهُ يُقَدِّرُ‌ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ‌ ۚ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۖ فَاقْرَ‌ءُوا مَا تَيَسَّرَ‌ مِنَ الْقُرْ‌آنِ ۚ عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْ‌ضَىٰ ۙ وَآخَرُ‌ونَ يَضْرِ‌بُونَ فِي الْأَرْ‌ضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّـهِ ۙ وَآخَرُ‌ونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۖ فَاقْرَ‌ءُوا مَا تَيَسَّرَ‌ مِنْهُ ۚ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِ‌ضُوا اللَّـهَ قَرْ‌ضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ‌ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّـهِ هُوَ خَيْرً‌ا وَأَعْظَمَ أَجْرً‌ا ۚ وَاسْتَغْفِرُ‌وا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٢٠المزمل
ترجمہ :آپ کا رب بخوبی جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھ کے لوگوں کی ایک جماعت قریب دو تہائی رات کے اور آدھی رات کے اور ایک تہائی رات کے تہجد پڑھتی ہے اور رات دن کا پورا اندازہ اللہ ہی کو ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم اسے ہرگز نہ نبھا سکو گے پس اس نے تم پر مہربانی کی ہے اس لئے جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لئے آسان ہو اتنا ہی پڑھو وہ جانتا ہے کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوں گے بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ کا فضل (یعنی روزی بھی) تلاش کریں گے اور کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد بھی کریں گے سوتم بہ آسانی جتنا قرآن پڑھ سکوپڑھواور نماز کی پابندی رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو اور اللہ کو اچھا قرض دو اور جو نیکی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے یہاں بہتر سے بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پاؤ گے اللہ سے معافی مانگتے رہو یقیناً اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
توضیح:ابتدائی دور میں رحمۃ اللعلمین رسول اللہ ﷺاور آپ کے پیارے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نماز تہجد میں ہر ارکان کو طول کر کے کیا کرتے تھے اور حالت قیام میں قرآن کی قرأت بہت لمبی ہوتی تھی رات کا ایک بڑا حصہ گزر جاتا تھا یہاں تک کہ خود حضور پاک ﷺ کے قدم مبارک سوجھ جاتے تھے ''لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا'' کے تحت اللہ رب العلمین نے تخفیف کا حکم ایت بالامیں نازل فرمایا اور اس میں اس کی حکمتیں بھی بیان فرما دیں کہ لوگوں میں کئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں قرأت قرآن میں بھی جتنا ہو سکے پڑھنے کا حکم دیا سبحان اللہ۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی پر ذرا غور تو کرو؟اب نماز تہجد فرض نہیں ہے بلکہ استحباب کا درجہ برقرار ہے جو پڑھے اس کے لئے اجر و ثواب زائد ہے اور جو نہ پڑھے اس پر کسی قسم کی گرفت نہیں ہے البتہ فرائض کا ترک کرنا کفر ہے اس لئے آگے کی آیت میں بیان ہوا کہ نمازوں کو پابندی کے ساتھ پڑھتے رہو اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی پابندی سے کرتے رہوپھر اس کے بعد اجر و ثواب کے ذخیروں کا ذکر ہے کہ اس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ یہاں بے حساب اس کا ثمرہ حاصل کرو گے اس لئے اللہ سے معافی مانگتے رہو تا کہ وہ تم پر مہربان ہو جائے ۔
وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ ﴿٥البینۃ
ترجمہ :اور انہیں اس کے سواکوئی حکم نہیں دیا گیا مگر یہ کہ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں دین اسی کے لئے خالص رکھیں توحیدی دین اور نماز کو قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں اور یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔
توضیح:یہ مدنی سورت کی آیت ہے یہود و نصاریٰ و مشرکین رحمۃ اللعلمین رسول اللہ ﷺ کو نبی برحق و پیغامبر موعود ہیں یہ جانتے تھے مگر محض حسدوبغض و عناد کی وجہ سے آپ پر ایمان نہیں رکھتے تھے ''الاماشاء اللہ'' اللہ تعالیٰ اس سورت میں اپنے پیغامبر کی بعثت کا مقصد بیان فرما رہا ہے کہ مختلف معبود ان باطل اور اپنے آباء و اجداد کے رسوم کو چھوڑ کر خالص ایک اللہ وحدہٗ لاشریک کو اپنا معبود حقیقی بنا لیں جس کا دین خالص ہے جو اس دین میں داخل ہوتا ہے اسے نماز اور زکوٰۃ جیسی نعمتیں جو خیر خواہی و اجتماعیت کی بہترین مثالیں ہیں اسے ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوتی ہے جوان پر عمل کرے اسے مخلوق میں سب سے بہتری کا درجہ ملا ہے اور جواسے چھوڑے وہ مخلوق میں سب سے برا ہے۔
رحمۃ اللعلمین کے پیارے اصحاب کرام نے اس پر عمل کیا تو انہیں اللہ تعالیٰ نے رضی اللہ عنھم و رضوعنہ کے لقب سے ملقب فرمایا ہے کاش یہ امت اسے سمجھ لے ۔

*****​
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسراباب

یقیمون الصلوٰۃ و ممّا رزقنھم ینفقون
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
الم ﴿١﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَ‌يْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَ‌ةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿٤﴾ أُولَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّ‌بِّهِمْ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٥البقرۃ
ترجمہ :اس کتاب کے (حق ہونے میں ) کوئی شک نہیں پرہیز گاروں کو راستہ دکھانے والی ہے جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے (مال) میں سے خرچ کرتے ہیں اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں ۔
توضیح :اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں متقین پرہیز گاروں کی صفات بیان فرمایا ہے ان میں سے ایک اہم وصف پرہیزگاری کے لیے اقامت نماز اور اس کے راستوں میں خرچ کرنا ہے ۔
جو لوگ ان صفات سے متصف ہوں گے وہی ہدایت والے اور وہی کامیاب ہونے والے ہیں افسوس آج ہم بے نمازی ہیں اور بخل وکنجوسی کو اپنائے ہوئے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہم سے دور ہو چکی ہے ہم بین الاقوامی حیثیت سے بھی پچھڑ چکے ہیں اور آخرت میں اس سے برا انجام ہونے والا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت مذکورہ سے سرفراز فرما دے آمین۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ‌ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَ‌بِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَ‌جَاتٌ عِندَ رَ‌بِّهِمْ وَمَغْفِرَ‌ةٌ وَرِ‌زْقٌ كَرِ‌يمٌ ﴿٤الانفال
ترجمہ :بس ایمان والے توایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کرسنائی جاتیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے لئے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے ۔
توضیح :اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مومنین کے ایمان کی کیفیت بیان فرمائی ہے کہ ایمان والے ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں جب کبھی بھی قرآنی آیات ان کے کانوں میں سنائی دیتی ہے یا پھر خود وہ تلاوت قرآن کے یا مطالعۂ قرآن میں محو رہتے ہیں تو ان کے ایمان میں زیادتی ہو جاتی ہے چونکہ وہ لوگ نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مال سے ضرور ت مندوں حاجت مندوں کو دیتے رہتے ہیں انھیں فی سبیل اللہ خرچ کرنے میں لطف حاصل ہوتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جنت میں ایسے نیک لوگوں کے لئے عظیم درجات بخشش و مغفرت اور رزق کریم کی بشارت سنائی ہے (اللھم اجعل منھم آمین
قُلْ أَنفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْ‌هًا لَّن يُتَقَبَّلَ مِنكُمْ ۖ إِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ ﴿٥٣﴾ وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُ‌وا بِاللَّـهِ وَبِرَ‌سُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَىٰ وَلَا يُنفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِ‌هُونَ ﴿٥٤﴾ فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُ‌ونَ ﴿٥٥﴾ وَيَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ إِنَّهُمْ لَمِنكُمْ وَمَا هُم مِّنكُمْ وَلَـٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَ‌قُونَ ﴿٥٦التوبہ
ترجمہ :کہہ دیجئے کہ تم خوشی یا ناخوشی کسی طرح بھی خرچ کرو قبول تو ہر گز نہ کیا جائے گا، یقیناً تم فاسق لوگ ہو کوئی سبب ان کے خرچ کی قبولیت کے نہ ہونے کا اس کے سوانہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور بڑی کاہلی سے ہی نماز کو آتے ہیں اور برے دل سے ہی خرچ کرتے ہیں پس آپ کو ان کے مال و اولاد تعجب میں نہ ڈال دیں اللہ کی چاہت یہی ہے کہ اس سے انھیں دنیا کی زندگی میں ہی سزادے اور ان کے کفر ہی کی حالت میں ان کی جانیں نکل جائیں یہ اللہ کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ یہ تمہاری جماعت کے لوگ ہیں حالانکہ وہ دراصل تمہارے نہیں بات صرف اتنی ہے کہ یہ ڈرپوک لوگ ہیں ۔
توضیح : آیات بالاسورۂ التوبہ کی ہیں جس میں بسم اللہ نہیں ہے منافقین و مشرکین کے عہد شکنی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی نازل ہوئی اس سورۂ میں منافقین اور مومنین کے فرق کو بتایا گیا ہے منافقین کے نیتوں میں کھوٹ تھا یہ لوگ نمازیں تو ضرور پڑھتے تھے مگر کاہلی اور سستی سے اذان سن کر فوراً نہیں آتے تھے بلکہ جب جماعت ختم ہونے کی ہوتی تو آتے تھے پھر کو ے کی ٹھونگ کی طرح جلدی جلدی پڑھ کر نکل جاتے تھے اور خرچ بھی کرتے تھے مگر منہ سکڑا کر دیتے اور بہانے بناتے ، دکھنے میں وضع قطع صوفیوں کی طرح، سلیقے میں امیر زادوں کی طرح اور قسمیں کھاکھا کر مسلمان کے دعوے کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھی ہونے کا ڈھونگ رچتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی پول کھول دی جو مذکورہ آیات میں بتایا گیا ہے کہیں ہماری زندگی ایسی تو نہیں ذرامحاسبہ کریں ۔
وہ نمازیں پڑھتے تھے مگرسستی سے پھر بھی ان کا حشر جہنم ہوا اور آج ہم تو نمازیں پڑھتے ہی نہیں اور بخیل ہیں ہمارا انجام کیا ہو گا ؟
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ صَبَرُ‌وا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَ‌بِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ سِرًّ‌ا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَ‌ءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ‌ ﴿٢٢﴾ جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّ‌يَّاتِهِمْ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ ﴿٢٣الرعد
ترجمہ :اور وہ اپنے رب کی رضامندی کی طلب کے لیے صبر کرتے ہیں اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں ان ہی کے لیے عاقبت کا گھر ہے ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولادوں میں سے بھی جو نیکو کا رہوں گے ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئیں گے ۔
توضیح : اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اپنی خوشنودی و رضا مندی کے لئے صبر کرنے کی تاکید کے ساتھ نمازوں کو برابر قائم کرنے اور اس کے دیئے ہوئے مال سے اس کے راستوں میں خرچ کرنے تاکید فرمائی ہے اور اسی کے ساتھ اہل جنت کے صفات میں اخلاق حسنہ کی تعلیم ہے کہ ہمارے نیک بندے ایسے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی برائی سے پیش آئے بد تمیزی کرے بدزبانی کرے گالیاں دے تو وہ اس کا جواب اچھائی سے دیتے ہیں اور معاف کر دیتے ہیں اور بہترین صبر کی مثال قائم کرتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے لئے ہم نے جنت کا وعدہ کیا ہے جن کے استقبال کے لئے جنت کے ہر دروازے پر ہمارے فرشتے کھڑے ہوں گے اور ان سے ملاقات کریں گے سبحان اللہ۔
وَجَعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا لِّيُضِلُّوا عَن سَبِيلِهِ ۗ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَ‌كُمْ إِلَى النَّارِ‌ ﴿٣٠﴾ قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنفِقُوا مِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ سِرًّ‌ا وَعَلَانِيَةً مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ ﴿٣١ابراہیم
ترجمہ :انھوں نے اللہ کے ہمسربنالیے کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں آپ کہہ دیجئے کہ خیر مزے کر لو تمہاری بازگشت تو آخر جہنم ہی ہے میرے ایماندار بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازوں کو قائم رکھیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے رہیں اس سے پہلے کہ وہ دن آ جائے جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی نہ دوستی اور محبت۔
توضیح : اللہ تعالیٰ نے آیات ہٰذا میں کافرین و مشرکین کی بغاوت کا ذکرفرمایا کہ انھوں نے رب کائنات کو بھلا کر اس کے ساجھی اس کے ہمسربنالئے ہیں اللہ کے بندوں کو اللہ کی صف میں کھڑا کئے ہیں کوئی کہہ رہا ہے یاغوث یا غریب نواز کوئی کوئی جئے جئے کے نعرہ وغیرہ وغیرہ اس کے بعد کتنے پیارے انداز میں رب العلمین نے فرمایا کہ میرے ایمان والے بندوں سے کہدو کہ میرے تعلق کے لئے نمازوں کی پابندی کریں میرے راستوں میں خرچ کرتے رہیں اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس دن کوئی خرید و فروخت ہو گی نہ کوئی دوستی اور محبت اعمال صالحہ ہی اصل وسیلہ ہیں نہ کہ غیر اللہ کے دامنوں کو تھامنا وسیلہ نیک اعمالوں میں نمازیں پڑھنا انفاق فی سبیل اللہ کرنا ہے وسیلہ یعنی ذریعہ ساری عبادتیں اللہ کے لئے خاص ہیں اور عبادتیں ہی وسیلہ ہیں ۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ‌ الْمُخْبِتِينَ ﴿٣٤﴾ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ‌ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِ‌ينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣٥الحج
ترجمہ :اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے انہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے ان کے دل تھرا جاتے ہیں ، انہیں جو برائی پہنچے اس پر صبر کرتے ہیں ، نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ اس میں سے بھی دیتے رہتے ہیں ۔
توضیح :اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں قربانی کا ذکر فرمایا کہ اے امت محمدیہ (ﷺ) صرف تم پر ہی قربانی نہیں لادی گئی ہے بلکہ ہر امت میں ہم نے اسے بطور آزمائش قربانی کے طریقے مقرر کئے تھے کہ تم ان چوپاؤں حلال جانوروں پر صرف اللہ کا نام ہی لینا اس میں کسی کی خوشنودی نہیں چاہنا ساری نذرو نیاز ہمارے لئے ہی کرنا کسی قبرو مزار والے بت وآستانے چرچ و مندر میں نہیں بلکہ ہمارے ہی واسطے سب مخصوص ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود صرف اللہ وحدہٗ لاشریک ہے تم سب اس کے تابع ہو کر اسی کے لئے قربانیاں کیا کروپھر اس کے بعد وہ اللہ کے بندوں کا تذکرہ ہے جن کے دل خوف الٰہی سے لرز جاتے ہیں مصیبت کے وقت صبر کرتے ہیں نمازیں قائم کرتے ہیں اور ہماری عطا کی گئی امانت مال سے خرچ بھی کرتے اقامت نماز اور انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے بندے اللہ رب العلمین سے ڈرنے والے ہیں ۔
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِ‌ضُونَ ﴿٣﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ﴿٤﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُ‌وجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ‌ مَلُومِينَ ﴿٦﴾ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَ‌اءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿٧﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَ‌اعُونَ ﴿٨﴾ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ﴿٩﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِ‌ثُونَ ﴿١٠﴾الَّذِينَ يَرِ‌ثُونَ الْفِرْ‌دَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿١١
المومنون
ترجمہ :شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں اور جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتوں میں سے نہیں ہیں جواس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حدسے تجاوز کر جانے والے ہیں اور جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں اور جواپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں یہی وارث ہیں جوفردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
توضیح : اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جن چیزوں کو بیان فرمایا ہے وہ بالکل واضح ہے مذکورہ فہرست میں اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے مومنین کی کامیابی میں سب سے پہلے نماز کے خشوع اور خضوع کو ذکر فرمایا نماز میں خشوع کیا ہے اس کے ہر ارکان کو اطمینان کے ساتھ ادا کئے جائیں جلدی جلدی کو ے کی ٹھونک نہیں مارنا ہے اور پھر آخری دسویں آیت میں دوبارہ نماز کی حفاظت کا ذکر ہے جس سے اس اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے پھر مذکورہ ہدایات پر عمل کرنے والوں کو جنت الفردوس کے وارثین کہا گیا ہے کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے جنت الفردوس جنت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے سبحان اللہ۔
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَٰلِكَ ۗ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ‌ ﴿٢٨﴾إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّـهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ سِرًّ‌ا وَعَلَانِيَةً يَرْ‌جُونَ تِجَارَ‌ةً لَّن تَبُورَ‌ ﴿٢٩﴾ لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَ‌هُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفُورٌ‌ شَكُورٌ‌ ﴿٣٠فاطر
ترجمہ :اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی بعض ایسے ہیں کہ ان کی رنگتیں مختلف ہیں اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں واقعی اللہ تعالیٰ زبردست بڑا بخشنے والا ہے جو لوگ کتاب اللہ کے تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارہ میں نہ ہو گی تاکہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ دے بے شک وہ بڑا بخشنے والا قدردان ہے ۔
توضیح : اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے نمونے کا ذکر فرمایا کہ اس کائنات میں کیسے کیسے انسانوں اور جانوروں کے اقسام ہیں اس کے بعد اس سے ڈرنے والوں کی پہچان بتائی ہے کہ جنہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا علم ہے وہی اس سے ڈرتے ہیں ورنہ جہلاء بڑے ہی شقی و بدبخت ہوتے ہیں اور وہ علماء کے دشمن ہوتے ہیں انہیں حقارت سے دیکھتے ہیں مگر اللہ نے علماء کی تعریف فرمائی ہے علماء سے مراد علماء حاملین کتاب وسنت ہیں ورنہ آج علماء سوء کا بازار گرم جو بدعات و خرافات کے موجد ہیں شرک و بدعات کو عام کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں اس سے ڈرنے والوں کی وضاحت فرمائی ہے کہ وہ لوگ اس کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں نمازیں پڑھتے اور ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے پوشیدہ ہو یا علانیہ خرچ کرتے ہیں اور یہ عمل وہ تجارت ہے جس میں کبھی بھی گھاٹا نہیں اور اس کا نفع اللہ کے یہاں ڈھیرسارا ہو گا جہاں ایک ایک نیکی کے لئے لوگ ترس رہے ہوں گے اللہ تعالیٰ پورا پورا بدلہ دے گا چونکہ اس کی شان ہی بخشش مغفرت ہے ۔
وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ‌ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُ‌ونَ ﴿٣٧﴾ وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَ‌بِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُ‌هُمْ شُورَ‌ىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣٨﴾وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنتَصِرُ‌ونَ ﴿٣٩﴾ وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُ‌هُ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ﴿٤٠الشوری
ترجمہ :اور کبیرہ گناہوں سے اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں اور غصے کے وقت (بھی) معاف کر دیتے ہیں اور اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ان کا(ہر) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور جو ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہمارے نام پر) دیتے ہیں اور جب ان پر ظلم (و زیادتی) ہو تو وہ صرف بدلہ لے لیتے ہیں اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کر دے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے ،(فی الواقع) اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔
توضیح : اللہ تعالیٰ نے اپنے عاجزین بندوں کا ذکر فرماتے ہوئے تعلیم بندگی سمجھائی ہے کہ یہ لوگ کبیرہ گناہوں ، بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور معافی کو معمول بتاتے ہیں اور اپنے رب کے فرمان پرعمل کرتے ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ لوگ نمازوں کو قائم کرتے ہیں اپنے کاموں کو باہمی مشورہ سے کرتے ہیں شورائی نظام اپناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستوں میں خرچ کرتے ہیں اور ساری وہ چیزوں پرعمل کرتے ہیں جس کا مذکورہ آیات میں ذکر ہے اور جو مذکورہ باتوں پرعمل نہ کرے وہ بڑاظالم ہے اور اللہ ظالموں کو بالکل پسندنہیں فرماتا ہے۔
كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَ‌هِينَةٌ ﴿٣٨﴾ إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ ﴿٣٩﴾ فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ ﴿٤٠﴾ عَنِ الْمُجْرِ‌مِينَ ﴿٤١﴾ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ‌ ﴿٤٢﴾ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ﴿٤٣﴾ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ ﴿٤٤﴾ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ ﴿٤٥
ترجمہ :ہرشخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے مگردائیں ہاتھ والے کہ وہ بہشتوں میں (بیٹھے ہوئے ) گناہ گاروں سے سوال کرتے ہوں گے تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالاوہ جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم بحث کرنے والے (انکاریوں ) کا ساتھ دے کر بحث مباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے اور روز جزاکو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ ہمیں موت آ گئی پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی۔
توضیح : ہرانسان گروی ہے اس سے چھٹکارے کے لیے نیک اعمال ضروری ہیں اہل جنت جہنم والوں سے پوچھیں گے کہ ذلت ورسوائی والا یہ بھیانک عذاب میں تم کو کو نسی چیزلے آئی، جہنمی کہیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور یتیموں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور فضول باتوں میں رہ کر ہم نے تباہی وبربادی اپنے سرلی جوتم آج ہمیں دیکھ رہے ہو روزجزا یعنی قیامت کا دن میدان محشر کو بھلا دیا تھا۔
معلوم ہواکہ نمازیں نہ پڑھنا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہ کرنا قیامت کے دن کو جھٹلانے کے مترادف ہے اور یہ عقیدہ کفار و مشرکین کا ہے اللہ ہماری حفاظت فرمائے آمین۔

*****​
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسراباب

الصلوٰۃ(نماز)
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَ‌ةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ ﴿٤٥البقرۃ
ترجمہ :صبر اور نماز کے ساتھ (اللہ سے ) مدد طلب کرو یہ بڑی مشکل ہے مگر ڈر رکھنے والوں پر
توضیح : اللہ تعالیٰ سے مدد اور اس کی خوشنودی کے لئے سب سے اہم وسیلہ یہی نماز اور صبر ہے خوشی ہو یا غم بیماری ہویاتندرستی ، امیری ہویا فقیری ہر حالت میں نماز اور صبر کو تھامے رہنا ہے نبی اکرم ﷺ کو جب کبھی بھی کوئی مشکل کام آ جاتا تو اسی صبر و نماز سے مدد لیتے تھے اللہ کی خوشنودی کا یہی سب سے بڑاوسیلہ ہے افسوس کہ ہم اس اہم وسیلہ کو فراموش کر بیٹھے ہیں ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٥٣البقرہ
ترجمہ :اے ایمان والو!صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
توضیح : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی صبر اور نماز کی اہمیت کو واضح فرمایا ہے انسان پر ہمیشہ دو طرح کے حالات آتے ہیں ایک عیش و آرام دوسرے مصیبت و پریشانی دونوں حالتیں آزمائشی ہیں اول الذکر میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے شکر گزاری کرنا ہے اور ثانی الذکر میں ثابت قدمی کے ساتھ صابر کرتے ہوئے عبادت الٰہی یعنی نمازوں کی پابندی کرنا ہے تب ہی اللہ کی رحمت ہمارے شامل حال رہے گی ان شاء اللہ۔
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ ﴿٢٣٨
ترجمہ :نمازوں کی حفاظت کیا کرو با الخصوص(عصر کی نماز) درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو۔
توضیح : حضرت بریدہ رضی اللہ عنہم روایت فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے عصر نماز چھوڑی اس کا کیابچاسب اکارت ہو گیا(بخاری) گویا نماز کے بغیر زندگی ہی ادھوری ہے جنگ خندق میں گھماسان کی جنگ چل رہی تھی کفار و مشرکین مسلسل یلغار کر رہے تھے اس وقت نمازیں پڑھنے کا موقع نہ مل سکا رحمۃ اللعلمین ﷺ نے بد دعا فرمائی کہ اللہ کافروں کی قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انھوں نے ہمیں نماز عصر ادا کرنے کا موقع نہ دیا بہرکیف بعد میں یہ نماز ادا کی گئیں اس کی فضیلت کا اندازہ لگائیں ۔
حضر میں سفر میں خوف میں نماز
مگر معاف نہیں کسی حال میں نماز​
وَإِذَا ضَرَ‌بْتُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُ‌وا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا ۚ إِنَّ الْكَافِرِ‌ينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾ وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَ‌ائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَ‌ىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَ‌هُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ۗ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ‌ أَوْ كُنتُم مَّرْ‌ضَىٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا حِذْرَ‌كُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِ‌ينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿١٠٢﴾ فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴿١٠٣النساء
ترجمہ :جب تم سفرمیں جا رہے ہو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں ، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے ، یقیناً کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں جب تم ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو تو چاہئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو، پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آ جائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آ جائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لئے رہے ، کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے بے خبر ہو جاؤ، تووہ تم پراچانک دھاوابول دیں ، ہاں اپنے ہتھیار اتار رکھنے میں اس وقت تم پرکوئی گناہ ہیں جب کہ تمہیں تکلیف ہویابوجہ بارش کے یابسبب بیما رہو جانے کے اور اپنے بچاؤ کی چیزیں ساتھ لئے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ نے منکروں کے لئے ذلت کی مارتیار کر رکھی ہے۔
پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو اور جب اطمینان پاؤ تو نماز قائم کرو یقیناً نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے ۔

توضیح :اللہ تعالیٰ نے آیت مذکورہ میں نماز سفر اور نماز خوف کے تعلق سے بیان فرمایا، نماز کسی حال میں معاف نہیں البتہ حالت مجبوری میں آسانی دے دی گئی ہے سفر میں نماز قصر کرنا اللہ تعالیٰ کو پسندہے سفر۴۸ میل کا ہو اور قیام مدت ۱۹دن تک کسی مسجد میں مقامی امام کے پیچھے پوری پڑھنا ہے قصر صرف چار رکعت فرض والی نماز کی ہے سنتیں نہیں پڑھنا ہے صرف نماز فجر اور نماز وتر مستثنیٰ ہیں خوف کی نماز کا طریقہ مذکورہ آیات میں ہے میدان جنگ میں جب دونوں فوجیں مومنوں و کافروں کی آمنے سامنے ہوں یاسخت سے سخت مسلم کش فسادات درپیش ہوں تب بھی نماز خوف ادا کی جائے گی۔ حالت بیماری میں بیٹھ کر یا لیٹ کر یا اشاروں سے نماز ادا کی جائے گی جب تک ہوش وحواس ہو گا نماز ہے بے ہوشی پر نہیں مگر نماز معاف نہیں کوئی کہے پیر، فقیر، ولی پر معاف ہے وہ جھوٹا شیطان ہے ۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز میں سستی کرنے والے منافق ہیں
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَ‌اءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُ‌ونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٤٢﴾ مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّـهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا ﴿١٤٣النساء
ترجمہ :بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی سی برائے نام کرتے ہیں۔
وہ درمیان میں ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں ، نہ پورے ان کی طرف نہ صحیح طور پر ان کی طرف اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہی میں ڈال دے تواس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا۔

توضیح : اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں منافقین کی نماز کا حال بیان فرمایا ہے منافقین کاہلی اور سستی کے ساتھ نماز پڑھتے تھے خصوصاً عشاء اور فجر کی نماز ان پر گویا پہاڑ تھی ایک موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ''یہ منافق کی نماز ہے ،یہ منافق کی نماز ہے یہ منافق کی نماز کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دوسینگوں کے درمیان ہو جاتا ہے تو اٹھتا ہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے '' (مسلم کتاب المساجد) آج کتنے ایسے لوگ دیکھنے میں ہر روز آتے ہیں کہ فجر میں جماعت کے بعد آتے ہیں اور مسجد میں کتنی اور جماعتیں قائم کرتے ہیں آپ بیٹھ کر گنتے جاؤ یہ منافقین ہیں منافقین نماز تو پڑھتے ہیں مگرسستی کے ساتھ اور ریاکاری کے لئے مگر آج مسلمان نماز پڑھتا ہی نہیں اس کا انجام ؟
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بے نمازی کافروں کے دوست ہیں
وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ ﴿٥٨المائدہ
ترجمہ :اور جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو تو وہ اسے ہنسی کھیل ٹھیرا لیتے ہیں یہ اس واسطے کہ بے عقل ہیں
توضیح : اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کفار و مشرکین سے دوستی کی ممانعت کی وجہ بیان فرمایا ہے کہ وہ لوگ دین اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں اذان اور نماز سے ان کو دشمنی ہے ان کی چاہت ہے کہ یہ لوگ مساجد سے کٹ جائیں اس لئے تو یہ لوگ مزار پرستی قبرپرستی والوں کا ساتھ دیتے ہیں ان کے ساتھ مل کر چادر چڑھاتے ہیں مگر نماز سے ان کو بیر ہے
حدیث میں آتا ہے کہ جب شیطان اذان کی آوازسنتا ہے تو گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے ، جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر آ جاتا ہے ، تکبیر کے وقت پھر پیٹھ پھیر کر چل دیتا ہے ، جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو پھر آ کر نمازیوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتا ہے (صحیح البخاری کتاب الأذان، صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ)
شیطان ہی کی طرح شیطان کے پیروکاروں کو اذان کی آواز اچھی نہیں لگتی، اس لیے وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں نمازیں پڑھو اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرو شیطان کو خوش نہ کرو۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز کا چھوڑنا شیطان کو خوش کرنا ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ‌ وَالْمَيْسِرُ‌ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِ‌جْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠المائدہ
ترجمہ :اے ایمان والوں !بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندی باتیں ، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تا کہ تم فلاح یاب ہو۔
شیطان تویوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یادسے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو اب بھی باز آ جاؤ اور تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول ﷺکی اطاعت کرتے رہو اور احتیاط رکھو اگر اعراض کرو گے تو یہ جان رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے ۔
توضیح : اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنا تیر سے ان سارے کاموں کی حرمت اور یہ کہ یہ سارے کام شیطانی غلیظ اور گندے کام ہیں اس کے ذریعہ شیطان آپس میں عداوت و دشمنی بغض و عناد کے لاوے بھڑکاتا ہے اور ان کاموں کے کرنے سے خصوصاً اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نمازوں سے بے حد دوری ہو جاتی ہے انسانوں کے دل سیاہ ہو جاتے ہیں ان کاموں کے کرنے سے فتنہ و فساد برپا ہو جاتا ہے اور شیطان اپنے منصوبوں کی تکمیل پر باغ باغ ہو جاتا ہے انسان اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کے بجائے شیطان کے پیروکار ہو جاتا ہے ۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز تقویٰ کی پہچان ہے
وَأَنْ أَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَاتَّقُوهُ ۚ وَهُوَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُ‌ونَ ﴿٧٢الانعام
ترجمہ :اور یہ کہ نماز کی پابندی کرو اور اس سے ڈرو اور وہی ہے جس کے پاس تم سب جمع کئے جاؤ گے ۔
توضیح : اللہ تعالیٰ ان آیات سے پہلے شرک اور کفر کے گھناؤنے انجام کا ذکر فرمایا اور اس کے بعد راہ مستقیم کی پہچان کہ اصل سیدھاراستہ اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت ہے کہ سارے انسان صرف اللہ رب العزت کے سامنے جھک جائیں اس کے مطیع و فرمانبردار ہو جائیں۔
اس کی اطاعت فرمانبرداری کی اہم علامت اقامت نماز بتائی گئی ہے کہ نماز قائم کرو اور اس سے ڈرو کیوں کہ تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تقویٰ اور پرہیزگاری اسی نماز سے حاصل ہوتی ہے اس کے بغیر کوئی متقی نہیں بن سکتا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سندخاص ہے۔
 
Last edited:
Top