• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امت کے تہتر فرقے

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
امت کے تہتر فرقے
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایاکہ:’’میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔سوائے ایک جماعت کےسب دوزخ میں جائیں گے۔عرض کی گیا اے اللہ کے رسول وہ کونسا گروہ ہوگا؟آپﷺنے فرمایا :’’ماانا علیہ و اصحابی‘‘یہ وہ جماعت ہو گی جو اس راستے پر چلے گی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔(ترمذی:2565)
سلف صالحین نے۷۲فرقوں سے وہ گروہ مراد لیے ہیں جو ایسی بدعات کا ارتکاب کرنے والے ہیں جو آدمی کو گمراہ کرتی ہیں کافر نہیں بناتی۔اس حدیث میں جن گمراہ گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے،وہ کفر اکبر اور شرک اکبر کا ارتکاب کرنے والے نہیں ہیں کیونکہ
ایسے لوگ تو دائرہ اسلام سے ہی خارج ہیں جبکہ اس حدیث میں ان لوگوں کا بیان ہے جو امت یعنی دائرہ اسلام میں داخل ہیں کافر نہیں۔
۷۲گروہوں کو دائرہ اسلام سے خارج اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی قرار دینا غلط ہے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ومن قال اِن الثنتین و سبعین فرقۃ کل واحد منھم یکفر کفراً ینقل عن الملۃ فقد خالف الکتاب و السنۃ و اجماع الأئمۃ الاربعۃ،فلیس فیھم من کفَّر کل واحد من الثنتین و سبعین فرقۃ‘‘
(مجموع الفتاوی،ج۷،ص۲۱۸)
’’جس شخص نے یہ کہا کہ۷۲گروہوں میں سے ہر اک کافر ہے اور ملتِ اسلامیہ خارج ہے تو اس نے کتاب وسنت اور اجماع ائمہ کی مخالفت کی،ان میں سے کوئی بھی۷۲گروہوں میں سے کسی کی تکفیر نہیں کرتاتھا‘‘
فتوی کمیٹی’’اللجنۃ الدائمہ‘‘سے سوال کیا گیا کہ نبی کریمﷺنے اپنی امت کے بارے میں فرمایا:(کلھم فی النار الا واحدۃ)
’’سب فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے‘‘اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟وہ ایک فرقہ کون سا ہے؟کیا ۷۲فرقے سب کے سب مشرکوں کی طرح دائمی جہنمی ہیں یا نہیں؟تو اللجنۃ الدائمہ نے جواب دیا:
اس حدیث میں امت سے مراد امت اجابت ہے
،وہ۷۳فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی ان میں سے ۷۲ فرقے راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں اور ایسی بدعتوں کے مرتکب ہیں جو اسلام سے خارج نہیں کرتیں۔ان کو ان کی بدعتوں اورگمراہیوں کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا،اللہ چاہے تو کسی شخص کو معاف بھی کرسکتا ہے اور اس کی مغفرت(بغیر عذاب کے)ہو سکتی ہےاور اس کا انجام جنت ہےایک نجات یافتہ جماعت ہے اور وہ اہل سنت و الجماعت ہیں۔اہل سنت وہ لوگ ہیں جو نبی کریمﷺکی سنت پر عمل کرتے ہیں اور اس طریقہ پر قائم رہتے ہیں جو نبیﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا طریقہ ہے۔انہی کے متعلق نبی کریمﷺ نے فرمایا:
‘میری امت میں سے ایک جماعت حق پر قائم اورغالب رہے گی جو ان کی مخالفت کرے گا یاان کی مدد نہیں کرےگاوہ انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتیٰ کہ اللہ کا حکم آجائے’’(صحیح مسلم:۱۹۲۱)
لیکن جس کی بدعت اس قسم کی ہو کہ اس کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج ہوجائے تو وہ امت دعوت میں داخل ہے،امت اجابت میں شامل نہیں،وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ و الا فتاء:فتوی نمبر:4360)
فضیلۃ الشیخ ڈاکڑ ناصر بن عبدالکریم العقل حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ان گمراہ فرقوں میں بعض ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ملت اسلامیہ سے خارج ہونے ہونے کے سبب ان۷۲گروہوں میں سے بھی خارج ہوتے ہیں۔ان کا شمار مسلمانوں میں نہیں ہوتاجیسے غالی جہمیہ،غالی رافضہ،باطنیہ،خالص فلاسفہ،اہل حلول و اتحاد،وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے اور اہل بدعت میں سے وہ مشرکین جو شرک اکبر میں واقع ہوتے ہیں۔۔۔۔پھر یہ حوالہ نقل کرتے ہیں:
‘‘قال حفض بن حمید:(قلت لعبداللہ بن المبارک:علی کم افترقت ھذہ الامۃ؟فقال:الأصل أربع فرق:ھم الشیعۃ،والحروریۃ،والقدریۃ،والمرجئۃ،فافترقت الشیعۃ علی اثنتین و عشرین فرقۃ،وافترقت الحروریۃ علی احدی و عشرین فرقۃ،وافترقت القدریۃ علی ست عشرۃ فرقۃ،وافترقت المرجئۃ علی ثلاث عشرۃ فرقۃ۔قال:یا أبا عبدالرحمن لم اسمعک تذکر الجھمیۃ،قال:انما سألتنی عن فرق المسلمین’’(الابانۃ لابن بطۃ:
۱/۳۷۹
)
حفض بن حمیدکہتے ہیں:میں نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے سوال کیا:یہ امت کتنے فرقوں میں تقسیم ہوئی؟آپ نے فرمایا:ان فرقوں کی اصل چار ہیں:شیعہ،خوارج،قدریہ اور مرجئہ۔پھر شیعہ۲۲فرقوں میں بٹے،خوارج۲۱گروہوں میں،قدریہ
۱۶گروہوں میں اور مرجئہ۱۳گروہوں میں۔حفض بن حمید کہتے ہیں میں نے کہا:اے ابو عبدالرحمن میں نے آپ سے جہمیہ کا تذکرہ نہیں سنا؟آپ نے جواب دیا:تو نے مجھ سے مسلمان کے گروہوں کے بارے میں سوال کیا ہے(یعنی جہمیہ کافر ہیں مسلمان نہیں)۔(دراسات فی الاھواء والفرقہ والبدع و موقف السلف منہا:۹۰)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب سے منقول ہے،وہ کہتے ہیں کہ جھمیۃ کفار ہیں اور وہ ان گمراہ۷۲فرقوں میں شامل نہیں ہیں جن کا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔اسی طرح سے منافقین جوکہ اسلام ظاہر کرتے ہیں اور کفر چھپاتے ہیں وہ بھی ان ۷۲فرقوں میں داخل نہیں ہیں۔بلکہ وہ تو زندیق ہیں(فتاوی ابن تیمیہ:جلد۳،ص:۳۵۱)
اہل بدعت اور معاصر اسلامی تحریکوں کے ساتھ تعامل،از ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
دیوبندی پکے وحدت الوجودی ہیں ان کے تمام اکابرین اس عقیدہ پر متفق تھے۔ عبدالحمید سواتی دیوبندی لکھتے ہیں: علماء دیوبند کے اکابر مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا مدنی اور دیگر اکابر مسئلہ وحدۃ الوجود کے قائل تھے۔(مقالات سواتی،حصہ اول، ص٣٧٥)
معلوم ہوا کہ دیوبندی وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے کے سبب ملت اسلامیہ سے خارج ہیں اور ان کا شمار مسلمانوں میں نہیں ہوتا۔
کسی ایک یا دو شخص کی رائے کو پوری جماعت پر منطبق نہیں کیا جا سکتا۔کل کو کوئی کسی ایک اہلحدیث عالم کی بات غلط دکھا کر کہے کہ اس سے ثابت ہوا کہ تمام اہلحدیث حضرات کا فلاں عقیدہ ہے تو کیا یہ درست بات ہو گی؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
امت کے تہتر فرقے
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایاکہ:’’میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔سوائے ایک جماعت کےسب دوزخ میں جائیں گے۔عرض کی گیا اے اللہ کے رسول وہ کونسا گروہ ہوگا؟آپﷺنے فرمایا :’’ماانا علیہ و اصحابی‘‘یہ وہ جماعت ہو گی جو اس راستے پر چلے گی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔(ترمذی:2565)
سلف صالحین نے۷۲فرقوں سے وہ گروہ مراد لیے ہیں جو ایسی بدعات کا ارتکاب کرنے والے ہیں جو آدمی کو گمراہ کرتی ہیں کافر نہیں بناتی۔اس حدیث میں جن گمراہ گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے،وہ کفر اکبر اور شرک اکبر کا ارتکاب کرنے والے نہیں ہیں کیونکہ
ایسے لوگ تو دائرہ اسلام سے ہی خارج ہیں جبکہ اس حدیث میں ان لوگوں کا بیان ہے جو امت یعنی دائرہ اسلام میں داخل ہیں کافر نہیں۔
۷۲گروہوں کو دائرہ اسلام سے خارج اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی قرار دینا غلط ہے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ومن قال اِن الثنتین و سبعین فرقۃ کل واحد منھم یکفر کفراً ینقل عن الملۃ فقد خالف الکتاب و السنۃ و اجماع الأئمۃ الاربعۃ،فلیس فیھم من کفَّر کل واحد من الثنتین و سبعین فرقۃ‘‘
(مجموع الفتاوی،ج۷،ص۲۱۸)

فتوی کمیٹی’’اللجنۃ الدائمہ‘‘سے سوال کیا گیا کہ نبی کریمﷺنے اپنی امت کے بارے میں فرمایا:(کلھم فی النار الا واحدۃ)
’’سب فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے‘‘اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟وہ ایک فرقہ کون سا ہے؟کیا ۷۲فرقے سب کے سب مشرکوں کی طرح دائمی جہنمی ہیں یا نہیں؟تو اللجنۃ الدائمہ نے جواب دیا:
اس حدیث میں امت سے مراد امت اجابت ہے
،وہ۷۳فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی ان میں سے ۷۲ فرقے راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں اور ایسی بدعتوں کے مرتکب ہیں جو اسلام سے خارج نہیں کرتیں۔ان کو ان کی بدعتوں اورگمراہیوں کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا،اللہ چاہے تو کسی شخص کو معاف بھی کرسکتا ہے اور اس کی مغفرت(بغیر عذاب کے)ہو سکتی ہےاور اس کا انجام جنت ہےایک نجات یافتہ جماعت ہے اور وہ اہل سنت و الجماعت ہیں۔اہل سنت وہ لوگ ہیں جو نبی کریمﷺکی سنت پر عمل کرتے ہیں اور اس طریقہ پر قائم رہتے ہیں جو نبیﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا طریقہ ہے۔انہی کے متعلق نبی کریمﷺ نے فرمایا:

لیکن جس کی بدعت اس قسم کی ہو کہ اس کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج ہوجائے تو وہ امت دعوت میں داخل ہے،امت اجابت میں شامل نہیں،وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ و الا فتاء:فتوی نمبر:4360)
فضیلۃ الشیخ ڈاکڑ ناصر بن عبدالکریم العقل حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ان گمراہ فرقوں میں بعض ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ملت اسلامیہ سے خارج ہونے ہونے کے سبب ان۷۲گروہوں میں سے بھی خارج ہوتے ہیں۔ان کا شمار مسلمانوں میں نہیں ہوتاجیسے غالی جہمیہ،غالی رافضہ،باطنیہ،خالص فلاسفہ،اہل حلول و اتحاد،وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے اور اہل بدعت میں سے وہ مشرکین جو شرک اکبر میں واقع ہوتے ہیں۔۔۔۔پھر یہ حوالہ نقل کرتے ہیں:
‘‘قال حفض بن حمید:(قلت لعبداللہ بن المبارک:علی کم افترقت ھذہ الامۃ؟فقال:الأصل أربع فرق:ھم الشیعۃ،والحروریۃ،والقدریۃ،والمرجئۃ،فافترقت الشیعۃ علی اثنتین و عشرین فرقۃ،وافترقت الحروریۃ علی احدی و عشرین فرقۃ،وافترقت القدریۃ علی ست عشرۃ فرقۃ،وافترقت المرجئۃ علی ثلاث عشرۃ فرقۃ۔قال:یا أبا عبدالرحمن لم اسمعک تذکر الجھمیۃ،قال:انما سألتنی عن فرق المسلمین’’(الابانۃ لابن بطۃ:
۱/۳۷۹
)
حفض بن حمیدکہتے ہیں:میں نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے سوال کیا:یہ امت کتنے فرقوں میں تقسیم ہوئی؟آپ نے فرمایا:ان فرقوں کی اصل چار ہیں:شیعہ،خوارج،قدریہ اور مرجئہ۔پھر شیعہ۲۲فرقوں میں بٹے،خوارج۲۱گروہوں میں،قدریہ
۱۶گروہوں میں اور مرجئہ۱۳گروہوں میں۔حفض بن حمید کہتے ہیں میں نے کہا:اے ابو عبدالرحمن میں نے آپ سے جہمیہ کا تذکرہ نہیں سنا؟آپ نے جواب دیا:تو نے مجھ سے مسلمان کے گروہوں کے بارے میں سوال کیا ہے(یعنی جہمیہ کافر ہیں مسلمان نہیں)۔(دراسات فی الاھواء والفرقہ والبدع و موقف السلف منہا:۹۰)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب سے منقول ہے،وہ کہتے ہیں کہ جھمیۃ کفار ہیں اور وہ ان گمراہ۷۲فرقوں میں شامل نہیں ہیں جن کا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔اسی طرح سے منافقین جوکہ اسلام ظاہر کرتے ہیں اور کفر چھپاتے ہیں وہ بھی ان ۷۲فرقوں میں داخل نہیں ہیں۔بلکہ وہ تو زندیق ہیں(فتاوی ابن تیمیہ:جلد۳،ص:۳۵۱)
اہل بدعت اور معاصر اسلامی تحریکوں کے ساتھ تعامل،از ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ
جزاک اللہ خیرا
 

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
کسی ایک یا دو شخص کی رائے کو پوری جماعت پر منطبق نہیں کیا جا سکتا۔کل کو کوئی کسی ایک اہلحدیث عالم کی بات غلط دکھا کر کہے کہ اس سے ثابت ہوا کہ تمام اہلحدیث حضرات کا فلاں عقیدہ ہے تو کیا یہ درست بات ہو گی؟
کسی ایک یا دو شخص کی رائے کو پوری جماعت پر منطبق نہیں کیا جا سکتا۔
جی بلکل درست۔
اہل حدیث کی امتیاز ی خوبی یہ ہے کہ ان کا منہج کسی کی ذات پر منحصر نہیں ۔ یہ شیطان کی بات بھی لے لیتے ہیں گر وہ حق بات کہتا ہو۔ اور ولی کی بات بھی جھٹلا سکتے ہیں اگر وہ قرآن و سنت کے خلاف ہو۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
کسی ایک یا دو شخص کی رائے کو پوری جماعت پر منطبق نہیں کیا جا سکتا۔کل کو کوئی کسی ایک اہلحدیث عالم کی بات غلط دکھا کر کہے کہ اس سے ثابت ہوا کہ تمام اہلحدیث حضرات کا فلاں عقیدہ ہے تو کیا یہ درست بات ہو گی؟
السلام علیکم!
مخالف پر الزام قائم کرتے وقت میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ میں جھوٹ،مغالطہ انگیزی اور دھوکہ بازی سے ذرہ برابر بھی کام نہ لوں۔بلکہ حتی الامکان انصاف کا دامن ہاتھوں سے نہ چھوڑوں۔
اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ آپ نے بغور میری تحریر نہیں پڑھی۔میں نے کسی شخص کی زاتی رائے پیش نہیں کی بلکہ دیوبندیوں کے معتبر عالم عبدالحمید خان سواتی کی اپنے اکابرین کے عقیدے وحدت الوجود کے بارے میں گواہی پیش کی ہےکہ تمام دیوبندی اکابر اس کفریہ عقیدے کے حامل تھے۔ ایک معتبر دیوبندی عالم کی اپنے مذہب کے اکابرین کے بارے میں گواہی خود انکے خلاف کیوں پیش نہیں کی جاسکتی جبکہ وہ حقیقت کے عین مطابق بھی ہو؟!
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے بغور میری تحریر نہیں پڑھی۔
نہیں،میں نے آپ کی پوری تحریر پڑھ کر ہی اپنی رائے دی ہے۔
میں نے کسی شخص کی زاتی رائے پیش نہیں کی بلکہ دیوبندیوں کے معتبر عالم عبدالحمید خان سواتی کی اپنے اکابرین کے عقیدے وحدت الوجود کے بارے میں گواہی پیش کی ہےکہ تمام دیوبندی اکابر اس کفریہ عقیدے کے حامل تھے۔
گویا ایک آدمی کی گواہی آپ کے نزدیک اتنی اہم ہے کہ اس کے کہنے سے دیوبند کے تمام علماء کفریہ عقائد کے حامل ٹھہرے؟
ایک معتبر دیوبندی عالم کی اپنے مذہب کے اکابرین کے بارے میں گواہی خود انکے خلاف کیوں پیش نہیں کی جاسکتی جبکہ وہ حقیقت کے عین مطابق بھی ہو؟!
اگر کوئی دیوبندی یہ عبارت اس طرح لکھ دے تو ہم کیا جواب دیں گے؟
ایک معتبر اہلحدیث عالم کی اپنے مذہب کے اکابرین کے بارے میں گواہی خود انکے خلاف کیوں پیش نہیں کی جاسکتی جبکہ وہ حقیقت کے عین مطابق بھی ہو؟!
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ایک معتبر اہلحدیث عالم کی اپنے مذہب کے اکابرین کے بارے میں گواہی خود انکے خلاف کیوں پیش نہیں کی جاسکتی جبکہ وہ حقیقت کے عین مطابق بھی ہو؟!
کیونکہ دیوبندیوں کی طرح اہل حدیث کا دستور شخصیات پر نہیں دلائل پر مبنی ہے
 
Top