• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام نسائی رحمہ اللہ کا کہناکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے-

شمولیت
جنوری 04، 2022
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
22
امام نسائی رحمہ اللہ کا کہناکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے-
امام نسائی رحمہ اللہ کے حوالے سے ایک واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ جب دمشق تشریف لے گئے تو ان سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: لایرضی مُعَاوِيَةُ أَسأَ بِرَ اس حَتَّى يُفْضِل؟

مکمل روایت امام ابو عبد الله محمد بن عبد الله بن محمد المعروف امام حاکم رحمہ اللہ (المتوفی : 405ھ ) نقل کرتے ہیں:

فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْأَصْبَهَانِي قَالَ : سَمِعْتُ مَشَایخَنَا بمِصْرَ يَذْكُرُونَ أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ فَارَقَ مِصْرَ فِي آخِرِ عُمُرِهِ وَخَرَجَ إِلى دَمَشْقَ فَسُئِلَ بِهَا عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ وَمَا رُوِى فِي فَضَائِلِهِ فَقَالَ لَا يَرْضَى مُعَاوِيَةُ رَ أُسأَ بِرَأْسٍ حَتَّى يُفْضِلُ ؟! قَالَ: فَمَا زَالُوا يَدفَعُونَ في حُصْيَتَيْهِ عَلَى أُخْرِجَ مِنَ الْمَسْجِدِ ثُمَّ حَصَلَ إلى مَكَّةَ وَمَاتَ بِهَا سَنَةَ ثَلَاثٍ وَثَلَاثِ مِائَةٍ وَهُوَ مَدْفونٌ بمَكَّةَ :
ترجمہ : مجھے محمد بن اسحق اصبہانی رحمہ اللہ نے بیان کیا، کہتے ہیں کہ میں نے مصر میں مشائخ سے سنا، وہ ذکر کرتے ہیں کہ امام نسائی رحمہ اللہ اپنی آخری عمر میں مصر کو چھوڑا اور دمشق چلے گئے، تو وہاں ان سے حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما اور ان کے فضائل کے بارے میں سوال کیا گیا تو کہنے لگے: کہ کیا معاویہ راضی نہیں ہیں کہ ان کا برابر برابر معاملہ کر لیا جائے چہ جائیکہ ان کو فضیلت دی جائے۔ تو لوگ انہیں مسلسل خصیتین پر مارتے رہے یہاں تک کہ مسجد سے بھی نکالا، پھر وہ مکہ المکرمہ چلے گئے اور وہیں پر سن 303 ھجری میں فوت ہوئے اور مکہ ہی میں دفن ہوئے۔

جواب نمبر 1: اس روایت کی سند میں مشائخنا مجہول ہے جس وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ رواق حدیث میں جس کی عدالت٬ثقاہت ٬ اور شخصیت معلوم نہ ہو یا نام کا علم ہو لیکن حالات معلوم نہ ہوں ایسے راوی کو مجہول الحال کیا جاتا ہے۔ اور اگر نام بھی معلوم نہ ہو مجہول العین کہا جاتا ہے۔ محد ثین ایسے راوی
کی روایت کو قبول نہیں فرماتے۔

اس پر چند تصریحات ملاحظہ ہوں:
1. امام ابو بکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مھدی البغدادی المعروف با تخطیب رحمہ اللہ (المتوفی: 463ھ) فرماتے ہیں:
لا يُقبَل خَيْرُ من جَهِلَتْ عَيْنُهُ وَصِفَتُهُ لأَنَّهُ حِينَئِد لا سَبِيلَ إلى مَعَارِ فِي عَدَالَيْهِ هَذَا قَوْلُ كُلِّهِمْ. الكفاية في علم الرواية صفحہ : 324
ترجمہ: ایسی روایت جس کا راوی مجہول العین اور مجبول الوصف ہو ، روایت قبول نہیں ہو گی، اس لیے کہ اس کی عدالت پہچاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے ، یہ تمام محد ثین کرام رحمہم اللہ کا قول ہے۔

2. علامہ محی الدین ابوز کر یایحیی بن شرف النووی رحمہ اللہ (المتوفی : 676ھ ) لکھتے ہیں:
رِوَايَةً مَجْهُولِ الْعَدَالَةِ ظَاهِرًا وَبَاطِنَّا لَا تُقْبَلُ عِندَ الْجَمَاهِيرٍ. التقريب: ص 172
ترجمہ: مجهول العدالت خواہ ظاہر ہو یا باطنا، اس کی روایت جمہور کے نزدیک قبول نہیں ہو گی۔

3. علامہ زین الدین ابوالفرج عبد الرحمن بن احمد بن عبد الرحمن المعروف ابن رجب الحنبلی الہ مشقی رحمہ اللہ (المتوفی: 795ھ ) امام ترندی رحمہ اللہ کی علل ترندی کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَكَذَالِكَ ظاهِرُ كَلَامِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ أَنَّ خَيْرَ مَجْهُولِ الْحَالِ لَا يَصِحُ وَلَا يُخْتَجُ بِهِ. شرح علل ترمذی جلد 1 صفحہ 347
ترجمہ: امام احمد رحمہ اللہ کے کلام سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مجہول الحال کی خبر صحیح نہیں ہے اور نہ اس سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ یہ روایت مجہول ہے معلوم نہیں کہ یہ لوگ کون تھے فاسق تھے یا عادل؟ ان کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں کیاعقیدہ تھا؟

خود امام نسائی رحمہ اللہ سید نا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرتے ہی۔ علامہ ابو الحجاج، جمال الدین یوسف بن عبد الرحمن بن یوسف المزی رحمہ اللہ (المتوفی : 742ھ ) حضرت امام نسائی رحمہ اللہ کا قول نقل فرماتے ہیں:

سُئِلَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّسَائِ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّمَا الْإِسْلَامُ گدارٍ لَهَا بَابٌ فَبَابُ الْإِسْلَامِ الصَّحَابَةُ، فَمَن أذَى الصَّحَابَةَ إِنَّمَا أَرَادَ الْإِسْلَام كَمَنْ نَقَرَ الْبَابَ إِنَّمَا يُرِيدُ دُخُولَ الدارِ، قَالَ: فَمَنْ أَرَادَ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّمَا أَرَادَ الصَّحَابَةُ. تہذیب الکمال فی اسماء الرجال جلد 1 صفحہ 339،340

ترجمہ: امام نسائی رحمہ اللہ سے حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہما کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: کہ اسلام کی مثال اس گھر کی طرح ہے جس کا دروازہ ہو ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسلام کا دروازہ ہیں۔ جو کوئی صحابہ کو تکلیف پہنچاتا ہے اس کا ارادہ اسلام کو ہدف بنانے کا ہے۔ جیسے کوئی شخص گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو وہ گھر میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسی طرح جو شخص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کرتا ہے وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اعتراض کا ارادہ رکھتا ہے۔













 
Last edited:
Top