عمر فاروق سلفی
رکن
- شمولیت
- جولائی 11، 2017
- پیغامات
- 57
- ری ایکشن اسکور
- 9
- پوائنٹ
- 37
تحریر : حیدر علی قدوسی
تمہید
اہل حدیثو کی ویب سائیٹ محدث فورم پر ، ایک آدمی نے سوال کیا
کے حافظ ابن حزم اندلسی جہمی تھے اس کے بارے تفصیلی معلومات دیں
اسی فورم پر ایک ابوالحسن علوی نامی شخص نے آتے ہی بغیر اثبات اور دلیل کے ایک عظیم محدث اور سلفی امام حافظ ابن حزم کو جہمی قرار دیااس لنک سے آپ خود ملاحظہ فرمائیں
لنک
دو چار اردو کتابیں پڑھ کر آ جاتے ہیں علماء پر فتوی لگانے _
جن کو اتنا بھی نہیں پتہ محلی ابن حزم کی جلدیں کتنی ہیں وہ بھی آ جاتے ہیں جی یوں لکھا محلی میں _ اور ستم بالاۓ ستم تو یہ ہے _ ان کو کوئی منع بھی نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی اتنی تحقیق کرتا ہے _
بہرحال ہم نے حافظ ابن حزم پر جہمیہ کے الزام کا رد آئندہ سطور میں پیش کیا ہے جس کے مطالعہ کے بعد آپ ان شاء اللہ اصل بات سے واقف ہو جائیں گے _
حافظ ابن حزم کا مختصر تعارف
ولادت
آپ رحمہ اللہ 29 رمضان 384 ھجری میں قرطبہ کے وسطی علاقہ اندلس میں پیدا ہوے
نام
علی بن احمد بن حزم
نسب
علی بن احمد بن سعید بن حزم بن غالب بن صالح بن سفیان بن یزید بن ابوسفیان بن امیہ اموی
طبقات الامم للقاضی صاعد بن احمد اندلسی، معجم الادباء جلد12 صفحہ 237 طبع الرفاعی
آپ رحمہ اللہ کے جد امجد سیدنا یزید بن ابوسفیان جو سیدنا امیر معاویہ کے بھائی تھے ان کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شام کے اولین لشکر کا امیر بنا کر بھیجا
معجم الادباء جلد 12 صفحہ 237، المقری جلد 6، صفحہ 203
وفات
آپ رحمہ اللہ 28 شعبان 454 میں فوت ہوۓ
چونکہ حافظ ابن حزم پر جہمیہ کا الزام لگا گیا ہے اس لئے مناسب ہے جہمیہ کی تاریخ اور عقائد بیان کیا جاۓ اور پھر ان کا رد بھی حافظ ابن حزم کے قلم سے کیا جاۓ تاکہ اصل بات واضح ہو جاۓ کے حافظ ابن حزم سلفی، اھل السنہ اھلحدیث، تھے نہ کے جہمی _
جہمیہ تاریخ و عقائد
جہیہ کا بانی جہم بن صفوان ہے ۔ یہ شخص فرقہ جبریہ میں سے تھا جو اصلا کوفی نسل میں سے تھا یہ خلافت بنو امیہ کے دور میں نہر جیحون کے کنارے واقع شہر ترمذ میں پیدا ہوا جو حقیقتا یہودی تھا، صحیح ابن خزیمہ نے ابن قدامہ کے طریق سے ابو معاذ بلخی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جہم بن صفوان نہایت فصیح وبلیغ تھا لیکن علم سے بے بہرہ جا ہل ہو نے کے ساتھ اہل علم کی مجلسوں سے قطعا نا آشنا تھا اور صرف معرفت قلب کو عین ایمان سمجھتا تھا
اللہ تعالی کے بارے میں جہم بن صفوان نے تشبیہ کی نفی میں اتنی شدت برتی کہ وہ تعطیل وتمجید کی دلدل میں جا گھسا ، خلافت بنو امیہ کے آخری دور میں 130 ہجری میں مسلم بن احوز مازنی نے خراسان کے مشہور شہر مرو میں جہم بن صفوان کو قتل کر دیا ، اس طرح امت کو ایک فتین سے نجات ملی ،اس کی طرف منسوب فرقہ کو، فرقہ جہمیہ کہا جاتا ہے لیکن جہمی خود اپنے آپ کو صوفیاء کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔
جھمیہ کے اعتقاد
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا قول ہے کے ایمان صرف اللہ کی معرفت کا رسول کو پہچاننے کا اور جو کچھ اللہ کے پاس سے اترا ہے اس پہنچاننے کا نام ہے قرآن مخلوق ہے اللہ تعالی نے موسی سے کلام نہیں فرمایا
اللہ تعالی کلام نہیں کیا کرتا نہ دیکھا جاتا ہے نہ اس کی کوئی مخضوص جگہ ہے نہ اس کا عرش ہے اور نہ کرسی ہے اور نہ وہ عرش پر ہے یہ لول میزان ، عذاب قبر اور جنت و دوزخ کے مخلوق ہونے کے قائل نہیں
اللہ تعالی نے کسی سے کلام نہیں کرے گا اور نہ قیامت کے دن کسی کو دیکھے گا نہ جنتی اللہ تعالی کو جنت میں دیکھیں گے _
غنیتہ الطالبین حصہ اول صفحہ 214 طبع نفیس اکیڈمی کراچی
اس کا عقیدہ تھا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے نہ اس میں قدرت پائی جاتی ہے، نہ ارادہ اور نہ اختیار ۔ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ نے انسان کو جبرا گناہو ں پر لگا رکھا ہے۔ ایمان کے بارے میں اس کا عقیدہ تھا کہ ایمان صرف معرفت کا نام ہے جو یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف سے با خبر ہیں وہ مومن ہیں یہ فرقہ اللہ تعالی کی صفات کا منکر تھا ۔یہ کہتا تھا کہ اللہ تعالی کو ان اوصاف سے متصف نہیں کیا جا سکتا جن کا اطلاق مخلوق پر ہوتا ہے ۔ان کے نزدیک اللہ تعالی کی تمام صفات کا انکار کرنا توحید ہے ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :جو کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالی علم و قدرت رکھتا ہے ، یا اُسے آخرت میں دیکھا جائے گا ،یا یہ کہے کہ قرآن اللہ کی طرف نازل ہونے والا کلام ہے جو مخلوق نہیں ، جہمیہ کے نزدیک وہ شخص موحد نہیں بلکہ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دینے والا یعنی مُشَبَّہ ہے ۔
مجموع الفتاوی جلد 3 صفحہ 99
جہمیہ کا کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی تمام صفات مخلوق ہیں،وہ ایک ایسے خیالی خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس کا تصور کرنا ذہن ہی میں ممکن ہے کیونکہ حقیقت میں جو بھی چیز وجود رکھتی ہے اُس کی صفات ہوتی ہے ۔صفات سے علیحدہ کسی ذات کا حقیقت میں وجود نہیں ہے ۔صفات کے انکار میں غلو کا یہ حال تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں یہ بھی کہنا جائز نہیں سمجھتے تھے کہ اللہ ایک شےچیز ہے۔
امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جہم کا کہنا تھا :اللہ تعالی کوشيء کہنا جائز نہیں ،کیونکہ شيء اُس مخلوق کو کہتے ہیں جس جیسا کوئی اور پایا جاتا ہو ۔جبکہ تمام مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالی شيء ہے مگر وہ دیگر اشیاء کی مانند نہیں ہے ۔
مقالات الاسلامیین جلد1 صفحہ 259
اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
قُلْ اَىُّ شَىْءٍ اَكْبَـرُ شَهَادَةً قُلِ اللّهُ شَهِيْدٌ بَيْنِىْ وَبَيْنَكُمْ
الانعام : 19
پوچھیے سب سے بڑھ کر سچی گواہی کس شَيْءٍ کی ہو سکتی ہے ؟ کہہ دیجیے اللہ کی جو میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے ۔
جہمیہ کا اللہ کے اسماء و صفات کا عقیدہ اللہ تعالی کی ذات کا انکار ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
تعطیل کرنے والے جہمیہ کاعقیدہ حقیقت میں وہی عقیدہ ہے جو فرعون کے ہاں پایا جاتا تھا ۔وہ خالق اُس کے کلام اور دین کا انکار کرتا تھا ۔جیسا کہ اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے
مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلہٍ غَيْرِيْ
القصص: 38
میں نے اپنے سوا تمھارے لیے کوئی معبود نہیں جانا۔
فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلى
النازعات: 24
اس نے کہا میں تمھارا سب سے بہتر رب ہوں۔
فرعون جہمیہ کی طرح موسی علیہ السلام کے اللہ سے ہم کلام ہونے کا انکاری تھا ، اسی طرح وہ اس بات کا منکر بھی تھا کہ آسمانوں کے اوپر موسی علیہ السلام کا کوئی معبود ہے ۔
مجموع الفتاوی جلد 13 صفحہ185
اسی لیے جہمیہ کے عقیدہ نے حلول کی بنیاد رکھی جو کہ اللہ رب العالمین کے ساتھ صریح کفر ہے
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
جہمیہ کے جمہور عبادت گزارصوفیاء حلول کے عقیدہ کا اظہار کرتے تھے … اس لیے اللہ کی صفات کی نفی کرنے والے جہمیہ شرک کی ایک قسم میں داخل ہیں ۔ہر معطل صفات کا انکار کرنے والا مشرک ہوتا ہے جبکہ ہر مشرک کا معطل ہونا ضروری نہیں ہے ،جہمیہ کا عقیدہ تعطیل کو لازم کرتا ہے ۔
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں
اوران کے نزدیک ایمان شئ واحد ہے دل میں ۔
الایمان :ص 308
او رامام بخاری فرماتے ہیں
نظرت فی کلام الیهود والنصاری والمجوس فما رأیت قوما أضل فی کفرهم من الجهمیة وإنی لأستجهل من لا یکفرهم إلا من لا یعرف کفرهم و قال ما أبالی صلیت خلف الجهمي والرافضی أم صلیت خلف الیهود و النصاری
شرح السنہ للبغوی:1؍194,195،خلق افعال العباد: رقم 31, 51
میں نے یہود و نصاری او رمجوس کے کلام میں غورو فکر کیا ہے پس میں نے کسی ایسی قوم کو نہیں دیکھا جو اپنے کفر میں جھمیہ سے بڑھ کر گمراہ ہوں اور جو ان کی تکفیر نہیں کرتا میں اس کو جاہل سمجھتا ہوں
درء التعارض جلد10 صفحہ 288، 289
سلام بن ابی مطیع رحمہ اللہ کہتے ہیں جہمیہ کفار ہیں۔یزید بن ہارون رحمہ اللہ کہتے ہیں: جہمیہ کفار ہیں۔
الرد علی الجہمیہ :111
البتہ وہ لوگ جو جہمی عقائد سے متاثر تو ہیں مگر غالی نہیں‘ ملت اسلام سے خارج نہیں ہیں بلکہ اُن کا شمار 72 گروہوں میں ہوتا ہے ۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں
امام احمدرحمہ اللہ نے جہمیہ کے ہر فرد کو کافر نہیں کہا ،نہ ہر اس شخص کو کافر کہا کہ جس نے یہ کہا کہ وہ جہمی ہے۔نہ اسے کہ جس نے جہمیہ کی بعض بدعات میں ان کی موافقت کی ، بلکہ آپ نے قرآن کو مخلوق کہنے والے اُن جہمیہ کے پیچھے نماز پڑھی جو اپنی بدعت کی طرف بلانے والے ،اس پر لوگوں کا امتحان لینے والے اور جو ان کی موافقت نہ کرے اس کو سخت سزائیں پہنچانے والے تھے ۔آپ ان کو مومن مانتے اور ان کی امارت تسلیم کرتے اور انکے لیے دعا کرتے تھے۔
مجموع الفتاوی جلد 7 صفحہ 507،508
اس تمام بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کے جھمیہ کافر، جہنمی ہیں تو ان کے بقول ابن حزم کافر ٹھہرا معاذ اللہ_
آپ نے جھمیہ کے عقائد پڑھ لئے اب آئیے حافظ ابن حزم کے عقائد پڑھتے ہیں ، حافظ ابن حزم اتباع بالسنہ کے معاملے میں بہت سخت تھے، آپ رحمہ اللہ نے ہی پہلی بار تقلید، اور قیاس مذاھب کا رد کیا، یہ بات پڑھ کر رونا آتا ہے حافظ ابن حزم جہمیہ تھے حالانکہ آپ نے باب باندھ کا خوارج کا رد کیا، باب باندھ کر معتزلی کا رد کیا، جھمیہ کے باطل نظریات کا رد کیا جہم بن صفوان کو کافر قرار دیا _اھل حدیث کا تیسری صدی کا عظیم محدث ہو اور ایک دو ٹکے کا ملاں آ کر ان پر طعن کرۓ اس کی مرمت کرنی چاہیے _
محلی ابن حزم کے اقوال کی بنیاد پر ان کو جہمی کہنے والو
محلی عقائد و مسائل کی کتاب ھے جس میں اقوال ہیں ان ضعیف اقوال کو ابن حزم کا مذہب مانتے ہو ؟ پھر سنن اربعہ، اور مسانید کی ضعیف احادیث کو بھی ان محدثین کا مذھب مان لو
شرم تو نہیں آتی ہو گی تیس مار خان بنتے ہوۓ؟
قارئین حضرات جہمیہ کا عقیدہ ہے اللہ ایک شے ہے جبکہ اس کے برعکس حافظ ابن حزم کا عقیدہ کیا ھے
آپ نے اس بات کو کفر قرار دیااور فرمایا
لا تشبہہ عزوجل شئی من خلقا
اللہ مخلوق کی طرح شے نہیں ہے
معجم الفقہ ابن حزم لشیخ الاسلام محمد منتصر باللہ الزمزی باب اللہ عزوجل جلد 1 صفحہ 124
جھمیہ کا عقیدہ ہے اللہ آسمان دنیا پر نزول نہیں فرماتا ہے
جبکہ حافظ ابن حزم نے کہا نزل الاسما الدنیا
معجم الفقہ ابن حزم لشیخ الاسلام محمد منتصر باللہ الزمزی باب اللہ عزوجل جلد 1 صفحہ 124
جہمیہ کے ہاں قرآن مخلوق ہے جبکہ حافظ ابن حزم نے کہا
لیس القرآن مخلوق ھو کلام اللہ تعالی
قرآن مخلوق نہیں اللہ کا کلام ہے
اور جس نے انکار کیا فقد کفر
معجم الفقہ ابن حزم لشیخ الاسلام محمد منتصر باللہ الزمزی باب اللہ عزوجل جلد 1 صفحہ 125
حافظ ابن حزم نے تمام باطل فرقوں کا باب باندھ کا رد کیا جن میں سرفہرست جہمیہ ہیں
ابن حزم السیرہ ، والفقہ للامام ابو زھرہ صفحہ 126، 127 طبع دار الفکر قاھرہ
ابن حزم از پروفیسر غلام احمد حریری صفحہ 197، 199
اس کے علاوہ ملاحظہ ہو
منھج ابن حزم فی دراستہ الفرق تالیف صالح بن ضیف اللہ حمیدی طبع جامعہ ام القری
حافظ ابن حزم اپنی کتاب میں جہم بن صفوان کے تمام عقائد کو بیان کرنے کے بعد ان کو کافر قرار دیتے ہیں
الدرۃ فیما یجب الاعتقاد للابن حزم صفحہ 578 طبع دار ابن حزم بیروت
باطل فرقوں کے عقائد کے رد پر سے مفصل اور جامع کتاب میں دس صفات پر مشتمل باب باندھ کر حافظ ابن حزم نے جھمیہ کا رد کیا
الفصل فی الملل والاھوا والنحل للابن حزم جلد 1 صفحہ 90
حافظ ابن حزم نے یہ کتاب باطل فرقوں پر تالیف کی اس کی چھ جلدیں اس بات کی شاہد ھیں حافظ ابن حزم اھل حدیث تھے جہمی نہیں تھے اگر جہمی ہوتے تو جہم بن صفوان کو کافر نہ کہتے اور نہ ان اعتقاد کا رد کرتے مزید وضاحت کے لئے مزکورہ کتب کا مطالعہ کریں
تمہید
اہل حدیثو کی ویب سائیٹ محدث فورم پر ، ایک آدمی نے سوال کیا
کے حافظ ابن حزم اندلسی جہمی تھے اس کے بارے تفصیلی معلومات دیں
اسی فورم پر ایک ابوالحسن علوی نامی شخص نے آتے ہی بغیر اثبات اور دلیل کے ایک عظیم محدث اور سلفی امام حافظ ابن حزم کو جہمی قرار دیااس لنک سے آپ خود ملاحظہ فرمائیں
لنک
دو چار اردو کتابیں پڑھ کر آ جاتے ہیں علماء پر فتوی لگانے _
جن کو اتنا بھی نہیں پتہ محلی ابن حزم کی جلدیں کتنی ہیں وہ بھی آ جاتے ہیں جی یوں لکھا محلی میں _ اور ستم بالاۓ ستم تو یہ ہے _ ان کو کوئی منع بھی نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی اتنی تحقیق کرتا ہے _
بہرحال ہم نے حافظ ابن حزم پر جہمیہ کے الزام کا رد آئندہ سطور میں پیش کیا ہے جس کے مطالعہ کے بعد آپ ان شاء اللہ اصل بات سے واقف ہو جائیں گے _
حافظ ابن حزم کا مختصر تعارف
ولادت
آپ رحمہ اللہ 29 رمضان 384 ھجری میں قرطبہ کے وسطی علاقہ اندلس میں پیدا ہوے
نام
علی بن احمد بن حزم
نسب
علی بن احمد بن سعید بن حزم بن غالب بن صالح بن سفیان بن یزید بن ابوسفیان بن امیہ اموی
طبقات الامم للقاضی صاعد بن احمد اندلسی، معجم الادباء جلد12 صفحہ 237 طبع الرفاعی
آپ رحمہ اللہ کے جد امجد سیدنا یزید بن ابوسفیان جو سیدنا امیر معاویہ کے بھائی تھے ان کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شام کے اولین لشکر کا امیر بنا کر بھیجا
معجم الادباء جلد 12 صفحہ 237، المقری جلد 6، صفحہ 203
وفات
آپ رحمہ اللہ 28 شعبان 454 میں فوت ہوۓ
چونکہ حافظ ابن حزم پر جہمیہ کا الزام لگا گیا ہے اس لئے مناسب ہے جہمیہ کی تاریخ اور عقائد بیان کیا جاۓ اور پھر ان کا رد بھی حافظ ابن حزم کے قلم سے کیا جاۓ تاکہ اصل بات واضح ہو جاۓ کے حافظ ابن حزم سلفی، اھل السنہ اھلحدیث، تھے نہ کے جہمی _
جہمیہ تاریخ و عقائد
جہیہ کا بانی جہم بن صفوان ہے ۔ یہ شخص فرقہ جبریہ میں سے تھا جو اصلا کوفی نسل میں سے تھا یہ خلافت بنو امیہ کے دور میں نہر جیحون کے کنارے واقع شہر ترمذ میں پیدا ہوا جو حقیقتا یہودی تھا، صحیح ابن خزیمہ نے ابن قدامہ کے طریق سے ابو معاذ بلخی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جہم بن صفوان نہایت فصیح وبلیغ تھا لیکن علم سے بے بہرہ جا ہل ہو نے کے ساتھ اہل علم کی مجلسوں سے قطعا نا آشنا تھا اور صرف معرفت قلب کو عین ایمان سمجھتا تھا
اللہ تعالی کے بارے میں جہم بن صفوان نے تشبیہ کی نفی میں اتنی شدت برتی کہ وہ تعطیل وتمجید کی دلدل میں جا گھسا ، خلافت بنو امیہ کے آخری دور میں 130 ہجری میں مسلم بن احوز مازنی نے خراسان کے مشہور شہر مرو میں جہم بن صفوان کو قتل کر دیا ، اس طرح امت کو ایک فتین سے نجات ملی ،اس کی طرف منسوب فرقہ کو، فرقہ جہمیہ کہا جاتا ہے لیکن جہمی خود اپنے آپ کو صوفیاء کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔
جھمیہ کے اعتقاد
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا قول ہے کے ایمان صرف اللہ کی معرفت کا رسول کو پہچاننے کا اور جو کچھ اللہ کے پاس سے اترا ہے اس پہنچاننے کا نام ہے قرآن مخلوق ہے اللہ تعالی نے موسی سے کلام نہیں فرمایا
اللہ تعالی کلام نہیں کیا کرتا نہ دیکھا جاتا ہے نہ اس کی کوئی مخضوص جگہ ہے نہ اس کا عرش ہے اور نہ کرسی ہے اور نہ وہ عرش پر ہے یہ لول میزان ، عذاب قبر اور جنت و دوزخ کے مخلوق ہونے کے قائل نہیں
اللہ تعالی نے کسی سے کلام نہیں کرے گا اور نہ قیامت کے دن کسی کو دیکھے گا نہ جنتی اللہ تعالی کو جنت میں دیکھیں گے _
غنیتہ الطالبین حصہ اول صفحہ 214 طبع نفیس اکیڈمی کراچی
اس کا عقیدہ تھا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے نہ اس میں قدرت پائی جاتی ہے، نہ ارادہ اور نہ اختیار ۔ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ نے انسان کو جبرا گناہو ں پر لگا رکھا ہے۔ ایمان کے بارے میں اس کا عقیدہ تھا کہ ایمان صرف معرفت کا نام ہے جو یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف سے با خبر ہیں وہ مومن ہیں یہ فرقہ اللہ تعالی کی صفات کا منکر تھا ۔یہ کہتا تھا کہ اللہ تعالی کو ان اوصاف سے متصف نہیں کیا جا سکتا جن کا اطلاق مخلوق پر ہوتا ہے ۔ان کے نزدیک اللہ تعالی کی تمام صفات کا انکار کرنا توحید ہے ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :جو کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالی علم و قدرت رکھتا ہے ، یا اُسے آخرت میں دیکھا جائے گا ،یا یہ کہے کہ قرآن اللہ کی طرف نازل ہونے والا کلام ہے جو مخلوق نہیں ، جہمیہ کے نزدیک وہ شخص موحد نہیں بلکہ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دینے والا یعنی مُشَبَّہ ہے ۔
مجموع الفتاوی جلد 3 صفحہ 99
جہمیہ کا کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی تمام صفات مخلوق ہیں،وہ ایک ایسے خیالی خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس کا تصور کرنا ذہن ہی میں ممکن ہے کیونکہ حقیقت میں جو بھی چیز وجود رکھتی ہے اُس کی صفات ہوتی ہے ۔صفات سے علیحدہ کسی ذات کا حقیقت میں وجود نہیں ہے ۔صفات کے انکار میں غلو کا یہ حال تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں یہ بھی کہنا جائز نہیں سمجھتے تھے کہ اللہ ایک شےچیز ہے۔
امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جہم کا کہنا تھا :اللہ تعالی کوشيء کہنا جائز نہیں ،کیونکہ شيء اُس مخلوق کو کہتے ہیں جس جیسا کوئی اور پایا جاتا ہو ۔جبکہ تمام مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالی شيء ہے مگر وہ دیگر اشیاء کی مانند نہیں ہے ۔
مقالات الاسلامیین جلد1 صفحہ 259
اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
قُلْ اَىُّ شَىْءٍ اَكْبَـرُ شَهَادَةً قُلِ اللّهُ شَهِيْدٌ بَيْنِىْ وَبَيْنَكُمْ
الانعام : 19
پوچھیے سب سے بڑھ کر سچی گواہی کس شَيْءٍ کی ہو سکتی ہے ؟ کہہ دیجیے اللہ کی جو میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے ۔
جہمیہ کا اللہ کے اسماء و صفات کا عقیدہ اللہ تعالی کی ذات کا انکار ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
تعطیل کرنے والے جہمیہ کاعقیدہ حقیقت میں وہی عقیدہ ہے جو فرعون کے ہاں پایا جاتا تھا ۔وہ خالق اُس کے کلام اور دین کا انکار کرتا تھا ۔جیسا کہ اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے
مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلہٍ غَيْرِيْ
القصص: 38
میں نے اپنے سوا تمھارے لیے کوئی معبود نہیں جانا۔
فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلى
النازعات: 24
اس نے کہا میں تمھارا سب سے بہتر رب ہوں۔
فرعون جہمیہ کی طرح موسی علیہ السلام کے اللہ سے ہم کلام ہونے کا انکاری تھا ، اسی طرح وہ اس بات کا منکر بھی تھا کہ آسمانوں کے اوپر موسی علیہ السلام کا کوئی معبود ہے ۔
مجموع الفتاوی جلد 13 صفحہ185
اسی لیے جہمیہ کے عقیدہ نے حلول کی بنیاد رکھی جو کہ اللہ رب العالمین کے ساتھ صریح کفر ہے
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
جہمیہ کے جمہور عبادت گزارصوفیاء حلول کے عقیدہ کا اظہار کرتے تھے … اس لیے اللہ کی صفات کی نفی کرنے والے جہمیہ شرک کی ایک قسم میں داخل ہیں ۔ہر معطل صفات کا انکار کرنے والا مشرک ہوتا ہے جبکہ ہر مشرک کا معطل ہونا ضروری نہیں ہے ،جہمیہ کا عقیدہ تعطیل کو لازم کرتا ہے ۔
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں
اوران کے نزدیک ایمان شئ واحد ہے دل میں ۔
الایمان :ص 308
او رامام بخاری فرماتے ہیں
نظرت فی کلام الیهود والنصاری والمجوس فما رأیت قوما أضل فی کفرهم من الجهمیة وإنی لأستجهل من لا یکفرهم إلا من لا یعرف کفرهم و قال ما أبالی صلیت خلف الجهمي والرافضی أم صلیت خلف الیهود و النصاری
شرح السنہ للبغوی:1؍194,195،خلق افعال العباد: رقم 31, 51
میں نے یہود و نصاری او رمجوس کے کلام میں غورو فکر کیا ہے پس میں نے کسی ایسی قوم کو نہیں دیکھا جو اپنے کفر میں جھمیہ سے بڑھ کر گمراہ ہوں اور جو ان کی تکفیر نہیں کرتا میں اس کو جاہل سمجھتا ہوں
درء التعارض جلد10 صفحہ 288، 289
سلام بن ابی مطیع رحمہ اللہ کہتے ہیں جہمیہ کفار ہیں۔یزید بن ہارون رحمہ اللہ کہتے ہیں: جہمیہ کفار ہیں۔
الرد علی الجہمیہ :111
البتہ وہ لوگ جو جہمی عقائد سے متاثر تو ہیں مگر غالی نہیں‘ ملت اسلام سے خارج نہیں ہیں بلکہ اُن کا شمار 72 گروہوں میں ہوتا ہے ۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں
امام احمدرحمہ اللہ نے جہمیہ کے ہر فرد کو کافر نہیں کہا ،نہ ہر اس شخص کو کافر کہا کہ جس نے یہ کہا کہ وہ جہمی ہے۔نہ اسے کہ جس نے جہمیہ کی بعض بدعات میں ان کی موافقت کی ، بلکہ آپ نے قرآن کو مخلوق کہنے والے اُن جہمیہ کے پیچھے نماز پڑھی جو اپنی بدعت کی طرف بلانے والے ،اس پر لوگوں کا امتحان لینے والے اور جو ان کی موافقت نہ کرے اس کو سخت سزائیں پہنچانے والے تھے ۔آپ ان کو مومن مانتے اور ان کی امارت تسلیم کرتے اور انکے لیے دعا کرتے تھے۔
مجموع الفتاوی جلد 7 صفحہ 507،508
اس تمام بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کے جھمیہ کافر، جہنمی ہیں تو ان کے بقول ابن حزم کافر ٹھہرا معاذ اللہ_
آپ نے جھمیہ کے عقائد پڑھ لئے اب آئیے حافظ ابن حزم کے عقائد پڑھتے ہیں ، حافظ ابن حزم اتباع بالسنہ کے معاملے میں بہت سخت تھے، آپ رحمہ اللہ نے ہی پہلی بار تقلید، اور قیاس مذاھب کا رد کیا، یہ بات پڑھ کر رونا آتا ہے حافظ ابن حزم جہمیہ تھے حالانکہ آپ نے باب باندھ کا خوارج کا رد کیا، باب باندھ کر معتزلی کا رد کیا، جھمیہ کے باطل نظریات کا رد کیا جہم بن صفوان کو کافر قرار دیا _اھل حدیث کا تیسری صدی کا عظیم محدث ہو اور ایک دو ٹکے کا ملاں آ کر ان پر طعن کرۓ اس کی مرمت کرنی چاہیے _
محلی ابن حزم کے اقوال کی بنیاد پر ان کو جہمی کہنے والو
محلی عقائد و مسائل کی کتاب ھے جس میں اقوال ہیں ان ضعیف اقوال کو ابن حزم کا مذہب مانتے ہو ؟ پھر سنن اربعہ، اور مسانید کی ضعیف احادیث کو بھی ان محدثین کا مذھب مان لو
شرم تو نہیں آتی ہو گی تیس مار خان بنتے ہوۓ؟
قارئین حضرات جہمیہ کا عقیدہ ہے اللہ ایک شے ہے جبکہ اس کے برعکس حافظ ابن حزم کا عقیدہ کیا ھے
آپ نے اس بات کو کفر قرار دیااور فرمایا
لا تشبہہ عزوجل شئی من خلقا
اللہ مخلوق کی طرح شے نہیں ہے
معجم الفقہ ابن حزم لشیخ الاسلام محمد منتصر باللہ الزمزی باب اللہ عزوجل جلد 1 صفحہ 124
جھمیہ کا عقیدہ ہے اللہ آسمان دنیا پر نزول نہیں فرماتا ہے
جبکہ حافظ ابن حزم نے کہا نزل الاسما الدنیا
معجم الفقہ ابن حزم لشیخ الاسلام محمد منتصر باللہ الزمزی باب اللہ عزوجل جلد 1 صفحہ 124
جہمیہ کے ہاں قرآن مخلوق ہے جبکہ حافظ ابن حزم نے کہا
لیس القرآن مخلوق ھو کلام اللہ تعالی
قرآن مخلوق نہیں اللہ کا کلام ہے
اور جس نے انکار کیا فقد کفر
معجم الفقہ ابن حزم لشیخ الاسلام محمد منتصر باللہ الزمزی باب اللہ عزوجل جلد 1 صفحہ 125
حافظ ابن حزم نے تمام باطل فرقوں کا باب باندھ کا رد کیا جن میں سرفہرست جہمیہ ہیں
ابن حزم السیرہ ، والفقہ للامام ابو زھرہ صفحہ 126، 127 طبع دار الفکر قاھرہ
ابن حزم از پروفیسر غلام احمد حریری صفحہ 197، 199
اس کے علاوہ ملاحظہ ہو
منھج ابن حزم فی دراستہ الفرق تالیف صالح بن ضیف اللہ حمیدی طبع جامعہ ام القری
حافظ ابن حزم اپنی کتاب میں جہم بن صفوان کے تمام عقائد کو بیان کرنے کے بعد ان کو کافر قرار دیتے ہیں
الدرۃ فیما یجب الاعتقاد للابن حزم صفحہ 578 طبع دار ابن حزم بیروت
باطل فرقوں کے عقائد کے رد پر سے مفصل اور جامع کتاب میں دس صفات پر مشتمل باب باندھ کر حافظ ابن حزم نے جھمیہ کا رد کیا
الفصل فی الملل والاھوا والنحل للابن حزم جلد 1 صفحہ 90
حافظ ابن حزم نے یہ کتاب باطل فرقوں پر تالیف کی اس کی چھ جلدیں اس بات کی شاہد ھیں حافظ ابن حزم اھل حدیث تھے جہمی نہیں تھے اگر جہمی ہوتے تو جہم بن صفوان کو کافر نہ کہتے اور نہ ان اعتقاد کا رد کرتے مزید وضاحت کے لئے مزکورہ کتب کا مطالعہ کریں
Last edited by a moderator: