- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
اللہ تعالیٰ کو بلا واسطہ پکارنا اور درمیان میں فوت شدگان کا وسیلہ نہ ڈالنا
بسم اللہ، والحمد للہ والصلاۃ والسلام علیٰ رسول اللہ! ... اما بعد!
اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہوئے اللہ کو ڈائریکٹ بغیر کسی واسطہ کے پکارنا چاہیے ﴿ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ﴾ ... سورة غافر: 60 کہ ’’تمہارا رب کہتا ہے "مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔‘‘
جب صحابہ کرام نے اس کے متعلّق نبی کریمﷺ سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ﴾ ... سورة البقرة: 186 کہ ’’اور اے نبﷺ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو اُنہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔‘‘
اللہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، پھر وسیلہ ڈالنے کی ضرورت!
گویا اللہ تعالیٰ ہم سے دور نہیں کہ ہمیں کسی اور کا وسیلہ ڈالنے کی ضرورت پڑے، اللہ تعالیٰ ہم سے بہت قریب ہیں : ﴿ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ ﴾ ... سورة هود: 61 کہ ’’وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے لہٰذا تم اس سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ، یقیناً میرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿ قُلْ إِن ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَىٰ نَفْسِي وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ﴾ ... سورة سبأ: 50 کہ ’’کہو اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں تو میری گمراہی کا وبال مجھ پر ہے، اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اُس وحی کی بنا پر ہوں جو میرا رب میرے اوپر نازل کرتا ہے، وہ سب کچھ سنتا ہے اور قریب ہی ہے۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ ﴾ ... سورة الواقعة:85 کہ’’اُس وقت تمہاری (ورثا کی) بہ نسبت ہم (اللہ تعالیٰ) اُس (مرنے والے) کے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم کو نظر نہیں آتے۔‘‘
بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ کہہ کر بات کی ختم فرما دی ﴿ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ﴾ ... سورة ق:16 کہ’’ہم اس (انسان) کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اُس سے قریب ہیں۔‘‘
دُعا میں فوت شدگان کا وسیلہ ڈالنا شرک کی ایک نوع اور اللہ ہی توہین ہے!
اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہوئے فوت شدگان کا وسیلہ ڈالنا اور اللہ تعالیٰ کو ان کا واسطہ دینا اللہ تعالیٰ کی توہین اور اللہ کے ساتھ شرک ہے، توہین اس طرح کہ گویا اللہ تعالیٰ کو دنیاوی افسروں اور امراء پر قیاس کیا جاتا ہے کہ جس طرح ان تک رسائی کیلئے واسطے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ تک رسائی کیلئے شائد واسطے کی ضرورت ہے؟ حالانکہ دنیاوی امراء وافسران سفارش کرنے والوں کے زیر بار ہوتے ہیں، لہٰذا انہیں ان کی ماننا پڑتی ہے لیکن کیا اللہ تعالیٰ پر بھی کوئی اس طرح نعوذ باللہ رعب جما سکتا ہے، (نقل کفر، کفر نہ باشد) حالانکہ فرمان باری تعٰالیٰ ہے: ﴿ فلا تضربوا لله الأمثال ﴾ ... سورة النحل: 74 کہ ’’اللہ رب العٰلمین کیلئے (دنیاوی) مثالیں بیان نہ کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے کتنا سچ فرمایا کہ دل کٹ کر رہ جاتا ہے: ﴿ مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴾ ... سورة الحج: 74 کہ ’’اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے۔‘‘ بلکہ اگر کسی کو اگر سمجھایا جائے کہ بھائی اس طرح کرنا اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں، بلکہ اس میں اللہ کی توہین ہے تو بجائے اس کے کہ اس کے دل میں اللہ دل اور رعب پیدا ہو وہ اپنی حقیقت بھول کر اپنے رب العٰلمین کے متعلّق آیاتِ کریمہ کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے بحث ومباحثہ شروع کر دیتا ہے ﴿ أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ ﴾... سورة يس:77 کہ ’’کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑالو بن کر کھڑا ہو گیا؟‘‘ (اس موضوع کی مزید تفصیل دیکھنے کیلئے مولانا محمد اقبال کیلانی﷾ کی کتاب ’توحید کے مسائل‘ کا مطالعہ کریں، جس کا لنک ’اہل توحید بھائی‘ نے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر فرمائیں۔)
اور شرک اس طرح کہ اللہ تعالیٰ مشرکین مکہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿ أَلَا للهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ ﴾ ... سورة الزمر: 3 کہ ’’خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے رہے وہ لوگ جنہوں نے اُس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں (اور اپنے اِس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ) ہم تو اُن کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں، اللہ یقیناً اُن کے درمیان اُن تمام باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو‘‘
اس آیت کریمہ سے درج ذیل باتوں کا معلوم ہوا:
- صرف اللہ وحدہ لا شریک کو پکارنا اور بلا واسطہ پکارنا ہی خالص عبادت ہے، اور اس میں کسی کا وسیلہ ڈالنا گویا ملاوٹ ہے﴿ أَلَا للهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ﴾
- جو اللہ سے دعا کرتے ہوئے (فوت شدگان کا) وسیلہ ڈالتے ہیں، تو گویا وہ انہیں اللہ کے علاوہ اولیاء بناتے ہیں ﴿ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ﴾ اور یہ گویا کہ ان کی عبادت ہی ہے ﴿ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللهِ زُلْفَىٰ ﴾ گویا کہ یہ اللہ کے فرمان کے مطابق شرک ہوا۔
- ایسے لوگ دین میں اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کا سبب ہیں ﴿ إِنَّ اللهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾
- ایسے لوگ جھوٹے اور بہت بڑے کافر ہیں ﴿ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ ﴾
واللہ تعالیٰ اعلم!