١۔رضابھائی!ویڈیو دیکھی ہے ،انسان کو غصہ تو آتا ہے لیکن غصہ مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے بھی تو کچھ کام کرنا ہے ۔ اہل حق اگر حق ہی پھیلاتے رہیں اور باطل پرست خاموش رہیں تو آزمائش کس چیز کی ہے۔
٢۔ ذرا س آیت پر غور کریں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پر کیسے کیسے الزامات لگائے گئے، آپ کو مجنون، پاگل، شاعر، جادوگر اور کاہن وغیرہ کہا گیا اور آپ کو ان القابات پر کس قدر رنج ہوتا تھا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ }الحجر97
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!ہم جانتے ہیں کہ جو یہ بکواس کرتےہیں اس سے آپ کا سینہ بھنچتا ہے ۔
لیکن اللہ نے ایسا کیوں کیا ہے کہ ہر دور میں اہل حق کو اہل باطل سے باتیں اور طعن سننا پڑا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل حق کے درجات بلند کرنا چاہتا ہے اور ان کے صبر کی آزمائش چاہتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
{وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوّاً مِّنَ الْمُجْرِمِينَ وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِياً وَنَصِيراً }الفرقان31
اور اسی طرح ہم نے مجرمین میں سے ہر نبی کے دشمن پیدا کیے ۔ اور آپ کا رب ہادی اور مدگار ہونے کے اعتبار سے کافی ہے۔
تو جب اللہ نے انبیا کے دشمن بنائے اور انہیں باتیں سنائیں گی تو ہمارے علماء کا تو درجہ بہت کم ہے ۔ بہر حال میرے خیال میں ہر ایر اغیرا اور نتھو خیرا اس قابل بھی نہیں ہوتا کہ اسے جواب دیا جائے۔اس طعن وتشنیع پر ان اکابر علماء کے لیے اجر وثواب کی امید رکھی جائے اور حق کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا اور عام کیا جائے۔