محمد عثمان سلفی
رکن
- شمولیت
- جولائی 22، 2011
- پیغامات
- 92
- ری ایکشن اسکور
- 125
- پوائنٹ
- 73
السلام اعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
سورۃ فاتحہ اور امام قرطبی رحم اللہ۔
پیج نمبر 134
سورۃ فاتحہ اور امام قرطبی رحم اللہ۔
پیج نمبر 134
مسئلا نمبر5: نماز میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کے وجوب میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک اور ان کے متبعین علماء نے فرمایا: یہ امام اور منفرد کے لئے ہر رکعت میں متعین ہے۔
ابن خویز منداد بصری مالکی نے کہا : امام مالک کا قول مختلف نہیں ہے جو دو رکعت والی نماز میں ایک رکعت میں الحمد شریف پڑھنا بھول جائے تو اس کی نماز باطل ہے اور جائز نہیں ہے۔
اور اس شخص کے متعلق امام مالک کا قول مختلف ہے جو چار یا تیں رکعت والی نماز میں کسی ایک رکعت میں الحمد بھول جائے کبھی تو فرمایا : وہ نماز کا اعادہ کرے اور کبھی فرمایا:سجدہ سہو کرے۔ابن حکیم وغیرہ نے امام مالک سے یہ روایت کیا ہے ۔ ابن خویز منداد نے فرمایا: یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس رکعت کا اعادہ کرے اور سلام کے بعد نمازی دوسری رکعت پڑھے گا جیسا کے وہ شخص جس نے بھول کر سجدہ ساقط کردیا۔ یہ ابن قاسم کا مختار مذہب ہے۔ حضرت حسن بصری ، اکثر اہل بصرہ اور مغیرہ بن عبدالرحمن مخزومی مدنی نے کہا: جب کوئی شخص نماز میں ایک مرتبہ ام القرآن پڑھ لے تو وہ کافی ہو جائے گی ۔ اس پر اعادہ نہ ہوگا کیونکہ نماز میں اس نے ام القرآن پڑھ لی ہے۔ پس اس کی نماز مکمل ہوگی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی نماز مکمل نہیں جس نے ام القرآن (الحمد) نہیں پڑھی(2) اور اس شخص نے الحمد ایک مرتبہ پڑھ لی ہے(پس اس کی نماز مکمل ہوگی) میں کہتا ہوں: اس حدیث میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ اس کی نماز نہیں جس نے ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی ۔ یہی قول صحیح ہے جیسا کہ اگے وضاحت آئے گی اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ مطلب ہو کہ اس کی نماز نہیں جس نے نماز کی اکثر رکعات میں الحمد شریف نہیں پڑھی ۔ یہی اختلاف کا سبب ہے ۔ واللہ اعلم
حضرات امام ابو حنیفہ ، ثوری ، اوزاعی نے فرمایا: اگر جان بوجھ کر پوری نماز میں الحمد شریف چھوڑدی اور کوئی دوسری پڑھ دی تو اس کی نماز جائز ہوجائےگی۔ امام اوزاعی سے اس کے متعلق اختلاف مروی ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد بن حسن نے کہا : قراءت کی کم از کم مقدار تین آیات ہیں یا ایک بڑی آیت ہے جیسے قرضہ والی آیت۔ اور امام محمد سے یہ بھی مروی ہے فرمایا: میں آیت کی مقدار اور کلمہ مفہوم کی مقدار میں اجتہاد کو جائزقرار دیتا ہوں جیسے الحمد اللہ، اور میں ایسے حرف کو جائز قرار نہیں دیتا جو کلام نہ ہو۔
علامہ طبری نے فرمایا: نمازی ہر رکعت میں الحمد کی تلاوت کرے گا، اگر الحمد نہیں پڑھے گا تو نماز جائز نہ ہوگی مگر یہ کے الحمد کی
ابن خویز منداد بصری مالکی نے کہا : امام مالک کا قول مختلف نہیں ہے جو دو رکعت والی نماز میں ایک رکعت میں الحمد شریف پڑھنا بھول جائے تو اس کی نماز باطل ہے اور جائز نہیں ہے۔
اور اس شخص کے متعلق امام مالک کا قول مختلف ہے جو چار یا تیں رکعت والی نماز میں کسی ایک رکعت میں الحمد بھول جائے کبھی تو فرمایا : وہ نماز کا اعادہ کرے اور کبھی فرمایا:سجدہ سہو کرے۔ابن حکیم وغیرہ نے امام مالک سے یہ روایت کیا ہے ۔ ابن خویز منداد نے فرمایا: یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس رکعت کا اعادہ کرے اور سلام کے بعد نمازی دوسری رکعت پڑھے گا جیسا کے وہ شخص جس نے بھول کر سجدہ ساقط کردیا۔ یہ ابن قاسم کا مختار مذہب ہے۔ حضرت حسن بصری ، اکثر اہل بصرہ اور مغیرہ بن عبدالرحمن مخزومی مدنی نے کہا: جب کوئی شخص نماز میں ایک مرتبہ ام القرآن پڑھ لے تو وہ کافی ہو جائے گی ۔ اس پر اعادہ نہ ہوگا کیونکہ نماز میں اس نے ام القرآن پڑھ لی ہے۔ پس اس کی نماز مکمل ہوگی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی نماز مکمل نہیں جس نے ام القرآن (الحمد) نہیں پڑھی(2) اور اس شخص نے الحمد ایک مرتبہ پڑھ لی ہے(پس اس کی نماز مکمل ہوگی) میں کہتا ہوں: اس حدیث میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ اس کی نماز نہیں جس نے ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی ۔ یہی قول صحیح ہے جیسا کہ اگے وضاحت آئے گی اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ مطلب ہو کہ اس کی نماز نہیں جس نے نماز کی اکثر رکعات میں الحمد شریف نہیں پڑھی ۔ یہی اختلاف کا سبب ہے ۔ واللہ اعلم
حضرات امام ابو حنیفہ ، ثوری ، اوزاعی نے فرمایا: اگر جان بوجھ کر پوری نماز میں الحمد شریف چھوڑدی اور کوئی دوسری پڑھ دی تو اس کی نماز جائز ہوجائےگی۔ امام اوزاعی سے اس کے متعلق اختلاف مروی ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد بن حسن نے کہا : قراءت کی کم از کم مقدار تین آیات ہیں یا ایک بڑی آیت ہے جیسے قرضہ والی آیت۔ اور امام محمد سے یہ بھی مروی ہے فرمایا: میں آیت کی مقدار اور کلمہ مفہوم کی مقدار میں اجتہاد کو جائزقرار دیتا ہوں جیسے الحمد اللہ، اور میں ایسے حرف کو جائز قرار نہیں دیتا جو کلام نہ ہو۔
علامہ طبری نے فرمایا: نمازی ہر رکعت میں الحمد کی تلاوت کرے گا، اگر الحمد نہیں پڑھے گا تو نماز جائز نہ ہوگی مگر یہ کے الحمد کی
پیج 135
مثل قرآن سے الحمد کی آیات کی تعداد اور اس کے حروف کی تعداد کے مطابق تلاوت کرے۔
ابن عبدالبر نے کہا: اس کا کوئی مطلب نہیں کیونکہ الحمد کی تعیین اور تخصیص نے اس حکم کے ساتھ اس کو خاص کردیا ہے اور یہ محال ہے کے جس پر الحمد کا پڑھنا واجب ہے وہ اس کا بدل پڑھ لے اور الحمد چھوڑدے جبکہ وہ الحمد پڑھنے پر قادر بھی ہو بلکہ اس پر لازم ہے کہ الحمد ہی پڑھے اور اس کی طرف لوٹے جیسا کہ دوسرے عبادات میں متعیین فرائض ہیں۔
مسئلا نمبر 6: مقتدی اگر امام کو رکوع میں پالے تو امام مقتدی کی طرف سے قراءت کرنے والا ہوگا کیونکہ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ مقتدی امام کو رکوع کی حالت میں پائے تو مقتدی تکبیر کہے اور رکوع میں چلا جائے ، قراءت نہ کرے اور اگر امام کو قیام میں پائے تو قراءت کرے۔
مسئلا نمبر 7: اور کسی کے لئے مناسب نہیں کے وہ امام کے پیچھے سر نماز میں قراءت چھوڑدے ۔ اگر وہ قراءت چھوڑ دےگا تو اچھا نہیں کرےگا، لیکن امام مالک اور ان کے اصحاب کے نزدیک اس پر واجب نہ ہوگا۔ اور جب امام جہری قراءت کر رہا ہو تو پھر یہ مسئلا ہے۔
مسئلا نمبر 8: امام کے پیچھے جھری نماز میں نہ سورۃ فاتحہ پڑھے اور نہ کوئی دوسری سورت پڑھے۔ امام مالک کا مشہور مذہب یہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَإِذَا قُرِئَ ٱلۡقُرۡءَانُ فَٱسۡتَمِعُواْ لَهُ ۥ وَأَنصِتُوا (الاعراف :204) (جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "کیا بات ہے مجھ سے قرآن میں جگھڑاکیا جارہا ہے"(1) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امام کے بارے ارشاد ہے:"جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو"(صحیح مسلم ۔ کتاب الصلوۃ)۔ اور ارشاد فرمایا: جس کا امام ہو، اما م کی قراءت اس کی قراءت ہے"(2)۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اور امام شافعی سے یہ قول بویطی اور امام احمد بن حنبل نے حکایت فرمایا کہ کسی کی نماز نہ ہوگی حتیٰ کہ وہ ہر رکعت میں الحمد پڑھے خواہ وہ امام ہو یا مقتدی ہو۔
امام جہری قراءت کرہا ہو یہ سری۔ امام شافعی عراق میں مقتدی کے بارے میں کہتے تھے جب امام سری قراءت کرے تو مقتدی قراءت کرے اور جب جہرے قراءت کرے تو مقتدی قراءت نہ کرے جیسا کہ امام مالک کا مشہور مذہب ہے۔ اور امام شافعی کے مصر میں امام کے جہری قراءت کرنے کے صورت میں دو قول ہیں ایک یہ کہ مقتدی قراءت کرے دوسرا یہ کہ امام کی قراءت کافی ہے مقتدی خود قراءت نہ کرے۔ یہ ابن منذر نے حکایت کیا ہے۔ ابن وہب ، اشہب، ابن عبدالحکم ، ابن حبیب اور کوفہ کے علماء نے کہا: مقتدی بلکل قراءت نہ کرے۔ خواہ امام جہرے قراءت کررہا ہو یا سری قراءت کر رہا ہو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: امام کی قراءت ،مقتدی کی قراءت ہے (3)۔ یہ حکم عام ہے اور جابر کا قول ہے: جس نے نماز پڑھی اور اس میں الحمد نہیں پڑھی تو اس نے نمازی نہیں پڑھی مگر یہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو(4)
پیج نمبر 136
مسئلا نمبر 9: ان اقوال میں سے صحیح قول امام شافعی ، امام احمد کا ہے اور امام مالک کا دوسرا قول ہے کیونکہ ہر شخص کے لئے ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا بالعموم متعین ہے ( ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اس کی نماز نہیں جس نے نماز میں الحمد نہیں پڑھی(1)۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: جس نے نماز پڑھی اور اس میں الحمد نہیں پڑھی اس کی نماز ناقص ہے(2)۔ یہ تین مرتبہ فرمایا۔ حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اعلان کروں کہ سورہ الحمد اور اس سے زائد کی قراءت کے بغیر نماز نہیں (3)۔ اس حدیث کو ابو داؤد نے نقل کیا ہے ، جس طرح کہ کسی رکعت کا سجدہ اور رکوع دوسری رکعت کے قائم مقام نہیں ہوتا اس طرح ایک رکعت کی قراءت دوسری رکعت کا قائم مقام نہیں ہوتی۔
عبداللہ بن عون ، ایوب سختیانی اور ابو ثور وغیرہ اصحاب شوافع ، داؤد بن علی نے بھی یہی کہا ہے۔ اس کی مثل اوزاعی سے بھی مروی ہے اور یہی قول مکحول کا بھی ہے۔ حضرات عمر بن خطاب، عبداللہ بن عباس، ابو ہریرہ ، ابی بن کعب، ابو ایوب انصاری، عبداللہ بن عمرو بن العاص ، عبادہ بن صامت، ابو سعید خدری، عثمان بن ابی عاص، اور خوات بن جبیر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے فرماتے ہیں: سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں۔ یہی قول ابن عمر کا ہے اور اوزاعی کا مشہور مذہب بھی یہی ہے ۔ یہ صحابہ مقتداء ہیں اور ان کی ذوات میں اسوہ ہے یہ تمام حضرات ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے وجوب کے قائل ہیں۔
امام ابو عبداللہ بن محمد یزید بن ماجہ القزوینی نے اپنی سنن میں ایسی روایت نقل کی ہے جو اختلاف کو ختم کردیتی ہے اور احتمال کو زائل کردیتی ہے ۔ فرمایا: ہمیں ابو کریب نے بتایا ، انہوں نے فرمایا: ہمیں محمد بن ٖ ٖفضیل نے بتایا۔ دوسری سند اس طرح ہے ہمیں سوید بن سعید نے بتایا، ہمیں علی بن مسہر نے بتایا تمام نے ابو سفیان سعدی سے روایت کیا، انہوں نے ابو نضرہ سے روایت کیا انہوں نے حضرت ابو سعید سے روایت کیا ، فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس نے ہر رکعت میں الحمد اور کوئی دوسری سورت نہیں پڑھی(4)۔
خواہ فرضی نماز ہو یا نفلی نماز ہو۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس شخص سے فرمایا جس کو آپ نماز سکھا رہے تھے:"اس طرح تو اپنی نماز م میں کر(5)"۔ آگے یہ حدیث تفصیل سے آئے گی۔ دوسری دلیل اس کے متعلق وہ روایت ہے جو ابو داؤد نے نافع بن محمود الربیع دے روایت کی ہے فرمایا:حضرت عبادہ بن صامت صبح کی نماز میں لیٹ ہوگئے تو ابو نعیم مؤذن نے تکبیر کہی اور خود ہی لوگوں کو نماز پڑھادی ۔ حضرت عبادہ بن صامت آئے تو میں بھی ان کے ساتھ تھا حتیٰ کہ ہم نے ابو نعیم کے پیچھے صف بنائی ، ابو نعیم جہری قراءت کر رہے تھے عبادہ نے الحمد پڑھنی شروع کردی جب سلام پھیرا تو میں نے عبادہ سے کہا: میں تجھے الحمد پڑھتے ہوئے سن رہا تھا
پیج 137
جبکہ ابو نعیم جہری قراءت کر رہے تھے؟ عبادہ نے کہا: ہاں۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک نماز پڑھائی جس میں آپ جہری قراءت کر رہے تھے، آپ پرقراءت خلط ملط ہوگئی جب آپ صلی اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو ہماری طرف رخ انور پھیر لیا اور فرمایا: کیا تم قراءت کرتے ہو جب میں جہری قراءت کرتا ہوں؟ ہم میں سے بعض نے کہا: ہم واقعی ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو، میں کہہ رہا تھا مجھے کیا ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جارہا ہے ، تم قرآن میں سے کچھ نہ پڑھا کرو جب میں جہری قراءت کر رہا ہوں، مگر صرف سورۃ الحمد (پڑھا کرو)(1)۔ یہ مقتدی کے بارے میں نص صریح ہے کہ وہ بھی سورۃ الحمد پڑھے ۔ اس حدیث کا معنیٰ ابو عیسیٰ ترمذی نے محمد بن اسحاق کی حدیث سے نقل کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔ اور امام کے پیچھے قراءت کرنے کے بارے میں اس حدیث پر اکثر اہل علم صحابہ اور تابعین کا عمل ہے۔ حضرات مالک بن انس، ابن مبارک ،شافعی ، احمد، اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ یہ حضرات امام کے پیچھے قراءت کا نظریہ رکھتے تھے۔
اس حدیث کو دارقطنی نے بھی نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ اسناد حسن ہے۔ اس کے راوی ثقۃ ہیں اور انہوں نے ذکر کیا کہ محمود بن ربیع ایلیاء میں رہتے تھے او ر ابو نعیم پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے بیت المقدس میں اڈان دی ۔ ابو محمد عبدالحق نے کہا:نافع بن محمود کو بخاری نے اپنی تاریخ میں ذکر نہیں کیا اور نہ ابن ابی حاتم نے اسے ذکر کیا اور نہ بخاری اور مسلم نے اس سے کوئی چیز نقل کی۔ اس کے متعلق ابو عمر نے فرمایا: یہ مجھول ہے۔ دارقطنی نے یزید بن شریک سے روایت کیا ہے ، انہوں نے فرمایا: میں نے عمر سے قراءت خلف الامام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے قراءت خلف الامام کا حکم دیا۔ میں نے کہا: اگر آپ بھی امام ہوں؟ انہوں نے کہا: اگر چہ میں بھی ہوں۔ میں نے کہا: اگرچہ جہری قراءت کر رہے ہوں؟ انہوں نے کہا: اگرچہ میں جہری قراءت کر رہا ہوں(2)۔ دارقطنی نے کہا: یہ سند صحیح ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے، فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: امام ضامن ہے (3) جو کچھ وہ کرے تم بھی وہ کرو۔ ابو حاتم نے کہا: یہ اس کے لئے (دلیل) صحیح ہے جو امام کے پیچھے قراءت کا قائل ہے۔ حضرت ابو ہریرہ نے الفارسی کو یہی فتویٰ دیا تھا کہ وہ دل میں قراءت کیا کرے جب اس نے حضرت ابو ہریرہ سے کہا تھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں پھر اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے بھی استدلال کیا گیا ہے میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، اس کا نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پڑھو۔ بندہ کہتا ہے الحمد اللہ رب العلمیں۔۔۔۔۔(4) (الحدیث)
مسئلا نمبر 10: پہلے علماء نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد و اذا قراٗ فانصتوا(5) (جب امام قراءت کرے تو
پیج 138
خاموش رہو) سے استدلال کیا ہے۔ اسے مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی حدیث سے نقل کیا ہے اور فرمایا: جریر عن سلیمان عن قتادہ کی سند سے جو حدیث مروی ہے اس میں زیادتی ہے: واذا قرا فانصتوا ۔ دارقطنی نے کہا : قتادہ سے اس زیادتی کو ذکر کرنے میں سلیمان تیمی کی متابعت نہیں کی گئی بلکہ قتادہ کے شاگردوں میں سے حفاظ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے ان کے الفاظ کو ذکر نہیں کیا۔ حفاظ حدیث میں یہ افراد شامل ہیں: شعبہ ، ہشام ، سعید بن ابی عروبہ، ہمام، ابو عوانہ، معمر ، عدی بن ابی عمارہ۔
دارقطنی نے کہا: ان حفاظ کا اجماع دلیل ہے کہ سلیمان تیمی کو ان الفاظ میں وہم ہوا ہے۔ عبداللہ بن عامر عن قتادہ کی سند سے تیمی کی متابعت مروی ہے لیکن وہ قوی نہیں ہے۔ قطان نے اس کو ترک کیا ہے۔ ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے یہ زیادہ نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ زیادتی اذا قرء فانصتوا محفوظ نہیں ہے (1) ابو محمد عبد الحق نے ذکر کیا ہے کہ مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح کہا ہے اور فرمایا : یہ میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔
میں کہتا ہوں امام مسلم کا حضرت ابو موسیٰ کی حدیث سے ان الفاظ کو اپنی کتاب میں داخل کرنا ان کے نزدیک اس کی صحت کی دلیل ہے اگرچہ اس کی صحت کا تمام علماء کا اجماع نہیں ہے۔اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابن منذر نے صحیح کہا ہے۔رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد : وَإِذَا قُرِئَ ٱلۡقُرۡءَانُ فَٱسۡتَمِعُواْ لَهُ ۥ وَأَنصِتُوا (الاعراف :204) تو یہ مکہ میں نازل ہوا اور نماز میں کلام کرنے کی حرمت مدینہ میں نازل ہوئی جیسا کہ حضرت زید بن ارقم نے فرمایا: پس اس میں حجت نہ رہی کیونکہ مقصود مشرکین تھے جیسا کہ حضرت سعید بن مسیب نے کہا ہے۔ دارقطنی نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت نماز میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آواز بلند کرنے کے بارے ہوئی۔ اور دارقطنی نے فرمایا: عبداللہ بن عامر ضعیف ہے ۔ رہا حضور علیہ السلام کا یہ ارشاد کیا بات ہے کہ قرآن مجھ سے چھینا جا رہا ہے(2)۔ اسے امام مالک نے ابن شہاب سے انہوں نے ابن اکیمہ لیثی سے روایت کیا ہے۔ امام مالک نے اس کے نام کے بارے میں فرمایا: عمرو۔ جبکہ دوسرے محدثین نے کہا : عامر، بعض نے کہا: یزید،بعض نے کہا:عمارہ،بعض نے کہا: عباد، اس کی کنیت ابو الولید تھی، ایک سو ایک ہجری میں اس کا وصال ہواجبکہ اس کی عمر 99 سال تھی۔ ان سے زہری نے صرف یہی حدیث روایت کی ہے اور یہ ثقہ ہے ۔ محمد بن عمرو وغیرہ نے اس سے روایت کیا ہے ۔ اس کی حدیث میں یہ معنیٰ موجود ہے جب میں بلند آواز سے قراءت کروں تو تم بلند آواز سے قراءت نہ کرو کیونکہ یہ تنازع ، چھیننااور تخالج ہے (بلکہ) دل میں پڑھو۔ حضرت عبادہ کی حدیث اور حضرت عمر فاروق اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کے فتاویٰ بھی اس حدیث کے مفہوم کو بیان کرتے ہیں ۔ اگر مالی انازع القرآن (کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جارہا ہے)(3) سے وہ یہ منع کا مفہوم سمجھتے تو اس کے خلاف فتویٰ نہ دیتے ۔ حضرت ابن اکیمہ کی حدیث میں زہری کا قول ہے کہ پھر لوگ اس نماز میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے جن میں رسول اللہ ﷺ بلند آواز سے قراءت کرتے تھے جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی۔یہاں قراءت سے مراد الحمد ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا
پیج 139
ہے وباللہ توفیقنا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں توفیق ملتی ہے۔
رہا رسول اللہ ﷺکا یہ ارشاد :"جس کا امام ہو، تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے"(1)۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔ حسن بن عمارہ نے اسے متصل ذکر کیا ہے اور وہ متروک ہے۔ ابو حنیفہ (امام اعظم ) وہ بھی ضعیف ہے(یہ تبصرہ تعجب کی بات ہے خصوصا جب حضرت عبداللہ بن مبارک جیسے محدث آپ کے شاگرد ی پر ٖفخر کریں ۔ مترجم) ان دونوں حضرات نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے انہوں نے عبداللہ بن شداد سے انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے ۔ اسے دارقطنی نے نقل کیا ہےاور فرمایا: اس حدیث کو حضرات سفیان ثوری ،شعبہ ،اسرائیل،ابن یونس،شریک ، ابو خالدالدالانی، ابو الاحوص ، سفیان بن عیینہ ، جریر بن عبدالحمید وغیرہم نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے انہوں نے عبداللہ بن شداد سے انہوں نے مرسلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور مرسل ہی درست ہے۔ رہا حضرت جابر کا قول کہ "جس نے ایک رکعت پڑھی اور اس میں الحمد نہ پڑھی تو اس نے نماز نہیں پڑھی مگر جب امام کے پیچھے ہو"(2)۔ اس قو ل کو مالک نے وہب بن کیسان سے انہوں نے جابر سے روایت کیا ہے۔
ابن عبدالبر نے کہا: اس قول کو یحیی بن سلام صاحب تفسیر نے مالک سے انہوں نے ابو نعیم وہب بن کیسان سے انہوں نے حضرت جابر سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے ۔ صواب حضرت جابر پر موقوف ہے جیسا کہ مؤطا میں ہے۔ اس حدیث میں فقہی مسئلا یہی مستنبط ہوتا ہے کہ وہ رکعت باطل ہے جس میں الحمد نہ پڑھی گئی۔ یہ دلیل ہے اس مذھب کا جس کی طرف ابن قاسم گئے ہیں اور انہوں نے مالک سے اس رکعت کے لغو ہونے اور دوسرے رکعت پر بنا کرنے کو روایت کیا ہے۔ نمازی اس رکعت کو شمار نہیں کرےگا جس میں اس نے الحمد نہ پڑھی ہوگی۔ اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ امام کی قراءت اس کی مقتدیوں کی قراءت ہے (1)۔ یہ حضرت جابر کا مذہب تھا اور دوسرے لوگوں نے ان کی اس مسئلہ میں مخالفت کی ہے۔
مسئلا نمبر 11: ابن عربی نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کے ارشاد: لا صلاۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب (3) (اس کی نماز نہیں جس نے الحمد نہیں پڑھی) اس کی اصل کے بارے علماء کا اختلاف ہے۔ کیا یہ کمال اور تمام کی نفی پر محمول ہے یا جواز کی نفی پر محمول ہے۔ ناظر کے حال کے اختلاف کی وجہ سے فتویٰ بھی مختلف ہے۔ اصل میں مشہور اور اقویٰ یہ ہے کہ نفی عموم پر ہے اور مالک کی روایت سے اقوٰیٰ یہ ہے کہ جس نے نماز میں الحمد نہیں پڑھی اس کی نماز باطل ہے پھر ہم نے ہر رکعت میں الحمد کی تکرار میں غور کیا ۔ پس جس نے نبی کریم ﷺ کے ارشاد : افعل ذالک فی صلاتک کلھا(4) (اپنی نماز میں ایسا کر) کی یہی تاویل کی اسے ہر رکعت میں الحمد کا لوٹانا لازم ہے جیسا کہ رکوع و سجود کو لوتاتا ہے۔ واللہ اعلم
مسئلا نمبر 12: اس باب میں سورۃ فاتحہ کی تعیین میں جو معانی اور احادیث ذکر کی ہیں یہ سب کوفہ کے علماء کا اس
پیج 140
قول کا رد کرتی ہیں جو کہتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ متعین نہیں ہے اور سورۃ فاتحہ اور قرآن کی دوسری آیات برابر نہیں ، حالانکہ نبی کریم ﷺ نے اپنے ارشاد سے اسے متعین فرمایا ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے اور نبی کریم ﷺ واقیمو ا الصلوۃ کی مراد اللہ کی طرف سے بیان کرنے والے ہیں۔ ابو داؤد نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے ، فرمایا: ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم سورۃ فاتحہ اور مزید قراءت میسر ہو وہ پڑھیں(1)۔ پس یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اعرابی کو جو فرمایا تھا کہ جو تیرے پاس قرآن ہے وہ پڑھ اور جو سورۃ فاتحہ سے زائد ہے وہ پڑھ(2)۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : فاقرءو اما تیسر منہ (المزمل:20) کی تفسیر ہے تو پڑھ لیا کرو قرآن سے جتنا آسان ہو۔
مسلم نے حضرت عبادہ بن صامت سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی (3) ایک اور روایت میں "اور کچھ زائد" اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز ناقص ہے مکمل نہیں ہے۔ (4) یعنی ادلہ مذکورہ کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔ الخداج کا لفظ حدیث میں استعمال ہوا ہے اسکا معنیٰ نقص اور فساد ہے ۔ اخفش نے کہا : خدجت الناقۃ اس وقت بولا جاتا ہے جب اونٹنی ناقص بچہ جنم دے اور اخدجت اس وقت کہا جاتا ہے جب وقت سے پہلے بچہ پھینک دے اگرچہ اس کی تخلیق مکمل ہو۔
نظر اس بات کی تقاضا کرتی ہے کہ کمی کے ہوتے ہوئے نماز جائز نہ ہو کیونکہ یہ ایک ایسی نماز ہے جو مکمل نہیں ہوتی اور جو اپنی نماز سے خارج ہو جبکہ اس کی نماز مکمل نہ ہوئی ہو تو اس پر اعادہ واجب ہے جیسا کہ حکم دیا گیا ہے اور جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کمی کے باوجود نماز جائز ہے حالانکہ وہ کمی کا اقرار بھی کرتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ دلیل پیش کرے اور اس کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو لازم ہو۔
مسئلا 13: امام مالک سے مروی ہے کہ کسی نماز میں قراءت واجب نہیں ہے اور اسی طرح امام شافعی عراق میں اس شخص کے بارے فرماتے تھے جو قراءت بھول جائے پھر مصر میں اس قول سے رجوع کر لیا اور کہا: اس شخص کی نماز جائز نہیں، جو سورۃ فاتحہ اچھی طرح پڑھ سکتا ہے مگر سورۃ فاتحہ کے ساتھ ۔ اور سورۃ فاتحہ میں سے ایک حرف بھی کم ہوا تو نماز جائز نہ ہو گی۔ پس اگر سورۃ فاتحہ کو نہ پڑھا یا اس سے کوئی حرف کم کردیا تو وہ نماز کا اعادہ کرے اگر چہ دوسری کوئی سورت تلاوت بھی کی ہو ۔ اس مسئلا میں یہی قول صحیح ہے۔ اور رہا وہ مسئلا جو حضرت عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے مغرب کی نماز پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی ۔ ان کے سامنے قراءت نہ کرنے کا ذکر کیا گیا توا نہوں نے پوچھا رکوع و سجود کیسا تھا ؟ لوگوں نے کہا:وہ تو بہت اچھا تھا۔ حضرت عمر نے کہا : پھر کوئی حرج نہیں۔ یہ حدیث منکر الفظ ہے اور منقطع السناد ہے کیونکہ اسے ابراہیم بن حارث تیمی نے حضرت عمر سے روایت کیا ہے اور کابھی ابراہیم اسے ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عمر کے سلسلہ سے روایت کرتے تھے اور دونوں سندیں منقطع ہیں اس میں حجت نہیں ہے۔ امام مالک نے مؤطا میں اسے ذکر کیا ہے اور یہ بعض رواۃ نے بیان
پیج 141
کی ہے جبکہ یحیی اور ان کے ساتھ والے طائفہ نے اسے بیان نہیں کیا کیونکہ امام مالک نے اپنی کتاب میں اسے آخر میں ذکر کیا ہے اور فرمایا: اس حدیث پر عمل نہیں ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر وہ نماز جس میں الحمد نہ پڑھی گئی ہو وہ ناقص ہے (1) حضرت عمر سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے اس نماز کا اعادہ کیا تھا اور یہ ان سے صحیح ثابت ہے۔
یحیی بن یحیی نیساپوری نے فرمایا:ابو معاویہ نے ہمیں بتایا انہوں نے اعمش سے انہوں نے ابراہیم نخعی سے انہوں نے ہمام بن حارث سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر مغرب کی نماز میں قراءت بھول گئے تو آپ نے لوگوں کو دوبارہ نماز پڑھائی ۔ ابن عبدالبر نے کہا : یہ حدیث متصل ہے ۔ ہمام نے حضرت عمر سے بیان کیا اور اس کو انہوں نے کئ طرق سے روایت کیا۔
اشہب نے اما م مالک سے روایت کیا ہے ، فرمایا: امام مالک سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو قراءت بھول گیا تھا۔ کیا تجھے تعاجب میں ڈالتا ہے جو حضرت عمر نے کہا تھا؟ انہوں نے فرمایا: میں انکار کرتا ہوں کہ حضرت عمر نے ایسا کیا تھا اور میں اس روایت کا انکار کرتا ہوں۔ امام مالک نے فرمایا: لوگ حضرت عمر کی نماز میں ایسا کرتے دیکھتے تھے اور سبحان اللہ نہیں کہتے تھے۔ میرا خیال یہ ہے کہ جو ایسا کرتے (یعنی قراءت نہ کرے ) تونماز کا اعادہ کرے۔
مسئلا نمبر 14: علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ قراءت کے بغیر نماز نہیں ہوتی جیسا کہ علماء کے اصول سے گزر چکا ہے اور اس بات پر بھی اجماع ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی قراءت متعین نہیں ہے مگر وہ مستحب قرار دیتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کے ساتھ ایک سورت پڑھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہﷺ سے یہ عمل اکثر ثابت ہے۔ امام مالک نے فرمایا : قراءت میں سنت یہ ہے کہ پہلی دو رکعتوں میں الحمد اور کوئی سورت پڑھے اور آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھے ۔ امام اوزاعی نے فرمایا: ام القرآن (الحمد) پڑھے اگر الحمد نہ پڑھی اور کوئی دوسری سورت پڑھ دی تو بھی اس کی نماز جائز ہو جائے گی اور فرمایا: اگر تین رکعتوں میں قراءت بھول جائے تو نماز کو دوبارہ پڑھے ۔ ثوری نے فرمایا:پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھے اور آخری دو رکعتوں میں چاہے تسبیح کرے اور اگر چاہے تو قراءت کرے، اگر قراءت نہ کرے اور تسبیح بھی نہ کرے تب بھی نماز جائز ہوگی۔ یہ قول امام ابو حنیفہ اور دوسرے تمام کوفیوں کا ہے۔ ابن منذر نے فرمایا ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: پہلی رکعتوں میں قراءت کر اور دوسری دہ رکعتوں میں تسبیح پڑھ۔ امام نخعی کا بھی یہی قول ہے۔
سفیان نے کہا:اگر تین رکعتوں میں قراءت نہ کی تو نماز کا اعادہ کرے کیونکہ ایک رکعت کی قراءت جائز نہیں ۔ فرمایا: اسی طرح اگر فجر کی نماز میں ایک رکعت میں قراءت بھول جائے(تو بھی نماز کا اعادہ کرے)۔ ابو ثور نے کہا : نماز جائز نہیں مگر ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے ساتھ جیسا کہ امام شافعی کا مصری قول ہے اسے پر شوافع کا اجماع ہے۔ اسی طرح ابن خویز منداد مالکی کا قول ہے۔ فرمایا: ہمارے نزدیک ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے اور یہی اس مسئلہ میں صحیح ہے۔
مسلم نے ابو قتادہ سے روایت کیا ہے ، فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھاتے تھے اور ظہر اور عصر کی نمازوں
پیج 142
پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور دو سورتیں تلاوت کرتے تھے ۔ کبھی ہمیں کوئی آیت کریمہ سناتے تھے ، ظہر کی پہلی رکعت کو طویل کرتے تھے اور دوسری کو چھوٹا کرتے تھے اور اسی طرح صبح کی نماز میں کرتے تھے (1)۔ ایک روایت میں ہے کہ دوسری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے (2) یہ صریح نص ہے اور حدیث صحیح ہے۔ یہی امام مالک کا مسلک ہے۔ ہر رکعت میں سورۃ ٖفاتحہ کے تعین میں یہ نص ہے بخلاف ان علماء کے جنہوں نے اس کا انکار کیا۔ حجت سنت میں ہوتی ہے نہ کے اس قول میں جو سنت کے خلاف ہوتا ہے۔
ابن عبدالبر نے کہا: اس کا کوئی مطلب نہیں کیونکہ الحمد کی تعیین اور تخصیص نے اس حکم کے ساتھ اس کو خاص کردیا ہے اور یہ محال ہے کے جس پر الحمد کا پڑھنا واجب ہے وہ اس کا بدل پڑھ لے اور الحمد چھوڑدے جبکہ وہ الحمد پڑھنے پر قادر بھی ہو بلکہ اس پر لازم ہے کہ الحمد ہی پڑھے اور اس کی طرف لوٹے جیسا کہ دوسرے عبادات میں متعیین فرائض ہیں۔
مسئلا نمبر 6: مقتدی اگر امام کو رکوع میں پالے تو امام مقتدی کی طرف سے قراءت کرنے والا ہوگا کیونکہ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ مقتدی امام کو رکوع کی حالت میں پائے تو مقتدی تکبیر کہے اور رکوع میں چلا جائے ، قراءت نہ کرے اور اگر امام کو قیام میں پائے تو قراءت کرے۔
مسئلا نمبر 7: اور کسی کے لئے مناسب نہیں کے وہ امام کے پیچھے سر نماز میں قراءت چھوڑدے ۔ اگر وہ قراءت چھوڑ دےگا تو اچھا نہیں کرےگا، لیکن امام مالک اور ان کے اصحاب کے نزدیک اس پر واجب نہ ہوگا۔ اور جب امام جہری قراءت کر رہا ہو تو پھر یہ مسئلا ہے۔
مسئلا نمبر 8: امام کے پیچھے جھری نماز میں نہ سورۃ فاتحہ پڑھے اور نہ کوئی دوسری سورت پڑھے۔ امام مالک کا مشہور مذہب یہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَإِذَا قُرِئَ ٱلۡقُرۡءَانُ فَٱسۡتَمِعُواْ لَهُ ۥ وَأَنصِتُوا (الاعراف :204) (جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "کیا بات ہے مجھ سے قرآن میں جگھڑاکیا جارہا ہے"(1) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امام کے بارے ارشاد ہے:"جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو"(صحیح مسلم ۔ کتاب الصلوۃ)۔ اور ارشاد فرمایا: جس کا امام ہو، اما م کی قراءت اس کی قراءت ہے"(2)۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اور امام شافعی سے یہ قول بویطی اور امام احمد بن حنبل نے حکایت فرمایا کہ کسی کی نماز نہ ہوگی حتیٰ کہ وہ ہر رکعت میں الحمد پڑھے خواہ وہ امام ہو یا مقتدی ہو۔
امام جہری قراءت کرہا ہو یہ سری۔ امام شافعی عراق میں مقتدی کے بارے میں کہتے تھے جب امام سری قراءت کرے تو مقتدی قراءت کرے اور جب جہرے قراءت کرے تو مقتدی قراءت نہ کرے جیسا کہ امام مالک کا مشہور مذہب ہے۔ اور امام شافعی کے مصر میں امام کے جہری قراءت کرنے کے صورت میں دو قول ہیں ایک یہ کہ مقتدی قراءت کرے دوسرا یہ کہ امام کی قراءت کافی ہے مقتدی خود قراءت نہ کرے۔ یہ ابن منذر نے حکایت کیا ہے۔ ابن وہب ، اشہب، ابن عبدالحکم ، ابن حبیب اور کوفہ کے علماء نے کہا: مقتدی بلکل قراءت نہ کرے۔ خواہ امام جہرے قراءت کررہا ہو یا سری قراءت کر رہا ہو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: امام کی قراءت ،مقتدی کی قراءت ہے (3)۔ یہ حکم عام ہے اور جابر کا قول ہے: جس نے نماز پڑھی اور اس میں الحمد نہیں پڑھی تو اس نے نمازی نہیں پڑھی مگر یہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو(4)
پیج نمبر 136
عبداللہ بن عون ، ایوب سختیانی اور ابو ثور وغیرہ اصحاب شوافع ، داؤد بن علی نے بھی یہی کہا ہے۔ اس کی مثل اوزاعی سے بھی مروی ہے اور یہی قول مکحول کا بھی ہے۔ حضرات عمر بن خطاب، عبداللہ بن عباس، ابو ہریرہ ، ابی بن کعب، ابو ایوب انصاری، عبداللہ بن عمرو بن العاص ، عبادہ بن صامت، ابو سعید خدری، عثمان بن ابی عاص، اور خوات بن جبیر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے فرماتے ہیں: سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں۔ یہی قول ابن عمر کا ہے اور اوزاعی کا مشہور مذہب بھی یہی ہے ۔ یہ صحابہ مقتداء ہیں اور ان کی ذوات میں اسوہ ہے یہ تمام حضرات ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے وجوب کے قائل ہیں۔
امام ابو عبداللہ بن محمد یزید بن ماجہ القزوینی نے اپنی سنن میں ایسی روایت نقل کی ہے جو اختلاف کو ختم کردیتی ہے اور احتمال کو زائل کردیتی ہے ۔ فرمایا: ہمیں ابو کریب نے بتایا ، انہوں نے فرمایا: ہمیں محمد بن ٖ ٖفضیل نے بتایا۔ دوسری سند اس طرح ہے ہمیں سوید بن سعید نے بتایا، ہمیں علی بن مسہر نے بتایا تمام نے ابو سفیان سعدی سے روایت کیا، انہوں نے ابو نضرہ سے روایت کیا انہوں نے حضرت ابو سعید سے روایت کیا ، فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس نے ہر رکعت میں الحمد اور کوئی دوسری سورت نہیں پڑھی(4)۔
خواہ فرضی نماز ہو یا نفلی نماز ہو۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس شخص سے فرمایا جس کو آپ نماز سکھا رہے تھے:"اس طرح تو اپنی نماز م میں کر(5)"۔ آگے یہ حدیث تفصیل سے آئے گی۔ دوسری دلیل اس کے متعلق وہ روایت ہے جو ابو داؤد نے نافع بن محمود الربیع دے روایت کی ہے فرمایا:حضرت عبادہ بن صامت صبح کی نماز میں لیٹ ہوگئے تو ابو نعیم مؤذن نے تکبیر کہی اور خود ہی لوگوں کو نماز پڑھادی ۔ حضرت عبادہ بن صامت آئے تو میں بھی ان کے ساتھ تھا حتیٰ کہ ہم نے ابو نعیم کے پیچھے صف بنائی ، ابو نعیم جہری قراءت کر رہے تھے عبادہ نے الحمد پڑھنی شروع کردی جب سلام پھیرا تو میں نے عبادہ سے کہا: میں تجھے الحمد پڑھتے ہوئے سن رہا تھا
پیج 137
جبکہ ابو نعیم جہری قراءت کر رہے تھے؟ عبادہ نے کہا: ہاں۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک نماز پڑھائی جس میں آپ جہری قراءت کر رہے تھے، آپ پرقراءت خلط ملط ہوگئی جب آپ صلی اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو ہماری طرف رخ انور پھیر لیا اور فرمایا: کیا تم قراءت کرتے ہو جب میں جہری قراءت کرتا ہوں؟ ہم میں سے بعض نے کہا: ہم واقعی ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو، میں کہہ رہا تھا مجھے کیا ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جارہا ہے ، تم قرآن میں سے کچھ نہ پڑھا کرو جب میں جہری قراءت کر رہا ہوں، مگر صرف سورۃ الحمد (پڑھا کرو)(1)۔ یہ مقتدی کے بارے میں نص صریح ہے کہ وہ بھی سورۃ الحمد پڑھے ۔ اس حدیث کا معنیٰ ابو عیسیٰ ترمذی نے محمد بن اسحاق کی حدیث سے نقل کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔ اور امام کے پیچھے قراءت کرنے کے بارے میں اس حدیث پر اکثر اہل علم صحابہ اور تابعین کا عمل ہے۔ حضرات مالک بن انس، ابن مبارک ،شافعی ، احمد، اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ یہ حضرات امام کے پیچھے قراءت کا نظریہ رکھتے تھے۔
اس حدیث کو دارقطنی نے بھی نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ اسناد حسن ہے۔ اس کے راوی ثقۃ ہیں اور انہوں نے ذکر کیا کہ محمود بن ربیع ایلیاء میں رہتے تھے او ر ابو نعیم پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے بیت المقدس میں اڈان دی ۔ ابو محمد عبدالحق نے کہا:نافع بن محمود کو بخاری نے اپنی تاریخ میں ذکر نہیں کیا اور نہ ابن ابی حاتم نے اسے ذکر کیا اور نہ بخاری اور مسلم نے اس سے کوئی چیز نقل کی۔ اس کے متعلق ابو عمر نے فرمایا: یہ مجھول ہے۔ دارقطنی نے یزید بن شریک سے روایت کیا ہے ، انہوں نے فرمایا: میں نے عمر سے قراءت خلف الامام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے قراءت خلف الامام کا حکم دیا۔ میں نے کہا: اگر آپ بھی امام ہوں؟ انہوں نے کہا: اگر چہ میں بھی ہوں۔ میں نے کہا: اگرچہ جہری قراءت کر رہے ہوں؟ انہوں نے کہا: اگرچہ میں جہری قراءت کر رہا ہوں(2)۔ دارقطنی نے کہا: یہ سند صحیح ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے، فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: امام ضامن ہے (3) جو کچھ وہ کرے تم بھی وہ کرو۔ ابو حاتم نے کہا: یہ اس کے لئے (دلیل) صحیح ہے جو امام کے پیچھے قراءت کا قائل ہے۔ حضرت ابو ہریرہ نے الفارسی کو یہی فتویٰ دیا تھا کہ وہ دل میں قراءت کیا کرے جب اس نے حضرت ابو ہریرہ سے کہا تھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں پھر اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے بھی استدلال کیا گیا ہے میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، اس کا نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پڑھو۔ بندہ کہتا ہے الحمد اللہ رب العلمیں۔۔۔۔۔(4) (الحدیث)
مسئلا نمبر 10: پہلے علماء نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد و اذا قراٗ فانصتوا(5) (جب امام قراءت کرے تو
پیج 138
خاموش رہو) سے استدلال کیا ہے۔ اسے مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی حدیث سے نقل کیا ہے اور فرمایا: جریر عن سلیمان عن قتادہ کی سند سے جو حدیث مروی ہے اس میں زیادتی ہے: واذا قرا فانصتوا ۔ دارقطنی نے کہا : قتادہ سے اس زیادتی کو ذکر کرنے میں سلیمان تیمی کی متابعت نہیں کی گئی بلکہ قتادہ کے شاگردوں میں سے حفاظ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے ان کے الفاظ کو ذکر نہیں کیا۔ حفاظ حدیث میں یہ افراد شامل ہیں: شعبہ ، ہشام ، سعید بن ابی عروبہ، ہمام، ابو عوانہ، معمر ، عدی بن ابی عمارہ۔
دارقطنی نے کہا: ان حفاظ کا اجماع دلیل ہے کہ سلیمان تیمی کو ان الفاظ میں وہم ہوا ہے۔ عبداللہ بن عامر عن قتادہ کی سند سے تیمی کی متابعت مروی ہے لیکن وہ قوی نہیں ہے۔ قطان نے اس کو ترک کیا ہے۔ ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے یہ زیادہ نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ زیادتی اذا قرء فانصتوا محفوظ نہیں ہے (1) ابو محمد عبد الحق نے ذکر کیا ہے کہ مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح کہا ہے اور فرمایا : یہ میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔
میں کہتا ہوں امام مسلم کا حضرت ابو موسیٰ کی حدیث سے ان الفاظ کو اپنی کتاب میں داخل کرنا ان کے نزدیک اس کی صحت کی دلیل ہے اگرچہ اس کی صحت کا تمام علماء کا اجماع نہیں ہے۔اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابن منذر نے صحیح کہا ہے۔رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد : وَإِذَا قُرِئَ ٱلۡقُرۡءَانُ فَٱسۡتَمِعُواْ لَهُ ۥ وَأَنصِتُوا (الاعراف :204) تو یہ مکہ میں نازل ہوا اور نماز میں کلام کرنے کی حرمت مدینہ میں نازل ہوئی جیسا کہ حضرت زید بن ارقم نے فرمایا: پس اس میں حجت نہ رہی کیونکہ مقصود مشرکین تھے جیسا کہ حضرت سعید بن مسیب نے کہا ہے۔ دارقطنی نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت نماز میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آواز بلند کرنے کے بارے ہوئی۔ اور دارقطنی نے فرمایا: عبداللہ بن عامر ضعیف ہے ۔ رہا حضور علیہ السلام کا یہ ارشاد کیا بات ہے کہ قرآن مجھ سے چھینا جا رہا ہے(2)۔ اسے امام مالک نے ابن شہاب سے انہوں نے ابن اکیمہ لیثی سے روایت کیا ہے۔ امام مالک نے اس کے نام کے بارے میں فرمایا: عمرو۔ جبکہ دوسرے محدثین نے کہا : عامر، بعض نے کہا: یزید،بعض نے کہا:عمارہ،بعض نے کہا: عباد، اس کی کنیت ابو الولید تھی، ایک سو ایک ہجری میں اس کا وصال ہواجبکہ اس کی عمر 99 سال تھی۔ ان سے زہری نے صرف یہی حدیث روایت کی ہے اور یہ ثقہ ہے ۔ محمد بن عمرو وغیرہ نے اس سے روایت کیا ہے ۔ اس کی حدیث میں یہ معنیٰ موجود ہے جب میں بلند آواز سے قراءت کروں تو تم بلند آواز سے قراءت نہ کرو کیونکہ یہ تنازع ، چھیننااور تخالج ہے (بلکہ) دل میں پڑھو۔ حضرت عبادہ کی حدیث اور حضرت عمر فاروق اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کے فتاویٰ بھی اس حدیث کے مفہوم کو بیان کرتے ہیں ۔ اگر مالی انازع القرآن (کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جارہا ہے)(3) سے وہ یہ منع کا مفہوم سمجھتے تو اس کے خلاف فتویٰ نہ دیتے ۔ حضرت ابن اکیمہ کی حدیث میں زہری کا قول ہے کہ پھر لوگ اس نماز میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے جن میں رسول اللہ ﷺ بلند آواز سے قراءت کرتے تھے جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی۔یہاں قراءت سے مراد الحمد ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا
پیج 139
ہے وباللہ توفیقنا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں توفیق ملتی ہے۔
رہا رسول اللہ ﷺکا یہ ارشاد :"جس کا امام ہو، تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے"(1)۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔ حسن بن عمارہ نے اسے متصل ذکر کیا ہے اور وہ متروک ہے۔ ابو حنیفہ (امام اعظم ) وہ بھی ضعیف ہے(یہ تبصرہ تعجب کی بات ہے خصوصا جب حضرت عبداللہ بن مبارک جیسے محدث آپ کے شاگرد ی پر ٖفخر کریں ۔ مترجم) ان دونوں حضرات نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے انہوں نے عبداللہ بن شداد سے انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے ۔ اسے دارقطنی نے نقل کیا ہےاور فرمایا: اس حدیث کو حضرات سفیان ثوری ،شعبہ ،اسرائیل،ابن یونس،شریک ، ابو خالدالدالانی، ابو الاحوص ، سفیان بن عیینہ ، جریر بن عبدالحمید وغیرہم نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے انہوں نے عبداللہ بن شداد سے انہوں نے مرسلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور مرسل ہی درست ہے۔ رہا حضرت جابر کا قول کہ "جس نے ایک رکعت پڑھی اور اس میں الحمد نہ پڑھی تو اس نے نماز نہیں پڑھی مگر جب امام کے پیچھے ہو"(2)۔ اس قو ل کو مالک نے وہب بن کیسان سے انہوں نے جابر سے روایت کیا ہے۔
ابن عبدالبر نے کہا: اس قول کو یحیی بن سلام صاحب تفسیر نے مالک سے انہوں نے ابو نعیم وہب بن کیسان سے انہوں نے حضرت جابر سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے ۔ صواب حضرت جابر پر موقوف ہے جیسا کہ مؤطا میں ہے۔ اس حدیث میں فقہی مسئلا یہی مستنبط ہوتا ہے کہ وہ رکعت باطل ہے جس میں الحمد نہ پڑھی گئی۔ یہ دلیل ہے اس مذھب کا جس کی طرف ابن قاسم گئے ہیں اور انہوں نے مالک سے اس رکعت کے لغو ہونے اور دوسرے رکعت پر بنا کرنے کو روایت کیا ہے۔ نمازی اس رکعت کو شمار نہیں کرےگا جس میں اس نے الحمد نہ پڑھی ہوگی۔ اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ امام کی قراءت اس کی مقتدیوں کی قراءت ہے (1)۔ یہ حضرت جابر کا مذہب تھا اور دوسرے لوگوں نے ان کی اس مسئلہ میں مخالفت کی ہے۔
مسئلا نمبر 11: ابن عربی نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کے ارشاد: لا صلاۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب (3) (اس کی نماز نہیں جس نے الحمد نہیں پڑھی) اس کی اصل کے بارے علماء کا اختلاف ہے۔ کیا یہ کمال اور تمام کی نفی پر محمول ہے یا جواز کی نفی پر محمول ہے۔ ناظر کے حال کے اختلاف کی وجہ سے فتویٰ بھی مختلف ہے۔ اصل میں مشہور اور اقویٰ یہ ہے کہ نفی عموم پر ہے اور مالک کی روایت سے اقوٰیٰ یہ ہے کہ جس نے نماز میں الحمد نہیں پڑھی اس کی نماز باطل ہے پھر ہم نے ہر رکعت میں الحمد کی تکرار میں غور کیا ۔ پس جس نے نبی کریم ﷺ کے ارشاد : افعل ذالک فی صلاتک کلھا(4) (اپنی نماز میں ایسا کر) کی یہی تاویل کی اسے ہر رکعت میں الحمد کا لوٹانا لازم ہے جیسا کہ رکوع و سجود کو لوتاتا ہے۔ واللہ اعلم
مسئلا نمبر 12: اس باب میں سورۃ فاتحہ کی تعیین میں جو معانی اور احادیث ذکر کی ہیں یہ سب کوفہ کے علماء کا اس
پیج 140
قول کا رد کرتی ہیں جو کہتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ متعین نہیں ہے اور سورۃ فاتحہ اور قرآن کی دوسری آیات برابر نہیں ، حالانکہ نبی کریم ﷺ نے اپنے ارشاد سے اسے متعین فرمایا ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے اور نبی کریم ﷺ واقیمو ا الصلوۃ کی مراد اللہ کی طرف سے بیان کرنے والے ہیں۔ ابو داؤد نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے ، فرمایا: ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم سورۃ فاتحہ اور مزید قراءت میسر ہو وہ پڑھیں(1)۔ پس یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اعرابی کو جو فرمایا تھا کہ جو تیرے پاس قرآن ہے وہ پڑھ اور جو سورۃ فاتحہ سے زائد ہے وہ پڑھ(2)۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : فاقرءو اما تیسر منہ (المزمل:20) کی تفسیر ہے تو پڑھ لیا کرو قرآن سے جتنا آسان ہو۔
مسلم نے حضرت عبادہ بن صامت سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی (3) ایک اور روایت میں "اور کچھ زائد" اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز ناقص ہے مکمل نہیں ہے۔ (4) یعنی ادلہ مذکورہ کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔ الخداج کا لفظ حدیث میں استعمال ہوا ہے اسکا معنیٰ نقص اور فساد ہے ۔ اخفش نے کہا : خدجت الناقۃ اس وقت بولا جاتا ہے جب اونٹنی ناقص بچہ جنم دے اور اخدجت اس وقت کہا جاتا ہے جب وقت سے پہلے بچہ پھینک دے اگرچہ اس کی تخلیق مکمل ہو۔
نظر اس بات کی تقاضا کرتی ہے کہ کمی کے ہوتے ہوئے نماز جائز نہ ہو کیونکہ یہ ایک ایسی نماز ہے جو مکمل نہیں ہوتی اور جو اپنی نماز سے خارج ہو جبکہ اس کی نماز مکمل نہ ہوئی ہو تو اس پر اعادہ واجب ہے جیسا کہ حکم دیا گیا ہے اور جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کمی کے باوجود نماز جائز ہے حالانکہ وہ کمی کا اقرار بھی کرتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ دلیل پیش کرے اور اس کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو لازم ہو۔
مسئلا 13: امام مالک سے مروی ہے کہ کسی نماز میں قراءت واجب نہیں ہے اور اسی طرح امام شافعی عراق میں اس شخص کے بارے فرماتے تھے جو قراءت بھول جائے پھر مصر میں اس قول سے رجوع کر لیا اور کہا: اس شخص کی نماز جائز نہیں، جو سورۃ فاتحہ اچھی طرح پڑھ سکتا ہے مگر سورۃ فاتحہ کے ساتھ ۔ اور سورۃ فاتحہ میں سے ایک حرف بھی کم ہوا تو نماز جائز نہ ہو گی۔ پس اگر سورۃ فاتحہ کو نہ پڑھا یا اس سے کوئی حرف کم کردیا تو وہ نماز کا اعادہ کرے اگر چہ دوسری کوئی سورت تلاوت بھی کی ہو ۔ اس مسئلا میں یہی قول صحیح ہے۔ اور رہا وہ مسئلا جو حضرت عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے مغرب کی نماز پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی ۔ ان کے سامنے قراءت نہ کرنے کا ذکر کیا گیا توا نہوں نے پوچھا رکوع و سجود کیسا تھا ؟ لوگوں نے کہا:وہ تو بہت اچھا تھا۔ حضرت عمر نے کہا : پھر کوئی حرج نہیں۔ یہ حدیث منکر الفظ ہے اور منقطع السناد ہے کیونکہ اسے ابراہیم بن حارث تیمی نے حضرت عمر سے روایت کیا ہے اور کابھی ابراہیم اسے ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عمر کے سلسلہ سے روایت کرتے تھے اور دونوں سندیں منقطع ہیں اس میں حجت نہیں ہے۔ امام مالک نے مؤطا میں اسے ذکر کیا ہے اور یہ بعض رواۃ نے بیان
پیج 141
کی ہے جبکہ یحیی اور ان کے ساتھ والے طائفہ نے اسے بیان نہیں کیا کیونکہ امام مالک نے اپنی کتاب میں اسے آخر میں ذکر کیا ہے اور فرمایا: اس حدیث پر عمل نہیں ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر وہ نماز جس میں الحمد نہ پڑھی گئی ہو وہ ناقص ہے (1) حضرت عمر سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے اس نماز کا اعادہ کیا تھا اور یہ ان سے صحیح ثابت ہے۔
یحیی بن یحیی نیساپوری نے فرمایا:ابو معاویہ نے ہمیں بتایا انہوں نے اعمش سے انہوں نے ابراہیم نخعی سے انہوں نے ہمام بن حارث سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر مغرب کی نماز میں قراءت بھول گئے تو آپ نے لوگوں کو دوبارہ نماز پڑھائی ۔ ابن عبدالبر نے کہا : یہ حدیث متصل ہے ۔ ہمام نے حضرت عمر سے بیان کیا اور اس کو انہوں نے کئ طرق سے روایت کیا۔
اشہب نے اما م مالک سے روایت کیا ہے ، فرمایا: امام مالک سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو قراءت بھول گیا تھا۔ کیا تجھے تعاجب میں ڈالتا ہے جو حضرت عمر نے کہا تھا؟ انہوں نے فرمایا: میں انکار کرتا ہوں کہ حضرت عمر نے ایسا کیا تھا اور میں اس روایت کا انکار کرتا ہوں۔ امام مالک نے فرمایا: لوگ حضرت عمر کی نماز میں ایسا کرتے دیکھتے تھے اور سبحان اللہ نہیں کہتے تھے۔ میرا خیال یہ ہے کہ جو ایسا کرتے (یعنی قراءت نہ کرے ) تونماز کا اعادہ کرے۔
مسئلا نمبر 14: علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ قراءت کے بغیر نماز نہیں ہوتی جیسا کہ علماء کے اصول سے گزر چکا ہے اور اس بات پر بھی اجماع ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی قراءت متعین نہیں ہے مگر وہ مستحب قرار دیتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کے ساتھ ایک سورت پڑھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہﷺ سے یہ عمل اکثر ثابت ہے۔ امام مالک نے فرمایا : قراءت میں سنت یہ ہے کہ پہلی دو رکعتوں میں الحمد اور کوئی سورت پڑھے اور آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھے ۔ امام اوزاعی نے فرمایا: ام القرآن (الحمد) پڑھے اگر الحمد نہ پڑھی اور کوئی دوسری سورت پڑھ دی تو بھی اس کی نماز جائز ہو جائے گی اور فرمایا: اگر تین رکعتوں میں قراءت بھول جائے تو نماز کو دوبارہ پڑھے ۔ ثوری نے فرمایا:پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھے اور آخری دو رکعتوں میں چاہے تسبیح کرے اور اگر چاہے تو قراءت کرے، اگر قراءت نہ کرے اور تسبیح بھی نہ کرے تب بھی نماز جائز ہوگی۔ یہ قول امام ابو حنیفہ اور دوسرے تمام کوفیوں کا ہے۔ ابن منذر نے فرمایا ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: پہلی رکعتوں میں قراءت کر اور دوسری دہ رکعتوں میں تسبیح پڑھ۔ امام نخعی کا بھی یہی قول ہے۔
سفیان نے کہا:اگر تین رکعتوں میں قراءت نہ کی تو نماز کا اعادہ کرے کیونکہ ایک رکعت کی قراءت جائز نہیں ۔ فرمایا: اسی طرح اگر فجر کی نماز میں ایک رکعت میں قراءت بھول جائے(تو بھی نماز کا اعادہ کرے)۔ ابو ثور نے کہا : نماز جائز نہیں مگر ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے ساتھ جیسا کہ امام شافعی کا مصری قول ہے اسے پر شوافع کا اجماع ہے۔ اسی طرح ابن خویز منداد مالکی کا قول ہے۔ فرمایا: ہمارے نزدیک ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے اور یہی اس مسئلہ میں صحیح ہے۔
مسلم نے ابو قتادہ سے روایت کیا ہے ، فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھاتے تھے اور ظہر اور عصر کی نمازوں
پیج 142
پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور دو سورتیں تلاوت کرتے تھے ۔ کبھی ہمیں کوئی آیت کریمہ سناتے تھے ، ظہر کی پہلی رکعت کو طویل کرتے تھے اور دوسری کو چھوٹا کرتے تھے اور اسی طرح صبح کی نماز میں کرتے تھے (1)۔ ایک روایت میں ہے کہ دوسری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے (2) یہ صریح نص ہے اور حدیث صحیح ہے۔ یہی امام مالک کا مسلک ہے۔ ہر رکعت میں سورۃ ٖفاتحہ کے تعین میں یہ نص ہے بخلاف ان علماء کے جنہوں نے اس کا انکار کیا۔ حجت سنت میں ہوتی ہے نہ کے اس قول میں جو سنت کے خلاف ہوتا ہے۔
[تفسیر قرطبی جلد اول پیج 134تا 142 ۔ ضیاء القرآن پبلی کیشنز]
Last edited by a moderator: