آزاد
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 363
- ری ایکشن اسکور
- 920
- پوائنٹ
- 125
امام بخاری اپنے اساتذہ کی نظر میں:
امام بخاری کے شیخ حضرت سلیمان بن حرب نے امام بخاری کو دیکھ کر فرمایا تھا: ’’ہذا یکون لہ صیت۔‘‘ کہ اس شخص کو شہرت حاصل ہوگی۔ سلیمان بن حرب کی یہ پیش گوئی سچی نکلی، امام بخاری کو چار دانگ عالم شہرت حاصل ہوئی۔ امام بخاری کے استاد احمد بن حفص نے سلیمان بن حرب سے ملتی جلتی پیش گوئی فرمائی۔
وراق بخاری ابوجعفر محمد بن ابی حاتم فرماتے ہیں کہ میں نے امام بخاری سے سنا، آپ بیان کررہے تھے کہ جب میں اپنے شیخ حضرت اسماعیل بن ابی اویس کی احادیث سے کچھ احادیث لیتا تو میرے استاد میری منتخب شدہ احادیث کو اپنے لیے لکھوا لیتے اور فرماتے : ’’ہذہ الاحادیث قد انتخبہا محمد بن اسماعیل من حدیثی۔‘‘
کہ یہ وہ احادیث ہیں جن کو محمد بن اسماعیل نے میری حدیثوں سے انتخاب کیا ہے۔
تو امام بخاری کے استاد نے امام بخاری کے انتخاب کو پسند کیا ہے، جس سے امام بخاری کی علم حدیث پر دسترس اور بالغ نظری ظاہر ہوتی ہے۔ امام بخاری ہی کا بیان ہے کہ ایک روز کچھ اصحاب الحدیث جمع ہوئے اور کہا کہ اسماعیل بن ابی اویس سے درخواست کرو کہ کچھ زیادہ حدیثیں سنائیں، تو میں ان کی یہ درخواست لے کر استاد صاحب کے پاس گیا کہ طلبہ چاہتے ہیں کہ آپ زیادہ حدیثیں سنائیں۔ تو اسماعیل نے اپنی لونڈی کو حکم دیا کہ جاؤ دیناروں کی ایک تھیلی لاؤ۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ لونڈی گئی اور دیناروں کی تھیلی لائی، وہ تھیلی اسماعیل بن ابی اویس نے مجھے دے دی اور فرمایا کہ یہ دینا ر اپنے ساتھیوں میں تقسیم کرد۔ تو امام بخاری نے فرمایا کہ طلبہ زیادہ حدیثیں سننا چاہتے ہیں۔ تو استاد نے جواب دیا کہ زیادہ حدیثیں سناؤں گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ مال بھی تقسیم کردیں۔
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری اپنے شیخ کی نظروں میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔
اسماعیل بن ابی اویس نے اپنے شاگرد امام بخاری سے فرمایا: ’’انظر فی کتبی وجمیع ما املک لک وانا شاکر لک ابدا ما دمت حیا۔‘‘ کہ آپ میری احادیث پر نظر کردیں تو میرا یہ تمام مال آپ کےلیے ہے اور جب تک میں زندہ رہوں گا، آپ کا شکر گزار رہوں گا۔
تو اسماعیل بن ابی اویس کی اس درخواست سے امام بخاری کا علم حدیث پر وسیع النظر ہونا ظاہر ہوتا ہے۔
حاشد بن اسماعیل کا بیان ہے کہ امام بخاری کے شیخ ابومصعب احمد بن ابی بکر الزہری نے ایک فرمایا کہ امام بخاری ہمارے نزدیک علم حدیث میں امام احمد بن حنبل سے بھی زیادہ بصیرت رکھتے ہیں ، اور فقاہت میں بھی ایسی ہی بصیرت ہے ۔ تو جلساء مجلس میں سے کسی نے اعتراض کیا: ’’جاوزت الحد۔‘‘ کہ آپ نے یہ کہہ کر حد سے تجاوز کیا ہے۔ تو اس کے جواب میں ابومصعب زہری فرمانے لگے: ’’لو ادرکت مالکا ونظرت الی وجہہ وجہ محمد بن اسماعیل لقلت کلاہما واحد فی الحدیث والفقہ۔‘‘
کہ حدیث اور فقہ میں امام احمد بن حنبل سے امام مالک کے مرتبہ کا بڑھا ہوا ہونا مسلم ہے۔ اگر آپ امام مالک کے چہرے اور محمد بن اسماعیل کے چہرے کو دیکھتے تو کہتے کہ حدیث اور فقہ میں دونوں ایک ہیں۔
تو ابومصعب احمد بن ابی بکر زہری کے اس بیان سے امام بخاری کی حدیث دانی اور فقہ دانی پر روشنی پڑتی ہے کہ امام بخاری کس قدر بلند مقام رکھتے ہیں۔
امام بخاری کے استاد عبدان بن عثمان مروزی فرماتے ہیں: ’’ما رایت بعینی شابا ابصر من ہذا واشار الی محمد بن اسماعیل ۔‘‘ کہ میں نے اس نوجوان سے زیادہ بصیرت والا شخص نہیں دیکھا۔ نوجوان سے مراد واضح کرنے کےلیے امام بخاری محمد بن اسماعیل کی طرف اشارہ کیا۔
امام بخاری کے مشہور استاد قتیبہ بن سعید جو امام مسلم ، امام ابوداؤد، امام نسائی، امام ترمذی اور امام ابن ماجہ کے بھی استاد ہیں، اپنے دور کے بہت بڑے محدث ہیں، یہ امام بخاری کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
قول اول:
ان کا پہلا قول یہ ہے: ’’ جالست الْفُقَهَاء والزهاد والعباد فَمَا رَأَيْت مُنْذُ عقلت مثل مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل وَهُوَ فِي زَمَانه كعمر فِي الصَّحَابَة ‘‘
میں نے فقہاء، زاہدوں اور عبادت گزاروں کی مجلس کی، تو جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ، میں نے امام بخاری جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ مزید فرماتے ہیں کہ امام بخاری اپنے دور میں ایسے ہیں جیسے صحابہ کرام کے دور میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔
قول ثانی:
حضرت قتبیہ بن سعید کا دوسرا قول یہ ہے: ’’ لَو كَانَ مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل فِي الصَّحَابَة لَكَانَ آيَة ‘‘ کہ امام بخاری اگر صحابہ کرام کے دور میں ہوتے تو ایک نشانی ہوتے۔
قول ثالث:
محمد بن یوسف ہمدانی کا بیان ہے کہ ہم ایک مرتبہ قتیبہ بن سعید کی مجلس میں موجو د تھے، تو وہاں ابویعقوب نامی شخص حضرت قتیبہ بن سعید سے امام بخاری کے متعلق پوچھنے لگا، تو قتبہ بن سعید نے فرمایا: ’’ يَا هَؤُلَاءِ نظرت فِي الحَدِيث وَنظرت فِي الرَّأْي وجالست الْفُقَهَاء والزهاد والعباد فَمَا رَأَيْت مُنْذُ عقلت مثل مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل ‘‘کہ میں نے فقہاء، زاہدوں اور عبادت گزاروں کی مجلس کی ہے، تو جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ، محمد بن اسماعیل جیسا کوئی نہیں دیکھا۔
ابوعمرو کرمانی فرماتے ہیں کہ میں نے بصرہ کے اندر قتیبہ بن سعید کا قول: ’’ لقد رَحل إِلَيّ من شَرق الأَرْض وَمن غربها فَمَا رَحل إِلَيّ مثل مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل ‘‘ میری طرف زمین کے مشرق ومغرب کے لوگوں نے سفر کیا ہے، لیکن محمد بن اسماعیل جیسا آدمی میری طرف کوئی نہیں آیا۔
حضرت مہیار کے سامنے پیش کیاکہ قتیبہ بن سعید نے امام بخاری کی یہ تعریف کی ہے ، تو حضرت مہیار نے فرمایا: ’’ صدق قُتَيْبَة أَنا رَأَيْته مَعَ يحيى بن معِين وهما جَمِيعًا يَخْتَلِفَانِ إِلَى مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل فَرَأَيْت يحيى منقادا لَهُ فِي الْمعرفَة ‘‘ کہ میں نے قتیبہ بن سعید اور یحییٰ بن معین دونوں کو امام بخاری کے پاس آتے جاتے دیکھا ہے اور میں نے دیکھا کہ یحییٰ بن معین علم حدیث میں امام بخاری کی بات تسلیم کرتے ہیں۔
تو مشائخ کا امام بخاری کے پاس آنا جانا اور معرفت حدیث میں ان پر اعتماد کرنا امام بخاری کی علم حدیث میں بالغ نظری پر ایک زبردست دلیل ہے۔
محمد بن یوسف ہمدانی فرماتے ہیں کہ: ’’ سُئِلَ قُتَيْبَة عَن طَلَاق السَّكْرَان فَدخل مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل فَقَالَ قُتَيْبَة للسَّائِل هَذَا أَحْمد بن حَنْبَل وَإِسْحَاق بن رَاهَوَيْه وَعلي بن الْمَدِينِيّ قد ساقهم الله إِلَيْك وَأَشَارَ إِلَى البُخَارِيّ ‘‘ کہ قتیبہ بن سعید سے طلاق سکران کے بارے میں پوچھا گیا کہ نشے کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اتنے میں امام بخاری محمد بن اسماعیل آگئے تو امام بخاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور علی بن مدینی سب کو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے لے آیا ہے۔
تو امام بخاری کو ان ائمہ دین اور محدثین کے نام سے تشبیہ دینا ان کی فن حدیث وفقہ میں زبردست مہارت کے سلسلہ میں بہت بڑی شہادت ہے۔
ابراہیم بن محمد بن سلام کا کہنا ہے: ’’ كَانَ الرتوت من أَصْحَاب الحَدِيث مثل سعيد بن أبي مَرْيَم وحجاج بن منهال وَإِسْمَاعِيل بن أبي أويس والْحميدِي ونعيم بن حَمَّاد والعدني يَعْنِي مُحَمَّد بن يحيى بن أبي عمر والخلال يَعْنِي الْحُسَيْن بن عَليّ الْحلْوانِي وَمُحَمّد بن مَيْمُون هُوَ الْخياط وَإِبْرَاهِيم بن الْمُنْذر وَأبي كريب مُحَمَّد بن الْعَلَاء وَأبي سعيد عبد الله بن سعيد الْأَشَج وَإِبْرَاهِيم بن مُوسَى هُوَ الْفراء وأمثالهم يقضون لمُحَمد بن إِسْمَاعِيل على أنفسهم فِي النّظر والمعرفة ... الرتوت: الرؤساء ‘‘ کہ مذکورہ بالا رئیس اصحاب الحدیث اور ان جیسے دیگر مشائخ نظر ومعرفت میں اپنے خلاف امام بخاری کے حق میں فیصلہ دیا کرتے تھے۔
رتوت کا معنیٰ: بڑے بڑے محدثین ، وہ بھی اپنے اختلاف کے وقت اپنی بات چھوڑ کر امام بخاری کی بات تسلیم کیا کرتے تھے۔
محمد بن قتیبہ بخاری کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن ابوعاصم نبیل کے پاس ایک لڑکا دیکھا تو میں نے پوچھا: ’’ من أَيْن قَالَ من بُخَارى قلت بن من قَالَ بن إِسْمَاعِيل فَقلت أَنْت من قَرَابَتي‘‘ کہ آپ کس علاقے سے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: بخاریٰ سے۔ میں نے پوچھا: کس کے بیٹے ہو؟ اس نے کہا: اسماعیل کا۔ تو محمد بن قتیبہ نے کہا کہ آپ میرے رشتہ داروں سے ہیں۔
ابوعاصم کی موجودگی میں کسی نے کہا کہ یہ لڑکا اپنے بڑوں اور اساتذہ کا ہم پلہ ہے ۔
امام احمد بن حنبل کے لڑکے عبداللہ نے اپنے باپ امام احمد بن حنبل سے حفاظ کی بابت دریافت کیا، تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا: ’’شبان من خراسان فعدہ فیہم فبدأ بہ‘‘ کہ خراسان کے حفاظ جوانوں کو شمار کرتے ہوئے امام بخاری کو ان میں شمار کیا، بلکہ سب سے پہلے امام بخاری کا نام لیا۔
ابوبکر خطیب بغدادی نے بسند صحیح امام احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے: ’’ما اخرجت خراسان مثل محمد بن اسماعیل‘‘ کہ خراسان میں محمد بن اسماعیل جیسا کوئی نہیں پیدا ہوا۔
امام بخاری کے شیخ باوقار امام بندار محمد بن بشار رحمہا اللہ العزیز الغفار فرماتے ہیں: ’’ہو افقہ خلق اللہ فی زماننا۔‘‘ کہ امام بخاری موجودہ دور میں اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ فقیہ ہیں۔
فربری فرماتے ہیں : میں نے محمد بن ابی حاتم سے سنا ، وہ کہتے ہیں: میں نے حاشد بن اسماعیل سے سنا، حاشد بن اسماعیل فرماتے ہیں: ’’کنت فی البصرۃ فسمعت بقدوم محمد بن اسماعیل فلما قدم، قال محمد بن بشار: قدم الیوم سید الفقہاء‘‘ کہ میں بصرہ میں تھا۔ میں نے سنا کہ امام بخاری بصرہ میں تشریف لا رہے ہیں۔ جب امام بخاری تشریف لائے تو ان کی آمد پر محمد بن بشار نے فرمایا: آج فقہاء کے سردار تشریف لائے ہیں۔
محمد بن ابراہیم البوشبخی کا بیان ہے کہ میں نے بندار سے 228ھ میں سنا، وہ فرما رہے تھے: ’’ما قدم علینا مثل محمد بن اسماعیل ۔ وقال بندار: انا افتخر بہ منذ سنین۔‘‘ کہ کافی آدمی میرے پاس آئے لیکن محمد بن اسماعیل جیسا کوئی نہیں آیا۔ او ربندار نے مزید فرمایا کہ میں کئی سالوں سے امام بخاری پر فخر و ناز کررہا ہوں۔
تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلاف کے اندر اپنے لائق شاگردوں پر کس قدر خوشی ہوتی تھی۔ وہ ان کو رقیب نہیں سمجھتے تھے۔
امام بخاری کے استاد عبداللہ بن یوسف تنیسی نے امام بخاری سے فرمایا: میری کتابوں پر نظر کرو اور جو غلطی نظر آئے، اس کی مجھے اطلاع دو۔ امام بخاری نے جواب دیا کہ جی ہاں ، میں یہ کام کردوں گا۔ اس واقعہ سے امام بخاری کی وسعت علمی ظاہر ہوتی ہے کہ استاد کی کتب کی تصحیح کرتے ہیں۔
امام بخاری کے استاد محمد بن سلام بیکندی نے بھی اپنی کتابیں امام بخاری پر پیش کیں اور کہا کہ جو بات غلط نظر آئے ، اس پر نشان لگا دو۔ محمد بن سلام ہی فرماتے ہیں کہ جب بھی امام بخاری محمد بن اسماعیل مجھ پر داخل ہوتے ہیں تو حیران رہا جاتا ہوں اور ڈرتا ہوں، یعنی کہیں ان کی موجودگی میں خطا کرجاؤں۔
امام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے جس سال پہلا حج کیا تو میری عمر اٹھارہ برس تھی۔ وہاں میں امام حمیدی کے پاس گیا۔ تو امام حمیدی کا کسی دوسرے محدث سے کسی حدیث کے بارے میں جھگڑا تھا۔ تو امام حمیدی نے مجھے دیکھ کر فرمایا: ’’جاء من یفصل بیننا فعرضا علی الخصومۃ فقضیت للحمیدی وکان الحق معہ‘‘ کہ اب وہ شخص آگیا ہے جو ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ انہوں نے مجھ پر جھگڑا پیش کیا تو میں نے امام حمیدی کے حق میں فیصلہ دے دیا کیونکہ امام حمیدی کی بات درست تھی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استاد نزاعی معاملات میں امام بخاری سے فیصلہ کروایا کرتے تھے۔
حاشد بن اسماعیل بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری کے استاد اسحاق بن راہویہ ایک مرتبہ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ امام بخاری بھی وہاں موجود تھے۔ اسحاق بن راہویہ نے ایک حدیث بیان کی جس پر امام بخاری نے لقمہ دیا، تو اسحاق بن راہویہ نے امام بخاری کی بات کو تسلیم کیا اور حاضرین مجلس سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’ يَا معشر أَصْحَاب الحَدِيث انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّاب واكتبوا عَنهُ فَإِنَّهُ لَو كَانَ فِي زمن الْحسن بن أبي الْحسن الْبَصْرِيّ لاحتاج إِلَيْهِ لمعرفته بِالْحَدِيثِ وفقهه ‘‘ کہ اصحاب الحدیث کی جماعت! تم اس جوان کو دیکھو اور اس سے حدیثیں لکھو، اگر یہ حسن بصری کے زمانہ میں ہوتے تو وہ بھی ان کی معرفت حدیث اور فقاہت کی وجہ سے ان کے محتاج ہوتے۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ استاد اسحاق بن راہویہ نے امام بخاری کے لقمہ سے حدیث کی تصحیح کی اور لوگوں کو آپ سے حدیثیں لکھنے کا حکم دیا۔
امام بخاری کا بیان ہے کہ اسحاق بن راہویہ ایک مرتبہ میری تصنیف کردہ تاریخ لےکر امیر عبداللہ بن طاہر کے پاس پہنچے تو کہا: ’’ایہا الامیر! الا اریک سحرا؟‘‘ کہ اے امیر عبداللہ بن طاہر! کیا میں آپ کو جادو نہ دکھاؤں؟
امام بخاری ہی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ اسحاق بن راہویہ سے حالت نسیان میں دی گئی طلاق کے بارے میں مسئلہ پوچھا گیا تو اسحاق بن راہویہ کچھ متامل سے ہوگئے۔ جواب کوئی نہ دیا تو امام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: ’’قال النبیﷺ: ان اللہ تجاوز عن امتی ما حدثت بہ انفسہا ما لم تعمل او تکلم۔‘‘ کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل سے پیدا ہونے والی اشیاء کو معاف کردیا ہے، جب تک وہ دل میں آئی ہوئی چیز کے متعلق بات نہ کرلیں یا عمل نہ کرلیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل اور کلام کے اندر قلبی ارادہ موجود ہو، تو وہ عمل نافذ ہوگا۔ اگر کلام اور عمل میں ارادہ موجود نہ ہو تو وہ نافذ نہ ہوگا۔ جس نے طلاق دی اور طلاق کا ارادہ نہیں کیا تو طلاق نہیں ہوگی۔ تو اسحاق بن راہویہ نے سن کر فرمایا: ’’قویتنی قواک اللہ وافتیٰ بہ‘‘ تو نے میری ہمت باندھی ، اللہ تجھے قوت دے اور اسی قول پر فتویٰ دیا۔
اس واقعہ سے امام بخاری کی فقاہت کے ساتھ ساتھ ان کا اپنے اساتذہ کی نظر میں مقام اور مرتبہ بھی ظاہر ہورہا ہے۔
امام بخاری فرماتے ہیں: ’’ما استصغرت نفسی عند احد الا عند علی بن المدینی وربما کنت اغرب علیہ‘‘ کہ میں نے اپنے آپ کو علی بن مدینی کے بغیر کسی کے پاس چھوٹا نہیں سمجھا اور بسا اوقات میں ان پر بھی غریب حدیثیں پیش کرتا تھا۔
حامد بن احمد کا بیان ہے کہ جب یہ بات علی بن مدینی کے سامنے پیش کی گئی تو علی بن مدینی نے فرمایا: ’’دع قولہ ہو ما رأی مثل نفسہ۔‘‘ کہ اس کی بات کو چھوڑ دو، اس نے اپنے جیسا نہیں دیکھا۔
تو امام بخاری نے علی بن مدینی کی بات کی تصدیق کردی۔
تو اما م بخاری کے ان اساتذہ کے اقوال سے تین چیزیں ظاہر ہوتی ہیں:
1: علم حدیث میں معرفت اور پختگی
2: اساتذہ کی نظر میں امام بخاری کی فقاہت وبصارت
3: امام بخاری کی مہارت اور دسترس
امام بخاری ہی کا بیان ہے کہ استاد علی بن مدینی مجھ سے خراسان کے مشائخ کے متعلق پوچھا کرتے تھے تو میں ان کو بتا دیتا تھا کہ فلاں شیخ اس قسم کا ہے۔ اس ضمن میں میں نے محمد بن سلام کا تذکرہ کیا تو وہ ان کی معرفت میں نہ آسکے۔ آخر مجھے ایک دن فرمایا:
’’ یا اباعبداللہ! کل من اثنیت علیہ فہو عندنا الرضی۔‘‘
کہ آپ ہمارے پاس جس کی تعریف کریں وہ ہمارے ہاں بھی پسندیدہ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اساتذہ امام بخاری پر کس قدر اعتماد کرتے تھے۔
امام بخاری کا بیان ہے کہ ایک روز ابوحفص عمرو بن علی الفلاس کے اصحاب نےایک حدیث کے متعلق مجھ سے مذاکرہ کیا تو امام بخاری فرماتے ہیں: ’’فقلت : لا اعرفہ۔‘‘ کہ میں اس حدیث کو نہیں پہچانتا۔
’’ فسروا بذلك وصاروا إِلَى عَمْرو بن عَليّ فَقَالُوا لَهُ ذاكرنا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل بِحَدِيث فَلم يعرفهُ فَقَالَ عَمْرو بن عَليّ حَدِيث لَا يعرفهُ مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل لَيْسَ بِحَدِيث ‘‘تو وہ اس بات پر خوش ہوئے۔ اسی عالم میں عمروبن علی الفلاس کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ ہم نے محمد بن اسماعیل سے ایک حدیث کا مذکراہ کیا تو وہ پہچان نہیں سکے۔
ان کا خیال یہ تھا کہ استاد صاحب کے پاس حدیث پیش کرنے سے حدیث کا اصل نکل آئے گا اور امام بخاری کی لاعلمی ظاہر ہوجائے گی۔
تو عمرو بن علی الفلاس نے جواب دیا کہ جس حدیث کو محمد بن اسماعیل نہ پہچانیں، وہ حدیث ہی نہیں۔
امام فلاس کے اس بیان سے امام بخاری کی وسعت معرفت حدیث اور بالغ نظری ظاہر ہوتی ہے۔
امام بخاری کے استاد رجاء بن رجاء فرماتے ہیں: ’’فضل محمد بن اسماعیل علی العلماء کفضل الرجال علی النساء‘‘ کہ علماء پر امام بخاری کی فضیلت اس طرح ہے جس طرح عورتوں پرمردوں کو فضیلت حاصل ہے۔
مزید فرماتے ہیں: ’’ہو آیۃ من آیات اللہ تمشی علی ظہر الارض‘‘ کہ وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو روئے زمین پر چل پھر رہی ہے۔
امام بخاری کے استاد حسین بن حریث فرماتے ہیں: ’’لا اعلم انی رأیت مثل محمد بن اسماعیل کانہ لم یخلق الا للحدیث‘‘ کہ میرے علم میں نہیں کہ میں نے محمد بن اسماعیل جیسا دیکھا ہو۔ گویا ان کو صرف حدیث کےلیے پیدا کیا گیا ہے۔
ابوبکر بن ابی شیبہ اور محمد بن عبداللہ بن نمیر دونوں امام بخاری کے استاد ہیں۔ دونوں فرماتے ہیں: ’’ہم نے محمد بن اسماعیل کی نظیر نہیں دیکھی۔‘‘
اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے آپ کا نام بازل رکھا ہوا تھا۔ بازل سے مراد کامل ہے۔ یہ ان کے کمال کی بہت بڑی نشانی ہے۔ ابوعیسیٰ ترمذی کا بیان ہے کہ امام بخاری اپنے شیخ عبداللہ بن نمیر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ جب امام بخاری کھڑے ہوئے تو انہوں نے فرمایا: ’’ یا اباعبد اللہ جعلک اللہ زین ہذہ الامۃ۔‘‘
استاد صاحب نے امام بخاری کےلیے دعا کی: اے ابوعبداللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو اس امت کی زینت بنائے۔
امام ترمذی فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے عبداللہ بن نمیر کی دعا قبول کرلی۔
ابوعبداللہ فربری فرماتے ہیں: ’’رایت عبداللہ بن نمیر یکتب عن البخاری وسمعتہ یقول: انا من تلامذتہ۔‘‘
کہ میں نے عبداللہ بن نمیر کو دیکھا کہ وہ امام بخاری سے حدیثیں لکھا کرتے تھے۔ اور میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا کہ میں امام بخاری کے شاگردوں سے ہوں۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن نمیر امام بخاری کے شیوخ سے ہیں۔ امام بخاری نے جامع صحیح میں ان سے حدیث بیان کی ہے اور عبداللہ بن نمیر کی وفات احمد بن حنبل کی وفات والے سال ہے۔ تو امام بخاری کے استاد کا اپنے آپ کو امام بخاری کے شاگردوں میں شمار کرنا امام بخاری کے شرف وفضل کےلیے شاہد عدل ہے۔
حاشد کا بیان ہے کہ امام بخاری کے استاد عمرو بن زرارہ اور محمد بن رافع دونوں امام بخاری سے علل حدیث کے متعلق سوال کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ امام بخاری علمی بصیرت میں ہم سے زیادہ ہیں۔ اور حاشد ہی کا بیا ہے کہ ہم ایک دن عمرو بن زرارہ اور اسحاق بن راہویہ کی مجلس میں تھے ۔ اسحاق بن راہویہ امام بخاری کے ذریعے محدثین کو حدیثیں لکھوا رہے تھے اور محدثین ان سے حدیثیں لکھ رہے تھے۔
’’واسحاق یقول: ہو ابصر منی۔‘‘ اور اسحاق بن راہویہ ساتھ ساتھ یہ بھی فرماتے تھے کہ امام بخاری مجھ سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں۔
امام بخاری اس وقت نوجوان تھے۔
امام بخاری کے استاد یحییٰ بن جعفر بیکندی فرماتے ہیں: ’’ لَو قدرت أَن أَزِيد من عمري فِي عمر مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل لفَعَلت فَإِن موتِي يكون موت رجل وَاحِد وَمَوْت مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل فِيهِ ذهَاب الْعلم‘‘ اگر میرے اختیار میں ہو کہ اپنی عمر سے امام بخاری کی عمر میں اضافہ کروں تو میں یہ ضرور کروں کیونکہ میری موت ایک آدمی کی موت ہوگی، اور امام بخاری کی وفات سے علم چلا جائے گا۔
یہی استاد مزید فرماتے ہیں کہ اگر بخاریٰ کے اندر امام بخاری نہ ہوں تو میں بخاریٰ کے اندر رہنا ہی پسند نہ کروں۔
عبداللہ بن محمد مسندی فرماتے ہیں: ’’محمد بن اسماعیل امام فمن لم یجعلہ اماما فاتہمہ‘‘ کہ امام بخاری واقعی امام ہیں، جو کوئی ان کو امام نہ سمجھے ، اس کو متہم سمجھو۔
اور انہوں نے مزید فرمایا: ’’حافظ زماننا ثلاثۃ، فبدأ بالبخاری۔‘‘ کہ ہمارے زمانے میں حفاظ حدیث تین ہیں۔ ان میں سرفہرست امام بخاری کو رکھا۔
امام بخاری کے استاد علی بن حجر فرماتے ہیں: ’’ أخرجت خُرَاسَان ثَلَاثَة البُخَارِيّ فَبَدَأَ بِهِ قَالَ وَهُوَ أبصرهم وأعلمهم بِالْحَدِيثِ وأفقههم قَالَ وَلَا أعلم أحدا مثله‘‘ کہ خراسان نے تین نامور ہستیاں پیدا کیں۔ ان میں پہلے نمبر پر امام بخاری کو رکھا اور فرمایا کہ امام بخاری ان میں سب سے زیادہ بصیرت رکھنے والے ، زیادہ علم حدیث کو جاننے ولاے اور سب سے زیادہ فقیہ ہیں۔ مزید فرمایا: میرے علم میں ان جیسا کوئی نہیں۔
ایک دفعہ امام بخاری کے استاد ابن اشکاب ایک مجلس میں تشریف فرما تھے تو وہاں حفاظ حدیث میں سے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: ’’مالنا بمحمد بن اسماعیل طاقۃ۔‘‘ تو ابن اشکاب یہ بات سن کر غضب اور غصہ میں آگئے۔ مجلس چھوڑ دی کہ اس نے امام بخاری کے بارے میں شان سے گرے ہوئے کلمات استعمال کیے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری کے استاد امام بخاری کے بارے میں ان کی شان سے گرے ہوئے کلمات سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔
عبداللہ بن محمد بن سعید بن جعفر کا بیان ہے کہ احمد بن حرب نیساپوری جب فوت ہوئے ، ہم لوگ ان کے جنازے میں جارہے تھے۔ جنازہ کے ساتھ ساتھ امام بخاری اور اسحاق بن راہویہ بھی تھے۔ اور دیگر علماء کی ایک جماعت بھی جنازہ میں شریک تھی۔ ’’وکنت اسمع اہل المعرفۃ ینظرون ویقولون محمد افقہ من اسحاق۔‘‘ تو وہاں میں اہل بصیرت سے سن رہا تھا ، وہ دیکھتے تھے اور کہتے تھے کہ امام بخاری محمد بن اسماعیل فقہ میں اسحاق بن راہویہ سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں۔
امام بخاری کے متعلق ان کے اساتذہ کرام کے چند ایک کلمات تھے، جن سے امام بخاری کا مقام اور مرتبہ اپنے اساتذہ کی نظر میں ظاہر ہورہا ہے۔
مرآۃ البخاری از محدث نور پوری رحمہ اللہ
ص: 191 تا 206
کمپوزنگ: آزاد
امام بخاری کے شیخ حضرت سلیمان بن حرب نے امام بخاری کو دیکھ کر فرمایا تھا: ’’ہذا یکون لہ صیت۔‘‘ کہ اس شخص کو شہرت حاصل ہوگی۔ سلیمان بن حرب کی یہ پیش گوئی سچی نکلی، امام بخاری کو چار دانگ عالم شہرت حاصل ہوئی۔ امام بخاری کے استاد احمد بن حفص نے سلیمان بن حرب سے ملتی جلتی پیش گوئی فرمائی۔
وراق بخاری ابوجعفر محمد بن ابی حاتم فرماتے ہیں کہ میں نے امام بخاری سے سنا، آپ بیان کررہے تھے کہ جب میں اپنے شیخ حضرت اسماعیل بن ابی اویس کی احادیث سے کچھ احادیث لیتا تو میرے استاد میری منتخب شدہ احادیث کو اپنے لیے لکھوا لیتے اور فرماتے : ’’ہذہ الاحادیث قد انتخبہا محمد بن اسماعیل من حدیثی۔‘‘
کہ یہ وہ احادیث ہیں جن کو محمد بن اسماعیل نے میری حدیثوں سے انتخاب کیا ہے۔
تو امام بخاری کے استاد نے امام بخاری کے انتخاب کو پسند کیا ہے، جس سے امام بخاری کی علم حدیث پر دسترس اور بالغ نظری ظاہر ہوتی ہے۔ امام بخاری ہی کا بیان ہے کہ ایک روز کچھ اصحاب الحدیث جمع ہوئے اور کہا کہ اسماعیل بن ابی اویس سے درخواست کرو کہ کچھ زیادہ حدیثیں سنائیں، تو میں ان کی یہ درخواست لے کر استاد صاحب کے پاس گیا کہ طلبہ چاہتے ہیں کہ آپ زیادہ حدیثیں سنائیں۔ تو اسماعیل نے اپنی لونڈی کو حکم دیا کہ جاؤ دیناروں کی ایک تھیلی لاؤ۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ لونڈی گئی اور دیناروں کی تھیلی لائی، وہ تھیلی اسماعیل بن ابی اویس نے مجھے دے دی اور فرمایا کہ یہ دینا ر اپنے ساتھیوں میں تقسیم کرد۔ تو امام بخاری نے فرمایا کہ طلبہ زیادہ حدیثیں سننا چاہتے ہیں۔ تو استاد نے جواب دیا کہ زیادہ حدیثیں سناؤں گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ مال بھی تقسیم کردیں۔
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری اپنے شیخ کی نظروں میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔
اسماعیل بن ابی اویس نے اپنے شاگرد امام بخاری سے فرمایا: ’’انظر فی کتبی وجمیع ما املک لک وانا شاکر لک ابدا ما دمت حیا۔‘‘ کہ آپ میری احادیث پر نظر کردیں تو میرا یہ تمام مال آپ کےلیے ہے اور جب تک میں زندہ رہوں گا، آپ کا شکر گزار رہوں گا۔
تو اسماعیل بن ابی اویس کی اس درخواست سے امام بخاری کا علم حدیث پر وسیع النظر ہونا ظاہر ہوتا ہے۔
حاشد بن اسماعیل کا بیان ہے کہ امام بخاری کے شیخ ابومصعب احمد بن ابی بکر الزہری نے ایک فرمایا کہ امام بخاری ہمارے نزدیک علم حدیث میں امام احمد بن حنبل سے بھی زیادہ بصیرت رکھتے ہیں ، اور فقاہت میں بھی ایسی ہی بصیرت ہے ۔ تو جلساء مجلس میں سے کسی نے اعتراض کیا: ’’جاوزت الحد۔‘‘ کہ آپ نے یہ کہہ کر حد سے تجاوز کیا ہے۔ تو اس کے جواب میں ابومصعب زہری فرمانے لگے: ’’لو ادرکت مالکا ونظرت الی وجہہ وجہ محمد بن اسماعیل لقلت کلاہما واحد فی الحدیث والفقہ۔‘‘
کہ حدیث اور فقہ میں امام احمد بن حنبل سے امام مالک کے مرتبہ کا بڑھا ہوا ہونا مسلم ہے۔ اگر آپ امام مالک کے چہرے اور محمد بن اسماعیل کے چہرے کو دیکھتے تو کہتے کہ حدیث اور فقہ میں دونوں ایک ہیں۔
تو ابومصعب احمد بن ابی بکر زہری کے اس بیان سے امام بخاری کی حدیث دانی اور فقہ دانی پر روشنی پڑتی ہے کہ امام بخاری کس قدر بلند مقام رکھتے ہیں۔
امام بخاری کے استاد عبدان بن عثمان مروزی فرماتے ہیں: ’’ما رایت بعینی شابا ابصر من ہذا واشار الی محمد بن اسماعیل ۔‘‘ کہ میں نے اس نوجوان سے زیادہ بصیرت والا شخص نہیں دیکھا۔ نوجوان سے مراد واضح کرنے کےلیے امام بخاری محمد بن اسماعیل کی طرف اشارہ کیا۔
امام بخاری کے مشہور استاد قتیبہ بن سعید جو امام مسلم ، امام ابوداؤد، امام نسائی، امام ترمذی اور امام ابن ماجہ کے بھی استاد ہیں، اپنے دور کے بہت بڑے محدث ہیں، یہ امام بخاری کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
قول اول:
ان کا پہلا قول یہ ہے: ’’ جالست الْفُقَهَاء والزهاد والعباد فَمَا رَأَيْت مُنْذُ عقلت مثل مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل وَهُوَ فِي زَمَانه كعمر فِي الصَّحَابَة ‘‘
میں نے فقہاء، زاہدوں اور عبادت گزاروں کی مجلس کی، تو جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ، میں نے امام بخاری جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ مزید فرماتے ہیں کہ امام بخاری اپنے دور میں ایسے ہیں جیسے صحابہ کرام کے دور میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔
قول ثانی:
حضرت قتبیہ بن سعید کا دوسرا قول یہ ہے: ’’ لَو كَانَ مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل فِي الصَّحَابَة لَكَانَ آيَة ‘‘ کہ امام بخاری اگر صحابہ کرام کے دور میں ہوتے تو ایک نشانی ہوتے۔
قول ثالث:
محمد بن یوسف ہمدانی کا بیان ہے کہ ہم ایک مرتبہ قتیبہ بن سعید کی مجلس میں موجو د تھے، تو وہاں ابویعقوب نامی شخص حضرت قتیبہ بن سعید سے امام بخاری کے متعلق پوچھنے لگا، تو قتبہ بن سعید نے فرمایا: ’’ يَا هَؤُلَاءِ نظرت فِي الحَدِيث وَنظرت فِي الرَّأْي وجالست الْفُقَهَاء والزهاد والعباد فَمَا رَأَيْت مُنْذُ عقلت مثل مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل ‘‘کہ میں نے فقہاء، زاہدوں اور عبادت گزاروں کی مجلس کی ہے، تو جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ، محمد بن اسماعیل جیسا کوئی نہیں دیکھا۔
ابوعمرو کرمانی فرماتے ہیں کہ میں نے بصرہ کے اندر قتیبہ بن سعید کا قول: ’’ لقد رَحل إِلَيّ من شَرق الأَرْض وَمن غربها فَمَا رَحل إِلَيّ مثل مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل ‘‘ میری طرف زمین کے مشرق ومغرب کے لوگوں نے سفر کیا ہے، لیکن محمد بن اسماعیل جیسا آدمی میری طرف کوئی نہیں آیا۔
حضرت مہیار کے سامنے پیش کیاکہ قتیبہ بن سعید نے امام بخاری کی یہ تعریف کی ہے ، تو حضرت مہیار نے فرمایا: ’’ صدق قُتَيْبَة أَنا رَأَيْته مَعَ يحيى بن معِين وهما جَمِيعًا يَخْتَلِفَانِ إِلَى مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل فَرَأَيْت يحيى منقادا لَهُ فِي الْمعرفَة ‘‘ کہ میں نے قتیبہ بن سعید اور یحییٰ بن معین دونوں کو امام بخاری کے پاس آتے جاتے دیکھا ہے اور میں نے دیکھا کہ یحییٰ بن معین علم حدیث میں امام بخاری کی بات تسلیم کرتے ہیں۔
تو مشائخ کا امام بخاری کے پاس آنا جانا اور معرفت حدیث میں ان پر اعتماد کرنا امام بخاری کی علم حدیث میں بالغ نظری پر ایک زبردست دلیل ہے۔
محمد بن یوسف ہمدانی فرماتے ہیں کہ: ’’ سُئِلَ قُتَيْبَة عَن طَلَاق السَّكْرَان فَدخل مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل فَقَالَ قُتَيْبَة للسَّائِل هَذَا أَحْمد بن حَنْبَل وَإِسْحَاق بن رَاهَوَيْه وَعلي بن الْمَدِينِيّ قد ساقهم الله إِلَيْك وَأَشَارَ إِلَى البُخَارِيّ ‘‘ کہ قتیبہ بن سعید سے طلاق سکران کے بارے میں پوچھا گیا کہ نشے کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اتنے میں امام بخاری محمد بن اسماعیل آگئے تو امام بخاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور علی بن مدینی سب کو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے لے آیا ہے۔
تو امام بخاری کو ان ائمہ دین اور محدثین کے نام سے تشبیہ دینا ان کی فن حدیث وفقہ میں زبردست مہارت کے سلسلہ میں بہت بڑی شہادت ہے۔
ابراہیم بن محمد بن سلام کا کہنا ہے: ’’ كَانَ الرتوت من أَصْحَاب الحَدِيث مثل سعيد بن أبي مَرْيَم وحجاج بن منهال وَإِسْمَاعِيل بن أبي أويس والْحميدِي ونعيم بن حَمَّاد والعدني يَعْنِي مُحَمَّد بن يحيى بن أبي عمر والخلال يَعْنِي الْحُسَيْن بن عَليّ الْحلْوانِي وَمُحَمّد بن مَيْمُون هُوَ الْخياط وَإِبْرَاهِيم بن الْمُنْذر وَأبي كريب مُحَمَّد بن الْعَلَاء وَأبي سعيد عبد الله بن سعيد الْأَشَج وَإِبْرَاهِيم بن مُوسَى هُوَ الْفراء وأمثالهم يقضون لمُحَمد بن إِسْمَاعِيل على أنفسهم فِي النّظر والمعرفة ... الرتوت: الرؤساء ‘‘ کہ مذکورہ بالا رئیس اصحاب الحدیث اور ان جیسے دیگر مشائخ نظر ومعرفت میں اپنے خلاف امام بخاری کے حق میں فیصلہ دیا کرتے تھے۔
رتوت کا معنیٰ: بڑے بڑے محدثین ، وہ بھی اپنے اختلاف کے وقت اپنی بات چھوڑ کر امام بخاری کی بات تسلیم کیا کرتے تھے۔
محمد بن قتیبہ بخاری کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن ابوعاصم نبیل کے پاس ایک لڑکا دیکھا تو میں نے پوچھا: ’’ من أَيْن قَالَ من بُخَارى قلت بن من قَالَ بن إِسْمَاعِيل فَقلت أَنْت من قَرَابَتي‘‘ کہ آپ کس علاقے سے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: بخاریٰ سے۔ میں نے پوچھا: کس کے بیٹے ہو؟ اس نے کہا: اسماعیل کا۔ تو محمد بن قتیبہ نے کہا کہ آپ میرے رشتہ داروں سے ہیں۔
ابوعاصم کی موجودگی میں کسی نے کہا کہ یہ لڑکا اپنے بڑوں اور اساتذہ کا ہم پلہ ہے ۔
امام احمد بن حنبل کے لڑکے عبداللہ نے اپنے باپ امام احمد بن حنبل سے حفاظ کی بابت دریافت کیا، تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا: ’’شبان من خراسان فعدہ فیہم فبدأ بہ‘‘ کہ خراسان کے حفاظ جوانوں کو شمار کرتے ہوئے امام بخاری کو ان میں شمار کیا، بلکہ سب سے پہلے امام بخاری کا نام لیا۔
ابوبکر خطیب بغدادی نے بسند صحیح امام احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے: ’’ما اخرجت خراسان مثل محمد بن اسماعیل‘‘ کہ خراسان میں محمد بن اسماعیل جیسا کوئی نہیں پیدا ہوا۔
امام بخاری کے شیخ باوقار امام بندار محمد بن بشار رحمہا اللہ العزیز الغفار فرماتے ہیں: ’’ہو افقہ خلق اللہ فی زماننا۔‘‘ کہ امام بخاری موجودہ دور میں اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ فقیہ ہیں۔
فربری فرماتے ہیں : میں نے محمد بن ابی حاتم سے سنا ، وہ کہتے ہیں: میں نے حاشد بن اسماعیل سے سنا، حاشد بن اسماعیل فرماتے ہیں: ’’کنت فی البصرۃ فسمعت بقدوم محمد بن اسماعیل فلما قدم، قال محمد بن بشار: قدم الیوم سید الفقہاء‘‘ کہ میں بصرہ میں تھا۔ میں نے سنا کہ امام بخاری بصرہ میں تشریف لا رہے ہیں۔ جب امام بخاری تشریف لائے تو ان کی آمد پر محمد بن بشار نے فرمایا: آج فقہاء کے سردار تشریف لائے ہیں۔
محمد بن ابراہیم البوشبخی کا بیان ہے کہ میں نے بندار سے 228ھ میں سنا، وہ فرما رہے تھے: ’’ما قدم علینا مثل محمد بن اسماعیل ۔ وقال بندار: انا افتخر بہ منذ سنین۔‘‘ کہ کافی آدمی میرے پاس آئے لیکن محمد بن اسماعیل جیسا کوئی نہیں آیا۔ او ربندار نے مزید فرمایا کہ میں کئی سالوں سے امام بخاری پر فخر و ناز کررہا ہوں۔
تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلاف کے اندر اپنے لائق شاگردوں پر کس قدر خوشی ہوتی تھی۔ وہ ان کو رقیب نہیں سمجھتے تھے۔
امام بخاری کے استاد عبداللہ بن یوسف تنیسی نے امام بخاری سے فرمایا: میری کتابوں پر نظر کرو اور جو غلطی نظر آئے، اس کی مجھے اطلاع دو۔ امام بخاری نے جواب دیا کہ جی ہاں ، میں یہ کام کردوں گا۔ اس واقعہ سے امام بخاری کی وسعت علمی ظاہر ہوتی ہے کہ استاد کی کتب کی تصحیح کرتے ہیں۔
امام بخاری کے استاد محمد بن سلام بیکندی نے بھی اپنی کتابیں امام بخاری پر پیش کیں اور کہا کہ جو بات غلط نظر آئے ، اس پر نشان لگا دو۔ محمد بن سلام ہی فرماتے ہیں کہ جب بھی امام بخاری محمد بن اسماعیل مجھ پر داخل ہوتے ہیں تو حیران رہا جاتا ہوں اور ڈرتا ہوں، یعنی کہیں ان کی موجودگی میں خطا کرجاؤں۔
امام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے جس سال پہلا حج کیا تو میری عمر اٹھارہ برس تھی۔ وہاں میں امام حمیدی کے پاس گیا۔ تو امام حمیدی کا کسی دوسرے محدث سے کسی حدیث کے بارے میں جھگڑا تھا۔ تو امام حمیدی نے مجھے دیکھ کر فرمایا: ’’جاء من یفصل بیننا فعرضا علی الخصومۃ فقضیت للحمیدی وکان الحق معہ‘‘ کہ اب وہ شخص آگیا ہے جو ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ انہوں نے مجھ پر جھگڑا پیش کیا تو میں نے امام حمیدی کے حق میں فیصلہ دے دیا کیونکہ امام حمیدی کی بات درست تھی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استاد نزاعی معاملات میں امام بخاری سے فیصلہ کروایا کرتے تھے۔
حاشد بن اسماعیل بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری کے استاد اسحاق بن راہویہ ایک مرتبہ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ امام بخاری بھی وہاں موجود تھے۔ اسحاق بن راہویہ نے ایک حدیث بیان کی جس پر امام بخاری نے لقمہ دیا، تو اسحاق بن راہویہ نے امام بخاری کی بات کو تسلیم کیا اور حاضرین مجلس سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’ يَا معشر أَصْحَاب الحَدِيث انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّاب واكتبوا عَنهُ فَإِنَّهُ لَو كَانَ فِي زمن الْحسن بن أبي الْحسن الْبَصْرِيّ لاحتاج إِلَيْهِ لمعرفته بِالْحَدِيثِ وفقهه ‘‘ کہ اصحاب الحدیث کی جماعت! تم اس جوان کو دیکھو اور اس سے حدیثیں لکھو، اگر یہ حسن بصری کے زمانہ میں ہوتے تو وہ بھی ان کی معرفت حدیث اور فقاہت کی وجہ سے ان کے محتاج ہوتے۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ استاد اسحاق بن راہویہ نے امام بخاری کے لقمہ سے حدیث کی تصحیح کی اور لوگوں کو آپ سے حدیثیں لکھنے کا حکم دیا۔
امام بخاری کا بیان ہے کہ اسحاق بن راہویہ ایک مرتبہ میری تصنیف کردہ تاریخ لےکر امیر عبداللہ بن طاہر کے پاس پہنچے تو کہا: ’’ایہا الامیر! الا اریک سحرا؟‘‘ کہ اے امیر عبداللہ بن طاہر! کیا میں آپ کو جادو نہ دکھاؤں؟
امام بخاری ہی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ اسحاق بن راہویہ سے حالت نسیان میں دی گئی طلاق کے بارے میں مسئلہ پوچھا گیا تو اسحاق بن راہویہ کچھ متامل سے ہوگئے۔ جواب کوئی نہ دیا تو امام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: ’’قال النبیﷺ: ان اللہ تجاوز عن امتی ما حدثت بہ انفسہا ما لم تعمل او تکلم۔‘‘ کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل سے پیدا ہونے والی اشیاء کو معاف کردیا ہے، جب تک وہ دل میں آئی ہوئی چیز کے متعلق بات نہ کرلیں یا عمل نہ کرلیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل اور کلام کے اندر قلبی ارادہ موجود ہو، تو وہ عمل نافذ ہوگا۔ اگر کلام اور عمل میں ارادہ موجود نہ ہو تو وہ نافذ نہ ہوگا۔ جس نے طلاق دی اور طلاق کا ارادہ نہیں کیا تو طلاق نہیں ہوگی۔ تو اسحاق بن راہویہ نے سن کر فرمایا: ’’قویتنی قواک اللہ وافتیٰ بہ‘‘ تو نے میری ہمت باندھی ، اللہ تجھے قوت دے اور اسی قول پر فتویٰ دیا۔
اس واقعہ سے امام بخاری کی فقاہت کے ساتھ ساتھ ان کا اپنے اساتذہ کی نظر میں مقام اور مرتبہ بھی ظاہر ہورہا ہے۔
امام بخاری فرماتے ہیں: ’’ما استصغرت نفسی عند احد الا عند علی بن المدینی وربما کنت اغرب علیہ‘‘ کہ میں نے اپنے آپ کو علی بن مدینی کے بغیر کسی کے پاس چھوٹا نہیں سمجھا اور بسا اوقات میں ان پر بھی غریب حدیثیں پیش کرتا تھا۔
حامد بن احمد کا بیان ہے کہ جب یہ بات علی بن مدینی کے سامنے پیش کی گئی تو علی بن مدینی نے فرمایا: ’’دع قولہ ہو ما رأی مثل نفسہ۔‘‘ کہ اس کی بات کو چھوڑ دو، اس نے اپنے جیسا نہیں دیکھا۔
تو امام بخاری نے علی بن مدینی کی بات کی تصدیق کردی۔
تو اما م بخاری کے ان اساتذہ کے اقوال سے تین چیزیں ظاہر ہوتی ہیں:
1: علم حدیث میں معرفت اور پختگی
2: اساتذہ کی نظر میں امام بخاری کی فقاہت وبصارت
3: امام بخاری کی مہارت اور دسترس
امام بخاری ہی کا بیان ہے کہ استاد علی بن مدینی مجھ سے خراسان کے مشائخ کے متعلق پوچھا کرتے تھے تو میں ان کو بتا دیتا تھا کہ فلاں شیخ اس قسم کا ہے۔ اس ضمن میں میں نے محمد بن سلام کا تذکرہ کیا تو وہ ان کی معرفت میں نہ آسکے۔ آخر مجھے ایک دن فرمایا:
’’ یا اباعبداللہ! کل من اثنیت علیہ فہو عندنا الرضی۔‘‘
کہ آپ ہمارے پاس جس کی تعریف کریں وہ ہمارے ہاں بھی پسندیدہ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اساتذہ امام بخاری پر کس قدر اعتماد کرتے تھے۔
امام بخاری کا بیان ہے کہ ایک روز ابوحفص عمرو بن علی الفلاس کے اصحاب نےایک حدیث کے متعلق مجھ سے مذاکرہ کیا تو امام بخاری فرماتے ہیں: ’’فقلت : لا اعرفہ۔‘‘ کہ میں اس حدیث کو نہیں پہچانتا۔
’’ فسروا بذلك وصاروا إِلَى عَمْرو بن عَليّ فَقَالُوا لَهُ ذاكرنا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل بِحَدِيث فَلم يعرفهُ فَقَالَ عَمْرو بن عَليّ حَدِيث لَا يعرفهُ مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل لَيْسَ بِحَدِيث ‘‘تو وہ اس بات پر خوش ہوئے۔ اسی عالم میں عمروبن علی الفلاس کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ ہم نے محمد بن اسماعیل سے ایک حدیث کا مذکراہ کیا تو وہ پہچان نہیں سکے۔
ان کا خیال یہ تھا کہ استاد صاحب کے پاس حدیث پیش کرنے سے حدیث کا اصل نکل آئے گا اور امام بخاری کی لاعلمی ظاہر ہوجائے گی۔
تو عمرو بن علی الفلاس نے جواب دیا کہ جس حدیث کو محمد بن اسماعیل نہ پہچانیں، وہ حدیث ہی نہیں۔
امام فلاس کے اس بیان سے امام بخاری کی وسعت معرفت حدیث اور بالغ نظری ظاہر ہوتی ہے۔
امام بخاری کے استاد رجاء بن رجاء فرماتے ہیں: ’’فضل محمد بن اسماعیل علی العلماء کفضل الرجال علی النساء‘‘ کہ علماء پر امام بخاری کی فضیلت اس طرح ہے جس طرح عورتوں پرمردوں کو فضیلت حاصل ہے۔
مزید فرماتے ہیں: ’’ہو آیۃ من آیات اللہ تمشی علی ظہر الارض‘‘ کہ وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو روئے زمین پر چل پھر رہی ہے۔
امام بخاری کے استاد حسین بن حریث فرماتے ہیں: ’’لا اعلم انی رأیت مثل محمد بن اسماعیل کانہ لم یخلق الا للحدیث‘‘ کہ میرے علم میں نہیں کہ میں نے محمد بن اسماعیل جیسا دیکھا ہو۔ گویا ان کو صرف حدیث کےلیے پیدا کیا گیا ہے۔
ابوبکر بن ابی شیبہ اور محمد بن عبداللہ بن نمیر دونوں امام بخاری کے استاد ہیں۔ دونوں فرماتے ہیں: ’’ہم نے محمد بن اسماعیل کی نظیر نہیں دیکھی۔‘‘
اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے آپ کا نام بازل رکھا ہوا تھا۔ بازل سے مراد کامل ہے۔ یہ ان کے کمال کی بہت بڑی نشانی ہے۔ ابوعیسیٰ ترمذی کا بیان ہے کہ امام بخاری اپنے شیخ عبداللہ بن نمیر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ جب امام بخاری کھڑے ہوئے تو انہوں نے فرمایا: ’’ یا اباعبد اللہ جعلک اللہ زین ہذہ الامۃ۔‘‘
استاد صاحب نے امام بخاری کےلیے دعا کی: اے ابوعبداللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو اس امت کی زینت بنائے۔
امام ترمذی فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے عبداللہ بن نمیر کی دعا قبول کرلی۔
ابوعبداللہ فربری فرماتے ہیں: ’’رایت عبداللہ بن نمیر یکتب عن البخاری وسمعتہ یقول: انا من تلامذتہ۔‘‘
کہ میں نے عبداللہ بن نمیر کو دیکھا کہ وہ امام بخاری سے حدیثیں لکھا کرتے تھے۔ اور میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا کہ میں امام بخاری کے شاگردوں سے ہوں۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن نمیر امام بخاری کے شیوخ سے ہیں۔ امام بخاری نے جامع صحیح میں ان سے حدیث بیان کی ہے اور عبداللہ بن نمیر کی وفات احمد بن حنبل کی وفات والے سال ہے۔ تو امام بخاری کے استاد کا اپنے آپ کو امام بخاری کے شاگردوں میں شمار کرنا امام بخاری کے شرف وفضل کےلیے شاہد عدل ہے۔
حاشد کا بیان ہے کہ امام بخاری کے استاد عمرو بن زرارہ اور محمد بن رافع دونوں امام بخاری سے علل حدیث کے متعلق سوال کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ امام بخاری علمی بصیرت میں ہم سے زیادہ ہیں۔ اور حاشد ہی کا بیا ہے کہ ہم ایک دن عمرو بن زرارہ اور اسحاق بن راہویہ کی مجلس میں تھے ۔ اسحاق بن راہویہ امام بخاری کے ذریعے محدثین کو حدیثیں لکھوا رہے تھے اور محدثین ان سے حدیثیں لکھ رہے تھے۔
’’واسحاق یقول: ہو ابصر منی۔‘‘ اور اسحاق بن راہویہ ساتھ ساتھ یہ بھی فرماتے تھے کہ امام بخاری مجھ سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں۔
امام بخاری اس وقت نوجوان تھے۔
امام بخاری کے استاد یحییٰ بن جعفر بیکندی فرماتے ہیں: ’’ لَو قدرت أَن أَزِيد من عمري فِي عمر مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل لفَعَلت فَإِن موتِي يكون موت رجل وَاحِد وَمَوْت مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل فِيهِ ذهَاب الْعلم‘‘ اگر میرے اختیار میں ہو کہ اپنی عمر سے امام بخاری کی عمر میں اضافہ کروں تو میں یہ ضرور کروں کیونکہ میری موت ایک آدمی کی موت ہوگی، اور امام بخاری کی وفات سے علم چلا جائے گا۔
یہی استاد مزید فرماتے ہیں کہ اگر بخاریٰ کے اندر امام بخاری نہ ہوں تو میں بخاریٰ کے اندر رہنا ہی پسند نہ کروں۔
عبداللہ بن محمد مسندی فرماتے ہیں: ’’محمد بن اسماعیل امام فمن لم یجعلہ اماما فاتہمہ‘‘ کہ امام بخاری واقعی امام ہیں، جو کوئی ان کو امام نہ سمجھے ، اس کو متہم سمجھو۔
اور انہوں نے مزید فرمایا: ’’حافظ زماننا ثلاثۃ، فبدأ بالبخاری۔‘‘ کہ ہمارے زمانے میں حفاظ حدیث تین ہیں۔ ان میں سرفہرست امام بخاری کو رکھا۔
امام بخاری کے استاد علی بن حجر فرماتے ہیں: ’’ أخرجت خُرَاسَان ثَلَاثَة البُخَارِيّ فَبَدَأَ بِهِ قَالَ وَهُوَ أبصرهم وأعلمهم بِالْحَدِيثِ وأفقههم قَالَ وَلَا أعلم أحدا مثله‘‘ کہ خراسان نے تین نامور ہستیاں پیدا کیں۔ ان میں پہلے نمبر پر امام بخاری کو رکھا اور فرمایا کہ امام بخاری ان میں سب سے زیادہ بصیرت رکھنے والے ، زیادہ علم حدیث کو جاننے ولاے اور سب سے زیادہ فقیہ ہیں۔ مزید فرمایا: میرے علم میں ان جیسا کوئی نہیں۔
ایک دفعہ امام بخاری کے استاد ابن اشکاب ایک مجلس میں تشریف فرما تھے تو وہاں حفاظ حدیث میں سے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: ’’مالنا بمحمد بن اسماعیل طاقۃ۔‘‘ تو ابن اشکاب یہ بات سن کر غضب اور غصہ میں آگئے۔ مجلس چھوڑ دی کہ اس نے امام بخاری کے بارے میں شان سے گرے ہوئے کلمات استعمال کیے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری کے استاد امام بخاری کے بارے میں ان کی شان سے گرے ہوئے کلمات سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔
عبداللہ بن محمد بن سعید بن جعفر کا بیان ہے کہ احمد بن حرب نیساپوری جب فوت ہوئے ، ہم لوگ ان کے جنازے میں جارہے تھے۔ جنازہ کے ساتھ ساتھ امام بخاری اور اسحاق بن راہویہ بھی تھے۔ اور دیگر علماء کی ایک جماعت بھی جنازہ میں شریک تھی۔ ’’وکنت اسمع اہل المعرفۃ ینظرون ویقولون محمد افقہ من اسحاق۔‘‘ تو وہاں میں اہل بصیرت سے سن رہا تھا ، وہ دیکھتے تھے اور کہتے تھے کہ امام بخاری محمد بن اسماعیل فقہ میں اسحاق بن راہویہ سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں۔
امام بخاری کے متعلق ان کے اساتذہ کرام کے چند ایک کلمات تھے، جن سے امام بخاری کا مقام اور مرتبہ اپنے اساتذہ کی نظر میں ظاہر ہورہا ہے۔
مرآۃ البخاری از محدث نور پوری رحمہ اللہ
ص: 191 تا 206
کمپوزنگ: آزاد