• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ترمذیؒ اور ان کی الجامع

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
امام ترمذیؒ اور ان کی الجامع


نام و نسب

امام ترمذیؒ کا نام محمد، کنیت ابوعیسیٰ اور والد کا نام عیسیٰ ہے۔ پورا سلسلۂ نسب یوں ہے: ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسیٰ بن ضحاک ضریراور نسبت کے اعتبارسے سلمی،بوغی اور ترمذی کہلاتے ہیں جیسا کہ ابن اثیرنے جامع الاصول میں بیان کیا ہے۔
آخر عمر میں نابینا ہونے کی وجہ سے ضریراور قبیلہ بنوسلیم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے سُلمي کہلائے۔جبکہ بوغی قریہ بوغ کی جانب نسبت ہے جو ترمذ سے ۱۸؍میل کی مسافت پرواقع ہے۔ بعض روایات کے مطابق امام ترمذیؒ اسی بستی میں مدفون ہیں۔علامہ سمعانی ؒنے اپنی کتاب الأنساب میں اور حافظ ابویعلی ؒنے ان کے نسب نامہ میں موسیٰ کی بجائے شداد ذکر کیا ہے۔ امام ترمذیؒ کے دادا مروزی الاصل تھے ۔ لیث بن یسار ؒکے زمانہ میں شہرترمذ میں منتقل ہوئے اور پھر وہیں اقامت گزیں ہوگئے ۔

سن پیدائش اور لفظ تِرمذکی تحقیق

امام ترمذی ؒ۲۰۹ھ میں تِرمذ مقام میں پیدا ہوئے۔ حافظ ابن اثیر ؒنے جامع الأصول میں تاریخ پیدائش ۲۰۰ھ لکھی ہے۔ ترمذ ایک قدیم شہرہے جو نہر بلخ کے ساحل پر واقع ہے، اسے جیحون بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ ماوراء النہرمیں بھی نہر سے اکثریہی نہر بلخ مراد لی گئی ہے۔ کسی زمانہ میں یہ شہر نہایت مشہور تھا لیکن چنگیز خاں کے ہنگامہ میں تباہ وبرباد ہو کر صرف ایک قصبہ رہ گیا ہے۔ علامہ سمعانی ؒ فرماتے ہیں کہ
’’لفظ ترمذکے تلفظ میں اختلاف ہے، اسے ’ت‘ کی تینوں حرکتوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اس شہر کے باسی اسے تَرْمِذْبولتے ہیں۔جبکہ قدیم زمانہ میں یہ تِرْمِذْ کے نام سے معروف تھا۔ جب کہ بعض اہل علم وتحقیق اسے تُرْمُذْ بھی پڑھتے ہیں اور ہر ایک نے اپنے دعوے کی معنوی توجیہ پیش کی ہے۔اور ابن دقیق العید نے کہا ہے کہ تِرْمِذْ ہی زیادہ مشہور ہے بلکہ یہ خبر متواتر کی طرح یقینی ہے۔‘‘

تحصیل علم اور رحلات

امام ترمذیؒ جس دور میں پیداہوئے، اس زمانہ میں علم حدیث درجہ شہرت کو پہنچ چکا تھا بالخصوص خراسان اور ماوراء النہر کے علاقے اس فن میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے اوروہاں امام بخاریؒ جیسے جلیل القدر محدث کی مسند ِعلم بچھ چکی تھی۔امام ترمذیؒ کو شروع میں ہی تحصیل علم حدیث کا شوق دامن گیر ہوگیاتھا چنانچہ آپ نے علوم و فنون کے مرکز ترمذمیں ابتدائی تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے بعد طلب ِحدیث کے لئے مختلف شہروں، علاقوں اور ملکوں کا سفر کیا اوربصرہ، کوفہ، واسط،بخارا، رَے، خراسان اور حجاز میں برسوں قیام پذیر رہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی تہذیب التہذیب میں فرماتے ہیں:
’’طاف البلاد وسمع خلقا من الخراسانیین والعراقیین والحجازیین‘‘
’’امام ترمذیؒ نے بہت سے شہروں کا سفر کیا اور خراسان، عراق اور حجاز کے بہت سے علما سے حدیث کا سماع کیا۔‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذیؒ مصر اور شام نہیں گئے کیونکہ اُن شیوخ سے آپ بالواسطہ روایت کرتے ہیں۔اور غالباً بغداد بھی نہیں گئے کیونکہ وہاں جاتے تو امام احمد بن حنبلؒ سے ضرور ملاقات وسماع حدیث کرتے لیکن ان سے ان کا سماع ثابت نہیں،کیونکہ خطیبؒ بغدادی نے تاریخ بغداد میں اور امام ذہبی نے سیر أعلام النبلاء میں اس سماع کا ذکرتک نہیں کیا۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ امام ترمذی ؒ نے ۲۳۵ھ میں تحصیل علم کے لئے سفر کا آغاز کیا ہے جب ان کی عمر ۲۵ یا ۲۶ سال تھی کیونکہ اس سے پہلے جو شیوخ فوت ہوگئے تھے، امام ترمذیؒ نے ان سے بالواسطہ روایت کی ہے جیسے علی بن مدینی (ف۲۳۴ھ)، محمد بن عبد اللہ بن عمیر کوفی (ف۲۳۴) اور ابراہیم بن منذر (ف۲۳۶؍۲۳۵ھ) وغیرہ۔ جبکہ امام ترمذیؒ کے سب سے پہلے شیوخ محمد بن عمرو سواق بلخی (ف ۲۳۶ھ)، محمود بن غیلان مروزی (ف۲۳۹ھ) ، قتیبہ بن سعید (ف۲۴۰ھ) اور اسحق بن راہویہ (ف۲۳۸ھ) نظر آتے ہیں۔

شیوخ واساتذہ:

امام ترمذیؒ کے شیوخ کی مفصل فہرست امام ذہبی ؒ نے سیرأعلام النبلائمیں اور امام مزیؒ نے تہذیب الکمالمیں ذکرکی ہے اور ان شیوخ میں کچھ وہ بھی ہیں جن سے ائمہ صحاحِ ستہ نے روایت کی ہے جیسے
ابوبکر محمد بن بشار (م ۲۵۲ھ) محمد بن معمر القیسی(م ۲۵۶ھ) ابوعیسیٰ محمد بن مثنیٰ (م ۲۵۲ھ) نصر بن علی جہضمی(م ۲۵۰ھ)
زیاد بن یحییٰ حملانی (م۲۵۴ھ) ابوالعباس عبدالعظیم عنبری (م۲۴۶ھ) ابو حفص عمرو بن علی الفلاس (م ۲۴۹ھ)
ابوسعید عبداللہ بن سعید کندی (م ۲۵۷ھ) یعقوب بن ابراہیم الدورقی (م ۲۵۲ھ)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے شیوخ ہیں جن سے امام ترمذیؒ نے شرفِ تلمذ حاصل کیا ہے اوراپنی جامع میں ان سے احادیث بھی روایت کی ہیں۔ان میں سے چند مشہور اساتذہ کے نام یہ ہیں:

محمد بن عبدالعزیز مروزی(م ۲۴۱ھ)، ابوبکر محمد بن علائ(م ۲۴۸ھ)،ابواسحق ابراہیم بن عبدالرحمن الہروی،ابومحمداسماعیل بن موسیٰ فزاری، محمد بن اسماعیل بخاریؒ،مسلم بن حجاجؒ، علی بن حجر مروزیؒ، ہناد بن سرّیؒ، امام ابوداودؒ، ابومصعب زہریؒ، ابراہیم بن عبداللہ ہرویؒ، اسماعیل بن موسیٰ سدیؒ،سوید بن نصر مروزیؒ، محمد بن عبد المالک بن ابی الشواربؒ، عبداللہ بن معاویہ جمعیؒ، محمد بن بشارؒ،ابواسحق ابراہیم بن سعید جوہریؒ، بشر بن آدمؒ، جارود بن معاذؒ، رجاء بن محمدؒ، زیاد بن ایوبؒ، سعید بن عبدالرحمنؒ، صالح بن عبداللہ بن ذکوانؒ، عباس بن عبدالعظیمؒ، فضل بن سہلؒ، محمد بن ابان مستملیؒ، نصر بن علیؒ، ہارون بن عبداللہؒ، یحییٰ بن اکثمؒ، یحییٰ بن طلحہ یربوعی،یوسف بن حماد معنی اور اسحق بن موسی خطمی وغیرہ …اور جن شیوخ سے آپ نے جامع میں حدیثیں بیان کی ہیں، ان کی کل تعداد تقریباً ۲۰۶ ہے۔

امام ترمذی ؒ اور علم حدیث

امام ترمذیؒ کو علوم حدیث میں بہت رسوخ حاصل تھا۔ اس کا سبب کبار ائمہ اور ماہر اہل علم سے کسب ِفیض تھا۔آپ نے مذکورہ بالا شیوخ سے استفادہ کرنے کے علاوہ علل حدیث،رجال اور فنونِ حدیث میں امام دارمی اور ا بو زرعہ رازی سے بھی استفادہ کیا ہے اور خاص کر حدیث کے علوم وفنون اور فقہ الحدیث میں آپ کے اصل مربی امام بخاریؒ ہیں اور ان کی تربیت کا عکس امام ترمذیؒ کی جامع میں نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
علامہ ذہبی لکھتے ہیں:’’ تفقہ في الحدیث بالبخاري‘‘
اور مقدمة الجامع میں شیخ احمد شاکر لکھتے ہیں:
’’ الترمذي تلمیذ البخاری وخریجہ وعنہ أخذ الحدیث وتفقہ بہ ومرَّن بین یدیہ وسألہ واستفاد بہ‘‘
اور امام ترمذی نے اپنی کتاب العلل میں خود بھی اعتراف کیا ہے کہ ’’میں نے اپنی جامع میں علل وتاریخ کا زیادہ حصہ محمد بن اسمٰعیل سے حاصل کیا ہے اور میں نے عراق اور خراسان میں امام بخاری سے زیادہ علل،تاریخ اور اسانید کا علم رکھنے والا کوئی اور نہیں پایا۔‘‘

امام ترمذی ؒکا اعزاز

اگرچہ امام ترمذیؒ امام بخاری کے قابل فخر اور مایہ ناز تلامذہ میںسے ہیں، تاہم اُنہیں یہ شرف بھی حاصل ہے کہ خود استاد نے ان سے حدیث کا سماع کیا اور ان کے علم وذکاوت کا اعتراف کرتے ہوئے اُنہیں اپنے شیوخ اور اساتذہ میں شامل کرلیا۔
چنانچہ ’ابواب التفسیر‘ سورۃ الحشر کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان{مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِیْننةٍ أَوْتَرَکْتُمُوْھَا قَائِممةً عَلَی أُصُوْلِہَا…}کے بارے میں حضرت ابن عباسؓ کی حدیث کہ’’ لینة سے مراد نخلة (یعنی کھجور) ہے۔ ‘‘ کو ذکر کرنے کے بعد امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ ’’محمد بن اسماعیل ؒنے یہ حدیث مجھ سے سنی ہے۔‘‘
اسی طرح امام ترمذیؒ أبواب المناقب میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کی نبی ﷺ سے یہ روایت کہ یا علي لا یحل لأحد أن یجنب في ھذا المسجد غیري وغیرک کو حضرت علیؓ کے مناقب میں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
’’مجھ سے یہ حدیث محمد بن اسمٰعیل بخاریؒ نے سنی ہے۔‘‘
خود امام بخاریؒ کو بھی اپنے لائق شاگرد پر ناز تھا، چنانچہ آپؒ نے امام ترمذی ؒ کے سامنے اس امر کااعتراف ان الفاظ میں کیا تھا : ’’انتفعتُ بک أکثر مما انتفعتَ بي‘‘
’’جوعلمی استفادہ میں نے آپ سے کیا ہے، وہ آپ مجھ سے نہیں کر پائے۔‘‘

امام ترمذیؒ کی فقاہت

امام ترمذیؒ ایک محدث ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے فقیہ بھی تھے اور مذاہب ِعلما سے بھی خوب واقف تھے، آپ نے فقہ الحدیث امام بخاری جیسے حاذق محدث سے حاصل کی اور فقہ اہل الرائے اس وقت کے مشہور فقیہ الرازی سے اور فقہ مالکی اسحق بن موسی انصاری اور ابومصعب زہری سے ا خذ کی جب کہ امام شافعی کا مذہب ِقدیم حسن بن محمد زعفرانی اور قولِ جدید ربیع بن سلیمان سے حاصل کیا، اسی طرح امام احمد بن حنبل ،اسحق بن راہویہ اور دیگر بہت سے علما کے اقوال ومذاہب کو خوب سلیقہ سے اپنی جامع میں سمو دیا۔آپ کی جامع آپ کے تفقہ فی الحدیث اور مذاہب پر اطلاع کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ہر باب میں علما کے اقوال پیش کر کے ان میں سے ایک کو ترجیح دیتے ہیں جس سے قاری کا یہ تاثر بنتا ہے کہ آپ فقہ و حدیث کے بہت بڑے امام تھے۔

امام ترمذی کے مشہورا ساتذہ

امام ترمذیؒ طلب ِعلم میں محنت،حدیث وفقہ میں علمی رسوخ اور دیگر گونا گوں صفات کی وجہ سے مرجع خلائق بن گئے تھے۔ متلاشیانِ علم اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے ان کے حلقہ درس میں شامل ہونے لگے ۔ ان کے تلامذہ میں خراسان و ترکستان کے علاوہ دنیا ے اسلام کے مختلف گوشوں کے آدمی ملتے ہیں۔ چند ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں:
ابوحامد احمد بن عبداللہ مروزی، ہیثم بن کلیب شاشی، ابوالعباس محمد بن احمد بن محبوب محبوبی مروزی، احمد بن یوسف نسفی، ابوالحارث اسد بن حمدویہ، داؤد بن نصر بن سہیل بزدوی، عبد بن محمد بن محمود نسفی، محمود بن نمیر، محمد بن محمود، محمد بن مکی بن نوح، ابوجعفر محمد بن سفیان بن النضر، محمد بن منذر بن سعید ہروی، ابوبکر احمد بن اسمٰعیل بن عامر ثمرقندی، احمد بن علی مقری، حماد بن شاکر الورّاق، علی بن نوح نسفی مقری اورحسین بن یوسف غریزی رحمہم اللہ وغیرہ

حافظہ

اللہ تعالیٰ جب کسی سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو اس کے اسباب بھی خود پیدا فرمادیتا ہے۔ امام ترمذیؒ کو جس طرح اکابر محدثین سے استفادہ کا موقع ملا، ویسے ہی انہیںخداداد قوتِ حافظہ بھی عطا کی گئی۔ حافظ ابن حجرؒ نے تہذیب التہذیب میں نقل کیا ہے کہ ابوسعید ادریسیؒ فرماتے ہیں کہ
’’ امام ترمذیؒ ان ائمہ میں سے ایک ہیں جو علم حدیث میں مرجع الخلائق تھے، آپ نے اپنی مشہور کتاب جامع، تاریخ اور علل کو ایک پختہ ماہر، عالم کی طرح تصنیف کیا ہے۔ ‘‘
آپ کی قوتِ حافظہ ضربُ المثل تھی۔ ان کا ایک حیرت انگیز واقعہ رجال کی سب کتابوں میں موجود ہے کہ
’’اُنہوں نے ایک شیخ سے دو جز کے بقدر حدیثیں سنیں اور قلم بند کر لیں،لیکن ابھی تک شیخ کو پڑھ کر سنانے اوران کی تصحیح کر نے کاموقع نہ ملا تھا۔ ایک روز حسن اتفاق سے مکہ مکرمہ کے راستے میں ان سے ملاقات ہوگئی توامام ترمذیؒ نے اس موقع کو غنیمت جان کر شیخ سے قراء ۃ کی درخواست کی،اُنہوں نے منظور کرلی اور کہا :اجزا نکال لو ،میں پڑھتا ہوں تم مقابلہ کرتے جاؤ۔ ترمذیؒ نے اجزا تلاش کئے مگر وہ ساتھ نہ تھے۔ بہت گھبرائے لیکن اس وقت ان کی سمجھ میں اس کے سوا اور کچھ نہ آیا کہ سادہ کاغذ کے دو اجزا ہاتھ میں لئے اور متوجہ ہو کر بیٹھ گئے۔ شیخ نے قراء ت شروع کی اور اتفاق سے ان کی نظر کاغذ پر پڑ گئی تودیکھا کہ شاگرد سادہ اور سفید کاغذپر نظریں گھما رہا ہے ۔ شیخ غصہ میں آگئے اور فرمایا :مجھ سے مذاق کرتے ہو؟ ترمذی ؒ نے اصل واقعہ بیان کیا اور کہا: اگرچہ وہ اجزا میرے پاس نہیں ہیں لیکن لکھے ہوؤں سے زیادہ محفوظ ہیں۔ شیخ نے فرمایا :اچھا پھرسناؤ۔ امام ترمذی ؒ نے وہ تمام حدیثیں فرفر سنا دیں۔ شیخ کو خیال ہوا کہ شاید ان کو پہلے سے یاد تھیں، اس لئے فر فر سنا گئے ہیں۔ امام ترمذیؒ نے عرض کیا کہ آپ ان کے علاوہ کوئی دوسری احادیث پڑھ کر سنائیں اور امتحان لے لیں۔ شیخ نے اپنی خاص چالیس حدیثیں اور پڑھیں۔ امام ترمذی ؒنے وہ تمام احادیث بھی من وعن دہرا دیں ۔تب شیخ کو ان کے قوتِ حافظہ کا یقین ہوگیا اور نہایت تعجب سے فرمایا : ’’ میں نے (قوتِ حافظہ )میں تجھ سے بڑھ کر کوئی نہیں دیکھا۔ ‘‘
امام ترمذیؒ کے بارے میں حافظ ذہبیؒ میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں کہ
’’ وہ بہت بڑے حافظ، ثقہ اور مسلمہ امام ہیں۔ ‘‘
اور ابن حبانؒ کتاب الثقات میں فرماتے ہیں:
’’کان أبوعیسیٰ ممّن جمع وصنّف وحفظ وذکر‘‘
’’امام ابو عیسیٰ ترمذی ؒان لوگوںمیں سے تھے جنہوں نے (احادیث)کو جمع کیا ، اُنہیں لکھا ، اپنے ذہن میں محفوظ کیا اور آگے بیان کیا ۔‘‘

زہد و تقویٰ

امام ترمذیؒ زہد و ورع اور خوف خدا میں یکتاے روز گار تھے ۔ جیسا کہ محدثین کرام کی یہ امتیازی شان ہے کہ وہ بلند اخلاق سے آراستہ اور بہترین صفات کے حامل تھے۔ باقاعدگی سے قرآنِ مجید کی تلاوت ، تہجد اور شب زندہ داری ان کی زندگی کا جزوِ لا ینفک تھے ۔ سنت کے سچے دل سے خدمت گزار اور اس پر عامل تھے۔ حسد، بغض، چغلی اور غیبت کو کبیرہ اور قبیح ترین گناہ سمجھتے تھے۔ امام ترمذیؒ کے دل میں خوفِ الٰہی کا یہ عالم تھا کہ بکثرت روتے رہتے جس کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی ضائع ہو گئی۔ اگرچہ بعض کہتے ہیں کہ وہ پیدائشی نابینا تھے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ وہ آخری عمر میںبکثرت رونے سے نابینا ہوگئے تھے ۔جیسا کہ امام حاکم ؒنے عمر بن علک ؒسے نقل کیا ہے کہ
’’امام بخاری ؒ کے انتقال کے بعد خراسان میں علم و حفظ اور زہد و تقویٰ میں ابوعیسیٰ ترمذی ؒ جیسا کوئی نہیں تھا ۔وہ اس قدر روتے کہ آنکھوں کی بصارت سے محروم ہوگئے اور سال ہا سال اسی طرح نابینا ہی زندگی گزار دی۔‘‘

امام ابن حزم ؒ کا مغالطہ اور اس کا ردّ

یہ بات باعث ِتعجب ہے کہ امام ابن حزمؒ امام ترمذیؒ سے واقف نہیں تھے اور ان کے بارے میں یہ کہہ دیا کہ وہ مجہول ہیں۔محقق علماے حدیث نے ان کی اس بات کی تردید کی ہے چنانچہ حافظ ذہبیؒ میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :
’’ابوعیسیٰ ترمذیؒ صاحب الجامع، بلند پایہ حافظ، ثقہ اور مجمع علیہ شخصیت ہیں۔ ان کے متعلق ابومحمد ابن حزمؒ کے قول کی طرف التفات نہیںکیا جائے گا،جو اُنہوں نے کتاب الاتصال کے باب الفرائض میں بیان کیا ہے کہ ترمذیؒ مجہول ہیں۔ حیرت ہے کہ امام ترمذیؒ کو ان کی جامع اور کتاب العلل کے ہوتے ہوئے بھی نہ پہچان سکے ۔‘‘
اور سیر أعلام النبلاء میں فرماتے ہیں کہ ’’امام ابن حزم ؒنے جہاں صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن حبان، سنن ابی داؤد اور سنن نسائی جیسی اہم اور بڑی بڑی کتابوں کاذکر کیا ہے وہاں سنن ابن ماجہ اور جامع ترمذی کا تذکرہ نہیں کیا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان دونوں کتابوں کو اپنی زندگی میں دیکھ نہیںسکے کیونکہ یہ اندلس میں ان کی وفات کے بعد داخل ہوئیں ۔
تہذیب التہذیب میں الخلیلي کا قول ہے کہ
’’ امام ترمذیؒ ثقہ اور متفق علیہ شخصیت ہیں۔ باقی رہاان کے بارے میں ابومحمد ابن حزمؒ کا قول تو اُنہوں نے امام ترمذی ؒ کے حالات سے عدمِ واقفیت کا اعتراف کیا ہے چنانچہ اپنی کتاب الاتصال کے باب الفرائض میں لکھتے ہیں کہ ’’محمدبن عیسیٰ بن سورۃ مجہول ہیں۔‘‘
لیکن یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ شایدامام ابن حزم ؒ کو امام ترمذی ؒ اور ان کے حفظ و ضبط اور ان کی تصانیف کا علم نہ ہوسکا ہو،اس لیے اُنہوں نے مجہول کہہ دیا ہے ،کیونکہ اُنہوں نے نقد وجرح میں سخت ہونے کی بنا پر اس وصف کا اطلاق امام ترمذی کے علاوہ ابوالقاسم بغوی، اسماعیل بن محمد الصغار اور ابوالعباس اصم وغیرہ بہت سے حفاظ اور ثقات ائمہ پر بھی کیا ہے جو اپنے علم وفضل اور فقہی مقام میں بہت مشہور تھے۔
اس طرح حافظ ابن فرضی اندلسی نے امام ترمذی ؒکا ذکر اپنی کتاب المؤتلف والمختلف میں کیا ہے اور ان کی قدرومنزلت کی بھی نشاندہی کی ہے ،اس کے باوجود ابن حزم ؒکا ان کے متعلق لاعلمی کا اظہار کرنا باعث ِحیرت ہے ،اس لیے علما نے امام ترمذی پر ابن حزمؒ کی جرح کو شذوذ پر محمول کیا ہے،کیونکہ یہ ان کے مقام اور علم وفضل سے عدمِ واقفیت پر مبنی ہے جب کہ ائمہ کبار نے آپ کی توثیق کی ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر تہذیب اور تقریب میں فرماتے ہیں کہ ’’امام ترمذیؒ ایک ثقہ، حافظ ماہر اور مشہور امام ہیں جو طلب ِعلم کے لیے عراق، خراسان، حجاز اور دیگر بے شمار شہروں کی خاک چھانتے پھرے۔‘‘ ابن حجرؒ کی اس بات کی تائید ابن اثیر ،حافظ عراقی ،حافظ ابو یعلی اور امام مزی جیسے مشہور ائمہ کے کلام سے بھی ہوتی ہے۔

امام ترمذی ؒکی کنیت پر اعتراض

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ امام ترمذیؒ کا نام محمد اور کنیت ابوعیسیٰ تھی ۔ وہ اپنے نام کی بجائے کنیت کوا ختیار کرتے تھے اور اپنے آپ کو ابوعیسیٰ سے تعبیر کرتے، لیکن بعض علما نے ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کو نا پسند کیاہے کیونکہ ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں یہ باب باندھا ہے:
’’باب مایکرہ للرجل أن یکتنیٰ لأبي عیسٰی‘‘ حدثنا الفضل بن دکین عن موسیٰ بن علی عن أبیہ أن رجلاً اکتنی بأبي عیسیٰ فقال رسول اﷲﷺ: إن عیسیٰ لا أب لہ‘‘
اسی طرح ایک اور روایت زید بن أسلم عن أبیہ کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ
’’حضرت عمرؓ کے ایک بیٹے نے اپنی کنیت ابو عیسیٰ رکھی تو اُنہوں نے اسے سزا دی اور فرمایا: عیسیٰ ؑـ کا تو باپ ہی نہیں تھا۔‘‘
اعتراض کا جواب : بعض علما نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی پہلی روایت تو مرسل ہے اور دوسری حضرت عمر پر موقوف ہے، لہٰذا یہ دونوں روایات ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کی ممانعت پر دلیل نہیں بن سکتیں اور اگر بفرضِ محال ابن ابی شیبہ کی روایت کو مرفوع تسلیم کربھی لیا جائے تب بھی اس سے ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کی کوئی ممانعت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس میں ایک امر واقع کا بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ کا باپ نہیں تھا اور یہ بات رسول اللہﷺ نے بطورِ مزاح کہی تھی جیسا کہ ایک آدمی نے آپ ﷺسے سواری مانگی تو آپ ؐنے فرمایا : میں تجھے سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دے سکتا ہوں۔ وہ کہنے لگا :اے اللہ کے رسولﷺ! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اونٹ بھی تواونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے ۔‘‘
اسی طرح ابو عیسیٰ کنیت رکھنے کی تائید سنن ابوداؤد کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔ امام ابوداود نے کتاب الادب میں ان الفاظ میں باب قائم کیا ہے :’’باب من یتکنی بأبي عیسٰی‘‘اور اس میں یہ ذکر ہے کہ عمر بن خطابؓ نے اپنے بیٹے کو ابوعیسیٰ کنیت رکھنے پر مارا، اور مغیرہ بن شعبہ نے بھی ابوعیسیٰ کنیت رکھی ہوئی تھی تو حضرت عمراُن کو کہنے لگے کہ تجھے ابوعبداللہ کنیت کفایت نہیں کرتی تو حضرت مغیرہ نے جواب دیا کہ میری یہ کنیت رسول اللہﷺنے خود رکھی تھی تو حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ رسول اللہﷺ کے تو اگلے پچھلے گناہ معاف کردیے گئے ہیں۔ان کا اشارہ اللہ کے اس فرمان کی طرف تھا {لِیَغْفِرَلَکَ اﷲ} اور ہم تو اپنے جیسے عام لوگوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ کیا کیاجائے گا۔ مغیرہ بن شعبہؓ نے اپنی کنیت ابوعبداللہ رکھی اور اس پر ہی قائم رہے حتیٰ کہ فوت ہوگئے۔ اسی طرح الإصابةمیں ابن حجر رقم طراز ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے حضرت عمرؓ کے پاس آنے کی اجازت مانگی اور کہا میں ابوعیسیٰ ہوں حضرت عمرؓ کہنے لگے: ابوعیسیٰ کون؟ حضرت مغیرہ نے جواب دیا مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت عمرؓ نے فرمایا :کیا عیسیٰ کا باپ تھا؟
بعض صحابہؓ نے حضرت مغیرہ کے حق میں گواہی دی کہ رسول اللہﷺ نے ان کی کنیت ابوعیسیٰ رکھی تھی تو حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ رسول اللہﷺ کو تو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا اور آپؓ نے حضرت مغیرہ کی کنیت ابوعبداللہ رکھ دی۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کی ممانعت کے بارے میں کوئی مرفوع، متصل، صحیح اور صریح حدیث نہیں ہے بلکہ مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے میری کنیت ابوعیسیٰ رکھی اور ان کی اس بات پربعض صحابہؓ نے بھی گواہی دی جو کہ ابوعیسیٰ کنیت کے جواز پر ایک صریح دلیل ہے۔ باقی رہا حضرت عمرؓ کا قول تو یہ مرفوع حدیث کے حکم میں نہیں ہے،کیونکہ یہ حدیث کے الفاظ ’’إن عیسی لا أب لہ‘‘ سے ان کا اپنا فہم اور اجتہاد ہے۔

صاحب الجامع‘ ابو عیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی

علامہ شاہ عبدالعزیز بستان المحدثین میں فرماتے ہیں کہ
’’نوادر الأصول کے مصنف حکیم ترمذی، جامع ا لترمذی کے مصنف ابوعیسیٰ ترمذی کے سوا اور شخصیت ہیں کیونکہ جامع ترمذی کا شمار صحاحِ ستہ میں ہوتا ہے جب کہ نوادر الأصول کی اکثر حدیثیں ضعیف اور غیر معتبر ہیں اور اکثر جاہل لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ حکیم ترمذی ہی ابوعیسیٰ ترمذی ہیں، اس لئے وہ ضعیف حدیثوں کو بھی ابوعیسیٰ ترمذی کی طرف یہ سمجھتے ہوئے منسوب کردیتے ہیں کہ یہ حدیثیں جامع ترمذی کی ہیں۔‘‘
امر واقع یہ ہے کہ ترمذی نام کے تین امام گزرے ہیں:
1 ابو عیسیٰ ترمذی، صاحب الجامع: جو سب سے زیادہ مشہور ہیں اور مطلق ترمذی کا لفظ سنتے ہی فوراً ذہن ان کی طرف جاتا ہے ۔
2 ابوالحسن احمد بن حسن جو ترمذی الکبیر کے نام سے مشہور ہیں۔چنانچہ حافظ ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں فرماتے ہیں کہ
’’ ترمذی کبیرسے مراد حافظ ابوالحسن احمدبن حسن بن جنیدب ترمذی ہیں جو ایک بلند پایہ محدث تھے۔ اُنہوں نے یعلی بن عبید، ابوالنصر ، عبداللہ بن موسیٰ اور سعید بن ابی مریم وغیرہ سے حدیث کا سماع کیا ہے اوران سے امام بخاریؒ، ابوعیسیٰ ترمذی ؒاور ابن ماجہ ؒوغیرہ نے احادیث روایت کرنے کے علاوہ علل حدیث، رجال اور علم فقہ میں بھی استفادہ کیا ہے اور ان کا تعلق احمد بن حنبل ؒکے اصحاب سے بھی ہے اور امام بخاری ؒ نے ان سے اپنی صحیح کی کتاب المغازی میں احمد بن حنبل کے واسطے سے روایت کی ہے اور یہ ۲۴۰ھ کے کچھ بعد فوت ہوئے ہیں۔‘‘
3 حکیم ترمذی :ان سے مراد ابوعبداللہ محمدبن علی بن حسن بن بشر ہیں جو حکیم ترمذی کے نام سے مشہور ہوئے۔ بڑے زاہد، حافظ، مؤذن اور کئی کتب کے مصنف ہیں۔ اُنہوں نے اپنے باپ اور قتیبہ بن سعید، حسن بن عمر بن شفیق، صالح بن عبداللہ ترمذی وغیرہ سے حدیث روایت کی ہے اور ان سے روایت کرنے والے یحییٰ بن منصور القاضی اور حسن بن علی اور علماء نیشا پور ہیں ۔ نیشاپور میں ۲۸۵ھ میں آئے،کیونکہ انہیں کتاب ختم الولاية اور کتاب علل الشريعة لکھنے کے سبب ترمذسے نکال دیا گیا تھا۔ ان کا خیال تھاکہ اولیا کے لئے خاتمہ بالخیر لازمی ہے اور وہ ولایت کو نبوت پر فضیلت دیتے تھے۔
(مولانا محمد شفیق مدنی استاذالحدیث جامعہ لاہورالاسلامہ)
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
ہم نے سنن الترمذی سے حدیث کی تصحیح و تضعیف کے متعلق اصول پر ایک کتاب لکھ رکھی ہے اسی سے ایک فصل قارئین محدث فورم کی نظر کر رہے ہیں
امام ترمذی ٢٧٩ھ کے نزدیک حسن لغیرہ حجت ہے ۔
استاد محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کیا خوب لکھتے ہیں
امام ترمذی ؒ کے علاوہ عام محدثین سے ایسی''حسن لغیرہ ''روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ۔[علمی مقالات :١/٣٠٠]معلوم ہوا کہ امام ترمذی ؒبھی حسن لغیرہ کو حجت سمجھتے ہیں

بعض اہل علم کا اعتراف ہی راجح ہے ۔کہ امام ترمذی کے نزدیک حسن لغیرہ حجت ہے ۔
محترم حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
حسن لغیرہ کو متعارف کروانے والے موصوف (امام ترمذیؒ)ہیں، وہ فرماتے ہیں:
''وما ذکرنا في ھذا الکتاب حدیث حسن، فإنما أردنا بہ حسن إسنادہ عندنا. کل حدیث یروي لا یکون في إسنادہ من یتھم بالکذب، ولا یکون الحدیث شاذاً، ویري من غیرہ وجہ نحو ذلک فھو عندنا حدیث حسن.''
''ہم نے اس کتاب ''حدیث حسن'' کی اصطلاح استعمال کی ہے، اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ اس کی سند ہمارے نزدیک حسن ہے اور وہ حدیث جس کی سند میں ایسا راوی نہ ہو جس پر جھوٹ کا الزام ہو۔ حدیث شاذ نہ ہو۔ اور وہ اپنے جیسی دوسری سند سے مروی ہو، وہ ہمارے نزدیک حسن ہے۔''
العلل الصغیر للترمذي (ص: ٨٩٨، المطبوع بآخر جامع الترمذي)

اس تعریف کا مصداق کیا ہے؟ محدثین نے اس پر خوب خبر دادِ تحقیق پیش کی ہیں، مصطلح کی کتب ان سے معمور ہیں، ہم اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ ضعیف حدیث+ ضعیف حدیث کی تقویت اور حجت کے قائل ہیں، بشرط کہ قرائن ایسی حدیث کی صحت کے متقاضی ہوں۔

حافظ برہان الدین بقاعی رحمہ اللہ ٨٨٥ھ اپنے شیخ (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ) سے نقل کرتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن لغیرہ کو متعارف کروایا ہے۔النکت الوفیۃ للبقاعي (١/ ٢٢٤)

امام ابن سید الناس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ جس حدیث کو متعدد اسانید کی بنا پر حسن قرار دیتے ہیں وہ حسن لغیرہ ہے۔ النکت الوفیۃ (١/ ٢٢٩)

حافظ بقاعی رحمہ اللہ نے اس موقف کی تائید کی ہے۔ النکت الوفیۃ (١/ ٢٣٤)

امام ترمذی رحمہ اللہ ایسی احادیث کو بھی حسن گردانتے ہیں جو حسن لغیرہ سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں، مثلاً اس کی ذاتی سند مضبوط ہوتی ہے یا کوئی قوی متابع موجود ہوتا ہے یا کوئی عمدہ شاہد ہوتا ہے جو ضعیف سے مستغنی کر دیتا ہے۔

اگر ضعیف حدیث کی تائید ضعیف حدیث یا احادیث کریں تو وہ بھی ان کے نزدیک حسن ہے، جسے عرف عام میں حسن لغیرہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔
دکتور خالد بن منصور الدریس نے جامع ترمذی کے سب سے معتمد علیہ نسخے نسخۃ الکروخی (ھو أبو الفتح عبد الملک بن أبي القاسم الکروخی الھروی البزار ٥٤٨ھ) کو پیش نظر رکھ کر امام ترمذی رحمہ اللہ کی حسن احادیث کا تتبع اور دراستہ کیا ہے اور نتیجہ نکالا ہے کہ ضعیف حدیث + ضعیف حدیث = حسن لغیرہ کی تعداد چالیس ہے، جن میں بارہ (١٢) احادیث احکام شرعیہ کے متعلق ہیں، جبکہ باقی (اٹھائیس) احادیث فضائل، ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہیں۔
الحدیث الحسن للدکتور خالد: (٣/ ١١٨٢) نیز (٥/ ٢١٣٤)
پھر انھیں (٣/ ١٣٥٣۔١٣٩٣) پھر بعنوان ''المنزلۃ الثانیۃ: حدیث ضعیف و شواہھدہ ضعیفۃ'' کے تحت بیان کیا ہے، ذیل میں ترمذی کے رقم الحدیث درج ہیں:
٤٠٦، ٥١٤، ٦٥٠، ٧٢٥، ٨١٣، ٨٨١، ١٠٠٥، ١٠٢٨، ١٠٥٧، ١٢٠٠، ١٢٠٩، ١٢١٢، ١٣٣١، ١٥٦٥، ١٦٣٧، ١٧٦٧، ١٧٧٠، ١٩٣١، ١٩٣٩، ١٩٨٧، ١٩٩٣، ٢٠٤٨، ٢٠٦٥، ٢١٦٩، ٢٣٢٨، ٢٣٤٧، ٢٤٥٧، ٢٤٨١، ٢٦٩٧، ٢٧٢٨، ٢٧٩٥، ٢٧٩٨، ٣٢٩٩، ٣٤٤٨، ٣٤٥٥، ٣٥١٢، ٣٥٩٨، ٣٦٦٢، ٣٧٩٩، ٣٨٠١)(مقالات اثریہ از حافظ خبیب احمد الاثری)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
امام ترمذی ٢٧٩ھ کے نزدیک حسن لغیرہ حجت ہے ۔
استاد محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کیا خوب لکھتے ہیں
امام ترمذی ؒ کے علاوہ عام محدثین سے ایسی''حسن لغیرہ ''روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ۔[علمی مقالات :١/٣٠٠]معلوم ہوا کہ امام ترمذی ؒبھی حسن لغیرہ کو حجت سمجھتے ہیں
ہم اپنے محترم ساتھیوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ حسن لغیرہ ہی سے متعلقہ بحث فورم انتظامیہ کی جانب سے ’مجلس شوری‘ میں منتقل کر دی گئی ہے اور انتظامیہ اس بات کو مناسب نہیں سمجھتی کہ یہ بحث اوپن فورم میں سب کے سامنے ہو۔ اگر کسی بھائی نےآئندہ اس موضوع پر کوئی تحقیق پیش کرنی ہو تو براہ مہربانی مجلس شوری میں کی جائے۔ اس تکلیف کے لیے ہم تمام بھائیوں سے معذرت خواہ ہیں۔ ابن بشیر الحسینوی صاحب سے گزراش ہے کہ وہ مجلس شوری کی رکنیت حاصل کریں اور آئندہ اہل علم اور متخصصین کے حلقہ یعنی مجلس شوری میں اس بحث کو پیش کریں۔
جزاکم اللہ خیرا
 

تلاش حق

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
محترم امام ترمذی رحمہ اللہ کی اصطلاح حسن سے مراد ''ضعیف جمع ضعیف برابر حسن قابل حجت '' ہرگز نہیں تھی ۔ اس کی تفصیل کے لیے ماہنامہ السنہ جہلم 30 ملاحظہ فرمائیں ۔
اگر آپ اس مضمون کا کوئی مدلل جواب رکھتے ہیں تو ہمیں بھی شیئر کریں ۔ صرف شیخ زئی صاحب کا حوالہ کافی نہیں ۔ وہ بھی تو غلطی پر ہو سکتے ہیں !!!
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اگر آپ اس مضمون کا کوئی مدلل جوا ب رکھتے ہیں تو ہمیں بھی شیئر کریں ۔
محترم بھائی جان،
جیسے کہ اوپر ابو الحسن علوی بھائی نے وضاحت کی ہے کہ فی الوقت یہ بحث اوپن فورم پر جاری نہیں رکھی جا سکتی۔ اس تکلیف کے لئے ہم معذرت خواہ ہیں۔ ان شاءاللہ ادارہ کی طرف سے اس موضوع پر معتدل اور جامع مؤقف پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ آپ سے دعاؤں کی درخواست ہے بھائی جان۔
والسلام
 
Top